آئو کہ ہم بھی بدلیں یہ لباس سوگواراں

سچی اور اچھی بات خالص سونے کی طرح ہوتی ہے جو کبھی پرانا نہیں ہوتا


Amjad Islam Amjad August 19, 2012
[email protected]

ISLAMABAD: عید کا مفہوم ہی خوشی اور مسرت ہے، سو آج کے دن بھی اگر وہی رونے روئے جائیں جن کی آڑ میں ہم سال کے بقیہ 364 دن مایوسی اور بے عملی کی تشہیر اور تبلیغ میں صرف کرتے ہیں تو یہ بات منطق کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ اﷲ تعالیٰ کے احکام سے بھی کھلی کھلی بغاوت ہو گی۔ باقی رہی بات میر صاحب کے اس شعر کی جس کے دوسرے مصرعے کو میں نے قدرے تصرف کے ساتھ اس کالم کا عنوان بنایا ہے تو اسے ایک فرد کی ایک مخصوص ذاتی کیفیت کا آئینہ دار ہی سمجھنا چاہیے اجتماعی معاشرتی نظریہ یا ردعمل نہیں۔

میر صاحب نے کہا تھا
ہوئی عید سب نے پہنے طرب و خوشی کے جامے
نہ ہوا کہ ہم بھی بدلیں یہ لباس سوگواراں

میں پہلے بھی کئی بار اپنے کالموں اور تحریر و تقریر میں یہ فرمان الٰہی درج کر چکا ہوں کہ رب کریم کو کافر اور مشرک سے بھی زیادہ ناپسند وہ ''نام نہاد'' مسلمان اور کلمہ گو ہے جو اس کے علیٰ کل شیء قدیر ہونے کا اقرار بھی کرے اور پھر اس کی رحمت سے مایوس بھی ہو جائے۔ آج قیام پاکستان کے بعد آنے والی اس 65 ویں عیدالفطر کے حوالے سے میں ایک بار پھر اس کو دہراتا ہوں کہ سچی اور اچھی بات خالص سونے کی طرح ہوتی ہے جو کبھی پرانا نہیں ہوتا۔

دو عظیم جنگوں کے نتیجے میں دنیا کے تمام پرانے نقشے اور ایٹلس قصۂ پارینہ بن گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے پچاس سے زیادہ مسلمان آبادی کی اکثریت والے ملک دنیا کے نقشے پر نمودار ہو گئے۔ علامہ اقبال کی مستقبل پر نگاہ نے اس تبدیلی کے ابتدائی دور میں ہی آیندہ بننے والے منظرنامے کو دیکھ اور محسوس کر لیا تھا اور وہ بے ساختہ جھوم کر یوں نغمہ پیرا ہوئے تھے کہ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی!

لیکن یہ ان کے دیدۂ بینا کا کمال ہے کہ وہ اس عمل کے نتیجے میں ''مشرق'' میں پیدا ہونے والی ان تبدیلیوں کی ظاہری چکا چوند کی رو میں دوسروں کی طرح بہہ نہیں گئے اور اسلامی نشاۃ ثانیہ کی دو سب سے بڑی اور مقبول ترین علامتوں یعنی ایران اور ترکی میں ظہور پذیر ہونے والے ''انقلابات'' کے بارے میں باآواز بلند اسلامی دنیا کو یہ کہہ کر خبردار کرنے لگے کہ

نہ مصطفیٰ نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روح مشرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی

پھر چشم عالم نے دیکھا کہ چند ہی برسوں میں الجزائر سے لے کر مالدیپ تک 50 سے بھی زیادہ اکثریتی مسلمان آبادی والے ملک یا تو آزادی کی نعمت سے بہرہ مند ہوئے یا ایک نئے نام اور پہچان کے ساتھ سامنے آئے لیکن یہ بھی ایک امر واقعہ ہے کہ ان میں سے بیشتر ممالک کسی نہ کسی مغربی طاقت کی کم و بیش دو صدیوں پر محیط ''غلامی'' کی وجہ سے اپنا تہذیبی، تاریخی اور دینی تشخص بہت حد تک یا تو کھو چکے تھے یا ایک ایسے احساس کمتری میں مبتلا تھے کہ مغربی آقائوں کے جانے کے بعد بھی وہ ان کی ذہنی غلامی سے آزاد نہ ہو سکے اور یہی وہ المیہ ہے جس کی وجہ سے آج ہم دنیا کی آبادی اور وسائل کا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ ہونے کے باوجود ترقی کے میدان میں بہت پیچھے ہیں۔

ترکی، ایران اور ملائیشیا سے قطع نظر ایسے ملک اور علاقے جہاں مسلمانوں کی آبادی پانچ کروڑ سے زیادہ ہے (یعنی پاکستان، انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور بھارت) عمومی طور پر اس کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائے جس کی ان سے توقع تھی اور جس کے وہ بلاشبہ اہل بھی ہیں لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو تمام عالم اسلام میں وطن عزیز کی کارکردگی کے کچھ پہلو ایسے ہیں جو صرف اسے عالم اسلام میں ہی ممتاز نہیں کرتے بلکہ گنتی کے چند مغربی ممالک سے قطع نظر جن کی مثال باقی دنیا میں بھی کم کم ہی نظر آتی ہے موجودہ دہشت گردی، تخریب کاری، معاشی بدانتظامی، لوٹ مار اور بجلی پانی وغیرہ کے مسائل سے بھرپور صورتحال میں ممکن ہے میری یہ بات پہلی نظر میں پنجابی فلموں والی ''بڑھک'' جیسی لگے لیکن جس طرح کسی چیز کا علم نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہوتا کہ وہ چیز سرے سے ''موجود'' ہی نہیں ہے اسی طرح کسی قوم یا فرد کے ''جوہر'' کا کھل کر سامنے نہ آ سکنا بھی اس بات کا ثبوت نہیں ہوتا کہ وہ آیندہ بھی بھرپور طریقے سے ''اظہار'' نہیں کر سکے گی۔

بلا شبہ جو کچھ ہم نے ان 65 برسوں میں نہیں کیا اور جو ہمیں کرنا چاہیے تھا اس کی فہرست بہت طویل ہے لیکن اس تمام تر افراتفری اور بے جہتی کے باوجود جو کچھ ہم نے کیا ہے اور جو کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس کا حجم بھی کچھ کم نہیں۔ کسی مفکر کا قول ہے کہ ''شکست ایک عارضی کیفیت ہے مایوسی اسے مستقل بنا دیتی ہے'' بدقسمتی سے ہمارے بیشتر حکمران، ہمسائے اور اپنے مخصوص مفادات کی حامل عالمی قوتیں مل کر ہمیں اور ہماری آیندہ نسلوں کو اس بات کا یقین دلانے پر تلی ہوئی ہیں کہ ہم انتشار اور مایوسی کے اس جال سے باہر نہیں نکل سکتے جو ہمارے چاروں طرف پھیلا دیا گیا ہے اور یہ کہ ہم اس تصویر کا دوسرا رخ نہ دیکھ سکیں کہ جس ملک کی زمین چاروں موسموں اور بے شمار معدنی خزانوں سے مالامال ہو جس کا شمار دنیا کی سات منتخب ایٹمی طاقتوں میں ہوتا ہو اور جس کے افراد نے آزاد مقابلے کی فضا میں زندگی کے ہر شعبے میں شاندار ترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہو جس کے لوگ انفرادی سطح پر سب سے زیادہ اللہ کی راہ میں خیرات کرتے ہوں اور جس کے بچے جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا بھر کے بچوں سے آگے نکل کر دکھا دیں، جو کھیل، ادب، زراعت، ٹیکسٹائل اور دیگر کئی شعبوں میں تسلسل سے نہ سہی مگر اعلیٰ ترین کارکردگی کا مظاہرہ کر چکا ہو اور جس کے ہنرمند اپنے ناقص تعلیمی نظام اور کمزور معاشرتی ڈھانچے کے باوجود دنیا کے اعلیٰ ترین اعزازات جیت چکے ہوں اگر وہ اپنے وسائل کا صحیح اور بھرپور استعمال کرنے کا طریقہ سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہو جائے تو وہ کیا کچھ نہیں کر سکتا!

سو اے برادران وطن وہ سب مسائل اپنی جگہ، جنہوں نے ہمارا جینا حرام اور مستقبل تاریک کر رکھا ہے لیکن جس خدا کے حکم سے مسئلے پیدا ہوتے ہیں وہی ان کے حل بھی پیدا کرتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جب ہم حالات کی اندھی اور تاریک سرنگ کے دوسرے کنارے پر موجود روشنی کی طرف دیکھنا اور اسی کی سمت بڑھنا چھوڑ دیتے ہیں تو وہ ایسا نہ ہوتے ہوئے بھی ہمارا مقدر بن جاتی ہے لیکن یہ بھی اسی رب کا فرمان ہے کہ جو قوم اپنی حالت اور حالات بدلنے کا ارادہ کرلے اور اس پر کاربند ہو جائے تو اس کی رحمت اس کے عمل کی شامل حال ہو جاتی ہے۔ مزید تفصیل میں جائے بغیر میں عید کی خوشی کے پیغام کو سامنے رکھتے ہوئے ایک دلچسپ اور پُرلطف حکایت پر اپنی بات ختم کرتا ہوں جو اس بات کی آئینہ دار ہے کہ مسئلہ کیسا بھی مشکل کیوں نہ ہو اس کا کوئی نہ کوئی حل ضرور ہوتا ہے۔

''ایک غریب آدمی کی بیٹی پر گائوں کا بدمعاش اور بدصورت بوڑھا ساہوکار عاشق ہو گیا اور اسے دھمکی دی کہ یا تو اپنی بیٹی کی مجھ سے شادی کر کے قرض معاف کروا لو یا پھر تھانے کچہری اور قرقی کے لیے تیار ہو جائو۔ لڑکی کے انکار پر اس نے یہ تجویز پیش کی کہ ایک مٹکے میں ایک سفید اور ایک کالا کنکر رکھ دیتے ہیں۔ لڑکی آنکھیں بند کرکے ایک پتھر نکالے اگر کالا کنکر نکل آئے تو اس کو ساہوکار سے شادی کرنا ہو گی بصورت دیگر وہ اس کے باپ کا قرضہ بھی معاف کر دے گا اور شادی پر بھی اصرار نہیں کرے گا۔

یہ شرط مان لی گئی اور ساہوکار نے گائوں بھر کے سامنے زمین سے ایک سفید اور ایک کالا کنکر اٹھایا لیکن چالاکی سے کام لیتے ہوئے سفید کنکر کو جیب میں رکھ کر اس کی جگہ بھی ایک کالا کنکر ہی رکھ دیا۔ یعنی اب لڑکی جو بھی کرتی اس کے ہاتھ میں کالا کنکر ہی آتا۔ اتفاق سے لڑکی نے ساہوکار کو کنکر بدلتے دیکھ لیا اور اس نے اس بظاہر ناقابل حل مسئلے کا ایسا حل نکالا جو ساہوکار کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔

اس نے کیا یہ کہ بظاہر شرم اور اضطراب سے کانپتے ہوئے ہاتھ سے مٹکے میں سے ایک کنکر نکالا مگر پھر اسے یوں زمین پر پڑے ہوئے رنگارنگ پتھروں پر گرا دیا جیسے وہ اتفاقاً گر پڑا ہو، اب یہ طے ہو گیا کہ اگر گرنے والا پتھر سیاہ تھا تو اسے ساہوکار سے شادی کرنا ہو گی لیکن اس صورت میں مٹکے میں باقی ماندہ کنکر کا سفید ہونا لازم تھا اور اگر وہ کنکر سیاہ ہے تو ثابت ہوا کہ لڑکی کے ہاتھ سے جو کنکر گرا تھا وہ سفید تھا یعنی اس کی رو سے وہ اور اس کا باپ آزاد ٹھہریں گے۔ اب ظاہر ہے کہ مٹکے میں تو دونوں کنکر ہی سیاہ رنگ کے ڈالے گئے تھے یعنی ساہوکار کے لیے نہ جائے رفتن تھی اور نہ پائے ماندن کہ یا تو وہ خاموشی سے ہار مان لے یا یہ تسلیم کرے کہ اس نے کنکر رکھنے میں بے ایمانی کی تھی۔ ہے نا مزے کی بات!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں