دوحہ مذاکرات خطے میں امن کے ضامن ہو سکتے ہیں
ایکسپریس فورم میں سیا سی اور علمی شخصیات کے تاثرات
ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں بارہ سال سے جاری خوں ریزی اور طویل انتظار کے بعد اب طالبان کے ساتھ امن مذاکرات شروع ہونے والے ہیں۔
تین سال پہلے طالبان کے نمائندے مغربی ممالک کے نمائندوں سے بات چیت کے لیے خفیہ طور پر قطر پہنچے تھے۔انھیں معلوم تھا کہ نیٹو بالخصوص امریکہ افغانستان سے باعزت واپسی اور اپنے جانے کے بعد ایک مستحکم اور پْرامید افغانستان کے لیے امن معاہدے میں دلچسپی رکھتا ہے۔گزشتہ سال مارچ میں طالبان نے امریکہ سے قیدیوں کے تبادلے کے معاملے پر ہونے والے مذاکرات منقطع کر دیے۔ وہ امریکی فوجی کی رہائی کے بدلے امریکی جیل گونتاناموبے میں قید پانچ طالبان قیدیوں کی رہائی چاہتے تھے۔خیال کیا جاتا ہے کہ طالبان نے امریکی فوجی کو سنہ 2009 میں اغوا کیا تھا۔
قطر میں طالبان نمائندوں کی تعداد اور سرگرمیوں میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا اور اب طالبان کے تقریباً بیس سے زائد بڑے رہنما اپنے خاندانوں سمیت قطر منتقل ہوگئے ہیں۔گزشتہ دو برسوں سے طالبان نے قطر میں مقیم اپنے نمائندوں کو افغانستان کے حوالے سے جاپان، فرانس اور جرمنی میں منعقد ہونے والی کانفرنسوں میں بھیجا ہے۔انھوں نے حال ہی میں ایک وفد ایران بھی بھیجا تھا۔قطر میں موجود طالبان صرف افغان طالبان کی نمائندگی کرتے ہیں جو افغانستان میں برسرِپیکار ہیں اور ملا عمر ان کے سربراہ ہیں۔ قطر میں پاکستانی طالبان کا کوئی نمائندہ نہیں ہے۔
افغان امن کونسل 2010 میں کابل میں ایک جرگے کے بعد قائم کی گئی۔ امن کونسل کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ وہ طالبان کے ساتھ رابطہ قائم کر کے انھیں قیامِ امن کے عمل میں شرکت پر رضامند کرے۔افغان حکومت چاہتی تھی کہ طالبان کے لیے ترکی یا سعودی عرب میں دفتر کھولے کیونکہ ان کے خیال میں یہ ممالک زیادہ اثرو رسوخ رکھتے تھے اور اِن کے کابل کے ساتھ تعلقات بھی اچھے ہیں۔طالبان نے دفتر کے لیے قطر کو ترجیح دی کیونکہ ان کے خیال میں قطر ایک غیر جانبدار ملک تھا جن کے سب کے ساتھ تعلقات متوازن ہیں۔ فورم میں شرکاء نے جو موقف اختیار کیا وہ کچھ یو ں تھا۔
افغانستان میں قیام امن کے لیے مذاکراتی عمل دوحہ کی بجائے افغانستان میں شروع کیاجائے جس کے دوران ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان،ایران اوربھارت کونمائندگی دی جائے۔امریکہ افغانستان چھوڑنے سے قبل افغانستان کے تمام گروپوں کے مابین امن سمجھوتہ کروائے جس میںقیام امن کیلیے منظورشدہ اعلامیہ جاری کیاجائے۔افغانستان میں قیام امن طالبان کی شرکت کے بغیرناممکن ہے۔افغان امن شوریٰ کاقیام عمل میں لایاجائے جس پرسب گروپوںکی نمائندگی انکی کمیونٹی کی بنیاد پرکی جائے۔امن مذاکرات سے قبل تمام گروپوں کواعتمادمیں لیاجائے۔
ایکسپریس فورم کے شرکاء میں مولاناسمیع الحق، صدیق الفاروق، سابق سفارت کار بی اے ملک، بریگیدئر(ر)سائمن شرف، قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی امورکے ماہرڈاکٹرقندیل عباس شامل تھے۔
جمیعت العلمائے اسلام کے مولانا سمیع الحق نے کہا کہ امریکہ کی طرف سے مذاکرات شروع کرنے کاعمل خوش آئندہے۔امریکہ کومذاکرات کی میزپرلانے میںتین سال لگے ہیں۔ اگرچہ یہ مذاکراتی عمل ابھی شروع نہیں ہوا، مگراس میں دونوں فریقوں کومیزپرلاناایک بڑی کامیابی ہے۔ پاکستان طالبان کے ساتھ مذ اکراتی عمل میں عالمی دباوکے تناظرمیں پس وپیش سے کام لے رہاہے۔ انہوں نے الزام عائد کیاکہ نوازشریف کے ساتھی نہیں چاہتے کہ وہ طالبان سے مذ اکرات کریں، وزیراعظم نے جوعوام سے وعدے کئے ان کوپوراکیاجائے۔
ملک میں امن کے قیام کیلیے طالبان سے مذاکرات بغیرکسی تاخیرکے شروع کئے جائیں۔ ملک میں ڈرون حملوں اورآئے روزکی دہشت گردی کے باعث پاکستان میں حالات خراب ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بعض عالمی طاقتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان کے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بہترہوں اسی وجہ سے ایسے واقعات کروائے جارہے ہیں پاکستان عالمی سطح پربدنام ہو۔امریکہ طالبان سے مذاکرات میں پاکستان کو ''بائی پاس'' کر رہا ہے پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے اور افغانستان میں امن کے لئے قربانیاں دیں اس لئے پاکستان کو اعتماد میں لیا جانا مذاکرات کی کامیابی کے لئے ضروری ہے۔
ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ڈرون حملوں کی بندش اور مشرف دور سے شروع ہونے والی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرنا ہوگا۔ طالبان اور امریکا میں مذاکرات کی کوئی بھی شخص مخالفت نہیں کر سکتا اور آج امریکہ نے طالبان سے مذاکرات کر کے اصل میں ہمارے موقف کی تائید کی ہے۔
کیوں کہ ہم پہلے دن سے یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ طاقت کے استعمال سے افغانستان میں امن قائم نہیں کر سکتا صرف مذاکرات ہی مسائل کا حل ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک افغانستان میں غیر ملکی افواج موجود ہے وہاں پر امن نہیں ہو سکتا۔دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان میں قیام امن کے لئے پاکستان نے بہت قربانیاں دیں اور خطے میں پاکستان کا انتہائی اہم کردار ہے۔ ملک میں دہشت گردی خطرناک صورت حال اختیار کر چکی ہے اور اس کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں دور پرویز مشرف میں بنائی گئی خارجی اورداخلی پالیسیوں کو تبدیل کر کے ملکی مفاد اور قومی امنگوں کے مطابق پالیسیوں کو تشکیل دیا جائے۔
قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی امورکے ماہرڈاکٹرسیدقندیل عباس نے کہاکہ امریکہ نے پاکستان کی طرفسے دی جانیوالی تمام ترتجاویزکاخیرمقدم کرنے کی بجائے ان کونظراندازکرتے رہے اوربارہ سال تک طالبان کے ساتھ نبردآزمارہے، مگران کوکامیابی حاصل نہ ہوئی۔ جبکہ ان کوعراق میں اس حوالے سے تلخ تجربہ ہوچکاتھا۔ افغانستان میں امریکہ کوچند ماہ کے بعدہی اس بات کومحسوس کرلیناچاہئے تھاکہ اس مسئلے کاحل گولی کی بجائے مذاکرات ہیں۔ اس حوالے پاکستان نے باربارمسئلہ کے حل میں پیش رفت کی مگرہرباراس کواگنورکردیاگیا، نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان میں ایک عالمی طاقت جس کے نہ صرف وسائل بلکہ جدید ٹیکنالوجی پربھی دسترس ہے طالبان کوزیرکرنے میں کامیاب نہ ہوسکے اور انہیں بالآخر مذاکرات کی میز پرآنا پڑا جس کا رونا پاکستان نائن الیون سے پہلے سے رورہاتھا۔
اب طالبان کے ایران کے ساتھ بھی ماضی کی نسبت بہترتعلقات ہیں کیوں کہ انہوں نے ایران کادورہ بھی کیاہے جس کے دوران انہوں نے ایرانی قیادت سے ملاقات کی ہے۔ امریکہ نے افغانستان سے سے نکلنے سے قبل اپنی ایئربیس یا فوجی اڈے رکھے توان کے تحفظات بڑھ جائیں گے۔کیونکہ امریکا کے ایران کے ساتھ تعلقات ٹھیک نہیں ہیں۔ امریکا کوافغانستان میں قیام امن کیلیے جہاں تمام افغان گروپوں کواعتماد میں لینے کے ساتھ ساتھ پاکستان اورایران کوبھی آن بورڈ لیں۔ ماضی میں طالبان اورشمالی اتحادکے ماضی میں سخت اختلافات تھے ان کودورکئے بغیرامن قائم نہیں ہوسکتا۔
امریکا نے افغانستان میں حالات خراب کرنے میں کبھی بھارت کے کردارکومحسوس نہیں کیاجو اس مسئلے کے حل میں بھی رکاوٹ ہے۔ امریکا نے افغانستان میں کیا پاور شیئرنگ کی ہے اسی کی بنیادپردوحہ مذاکرات کی کامیابی اورناکامی کافیصلہ ہوگا۔ بنیادی مذاکراتی عمل کے بعد پاکستان اورایران جواس خطے میں زیادہ متاثرہوئے ہیں کوانگیج کرناچاہئے،اس جنگ کے دوران کئی دہائیوں سے پاکستان مہاجرین کابوجھ اٹھارہاہے جولاکھوں افرادکی صورت میں موجود ہیں۔
افغان جنگ کے اثرات پر نظر دہرائی جائے توسب سے زیادہ منفی اثرات پاکستان پر پڑے ہیں۔ افغان کلچر کے یہاں آنے پر پاکستان کو کلاشنکوف، منشیات کاتحفہ ملااوردوسرے دورمیں پاکستان میں دہشت گردی کاجوسیلاب آیاوہ تھمنے کانام نہیں لے رہا۔ امریکا نشے کی طاقت میں جوطالبان کودہشت گرداورممنوعہ گروپ قراردے کرجنگ کی پالیسی اپناکر بندوق کی نوک پرزیرکرنے کی کوشش کررہاتھاآخرکاران کی ایک مسلمہ حقیقت کوتسلیم کرکے مذاکرات کی میزپرآنے مجبورہوگیاہے۔امریکا جس سسٹم راہ ہموارکررہاتھا اس پردنیا(یورپی یونین،چین،روس)نے ان کویہ باور کرایاہے کہ ملٹی پولرسسٹم ہے جودنیامیں امن کاضامن ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن ) کے راہنماء صدیق الفاروق نے کہاکہ افغانستان میں جوکچھ ہورہاہے وہ ایک سکرپٹ کاحصہ ہے۔ قبل ازیں جوکچھ نائن الیون کوہواوہ بھی سب کے سامنے ہے۔امریکا سب کچھ ایک پالیسی کے تحت کرتاہے۔افغانستان میں بعض عوامل اپنی حیثیت سے بڑھ کرکرداراداکرنے کی کوشش میں ہیں۔ پاکستان افغانستان میں امن وامان قائم کرنے کیلیے بیک ڈور ڈپلومیسی سے کام لے رہے تھاجس میں اب جاکرکامیابی ہوئی ہے۔ اور اس کوایک باقاعدہ شکل دے دی گئی ہے جس کودوحہ مذاکرات کانام دیاگیاہے۔
