فیصلہ سازی

نواز شریف صاحب کی پچھلی دو حکومتوں کے دوران چند صحافیوں کے بارے میں تقریباً یہ طے کرلیا گیا تھا کہ...


Nusrat Javeed July 03, 2013
[email protected]

KARACHI: نواز شریف صاحب کی پچھلی دو حکومتوں کے دوران چند صحافیوں کے بارے میں تقریباً یہ طے کرلیا گیا تھا کہ سرکاری فیصلہ سازی وزیر اعظم نہیں وہ کیا کرتے ہیں۔ میں ان کے پہلے دورِ حکومت میں نسبتاً جوان تھا۔ کالم لکھتے ہوئے خوامخواہ پنگے لینے کو دل مچلتا رہتا۔ قومی اسمبلی میں ان دنوں اپوزیشن والوں کا مصالحہ بھی کافی تیز ہوا کرتا تھا۔ لکھنے کو کافی کچھ مل جاتا اور میں اسے نمک مرچ لگاکر بیان کرتا۔ پھر نواز شریف صاحب کی اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان سے ٹھن گئی۔ میں نے بڑی محنت کرتے ہوئے ایوان صدر کے کلیدی کرداروں تک رسائی حاصل کی۔

ان کی بدولت جو مواد ملتا اسے اپنے تئیں چسکے دار بناکر لکھنے کی کوشش کرتا۔ مجھے ہرگز خبر نہیں کہ میاں صاحب میرے لکھے کالم پڑھا کرتے تھے یا نہیں۔ مگر ان کے دربار میں میری شہرت ایک ''جیالے'' کی ہوگئی۔ اس کے باوجود ایک نہیں دو بار میرا نام ان کے ہمراہ بیرون ملک جانے والے صحافیوں کی فہرست میں شامل ہوا۔ دونوں مرتبہ میں سامان باندھ کر ان کے ساتھ جہاز میں بیٹھنے کے لیے ایئرپورٹ پہنچا تو مجھے بتایا گیا کہ میرا نام فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔ ان دنوں والے جاپان اور جرمنی کے ویزے والے پاسپورٹ کو میں نے ابھی تک سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔

چوہدری نثار علی خان، ملک نعیم اور مرحوم عبدالستار لالیکا ان دنوں میاں صاحب کے بڑے قریبی وزیر سمجھے جاتے تھے۔ تینوں میری ذلت اور اذیت پر بہت پریشان ہوئے۔ حلفاً اقرار کرتے رہے کہ ان کے وزیر اعظم کا میری تذلیل سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ ان سے بالا بالا یہ کارنامہ میرے کچھ اپنے ہی صحافی دوستوں نے خفیہ ایجنسیوں اور وزارتِ اطلاعات کے چند بااثر لوگوں کے ساتھ مل کر سرانجام دیا تھا۔ پھر1994ء میں قائد حزب اختلاف کے طور پر میاں صاحب میرے والد کی وفات پر افسوس کرنے آئے تو کرید کرید کر پوچھتے رہے کہ مجھے ان کے ساتھ جاپان اور پھر جرمنی کے دورے پر جانے کے لیے آخری لمحات میں کیوں اور کس نے روکا تھا۔ میں مسکرا کر طرح دیتا رہا۔

