میاں صاحب آپ کی کامیابی لازم ہے
ہمارے سقوط ڈھاکہ والے دشمنوں نے ہمارے ایک اور سقوط کا بندوبست بھی کر لیا تھاوہ تھاسقوط کوئٹہ لیکن الیکشن نے یہ سازش...
KARACHI:
جب الیکشن ہونے والے تھے اور ان میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی تھیں تو ہمارے جہاندیدہ چیف الیکشن کمشنر نے بار بار قوم سے کہا کہ اگر الیکشن نہ ہوئے تو ملک ٹوٹ جائے گا۔ اتنی بڑی بات نہ کہنی آسان تھی نہ سننی لیکن ایک مجبوری تھی جو یہ سب کہلوا رہی تھی اور قوم سن رہی تھی۔ آپ یاد کیجیے کہ الیکشن ملتوی کرانے کے لیے کتنے بڑے جلسے ہوئے اور اسلام آباد میں دن رات کے دھرنے بھی، اس مشق پر کروڑوں نہیں اربوں خرچ ہو گئے۔
(نہ جانے یہ رقم کہاں سے آئی) اور عوام نے بڑی مشکلات سہہ کر ان میں بھرپور شرکت کی، یہ اتنا بڑا ڈرامہ تھا کہ اس وقت اس کے خلاف کوئی بات سننے پر تیار نہ تھا اور یہ اس حد تک کامیاب بھی رہا کہ حکومت کا وفد اسلام آباد کے اس محفوظ کنٹینر میں حاضر ہو گیا جہاں سے یہ ڈرامہ ڈائریکٹ کیا جا رہا تھا لیکن حکومتی لوگوں کی سوجھ بوجھ ڈرامہ بازوں سے برتر تھی، منہ بند کرنے کے لیے کچھ سمجھوتے ہوئے اور پھر بات آئی گئی ہو گئی ڈرامہ کا پردہ گر گیا اور تماشائی گھر و گھر چلے گئے۔
اسی طرح بعض دوسرے حلقوں کی طرف سے بھی الیکشن کی مخالفت کی گئی اور الیکشن کے خلاف ایک فضا بن گئی لیکن جیسا کہ ہمیں معلوم ہے یہ سب ہوا میں اڑ گیا اور ملک بچ گیا یعنی الیکشن ہو گئے کوئی جیتا کوئی ہارا اور وہی سب کچھ ہوا جو الیکشن میں ہوا کرتا ہے، اس الیکشن کے نتیجے میں صوبائی اسمبلیاں بن گئیں وفاقی اسمبلی بن گئی وزرائے اعلیٰ اور وزیراعظم بھی منتخب ہو گئے اور ایک جمہوری حکومت کا آغاز ہو گیا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ ملک بچ گیا لیکن اس کا بچاؤ حکومت کی کامیابی سے مشروط ہے اور لازم ہے کہ میاں صاحب کامیاب ہوں یہ قومی ضرورت ہے صرف سیاست نہیں ہے۔ ہماری یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ ہمیں ہمیشہ زندگی کا خطرہ رہتا ہے اور یہ خطرہ حقیقت بن جاتا ہے اور سقوط ڈھاکہ تک ہو جاتا ہے۔
ہمارے سقوط ڈھاکہ والے دشمنوں نے ہمارے ایک اور سقوط کا بندوبست بھی کر لیا تھا وہ تھا سقوط کوئٹہ لیکن الیکشن نے یہ سازش ختم کی یا نہ کی اسے روک ضرور لیا۔ ہمارے وزیراعظم میاں نواز شریف نے پہلا کام یہ کیا کہ بلوچستان میں حکومت قائم کر دی یوں یہاں کے حالات کو کنٹرول کر لیا یہ بہت بڑا کام تھا اور اگر میں نے اس پر میاں صاحب کو ہیرو کہا تھا تو غلط نہیں کہا تھا، افسوس کہ میاں صاحب کی اس کامیابی کی ستائش نہ کی گئی بس خبروں کی حد تک اس کامیابی کا ذکر ہوتا رہا۔ بہر حال کچھ بھی ہو۔
دشمن کی سازش کے سامنے بند باندھ دیا گیا۔ اگرچہ بدامنی کی حد تک یہ سازش جاری ہے لیکن بلوچستان کی علیحدگی وغیرہ کی باتیں اب سننے میں بہت کم آ رہی ہیں ان کا جواب مقامی طور پر دیا جا رہا ہے۔ ایک عقلمند بلوچ نے مجھ سے کہا کہ ہم کہاں جا سکتے ہیں سوائے پاکستان کے ہمارا کوئی ٹھکانہ نہیں بنتا۔ جہاں تک علیحدگی کی بات ہے تو یہ ان لوگوں کی بات ہے جن کو اس صوبے کی حکمرانی کا چسکا ہے اور اس صوبے کے اثاثوں کو بانٹ کر کھاتے رہتے ہیں۔
میاں صاحب نے ملک کو اس فوری خطرہ سے بچا لیا اب ان کا اصل کام شروع ہے اور یہ ہے اچھی قابل قبول اور عوام کے لیے عوامی حکومت۔ چیف الیکشن کمشنر نے میاں صاحب سے ملاقات میں تین بار کہا اچھی حکومت اچھی حکومت اور اچھی حکومت۔ ملک کی بقا کے لیے جس قدر الیکشن ضروری تھا اسی قدر اس کے لیے ایک انصاف پسند حکومت بھی ضروری ہے۔ وزیراعظم کی خوش قسمتی ملاحظہ کریں کہ عدالت ان کے ساتھ ہی نہیں آگے بڑھ بڑھ کر ان کی تائید کر رہی ہے غلطیوں کی بروقت نشاندہی کر رہی ہے اور عوام کو تسلی دے رہی ہے کہ ان کے جذبات بیان کیے جا رہے ہیں۔ پوری عدلیہ کی حمایت تائید اور بھرپور تعاون حکومت کے لیے ایک نعمت ہے ورنہ ماضی میں ہماری عدلیہ نے ملک میں بڑے بڑے گھپلے کیے ہیں جن کی سزا قوم بھگت رہی ہے۔
عدلیہ کے بعد کسی پاکستانی حکومت کو فوج سے خطرہ ہوتا ہے دنیا میں حکومتوں کو فوج سے کوئی خطرہ نہیں ہوا کرتا فوج اپنے کام میں لگی رہتی ہے جو سیاست نہیں ہے ملک کی سرحدوں کی حفاظت ہے لیکن ہمارے ہاں ایسی صورت حال نہیں رہی چوتھا مارشل لاء ابھی گویا کل ہی ختم ہوا ہے اور اس کی ایک زندہ نشانی ہمیں اس کی یاد دلانے کے لیے ہمارے ہاں موجود ہے۔فوجی حکومتوں نے ہمارا حلیہ ہی بگاڑ دیا اور فوج کسی سیاسی حکومت کے لیے ایک زندہ اور مستقل خطرہ رہی میاں صاحب خود ذاتی طور پر فوج کے ڈسے ہوئے ہیں اور ان کے زخم تازہ ہیں لیکن موجودہ فوجی قیادت صرف فوجی ہے سیاسی نہیں ہے۔
سابقہ حکومت میں فوج کو بہت اکسایا گیا طرح طرح کے طعنے دیے گئے طنز و تشنیع کا نشانہ بھی بنایا گیا کبھی اسے ستو پلائے گئے تو کبھی کچھ اور نامناسب زبان استعمال کی گئی لیکن جنرل کیانی چپ چاپ سگریٹ پر سگریٹ پھونکتے رہے اور اپنا دامن بچائے رکھا۔ یہ ان کی ہمت تھی جب کہ خود ان کی فوج کے اندر بھی مارشل لاء کا مزا یاد کرنے والے بہت تھے اور باہر ہم ریٹائرڈ فوجیوں کو بھی بے چینی کی حالت میں دیکھتے رہے جو اپنے چیف سے ناخوش تھے لیکن اس تمام صورت حال کے باوجود اور اس کے باوجود کہ ان کی قوم مارشل لاء کی عادی تھی اور اس کی طرف سے مزاحمت کا کوئی خاص خطرہ نہ تھا جنرل کیانی پھر بھی اپنی بیرک میں بیٹھے رہے۔
ان کے مارشل لاء کے انتظار میں صرف حاضر نوکری اور سابق فوجی ہی نہیں تھے ہمارے سیاستدان بھی تھے جو ہمیشہ فوجی حکمران کے دست و بازو رہے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کسی بھی مارشل لاء کو کامیاب ہی سیاستدانوں نے بنایا ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک سیاستدان ان کے جوتے سیدھے کرتے رہے۔ میں یاد کرتا ہوں تو مجھے کوئی ایسا بڑا سیاستدان دکھائی نہیں دیتا جو اپنے دور کے مارشل لاء کا حصہ نہ رہا ہو۔ اس لیے جنرل کیانی کو بھی یہ سب معلوم تھا لیکن کمال ہے اس فوجی کا جس نے مارشل لاء کا نام تک نہ لیا اور اب وہ کسی دن باعزت طور پر ریٹائرڈ ہو جائے گا۔
عرض یہ تھی کہ میاں صاحب کو عدلیہ کا بھرپور تعاون حاصل ہے اور فوج کی طرف سے بھی مکمل تسلی۔ اب یہ ان کا فرض ہے کہ وہ اس ملک کو ایک اچھی حکومت دیں۔ ہم ان سے کسی انقلاب کی نہیں بلکہ ایک شریفانہ حکومت کی توقع ضرور رکھتے ہیں اور یہ ہمارا حق ہے ہمارے ووٹوں کا حق ہے ان پر بھرپور اعتماد ہمیں ایک اچھی حکومت کا حق دلاتا ہے۔ میاں صاحب میں کئی خطرناک کمزوریاں موجود ہیں لیکن مجموعی طور پر یہ وہ ایک اچھے انسان ہیں اور ان سے اچھی توقع کی جا سکتی ہے جو بے جا نہیں ہے۔
پس تحریر: میاں صاحب اس وقت ایک چھوٹے سے جہاز میں چین پہنچے ہیں پانچ روزہ دورہ ہے اس سفر کی مصروفیت میں وہ کالم تو کیا پڑھیں گے یہ کام وہ فرصت میں بھی نہیں کرتے لیکن یہ کالم ان کے متعلقہ محکمے کے لوگ واپسی پر ان کو پیش ضرور کر دیں کیونکہ اس میں نہ کوئی خوشامد ہے نہ کوئی درخواست ہے یہ قومی مسئلہ پر لکھا گیا ہے بے غرض اور بے لوث۔
جب الیکشن ہونے والے تھے اور ان میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی تھیں تو ہمارے جہاندیدہ چیف الیکشن کمشنر نے بار بار قوم سے کہا کہ اگر الیکشن نہ ہوئے تو ملک ٹوٹ جائے گا۔ اتنی بڑی بات نہ کہنی آسان تھی نہ سننی لیکن ایک مجبوری تھی جو یہ سب کہلوا رہی تھی اور قوم سن رہی تھی۔ آپ یاد کیجیے کہ الیکشن ملتوی کرانے کے لیے کتنے بڑے جلسے ہوئے اور اسلام آباد میں دن رات کے دھرنے بھی، اس مشق پر کروڑوں نہیں اربوں خرچ ہو گئے۔
(نہ جانے یہ رقم کہاں سے آئی) اور عوام نے بڑی مشکلات سہہ کر ان میں بھرپور شرکت کی، یہ اتنا بڑا ڈرامہ تھا کہ اس وقت اس کے خلاف کوئی بات سننے پر تیار نہ تھا اور یہ اس حد تک کامیاب بھی رہا کہ حکومت کا وفد اسلام آباد کے اس محفوظ کنٹینر میں حاضر ہو گیا جہاں سے یہ ڈرامہ ڈائریکٹ کیا جا رہا تھا لیکن حکومتی لوگوں کی سوجھ بوجھ ڈرامہ بازوں سے برتر تھی، منہ بند کرنے کے لیے کچھ سمجھوتے ہوئے اور پھر بات آئی گئی ہو گئی ڈرامہ کا پردہ گر گیا اور تماشائی گھر و گھر چلے گئے۔