اس تمام عمل نے ثابت کردیاہے کہ پاکستان افغانستان کے پرامن مسئلے کے حل کا خواہاں ہے۔ ماضی میں بھی افغانستان میں تمام گروپوں کو ایک مذاکرات کی میزتک لانے میں پاکستان کامرکزی کردار تھا اور اب دوبارہ افغانستان میں قیام امن کے لیے موجودہ حکومت بہترین سفارت کاری سے نہ صرف ملک کاوقاربہترکرے گی بلکہ افغانستان کے مسئلے کے حل میں اپناکرداراداکرے گی۔دوحہ مذاکرات پاکستان کی خارجہ پالیسی کے تناظرمیں پہلے بیک ڈورکے ذریعے امریکا اورطالبان کے مابین تعلقات استوارہوئے جن کواب باقاعدہ ایک صورت دیدی گئی جس تناظر میں مذاکراتی عمل شروع ہونیوالا ہے۔ دونوں کے مابین مذاکرات کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ پاکستان ان مذاکرات کو کامیاب کروانے میں اولین کرداراداکرے گا۔
ایک زمانے میں سوچ تھی کہ افغانستان پاکستان کا پانچوں صوبہ ہے وہ ختم ہو چکی ہے۔امریکا کو چاہئے کہ افغانستان سے جاتے وقت ایساکوئی کام نہ چھوڑجائے جس سے موجودہ چنگاڑی آگ کادوبارہ شعلہ بن جائے جونہ صرف افغانستان بلکہ خطے کاامن تباہ کردے۔ علامہ اقبال نے کیاخوب کہاتھاکہ اگرافغانستان میں امن ہوگاتوپوری دنیامیں امن ہوگااوراگرافغانستان میں فسادہوگا توپوری دنیامیں فسادہوگا۔افغانستان میں حالات خراب ہونے پرسب سے زیادہ متاثرپاکستان ہواہے جہاں سوارب ڈالرکے جانی مالی نقصان کے علاوہ ہزاروں افرادکی شہادت ہوئی ہے۔ ویسے توافغانستان میں قیام امن کامسئلہ ان کااندرونی معاملہ ہے تاہم پاکستان اپنے اثرورسوخ سے گروپوں کے درمیان مفاہمتی پالیسی کے تناظر میں اپنا کرداراداکررہاہے۔
بقول شاعر افغانستان میں امن علاقے میں امن کے مترادف ہے۔ افغانستان میں صدر کرزئی نے دوحہ مذاکرات میں اعتمادمیں نہ لینے پربرہمی کااظہارکیاہے جونامناسب ہے۔کیونکہ سب کے علم میں ہے کہ افغان صدرکرزئی کی کیاحیثیت ہے۔ اگر افغانستان میں امن قائم ہوگیاتوسابق عین ممکن ہے کہ کرزئی افغانستان میں کہیں نظرہی نہیں آئے گا۔ دوحہ مذاکراتی عمل امریکہ،افغانستان اورہمسائیہ ممالک کے مفادمیں ہے۔ دوہزارچودہ میں امریکہ اورنیٹوممالک کی افواج افغانستان سے انخلاء کاپروگرام بناچکے ہیں۔جن کی اولین خواہش ہے کہ وہ یہاں سے نکلنے سے قبل اقتداران ہاتھوں میں دیاجائے جوامن کے ضامن ہوں۔ مگریہ امن اسی وقت ممکن ہے جب افغانستان میںتمام گروپوں کے مابین مفاہمتی پالیسی کے تحت کوئی معاہدہ طے پا جائے۔
امریکا نے اگرہوش کے ناخن نہ لئے توامریکہ کے جانے کے بعدخانہ جنگی کی صورتحال پیداہوجائے گی ۔ مذاکراتی عمل نہ ہواتوطالبان مزیددس سال تک یہ جنگ جاری رکھ سکتے ہیں۔کیونکہ ان کامسئلہ کھاناپینا،آرام طلبی نہیں ہے ان کے خون میںجنگ وجدل شامل ہے۔انکوصرف ایک کلاشنکوف چاہئے۔افغان جنگ کے نام پرامریکہ نے جن سویلائزڈممالک سے وعدے کررکھے ہیں۔انکوجواب دیناہے۔ان ممالک کاامریکہ پرسخت پریشرہے کہ اس مسئلے کوحل کریں۔امریکہ نے ایک پلان کے تحت عراق اورایران،کویت اوربعدازاں افغانستان کاچیپٹرکھول دیا۔ امریکہ کی سب جدوجہدجھوٹ پرمبنی ہے جیساکہ ویت نام کی جنگ جھوٹ پرمبنی تھی جوبارہ سال جاری رہی۔امریکہ کایہ موقف ہے کہ وسیع پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیارملے ہیں یانہیں مگرجوہم نے حملہ کیاوہ ٹھیک تھا۔
افغانستان میں ضیاء الحق کے دورمیں پاکستان کی پالیسی جہاداوراسلام پرمبنی تھی اورمشرف دورمیں ماڈرنائزیشن کا نام لیاجاتارہا۔دوحہ مذاکرات کاعمل جلدشروع ہوناچاہئے اوراس سے قبل بنیادی ہوم ورک کرلیناچاہئے۔اوراس عمل کوجلدسے جلدمکمل کرناچاہئے۔جتنا طویل مذاکراتی عمل ہوگایہ مسئلہ اسی قدرتکلیف دہ ہوتاچلاجائیگا۔ آٹھ دس سال مذاکراتی عمل کامطلب ہے کہ یہ مسئہ کبھی حل نہیں ہوگا۔ ہماری خواہش ہے کہ افغانستان میں فوجی انخلاء کے بعدایسی کوئی بات نہ رہ جائے جوباعث تنازعہ ہو۔مشرف کوہٹانااسی سکرپٹ کاحصہ ہے جس پرامریکہ عمل کر رہا ہے۔ افغانستان میں کرزئی کی آنیوالیوقت میںوہی حیثیت ہوگی جواس وقت پاکستان میں مشرف کی ہے۔
سابق سفارت کار بی اے ملک نے کہاکہ افغانستان میں قیام امن کی چابی خودافغان عوام کے ہاتھ میں ہے۔ان کویہ اب محسوس کرلیناچاہئے کہ ان کوآپس میں ملکرامن کے لیے فارمولا طے کرناچاہئے اس مقصد کے لیے انہیں امریکہ کی بھی ضرورت نہیں ہے۔افغانستان کی تاریخ ہے کہ یہاں پرکبھی امن نہیں رہااسی وجہ سے اس خطے پربیرونی عوامل اثراندازہوتے رہے۔یہ علاقہ پہلے برطانیہ،روس اوراب امریکہ کے زیراثرہے۔اگرافغانستان میں مفاہمتی پالیسی کے تحت گروپوں کونمائندگی دی جائے توپھرامریکہ کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔ امریکہ کامنفی کردار نمایاں ہے کہ یہ خودآگ لگاتے ہیں اورپھراس آگ کوبجھانے میں اربوں ڈالر کما لیتے ہیں یہ عمل ایران عراق، جنگ اور اب افغانستان میں نمایاں طورپرنظر آیاہے۔
