تمہیں کیسے سمجھاؤں
مجھے قیلولہ کرنے کی عادت نہیں ہے۔ مگربیماری سے اٹھنے کے بعدکمزوری کے اثرات باقی تھے...
مجھے قیلولہ کرنے کی عادت نہیں ہے۔ مگربیماری سے اٹھنے کے بعدکمزوری کے اثرات باقی تھے،اس لیے جمعے کی دوپہر کھانا کھانے کے بعد ذرا دیر کے لیے لیٹ گیا۔ ابھی معمولی سی غنودگی آئی تھی کہ موبائل فون کی گھنٹی بجی اور بجتی ہی چلی گئی۔ دوسری جانب کوئی صاحب تھے، جو ہمارے گزشتہ جمعرات کے اظہارئیے پر اپنی رائے کا اظہار کر نے کے لیے بے چین تھے۔ ہیلو کہنے پر انھوں نے چھوٹتے ہی کہا کہ فلاں جماعت سے لفافہ لے لیا،کیونکہ ان کے خیال میں ہم نے اس جماعت کے لیے ہمدردانہ الفاظ اداکیے تھے ۔ابھی ہم کچھ جواب دیتے کہ انھوں نے اس جماعت کے سربراہ کے بارے میں مغلظات بکنا شروع کردیں۔ان کا دعویٰ تھا کہ مذکورہ جماعت ایک مخصوص عقیدے کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ پرنٹ میڈیا بھی اس عقیدے کے لوگوں کے قتل پرصفحے کے صفحے سیاہ کردیتا ہے، جب کہ ان کے مسلک کے افراد جب قتل کیے جاتے ہیں،تو کچھ نہیں لکھاجاتا۔چونکہ وہ شائستگی کے ساتھ اپنامدعابیان کرنے میں ناکام ہوگئے تھے،اس لیے مزید گفتگوکرنا بیکارتھا،لہٰذا مجبوراً فون بندکرنا پڑا۔
دراصل ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں،جس میں فرقہ وارانہ تقطیب (Polarization) کودانستہ ہوا دے کر انتہائی درجہ تک پہنچادیا گیا ہے۔جس کی وجہ سے معاشرے سے تحمل، برداشت اور رواداری تیزی کے ساتھ ختم ہورہی ہے۔چونکہ ایسے معاشروںمیںدلیل کی بنیاد پر مکالمہ اور منطقی استدلال کے لیے گنجائش ختم ہوجاتی ہے، اس لیے ان معاشروں میں متشدد تنگ نظری میں اضافہ اور مختلف نظریات و عقائد کے لیے قبولیت اور برداشت ختم ہوجاتی ہے۔ ویسے توپاکستان میں فرقہ وارانہ آویزش کا آغاز1953ء سے ہوگیاتھا،لیکن اس میں شدت 1980ء کے عشرے میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں آئی۔جب انھوں نے مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے فرقہ وارانہ تنظیموں کی سرپرستی اور لبرل اور آزاد خیال فکری رجحانات کو بیدردی سے کچلنا شروع کیا۔جس کی وجہ سے انسانیت اور انسان ذات سے وابستگی کی جگہ فقہی، مسلکی اور نسلی ولسانی شناخت اور تفاخرمیں اضافہ ہواہے۔
1980ء کے عشرے سے قبل پاکستانی معاشرے پرصوفیانہ تعلیمات کے اثرات خاصے گہرے ہونے کی وجہ سے صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے درمیان ہی تحمل اور برداشت کا رویہ نہیں تھا، بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی مساویانہ برتائوکیا جاتا تھا۔ یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آرہاہے۔ یہ غالباً1975کی بات ہے ، میں اپنے یونیورسٹی کے ایک دوست سے ملنے خیرپور میرس گیا۔میں اپنے دوست کے ساتھ اوطاق(بیٹھک)میں بیٹھا تھا،وہاں ایک چوکی پر جائے نماز بچھی ہوئی تھی۔ہم دونوں دوست گفتگو کررہے تھے کہ اس کا ایک بھائی آیا اور اس نے سلام دعا کے بعد مصلہ پر نماز ادا کی اور کچھ دیر ہمارے پاس بیٹھ کر چلا گیا۔ تھوڑی دیر میں میرے دوست کا کزن آیا ،اس نے اسی جائے نماز پر کسی اور مسلک کے طریقہ سے نماز ادا کی اور ہم سے خیریت دریافت کرکے رخصت ہوا۔اس واقعے سے دوباتیں سامنے آئیں۔اول یہ کہ ایک زمانے میں سندھ میں ایک ہی خاندان میں مختلف فقہوں سے تعلق رکھناکوئی اچھنبے کی بات نہیں ہواکرتی تھی۔دوئم یہ کہ فقہی اختلاف کے باوجود یہ لوگ انتہائی محبت اور شائستگی کے ساتھ مل جل کر رہاکرتے تھے اور ان کے درمیان کسی قسم کی کدورت یا نفاق نہیں پایا جاتا تھا۔اس سلسلے میںمیرے والد مرحوم بڑی اچھی بات کیا کرتے تھے کہ اپنا عقیدہ چھوڑو مت، دوسرے کے عقیدے کو چھیڑو مت۔
ہم سکھر میں پل کر جوان ہوئے۔وہاں ہمارے دوستوں کے حلقے میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے علاوہ مسیحی اور ہندو دوست بھی تھے۔ایک دوست ہیرس ڈین عید کے دن عیدگاہ کے باہر ہمارا انتظار کیا کرتاتھا اور پھر پورا دن ہم ساتھ وقت گذارتے ۔یہی کچھ کرسمس اور ایسٹر کے موقعے پرہوتا ۔ہم اپنے ایک اوردوست سعادت کے ساتھ سینٹ سیوئیرچرچ کے گیٹ پر ہیرس کا انتظار کرتے اور کرسمس اور ایسٹرکا پورا دن اس کے ساتھ گذارتے۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ چالیس برس تک جس آزاد خیالی، انسان دوستی اور لبرل ازم کے لیے جدوجہد کی، ڈھلتی عمر میں ہمیں یہ دن دیکھنا پڑیں گے کہ لوگ ہماری اس شناخت کو تسلیم کرنے کے بجائے ہمارے عقیدے اور مسلک کے بارے میں استفسار کریں گے۔
ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ کبھی ہماری ادبی وتہذیبی روایات مذہبی رواداری سے عبارت ہواکرتی تھیں،جن سے اب ہم کس طرح دامن چھڑانے کی کوشش کررہے ہیں ۔اردو،سندھی، پنجابی،پشتو اور بلوچی ادب پر نظر ڈالیے تو صرف شاعری ہی نہیں ، بلکہ افسانہ اور ناولوں میں بھی تحمل اور رواداری کی عظیم روایات ملتی ہیں۔ میر تقی میر نے آج سے دوسوبرس پہلے کہا تھا کہ:
میر کے دین ومذہب کو کیا پوچھو ہو ،ان نے تو
قشقہ کھینچا،دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
مگر اس شعر کی وجہ سے نہ کسی ملا ،نہ کسی مفتی نے انھیں دائرہ اسلام سے خارج قراردے کر ان کے قتل کا فتویٰ جاری کیااور نہ ان کے کلام پر پابندی عائد کی گئی۔بلکہ دوسوبرس سے یہ شعران کے انتہائی مقبول اشعارمیں شمارکیاجاتا ہے۔تقریباً80برس قبل یاس یگانہ چنگیزی نے جو شعرکہاتھا،وہ توایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات کا قبل از وقت ادراک کرتے ہوئے تخلیق کیاگیا، وہ کہتے ہیں کہ:
سب ترے سواکافر،آخراس کا مطلب کیا ہے
سرپھرادے انسان کا،ایساخبطِ مذہب کیا ہے
بابابھلے شاہ نے تودل کے مقابلے میں مسجداور مندردونوں کو ڈھانے کی بات کرتے ہیں،کیونکہ ان کے خیال میں رب مسجد یا مندر کے بجائے ہمارے دلوں میں رہتاہے،اس لیے اسے دکھ پہنچانا رب کو ناراض کرنا ہے۔ شاہ سائیں(شاہ لطیف) جب خداوند قدوس سے سندھ پر رحمتوں کی دعا کرتے ہیں،توساتھ ہی سارے عالم کو آباد کرنے کی دعاء مانگتے ہیں ۔یعنی وہ سمجھتے ہیں کہ سندھ اسی وقت خوشحال رہ سکتا ہے، جب پورا عالم آبادہوگا۔اس لیے یہاں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ برصغیر میں اسلام نہ بادشاہوں نے پھیلایا اور نہ علماء دین نے بلکہ اس خطے میں اسلام کا پھیلائو صوفیاء کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔صوفیاء، جن کی محفلوںمیں مسلم اور غیر مسلم کی تخصیص کا کوئی تصور نہیں ہوتا تھااور جنہوں نے ہمیشہ انسانیت کو اولیت دی اور ہر خاص وعام کو مساوی درجہ دیا۔ان کایہی رویہ اسلام کو مقبول بنانے کا سبب بنا۔
اگرجدید دنیا پر نظرڈالیں تو مثبت حقیقت پسندی کے معروف فلسفی لارڈ برٹرینڈرسل نے1949ء میں Why I am not a Christianکے عنوان سے ایک کتاب لکھی، جس میں وہ سینٹ پال اور سینٹ جونز کے علاوہ مسیحی عقائد پر شدید تنقید کرتے ہیں،مگرنہ کسی نے انھیں قتل کیا نہ ان کی کتابوںکو نذر آتش کیا۔بلکہ اب تک اس کتاب کے درجنوں ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں اور دنیا کی بیشتر زبانوں میں اس کا ترجمہ ہواہے۔ یہ ان معاشروں کا معاملہ ہے، جو فکری اور علمی طورپر بہت آگے جاچکے ہیں۔مگر عقائد ونظریات پر تنقید نہ ہماری سرشت ہے اور نہ ہماری سماجی روایات کا حصہ ہے۔ہمیں تو یہ فخر حاصل رہاہے کہ ہمارا معاشرہ کبھی صوفیاء کی تعلیمات کی وجہ سے تحمل، برداشت اور مذہبی رواداری میں مغرب سے بہت آگے ہوا کرتا تھا۔مگرآج جس انداز میں عبادت گاہوں اورصوفیاء کے مزارات کو بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے ذریعہ تباہ کیا جارہاہے،اس روش اور رجحان کا صوفیاء کی صدیوں پرانی روایات سے کوئی علاقہ نہیں ہے۔یہ سب کچھ جنرل ضیاء الحق کی غلط اور طالع آزما پالیسیوں کا نتیجہ ہے، جس نے صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں ہی کا نہیں،بلکہ غیر مسلموں کا جینا بھی دو بھر کردیا ہے۔
مجھے ٹیلی فون کرنے والے شخص کی مغلظات پر غصہ نہیں بلکہ اس کی محدود سوچ پر افسوس ہے ،کیونکہ وہ بے چارہ افراد کوصرف فقہی تقسیم کے تناظر میں دیکھنے کا عادی ہے یا بنادیا گیا ہے۔ اسے اندازہ نہیں کہ اس معاشرے میں مرزا غالب، سرسید احمد خان،فیض احمد فیض، کرشن چندر ،عصمت چغتائی، سعادت حسن منٹو،ساحر لدھیانوی، کیفی اعظمی، حبیب جالب اور عاصمہ جہانگیر کی فکر سے متاثر لوگوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد بھی رہتی ہے، جو ہر قسم کی فرقہ وارانہ اور لسانی تقسیم سے بلند ہو کر صرف انسانیت کے وسیع تر مفاد میں سوچتی اور عمل کرتی ہے۔جس کی زندگی کا مقصد جمہوریت، فکری کثرتیت اور آزادی اظہارکا فروغ ہے۔ میں اسی قبیلے سے تعلق رکھتا ہوں اور اپنے ہزاروں دوستوں کی طرح میری زندگی کا مشن بھی اس دنیا کوآتشیں بالخصوص جوہری ہتھیاروں سے پاک کرناہے۔اس لیے مجھ سے کسی مخصوص عقیدے یا نظریے سے وابستگی اورفرقہ وارانہ یا نسلی ولسانی تقسیم کی حمایت کی توقع نہیں کی جاسکتی۔لہٰذا ٹیلی فون کرنے والے صاحب سے میری درخواست ہے کہ وہ مجھ پر جو چاہیں فتویٰ لگادیں، مگر مجھے اپنی طرح فرقوں کی محدود تقسیم کا حصہ نہ سمجھیں۔