اسی طرح بعض دوسرے حلقوں کی طرف سے بھی الیکشن کی مخالفت کی گئی اور الیکشن کے خلاف ایک فضا بن گئی لیکن جیسا کہ ہمیں معلوم ہے یہ سب ہوا میں اڑ گیا اور ملک بچ گیا یعنی الیکشن ہو گئے کوئی جیتا کوئی ہارا اور وہی سب کچھ ہوا جو الیکشن میں ہوا کرتا ہے، اس الیکشن کے نتیجے میں صوبائی اسمبلیاں بن گئیں وفاقی اسمبلی بن گئی وزرائے اعلیٰ اور وزیراعظم بھی منتخب ہو گئے اور ایک جمہوری حکومت کا آغاز ہو گیا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ ملک بچ گیا لیکن اس کا بچاؤ حکومت کی کامیابی سے مشروط ہے اور لازم ہے کہ میاں صاحب کامیاب ہوں یہ قومی ضرورت ہے صرف سیاست نہیں ہے۔ ہماری یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ ہمیں ہمیشہ زندگی کا خطرہ رہتا ہے اور یہ خطرہ حقیقت بن جاتا ہے اور سقوط ڈھاکہ تک ہو جاتا ہے۔
ہمارے سقوط ڈھاکہ والے دشمنوں نے ہمارے ایک اور سقوط کا بندوبست بھی کر لیا تھا وہ تھا سقوط کوئٹہ لیکن الیکشن نے یہ سازش ختم کی یا نہ کی اسے روک ضرور لیا۔ ہمارے وزیراعظم میاں نواز شریف نے پہلا کام یہ کیا کہ بلوچستان میں حکومت قائم کر دی یوں یہاں کے حالات کو کنٹرول کر لیا یہ بہت بڑا کام تھا اور اگر میں نے اس پر میاں صاحب کو ہیرو کہا تھا تو غلط نہیں کہا تھا، افسوس کہ میاں صاحب کی اس کامیابی کی ستائش نہ کی گئی بس خبروں کی حد تک اس کامیابی کا ذکر ہوتا رہا۔ بہر حال کچھ بھی ہو۔
دشمن کی سازش کے سامنے بند باندھ دیا گیا۔ اگرچہ بدامنی کی حد تک یہ سازش جاری ہے لیکن بلوچستان کی علیحدگی وغیرہ کی باتیں اب سننے میں بہت کم آ رہی ہیں ان کا جواب مقامی طور پر دیا جا رہا ہے۔ ایک عقلمند بلوچ نے مجھ سے کہا کہ ہم کہاں جا سکتے ہیں سوائے پاکستان کے ہمارا کوئی ٹھکانہ نہیں بنتا۔ جہاں تک علیحدگی کی بات ہے تو یہ ان لوگوں کی بات ہے جن کو اس صوبے کی حکمرانی کا چسکا ہے اور اس صوبے کے اثاثوں کو بانٹ کر کھاتے رہتے ہیں۔
میاں صاحب نے ملک کو اس فوری خطرہ سے بچا لیا اب ان کا اصل کام شروع ہے اور یہ ہے اچھی قابل قبول اور عوام کے لیے عوامی حکومت۔ چیف الیکشن کمشنر نے میاں صاحب سے ملاقات میں تین بار کہا اچھی حکومت اچھی حکومت اور اچھی حکومت۔ ملک کی بقا کے لیے جس قدر الیکشن ضروری تھا اسی قدر اس کے لیے ایک انصاف پسند حکومت بھی ضروری ہے۔ وزیراعظم کی خوش قسمتی ملاحظہ کریں کہ عدالت ان کے ساتھ ہی نہیں آگے بڑھ بڑھ کر ان کی تائید کر رہی ہے غلطیوں کی بروقت نشاندہی کر رہی ہے اور عوام کو تسلی دے رہی ہے کہ ان کے جذبات بیان کیے جا رہے ہیں۔ پوری عدلیہ کی حمایت تائید اور بھرپور تعاون حکومت کے لیے ایک نعمت ہے ورنہ ماضی میں ہماری عدلیہ نے ملک میں بڑے بڑے گھپلے کیے ہیں جن کی سزا قوم بھگت رہی ہے۔