پاکستان نے اپنی سٹریٹجک پالیسی کے تحت پہلے آدھا پاکستان پھر سیاچن اور کارگل کھو دیا اور اب اسی تناظر میں بلوچستان میں آگ لگی ہے اس کوتبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں غلط فیصلوں سے گریزکرناچاہئے اوردرست فیصلے کرناہوں گے۔بندوق اورڈنڈے کے بل بوتے پرشارٹ ٹرم کے لیے امن یابات چیت کی جاسکتی ہے مگرلانگ ٹرم پلان کیلیے مذاکرات ہی سب سے بہترآپشن ہوتی ہے جواس مسئلہ میں درکارہے،مذاکراتی عمل کوشروع کروانے میں پاکستان نے اہم کرداراداکیاہے ۔ جس سے مسائل کے حل کی امیدپیداہوچلی ہے۔افغانستان میں جنگ وجدل جاری رہنے سے بیرونی عناصرکومداخلت کاموقع میسرآیاہے ۔جس کوافغان گروپوں کومحسوس کرلیناچاہئے کہ اس کامستقبل کیاحل نکالناہے۔
پاکستان کی کوششوں سے جومذاکراتی پلیٹ فارم میسرآیاہے اس سے سب گروپوں کوفائدہ اٹھاتے ہوئے مختصروقت میں کامیاب کروانے میں اپناکرداراداکرناچاہئے۔تاریخی اعتبارسے امریکہ کاعالمی مسائل کے حل میں کردارمثبت ہونے کی بجائے منفی رہاہے،جس کی مثال فلسطین ہے جوکئی دہائیوں سے حل طلب ہے۔مسئلہ کشمیرجواقوام متحدہ کی واضح قراردادوں کے مطابق استصواب رائے سے حل ہوسکتاہے۔مگراس پرمناسب پریشرنہ ہونے پریہ چھ دہائیوں سے بھی زائدکاعرصہ گزرنے کے باوجودحل نہیں ہوسکا۔اسی طرح شام میں بھی منفی کردارنے پورے خطے میں منفی اثرات مرتب کررکھے ہیں۔شیعہ سنی فسادات کی آڑمیں افغانستان میں قیام امن میں تاریخی اعتبارسے ایران کااہم رول نظرآیاہے۔
عالمی سطح پرایران کے ایٹمی پروگرام کے تناظرمیں امریکہ کے ایران کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔ اگر دوحہ مذاکراتی عمل میں ایران کو نظر انداز کیا گیا تو اس کے منفی اثرات بعد ازاں نظر آئیں گے۔ افغانستان پر روس جو عالمی طاقت تھی پنجہ آزمائی کی اور بالآخر انہیں شکست ہوئی اور سپر پاور چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہوگیا۔جہاںرسائی افغانستان کے راستے ہوسکتی ہے۔ جن کوگرم پانی تک رسائی پاکستان سے ہوتی ہے۔ اور ان کی درامدات یابرامدات میں اضافہ گوادرپورٹ سے ہی ممکن ہے۔ امریکہ کسی نہ کسی صورت میں افغانستان میں موجود رہیگا جس سے علاقے میں ایک تھریڈموجودرہے گاجوباعث تنازعہ ٹھرے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بریگیڈیر(ر) سائمن شرف نے کہاکہ افغانستان کی صورتحال پانی میں تیرنے والی اس برف کی مانندجس کاایک حصہ پانی کے باہراورسات حصے پانی کے اندرہوتے ہیں۔عام تاثریہ ہی دیکھنے میں آیاہے کہ افغانستان میں لڑائی پرپاکستان کومنفی پہلوسے دیکھاگیاہے۔اس وقت بھی یہاں پرچالیس سے پینتالیس ایجنسیاں کام کررہی ہیں۔دوحہ مذاکراتی عمل میں پاکستان سمیت یورپی ممالک اورسعودی عرب سب سے اہم تھے مگرسعودی اثرورسوخ سے اس مذاکراتی عمل کوآزادکرکے قطرمیںمذاکرات کامرکزمقررکیاگیاہے۔
مذاکراتی عمل ایک اچھاامرہے مگریہ کئی سال پرمحیط ہوں گے۔ پاکستان کی پالیسیوں کے تناظرمیں لگتاہے کہ امریکی وزیرخارجہ کادورہ پاکستان ملتوی ہواہے۔ جبکہ اسی وقت اس نے بھارت کادورہ کیاہے۔طالبان کے حوالے سے روس سمیت دیگرممالک نے اچھا تاثر دیا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے دوسرے دور حکومت انیس سو چھیانوے میں طالبان ماڈریٹ سیٹ اپ پرتیارہوگئے تھے مگربے نظیرحکومت کوختم کردیاگیاتھا۔
پاکستان کوچاہئے کہ یہاں امن کے قیام کیلیے تمام سیاسی قائدین کے ہمراہ فوجی قیادت کے ساتھ ایسی پالیسی مرتب کی جائے جس پرعمل درآمدکیاجائے۔پارٹی کے قائدعمران خان نے تجویزدی ہے کہ جب تک جامعہ پالیسی مرتب نہ ہواجلاس جاری رکھاجائے۔ پاکستان کے علاقوں بلوچستان،سندھ اورکے پی کے میں حالات خرابی کی بنیادی وجہ تلاش کی جائے۔موجودہ حکومت نے اگرمشرف کیس میں دانشمندانہ فیصلہ نہ کیاتوپاکستان کابہت نقصان ہوگا۔ عالمی طاقتوں کاایجنڈاہے کہ عوام اورفوج میں لڑائی کرائی جائے اورایٹمی صلاحیت پرقابوپالیں۔ طا لبان امریکہ مذاکرات کا مرکز ریاض کی بجائے دوحہ میں رکھنے کامقصد سعودی حکومت کااثرورسوخ ختم کرنے کامنصوبہ ہے۔ پاکستان کے اختیار میں نہیں کہ وہ یہ نعرہ لگاسکے کہ دہشت گردی کی جنگ ہماری نہیں ہے۔
پاکستان میں حالات خراب کرنے میںبہت سے ممالک یہاں موجود گروپوں کی مالی مدد کرتے ہیں۔ افغانستان میں انتخابی عمل میں طالبان کی طرف سے مثبت اشارے ملے ہیں کہ وہ انتخابی عمل میں اپنی قیادت ملا عمر سمیت حصہ لیںگے۔حقانی گروپ کی بھی تائیدسامنے آئی ہے۔مذاکراتی عمل کے آغازپرکرزئی کی طرف سے منفی بیان پراگلے ہی روزکابل میںصدارت محل پرحملہ ہوا تھا جس سے ایک طرح کاتاثرپایاگیاکہ صدرکرزئی کادوحہ مذاکرات پرطرزعمل ٹھیک نہیں ہے۔ ماضی میں افغانستان میں حالات کے تناظرمیں پاکستان کے ساتھ ایران کے تعلقات میں سردمہری آئی تھی۔مگرابھی جورپورٹس آرہی ہیں کہ طالبان کاوفدایران کادورہ کرچکا ہے سے معلوم ہوتا ہے کہ حالات میں بہتری آئی ہے۔ممکناسیٹ اپ میں دوسرے گروپ سے عمرعبداللہ ابھرکرسامنے آئے گا۔