پنجابی کے عظیم شاعر وارث شاہ کا دعویٰ ہے کہ انسان کچھ بھی کرلے اپنی فطرت اور عادتیں نہیں بدل سکتا۔ اگرچہ خود کو ایک ترقی پسند اور لبرل ذہن کا مالک سمجھتے ہوئے میں اس رائے سے اتفاق نہیں کرتا لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ مزید سنکی ضرور ہوتا جارہا ہوں۔ اسی لیے جب سے میاں صاحب پاکستان کے تیسری بار وزیر اعظم بنے ہیں اس کھوج میں لگا ہوا ہوں کہ ان کے اس دور میں حکومتی پالیسی سازی میں موثر سمجھے جانے والے صحافیوں کا پتہ چلاسکوں۔ بڑی سوچ بچار کے بعد میں نے تین صحافیوں کو اس ضمن میں اپنے طورپر Short Listبھی کرلیا تھا۔ اس بار اپنے بااثر ساتھیوں کی تلاش کرتے ہوئے ارادہ یہ بھی باندھ لیا تھا کہ ان سے اپنے تعلقات ہر صورت بہتر بناکر رکھوں گا۔ جوانی کے دنوں کی طرح خبروں کی تلاش میں اب اتنی بھاگ دوڑ نہیں کرسکتا۔ نواز شریف کے دربار میں موثر دوستوں سے تعلقات بہتر رکھوں گا تو ایک دو فون کرنے کے بعد نئی خبریں مل سکتی ہیں۔ وزیر اعظم نے خورشید شاہ کو احتساب بیورو کے نئے سربراہ کے دو نام بھیج کر مشاورت کے لیے جو خط لکھا ہے اس نے تو اس سلسلے میں میری ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ میری Short Listingاور اس حوالے سے بنائے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ میری دانست میں اس بار جن صحافی بھائیوں نے نواز شریف صاحب کی فیصلہ سازی میں رہ نمائی کرنا تھی وہ گزشتہ چند ہفتوں سے مختلف حیلوں بہانوں سے احتساب بیورو کے نئے سربراہ کے طور پر جسٹس ریٹائرڈ خلیل رمدے اور شعیب سڈل کے نام Promote کررہے تھے۔ مجھے ان دو حضرات پر ہرگز کوئی اعتراض نہیں۔ مگر نواز شریف نے جو دو نام دیے ہیں ان کی وجہ سے مجھے یقین ہوگیا ہے کہ میں اپنے جن ساتھیوں کو اب کی بار بااثر دیکھنے کی توقع کررہا تھا وہ ابھی تک فیصلہ ساز نہیں بن پائے ہیں۔ اس کے علاوہ واضح یہ بھی ہوا ہے کہ شاید اس بار میاں صاحب صحافیوں کو اپنے دربار سے ذرا دور دور رکھیں گے۔ خبریں چھپائیں گے۔ بس فیصلہ کریں گے اور سرکاری اعلان ہوجائے گا۔ صحافیوں سے یہ دوری کیا رنگ لائے گی اس کے بارے میں ابھی کچھ کہنا بہت ہی قبل از وقت ہوگا۔

قومی احتساب بیورو کے نئے چیئرمین کی تلاش کے حوالے سے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ اس کے انتخاب سے پہلے زیادہ بہتر ہے کہ احتساب کے لیے ایک موثر اور بھرپور قانون بنالیا جائے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں اس قانون کا مسودہ بارہا قومی اسمبلی کی متعلقہ کمیٹی میں زیر غور آیا ہے لیکن اتفاق نہیں ہوسکا۔ وقت آگیا ہے کہ اس مسودے کو جس کے بارے میں طولانی اجلاس اور مذاکرات ہوچکے ہیں اب حتمی شکل دے کر قانون کی صورت دے دی جائے۔ ایسا کرتے ہوئے ہمارے منتخب نمایندوں کو ہر ممکن کوشش کرنا ہوگی کہ بدعنوان سیاستدانوں اور راشی افسران کو سزا دینے کے لیے جو قانون اور ادارہ بنے وہ مکمل طورپر آزاد اور خود مختار نظر آئے۔ اسے کوئی بھی حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے اس بے شرمانہ انداز میں استعمال نہ کرپائے جیسا ماضی میں ہوتا رہا ہے۔

ذاتی طورپر میں پوری دیانتداری سے محسوس کرتا ہوں کہ قومی احتساب بیورو کو کسی نہ کسی صورت قومی ا سمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی سے متعلق ہونا چا ہیے۔ یہ کمیٹی ہر وزارت میں سالانہ آڈٹ کے ذریعے نظر آنے والی بدعنوانیوں کا جائزہ لیتی ہے۔ اس کے اراکین کی اکثریت کا تعلق یقینا حکومتی جماعت سے ہوتا ہے مگر اس کمیٹی میں غیر سرکاری اراکین اسمبلی کی موثر نمایندگی بھی نظر آتی ہے۔ کوئی ایسی صورت ہونا چاہیے کہ احتساب والے کسی سابق یا حاضر وزیر کے خلاف تفتیش کا باقاعدہ آغاز کرنے سے پہلے اس کمیٹی کے سامنے اس فرد کے بارے میں میسر مواد رکھے۔

آزاد میڈیا اور مستعد عدلیہ کے اس دور میں یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ مواد اگر واقعی ٹھوس نظر آئے تو پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اراکین احتساب بیورو کو مزید کارروائی سے روک دیں۔ انصاف سے کہیے اگر کسی جج کے خلاف بدعنوانی کے اشارے دینے والا موجود ہو تو اسے سپریم جوڈیشل کمیشن کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ سیاستدانوں کے بارے میں یہی رویہ اختیار کرنے میں کیا امر مانع ہے ؟۔ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ میری خواہش تو بس اتنی ہے کہ احتساب بیورو واقعتاً احتساب کرے۔ کسی حکومت کے سیاسی مخالفین سے انتقام لینے والا اُجرتی جلاد نہ بن جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں