ٹریکر کی تنصیب پر ہر موٹر سائیکل سوار کو 4 ہزار روپے خرچ کرنا ہوں گے
ٹریکر سروس جاری رکھنے کیلیے بائیک مالک کو 2500 روپے فیس مختلف اوقات میں ٹریکر کمپنی کو دینا ہو گی۔
سندھ حکومت کی جانب سے موٹر سائیکل میں ٹریکرز کی تنصیب کی شرط سے ہر موٹرسائیکل سوار کو چار ہزا رروپے کا اضافی خرچ کرنا ہوگا جس سے موٹرسائیکل سواروں پر مجموعی طور پر سالانہ 2 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا اور ٹریکر لگانے والی کمپنی کے وارے نیارے ہوجائیں گے۔
سندھ میں سالانہ 5لاکھ موٹرسائیکلیں رجسٹر کی جاتی ہیں اتنی بڑی تعداد میں موٹرسائیکلوں میں ٹریکر کی تنصیب تکنیکی لحاظ سے ممکن نہیں، صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ سید اویس قادر موٹر سائیکل میں ٹریکر کی تنصیب کے حوالے سے بیان دے چکے ہیں اور اس کے لیے ایک سمری وزیراعلیٰ کو بھیج دی گئی ہے کہ موٹر سائیکل مالکان، مینوفیکچررز اور ڈیلرز اس بات کے ذمے دار ہوں گے کہ موٹر سائیکل میں ٹریکر نصب ہو۔
ذرائع کے مطابق اس اقدام سے لاکھوں غریب عوام براہ راست متاثر ہوں گے اور ان کے لیے اتنی بڑی رقم کا بوجھ بلاجواز اور غیر ضروری ہے مختلف حیلوں سے عوام پر مالی بوجھ ڈالا گیا لیکن کوئی دیرپا نتائج نہیں ملے۔
یاد رہے کہ ہر سال تقریباً 5 لاکھ موٹر سائیکلیں رجسٹرڈ کی جارہی ہیں اور جتنے بھی جرائم ہوتے ہیں ان میں ضروری نہیں ہے کہ موٹر سائیکل استعمال کی جائے بلکہ اس سے چھوٹے اور درمیانے کاروبار سمیت گھریلو صنعتوں کو فروغ ملتا ہے تاہم اس اقدام سے یہ تمام پہلو متاثر ہوں گے جبکہ کسی بھی کمپنی کے پاس اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ ہرماہ تقریباً 40 ہزار موٹر سائیکلوں میں ٹریکرز نصب کرسکے اور نہ کوئی ایسا انفرااسٹرکچر موجود ہے۔
اس شرط کی وجہ سے غریب طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوگا ٹریکر سروس کو جاری رکھنے کے لیے موٹر سائیکل سواروں کو 2500 روپے فیس کی صورت میں مختلف اوقات میں ٹریکر کمپنی کو دینا پڑیں گے۔
عوامی حلقوں نے بھی اضافی 4 ہزار روپے کا بوجھ کمائی کا نیا منصوبہ قرار دے دیا ہے مہنگائی کے دور میں موٹر سائیکل سواروں نے 4 ہزار روپے کا بوجھ اٹھانے سے انکار کردیا ہے، شہریوں کی رائے ہے کہ پہلے سندھ حکومت اپنا قبلہ درست کرے۔
سندھ میں سالانہ 5لاکھ موٹرسائیکلیں رجسٹر کی جاتی ہیں اتنی بڑی تعداد میں موٹرسائیکلوں میں ٹریکر کی تنصیب تکنیکی لحاظ سے ممکن نہیں، صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ سید اویس قادر موٹر سائیکل میں ٹریکر کی تنصیب کے حوالے سے بیان دے چکے ہیں اور اس کے لیے ایک سمری وزیراعلیٰ کو بھیج دی گئی ہے کہ موٹر سائیکل مالکان، مینوفیکچررز اور ڈیلرز اس بات کے ذمے دار ہوں گے کہ موٹر سائیکل میں ٹریکر نصب ہو۔
ذرائع کے مطابق اس اقدام سے لاکھوں غریب عوام براہ راست متاثر ہوں گے اور ان کے لیے اتنی بڑی رقم کا بوجھ بلاجواز اور غیر ضروری ہے مختلف حیلوں سے عوام پر مالی بوجھ ڈالا گیا لیکن کوئی دیرپا نتائج نہیں ملے۔
یاد رہے کہ ہر سال تقریباً 5 لاکھ موٹر سائیکلیں رجسٹرڈ کی جارہی ہیں اور جتنے بھی جرائم ہوتے ہیں ان میں ضروری نہیں ہے کہ موٹر سائیکل استعمال کی جائے بلکہ اس سے چھوٹے اور درمیانے کاروبار سمیت گھریلو صنعتوں کو فروغ ملتا ہے تاہم اس اقدام سے یہ تمام پہلو متاثر ہوں گے جبکہ کسی بھی کمپنی کے پاس اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ ہرماہ تقریباً 40 ہزار موٹر سائیکلوں میں ٹریکرز نصب کرسکے اور نہ کوئی ایسا انفرااسٹرکچر موجود ہے۔
اس شرط کی وجہ سے غریب طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوگا ٹریکر سروس کو جاری رکھنے کے لیے موٹر سائیکل سواروں کو 2500 روپے فیس کی صورت میں مختلف اوقات میں ٹریکر کمپنی کو دینا پڑیں گے۔
عوامی حلقوں نے بھی اضافی 4 ہزار روپے کا بوجھ کمائی کا نیا منصوبہ قرار دے دیا ہے مہنگائی کے دور میں موٹر سائیکل سواروں نے 4 ہزار روپے کا بوجھ اٹھانے سے انکار کردیا ہے، شہریوں کی رائے ہے کہ پہلے سندھ حکومت اپنا قبلہ درست کرے۔