تین سال پہلے طالبان کے نمائندے مغربی ممالک کے نمائندوں سے بات چیت کے لیے خفیہ طور پر قطر پہنچے تھے۔انھیں معلوم تھا کہ نیٹو بالخصوص امریکہ افغانستان سے باعزت واپسی اور اپنے جانے کے بعد ایک مستحکم اور پْرامید افغانستان کے لیے امن معاہدے میں دلچسپی رکھتا ہے۔گزشتہ سال مارچ میں طالبان نے امریکہ سے قیدیوں کے تبادلے کے معاملے پر ہونے والے مذاکرات منقطع کر دیے۔ وہ امریکی فوجی کی رہائی کے بدلے امریکی جیل گونتاناموبے میں قید پانچ طالبان قیدیوں کی رہائی چاہتے تھے۔خیال کیا جاتا ہے کہ طالبان نے امریکی فوجی کو سنہ 2009 میں اغوا کیا تھا۔
قطر میں طالبان نمائندوں کی تعداد اور سرگرمیوں میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا اور اب طالبان کے تقریباً بیس سے زائد بڑے رہنما اپنے خاندانوں سمیت قطر منتقل ہوگئے ہیں۔گزشتہ دو برسوں سے طالبان نے قطر میں مقیم اپنے نمائندوں کو افغانستان کے حوالے سے جاپان، فرانس اور جرمنی میں منعقد ہونے والی کانفرنسوں میں بھیجا ہے۔انھوں نے حال ہی میں ایک وفد ایران بھی بھیجا تھا۔قطر میں موجود طالبان صرف افغان طالبان کی نمائندگی کرتے ہیں جو افغانستان میں برسرِپیکار ہیں اور ملا عمر ان کے سربراہ ہیں۔ قطر میں پاکستانی طالبان کا کوئی نمائندہ نہیں ہے۔
افغان امن کونسل 2010 میں کابل میں ایک جرگے کے بعد قائم کی گئی۔ امن کونسل کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ وہ طالبان کے ساتھ رابطہ قائم کر کے انھیں قیامِ امن کے عمل میں شرکت پر رضامند کرے۔افغان حکومت چاہتی تھی کہ طالبان کے لیے ترکی یا سعودی عرب میں دفتر کھولے کیونکہ ان کے خیال میں یہ ممالک زیادہ اثرو رسوخ رکھتے تھے اور اِن کے کابل کے ساتھ تعلقات بھی اچھے ہیں۔طالبان نے دفتر کے لیے قطر کو ترجیح دی کیونکہ ان کے خیال میں قطر ایک غیر جانبدار ملک تھا جن کے سب کے ساتھ تعلقات متوازن ہیں۔ فورم میں شرکاء نے جو موقف اختیار کیا وہ کچھ یو ں تھا۔
افغانستان میں قیام امن کے لیے مذاکراتی عمل دوحہ کی بجائے افغانستان میں شروع کیاجائے جس کے دوران ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان،ایران اوربھارت کونمائندگی دی جائے۔امریکہ افغانستان چھوڑنے سے قبل افغانستان کے تمام گروپوں کے مابین امن سمجھوتہ کروائے جس میںقیام امن کیلیے منظورشدہ اعلامیہ جاری کیاجائے۔افغانستان میں قیام امن طالبان کی شرکت کے بغیرناممکن ہے۔افغان امن شوریٰ کاقیام عمل میں لایاجائے جس پرسب گروپوںکی نمائندگی انکی کمیونٹی کی بنیاد پرکی جائے۔امن مذاکرات سے قبل تمام گروپوں کواعتمادمیں لیاجائے۔
ایکسپریس فورم کے شرکاء میں مولاناسمیع الحق، صدیق الفاروق، سابق سفارت کار بی اے ملک، بریگیدئر(ر)سائمن شرف، قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی امورکے ماہرڈاکٹرقندیل عباس شامل تھے۔
جمیعت العلمائے اسلام کے مولانا سمیع الحق نے کہا کہ امریکہ کی طرف سے مذاکرات شروع کرنے کاعمل خوش آئندہے۔امریکہ کومذاکرات کی میزپرلانے میںتین سال لگے ہیں۔ اگرچہ یہ مذاکراتی عمل ابھی شروع نہیں ہوا، مگراس میں دونوں فریقوں کومیزپرلاناایک بڑی کامیابی ہے۔ پاکستان طالبان کے ساتھ مذ اکراتی عمل میں عالمی دباوکے تناظرمیں پس وپیش سے کام لے رہاہے۔ انہوں نے الزام عائد کیاکہ نوازشریف کے ساتھی نہیں چاہتے کہ وہ طالبان سے مذ اکرات کریں، وزیراعظم نے جوعوام سے وعدے کئے ان کوپوراکیاجائے۔
ملک میں امن کے قیام کیلیے طالبان سے مذاکرات بغیرکسی تاخیرکے شروع کئے جائیں۔ ملک میں ڈرون حملوں اورآئے روزکی دہشت گردی کے باعث پاکستان میں حالات خراب ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بعض عالمی طاقتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان کے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بہترہوں اسی وجہ سے ایسے واقعات کروائے جارہے ہیں پاکستان عالمی سطح پربدنام ہو۔امریکہ طالبان سے مذاکرات میں پاکستان کو ''بائی پاس'' کر رہا ہے پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے اور افغانستان میں امن کے لئے قربانیاں دیں اس لئے پاکستان کو اعتماد میں لیا جانا مذاکرات کی کامیابی کے لئے ضروری ہے۔
ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ڈرون حملوں کی بندش اور مشرف دور سے شروع ہونے والی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرنا ہوگا۔ طالبان اور امریکا میں مذاکرات کی کوئی بھی شخص مخالفت نہیں کر سکتا اور آج امریکہ نے طالبان سے مذاکرات کر کے اصل میں ہمارے موقف کی تائید کی ہے۔
کیوں کہ ہم پہلے دن سے یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ طاقت کے استعمال سے افغانستان میں امن قائم نہیں کر سکتا صرف مذاکرات ہی مسائل کا حل ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک افغانستان میں غیر ملکی افواج موجود ہے وہاں پر امن نہیں ہو سکتا۔دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان میں قیام امن کے لئے پاکستان نے بہت قربانیاں دیں اور خطے میں پاکستان کا انتہائی اہم کردار ہے۔ ملک میں دہشت گردی خطرناک صورت حال اختیار کر چکی ہے اور اس کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں دور پرویز مشرف میں بنائی گئی خارجی اورداخلی پالیسیوں کو تبدیل کر کے ملکی مفاد اور قومی امنگوں کے مطابق پالیسیوں کو تشکیل دیا جائے۔
قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی امورکے ماہرڈاکٹرسیدقندیل عباس نے کہاکہ امریکہ نے پاکستان کی طرفسے دی جانیوالی تمام ترتجاویزکاخیرمقدم کرنے کی بجائے ان کونظراندازکرتے رہے اوربارہ سال تک طالبان کے ساتھ نبردآزمارہے، مگران کوکامیابی حاصل نہ ہوئی۔ جبکہ ان کوعراق میں اس حوالے سے تلخ تجربہ ہوچکاتھا۔ افغانستان میں امریکہ کوچند ماہ کے بعدہی اس بات کومحسوس کرلیناچاہئے تھاکہ اس مسئلے کاحل گولی کی بجائے مذاکرات ہیں۔ اس حوالے پاکستان نے باربارمسئلہ کے حل میں پیش رفت کی مگرہرباراس کواگنورکردیاگیا، نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان میں ایک عالمی طاقت جس کے نہ صرف وسائل بلکہ جدید ٹیکنالوجی پربھی دسترس ہے طالبان کوزیرکرنے میں کامیاب نہ ہوسکے اور انہیں بالآخر مذاکرات کی میز پرآنا پڑا جس کا رونا پاکستان نائن الیون سے پہلے سے رورہاتھا۔
اب طالبان کے ایران کے ساتھ بھی ماضی کی نسبت بہترتعلقات ہیں کیوں کہ انہوں نے ایران کادورہ بھی کیاہے جس کے دوران انہوں نے ایرانی قیادت سے ملاقات کی ہے۔ امریکہ نے افغانستان سے سے نکلنے سے قبل اپنی ایئربیس یا فوجی اڈے رکھے توان کے تحفظات بڑھ جائیں گے۔کیونکہ امریکا کے ایران کے ساتھ تعلقات ٹھیک نہیں ہیں۔ امریکا کوافغانستان میں قیام امن کیلیے جہاں تمام افغان گروپوں کواعتماد میں لینے کے ساتھ ساتھ پاکستان اورایران کوبھی آن بورڈ لیں۔ ماضی میں طالبان اورشمالی اتحادکے ماضی میں سخت اختلافات تھے ان کودورکئے بغیرامن قائم نہیں ہوسکتا۔
امریکا نے افغانستان میں حالات خراب کرنے میں کبھی بھارت کے کردارکومحسوس نہیں کیاجو اس مسئلے کے حل میں بھی رکاوٹ ہے۔ امریکا نے افغانستان میں کیا پاور شیئرنگ کی ہے اسی کی بنیادپردوحہ مذاکرات کی کامیابی اورناکامی کافیصلہ ہوگا۔ بنیادی مذاکراتی عمل کے بعد پاکستان اورایران جواس خطے میں زیادہ متاثرہوئے ہیں کوانگیج کرناچاہئے،اس جنگ کے دوران کئی دہائیوں سے پاکستان مہاجرین کابوجھ اٹھارہاہے جولاکھوں افرادکی صورت میں موجود ہیں۔
افغان جنگ کے اثرات پر نظر دہرائی جائے توسب سے زیادہ منفی اثرات پاکستان پر پڑے ہیں۔ افغان کلچر کے یہاں آنے پر پاکستان کو کلاشنکوف، منشیات کاتحفہ ملااوردوسرے دورمیں پاکستان میں دہشت گردی کاجوسیلاب آیاوہ تھمنے کانام نہیں لے رہا۔ امریکا نشے کی طاقت میں جوطالبان کودہشت گرداورممنوعہ گروپ قراردے کرجنگ کی پالیسی اپناکر بندوق کی نوک پرزیرکرنے کی کوشش کررہاتھاآخرکاران کی ایک مسلمہ حقیقت کوتسلیم کرکے مذاکرات کی میزپرآنے مجبورہوگیاہے۔امریکا جس سسٹم راہ ہموارکررہاتھا اس پردنیا(یورپی یونین،چین،روس)نے ان کویہ باور کرایاہے کہ ملٹی پولرسسٹم ہے جودنیامیں امن کاضامن ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن ) کے راہنماء صدیق الفاروق نے کہاکہ افغانستان میں جوکچھ ہورہاہے وہ ایک سکرپٹ کاحصہ ہے۔ قبل ازیں جوکچھ نائن الیون کوہواوہ بھی سب کے سامنے ہے۔امریکا سب کچھ ایک پالیسی کے تحت کرتاہے۔افغانستان میں بعض عوامل اپنی حیثیت سے بڑھ کرکرداراداکرنے کی کوشش میں ہیں۔ پاکستان افغانستان میں امن وامان قائم کرنے کیلیے بیک ڈور ڈپلومیسی سے کام لے رہے تھاجس میں اب جاکرکامیابی ہوئی ہے۔ اور اس کوایک باقاعدہ شکل دے دی گئی ہے جس کودوحہ مذاکرات کانام دیاگیاہے۔
اس تمام عمل نے ثابت کردیاہے کہ پاکستان افغانستان کے پرامن مسئلے کے حل کا خواہاں ہے۔ ماضی میں بھی افغانستان میں تمام گروپوں کو ایک مذاکرات کی میزتک لانے میں پاکستان کامرکزی کردار تھا اور اب دوبارہ افغانستان میں قیام امن کے لیے موجودہ حکومت بہترین سفارت کاری سے نہ صرف ملک کاوقاربہترکرے گی بلکہ افغانستان کے مسئلے کے حل میں اپناکرداراداکرے گی۔دوحہ مذاکرات پاکستان کی خارجہ پالیسی کے تناظرمیں پہلے بیک ڈورکے ذریعے امریکا اورطالبان کے مابین تعلقات استوارہوئے جن کواب باقاعدہ ایک صورت دیدی گئی جس تناظر میں مذاکراتی عمل شروع ہونیوالا ہے۔ دونوں کے مابین مذاکرات کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ پاکستان ان مذاکرات کو کامیاب کروانے میں اولین کرداراداکرے گا۔