عدلیہ کے بعد کسی پاکستانی حکومت کو فوج سے خطرہ ہوتا ہے دنیا میں حکومتوں کو فوج سے کوئی خطرہ نہیں ہوا کرتا فوج اپنے کام میں لگی رہتی ہے جو سیاست نہیں ہے ملک کی سرحدوں کی حفاظت ہے لیکن ہمارے ہاں ایسی صورت حال نہیں رہی چوتھا مارشل لاء ابھی گویا کل ہی ختم ہوا ہے اور اس کی ایک زندہ نشانی ہمیں اس کی یاد دلانے کے لیے ہمارے ہاں موجود ہے۔فوجی حکومتوں نے ہمارا حلیہ ہی بگاڑ دیا اور فوج کسی سیاسی حکومت کے لیے ایک زندہ اور مستقل خطرہ رہی میاں صاحب خود ذاتی طور پر فوج کے ڈسے ہوئے ہیں اور ان کے زخم تازہ ہیں لیکن موجودہ فوجی قیادت صرف فوجی ہے سیاسی نہیں ہے۔
سابقہ حکومت میں فوج کو بہت اکسایا گیا طرح طرح کے طعنے دیے گئے طنز و تشنیع کا نشانہ بھی بنایا گیا کبھی اسے ستو پلائے گئے تو کبھی کچھ اور نامناسب زبان استعمال کی گئی لیکن جنرل کیانی چپ چاپ سگریٹ پر سگریٹ پھونکتے رہے اور اپنا دامن بچائے رکھا۔ یہ ان کی ہمت تھی جب کہ خود ان کی فوج کے اندر بھی مارشل لاء کا مزا یاد کرنے والے بہت تھے اور باہر ہم ریٹائرڈ فوجیوں کو بھی بے چینی کی حالت میں دیکھتے رہے جو اپنے چیف سے ناخوش تھے لیکن اس تمام صورت حال کے باوجود اور اس کے باوجود کہ ان کی قوم مارشل لاء کی عادی تھی اور اس کی طرف سے مزاحمت کا کوئی خاص خطرہ نہ تھا جنرل کیانی پھر بھی اپنی بیرک میں بیٹھے رہے۔
ان کے مارشل لاء کے انتظار میں صرف حاضر نوکری اور سابق فوجی ہی نہیں تھے ہمارے سیاستدان بھی تھے جو ہمیشہ فوجی حکمران کے دست و بازو رہے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کسی بھی مارشل لاء کو کامیاب ہی سیاستدانوں نے بنایا ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک سیاستدان ان کے جوتے سیدھے کرتے رہے۔ میں یاد کرتا ہوں تو مجھے کوئی ایسا بڑا سیاستدان دکھائی نہیں دیتا جو اپنے دور کے مارشل لاء کا حصہ نہ رہا ہو۔ اس لیے جنرل کیانی کو بھی یہ سب معلوم تھا لیکن کمال ہے اس فوجی کا جس نے مارشل لاء کا نام تک نہ لیا اور اب وہ کسی دن باعزت طور پر ریٹائرڈ ہو جائے گا۔
عرض یہ تھی کہ میاں صاحب کو عدلیہ کا بھرپور تعاون حاصل ہے اور فوج کی طرف سے بھی مکمل تسلی۔ اب یہ ان کا فرض ہے کہ وہ اس ملک کو ایک اچھی حکومت دیں۔ ہم ان سے کسی انقلاب کی نہیں بلکہ ایک شریفانہ حکومت کی توقع ضرور رکھتے ہیں اور یہ ہمارا حق ہے ہمارے ووٹوں کا حق ہے ان پر بھرپور اعتماد ہمیں ایک اچھی حکومت کا حق دلاتا ہے۔ میاں صاحب میں کئی خطرناک کمزوریاں موجود ہیں لیکن مجموعی طور پر یہ وہ ایک اچھے انسان ہیں اور ان سے اچھی توقع کی جا سکتی ہے جو بے جا نہیں ہے۔
پس تحریر: میاں صاحب اس وقت ایک چھوٹے سے جہاز میں چین پہنچے ہیں پانچ روزہ دورہ ہے اس سفر کی مصروفیت میں وہ کالم تو کیا پڑھیں گے یہ کام وہ فرصت میں بھی نہیں کرتے لیکن یہ کالم ان کے متعلقہ محکمے کے لوگ واپسی پر ان کو پیش ضرور کر دیں کیونکہ اس میں نہ کوئی خوشامد ہے نہ کوئی درخواست ہے یہ قومی مسئلہ پر لکھا گیا ہے بے غرض اور بے لوث۔