ایک زمانے میں سوچ تھی کہ افغانستان پاکستان کا پانچوں صوبہ ہے وہ ختم ہو چکی ہے۔امریکا کو چاہئے کہ افغانستان سے جاتے وقت ایساکوئی کام نہ چھوڑجائے جس سے موجودہ چنگاڑی آگ کادوبارہ شعلہ بن جائے جونہ صرف افغانستان بلکہ خطے کاامن تباہ کردے۔ علامہ اقبال نے کیاخوب کہاتھاکہ اگرافغانستان میں امن ہوگاتوپوری دنیامیں امن ہوگااوراگرافغانستان میں فسادہوگا توپوری دنیامیں فسادہوگا۔افغانستان میں حالات خراب ہونے پرسب سے زیادہ متاثرپاکستان ہواہے جہاں سوارب ڈالرکے جانی مالی نقصان کے علاوہ ہزاروں افرادکی شہادت ہوئی ہے۔ ویسے توافغانستان میں قیام امن کامسئلہ ان کااندرونی معاملہ ہے تاہم پاکستان اپنے اثرورسوخ سے گروپوں کے درمیان مفاہمتی پالیسی کے تناظر میں اپنا کرداراداکررہاہے۔
بقول شاعر افغانستان میں امن علاقے میں امن کے مترادف ہے۔ افغانستان میں صدر کرزئی نے دوحہ مذاکرات میں اعتمادمیں نہ لینے پربرہمی کااظہارکیاہے جونامناسب ہے۔کیونکہ سب کے علم میں ہے کہ افغان صدرکرزئی کی کیاحیثیت ہے۔ اگر افغانستان میں امن قائم ہوگیاتوسابق عین ممکن ہے کہ کرزئی افغانستان میں کہیں نظرہی نہیں آئے گا۔ دوحہ مذاکراتی عمل امریکہ،افغانستان اورہمسائیہ ممالک کے مفادمیں ہے۔ دوہزارچودہ میں امریکہ اورنیٹوممالک کی افواج افغانستان سے انخلاء کاپروگرام بناچکے ہیں۔جن کی اولین خواہش ہے کہ وہ یہاں سے نکلنے سے قبل اقتداران ہاتھوں میں دیاجائے جوامن کے ضامن ہوں۔ مگریہ امن اسی وقت ممکن ہے جب افغانستان میںتمام گروپوں کے مابین مفاہمتی پالیسی کے تحت کوئی معاہدہ طے پا جائے۔
امریکا نے اگرہوش کے ناخن نہ لئے توامریکہ کے جانے کے بعدخانہ جنگی کی صورتحال پیداہوجائے گی ۔ مذاکراتی عمل نہ ہواتوطالبان مزیددس سال تک یہ جنگ جاری رکھ سکتے ہیں۔کیونکہ ان کامسئلہ کھاناپینا،آرام طلبی نہیں ہے ان کے خون میںجنگ وجدل شامل ہے۔انکوصرف ایک کلاشنکوف چاہئے۔افغان جنگ کے نام پرامریکہ نے جن سویلائزڈممالک سے وعدے کررکھے ہیں۔انکوجواب دیناہے۔ان ممالک کاامریکہ پرسخت پریشرہے کہ اس مسئلے کوحل کریں۔امریکہ نے ایک پلان کے تحت عراق اورایران،کویت اوربعدازاں افغانستان کاچیپٹرکھول دیا۔ امریکہ کی سب جدوجہدجھوٹ پرمبنی ہے جیساکہ ویت نام کی جنگ جھوٹ پرمبنی تھی جوبارہ سال جاری رہی۔امریکہ کایہ موقف ہے کہ وسیع پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیارملے ہیں یانہیں مگرجوہم نے حملہ کیاوہ ٹھیک تھا۔
افغانستان میں ضیاء الحق کے دورمیں پاکستان کی پالیسی جہاداوراسلام پرمبنی تھی اورمشرف دورمیں ماڈرنائزیشن کا نام لیاجاتارہا۔دوحہ مذاکرات کاعمل جلدشروع ہوناچاہئے اوراس سے قبل بنیادی ہوم ورک کرلیناچاہئے۔اوراس عمل کوجلدسے جلدمکمل کرناچاہئے۔جتنا طویل مذاکراتی عمل ہوگایہ مسئلہ اسی قدرتکلیف دہ ہوتاچلاجائیگا۔ آٹھ دس سال مذاکراتی عمل کامطلب ہے کہ یہ مسئہ کبھی حل نہیں ہوگا۔ ہماری خواہش ہے کہ افغانستان میں فوجی انخلاء کے بعدایسی کوئی بات نہ رہ جائے جوباعث تنازعہ ہو۔مشرف کوہٹانااسی سکرپٹ کاحصہ ہے جس پرامریکہ عمل کر رہا ہے۔ افغانستان میں کرزئی کی آنیوالیوقت میںوہی حیثیت ہوگی جواس وقت پاکستان میں مشرف کی ہے۔
سابق سفارت کار بی اے ملک نے کہاکہ افغانستان میں قیام امن کی چابی خودافغان عوام کے ہاتھ میں ہے۔ان کویہ اب محسوس کرلیناچاہئے کہ ان کوآپس میں ملکرامن کے لیے فارمولا طے کرناچاہئے اس مقصد کے لیے انہیں امریکہ کی بھی ضرورت نہیں ہے۔افغانستان کی تاریخ ہے کہ یہاں پرکبھی امن نہیں رہااسی وجہ سے اس خطے پربیرونی عوامل اثراندازہوتے رہے۔یہ علاقہ پہلے برطانیہ،روس اوراب امریکہ کے زیراثرہے۔اگرافغانستان میں مفاہمتی پالیسی کے تحت گروپوں کونمائندگی دی جائے توپھرامریکہ کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔ امریکہ کامنفی کردار نمایاں ہے کہ یہ خودآگ لگاتے ہیں اورپھراس آگ کوبجھانے میں اربوں ڈالر کما لیتے ہیں یہ عمل ایران عراق، جنگ اور اب افغانستان میں نمایاں طورپرنظر آیاہے۔
پاکستان نے اپنی سٹریٹجک پالیسی کے تحت پہلے آدھا پاکستان پھر سیاچن اور کارگل کھو دیا اور اب اسی تناظر میں بلوچستان میں آگ لگی ہے اس کوتبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں غلط فیصلوں سے گریزکرناچاہئے اوردرست فیصلے کرناہوں گے۔بندوق اورڈنڈے کے بل بوتے پرشارٹ ٹرم کے لیے امن یابات چیت کی جاسکتی ہے مگرلانگ ٹرم پلان کیلیے مذاکرات ہی سب سے بہترآپشن ہوتی ہے جواس مسئلہ میں درکارہے،مذاکراتی عمل کوشروع کروانے میں پاکستان نے اہم کرداراداکیاہے ۔ جس سے مسائل کے حل کی امیدپیداہوچلی ہے۔افغانستان میں جنگ وجدل جاری رہنے سے بیرونی عناصرکومداخلت کاموقع میسرآیاہے ۔جس کوافغان گروپوں کومحسوس کرلیناچاہئے کہ اس کامستقبل کیاحل نکالناہے۔
پاکستان کی کوششوں سے جومذاکراتی پلیٹ فارم میسرآیاہے اس سے سب گروپوں کوفائدہ اٹھاتے ہوئے مختصروقت میں کامیاب کروانے میں اپناکرداراداکرناچاہئے۔تاریخی اعتبارسے امریکہ کاعالمی مسائل کے حل میں کردارمثبت ہونے کی بجائے منفی رہاہے،جس کی مثال فلسطین ہے جوکئی دہائیوں سے حل طلب ہے۔مسئلہ کشمیرجواقوام متحدہ کی واضح قراردادوں کے مطابق استصواب رائے سے حل ہوسکتاہے۔مگراس پرمناسب پریشرنہ ہونے پریہ چھ دہائیوں سے بھی زائدکاعرصہ گزرنے کے باوجودحل نہیں ہوسکا۔اسی طرح شام میں بھی منفی کردارنے پورے خطے میں منفی اثرات مرتب کررکھے ہیں۔شیعہ سنی فسادات کی آڑمیں افغانستان میں قیام امن میں تاریخی اعتبارسے ایران کااہم رول نظرآیاہے۔
عالمی سطح پرایران کے ایٹمی پروگرام کے تناظرمیں امریکہ کے ایران کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔ اگر دوحہ مذاکراتی عمل میں ایران کو نظر انداز کیا گیا تو اس کے منفی اثرات بعد ازاں نظر آئیں گے۔ افغانستان پر روس جو عالمی طاقت تھی پنجہ آزمائی کی اور بالآخر انہیں شکست ہوئی اور سپر پاور چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہوگیا۔جہاںرسائی افغانستان کے راستے ہوسکتی ہے۔ جن کوگرم پانی تک رسائی پاکستان سے ہوتی ہے۔ اور ان کی درامدات یابرامدات میں اضافہ گوادرپورٹ سے ہی ممکن ہے۔ امریکہ کسی نہ کسی صورت میں افغانستان میں موجود رہیگا جس سے علاقے میں ایک تھریڈموجودرہے گاجوباعث تنازعہ ٹھرے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بریگیڈیر(ر) سائمن شرف نے کہاکہ افغانستان کی صورتحال پانی میں تیرنے والی اس برف کی مانندجس کاایک حصہ پانی کے باہراورسات حصے پانی کے اندرہوتے ہیں۔عام تاثریہ ہی دیکھنے میں آیاہے کہ افغانستان میں لڑائی پرپاکستان کومنفی پہلوسے دیکھاگیاہے۔اس وقت بھی یہاں پرچالیس سے پینتالیس ایجنسیاں کام کررہی ہیں۔دوحہ مذاکراتی عمل میں پاکستان سمیت یورپی ممالک اورسعودی عرب سب سے اہم تھے مگرسعودی اثرورسوخ سے اس مذاکراتی عمل کوآزادکرکے قطرمیںمذاکرات کامرکزمقررکیاگیاہے۔
مذاکراتی عمل ایک اچھاامرہے مگریہ کئی سال پرمحیط ہوں گے۔ پاکستان کی پالیسیوں کے تناظرمیں لگتاہے کہ امریکی وزیرخارجہ کادورہ پاکستان ملتوی ہواہے۔ جبکہ اسی وقت اس نے بھارت کادورہ کیاہے۔طالبان کے حوالے سے روس سمیت دیگرممالک نے اچھا تاثر دیا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے دوسرے دور حکومت انیس سو چھیانوے میں طالبان ماڈریٹ سیٹ اپ پرتیارہوگئے تھے مگربے نظیرحکومت کوختم کردیاگیاتھا۔
پاکستان کوچاہئے کہ یہاں امن کے قیام کیلیے تمام سیاسی قائدین کے ہمراہ فوجی قیادت کے ساتھ ایسی پالیسی مرتب کی جائے جس پرعمل درآمدکیاجائے۔پارٹی کے قائدعمران خان نے تجویزدی ہے کہ جب تک جامعہ پالیسی مرتب نہ ہواجلاس جاری رکھاجائے۔ پاکستان کے علاقوں بلوچستان،سندھ اورکے پی کے میں حالات خرابی کی بنیادی وجہ تلاش کی جائے۔موجودہ حکومت نے اگرمشرف کیس میں دانشمندانہ فیصلہ نہ کیاتوپاکستان کابہت نقصان ہوگا۔ عالمی طاقتوں کاایجنڈاہے کہ عوام اورفوج میں لڑائی کرائی جائے اورایٹمی صلاحیت پرقابوپالیں۔ طا لبان امریکہ مذاکرات کا مرکز ریاض کی بجائے دوحہ میں رکھنے کامقصد سعودی حکومت کااثرورسوخ ختم کرنے کامنصوبہ ہے۔ پاکستان کے اختیار میں نہیں کہ وہ یہ نعرہ لگاسکے کہ دہشت گردی کی جنگ ہماری نہیں ہے۔
پاکستان میں حالات خراب کرنے میںبہت سے ممالک یہاں موجود گروپوں کی مالی مدد کرتے ہیں۔ افغانستان میں انتخابی عمل میں طالبان کی طرف سے مثبت اشارے ملے ہیں کہ وہ انتخابی عمل میں اپنی قیادت ملا عمر سمیت حصہ لیںگے۔حقانی گروپ کی بھی تائیدسامنے آئی ہے۔مذاکراتی عمل کے آغازپرکرزئی کی طرف سے منفی بیان پراگلے ہی روزکابل میںصدارت محل پرحملہ ہوا تھا جس سے ایک طرح کاتاثرپایاگیاکہ صدرکرزئی کادوحہ مذاکرات پرطرزعمل ٹھیک نہیں ہے۔ ماضی میں افغانستان میں حالات کے تناظرمیں پاکستان کے ساتھ ایران کے تعلقات میں سردمہری آئی تھی۔مگرابھی جورپورٹس آرہی ہیں کہ طالبان کاوفدایران کادورہ کرچکا ہے سے معلوم ہوتا ہے کہ حالات میں بہتری آئی ہے۔ممکناسیٹ اپ میں دوسرے گروپ سے عمرعبداللہ ابھرکرسامنے آئے گا۔