امیدوبیم کے درمیان
کامرہ ائیر بیس جیسے حملے بغیر اندرونی معاونت ممکن نہیں ہیں
KARACHI:
13اور14اگست کی درمیانی شب آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کاکول اکیڈمی میں پرچم کشائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ملکی صورتحال پرتفصیلی اظہار خیال کیا۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی فوجی سربراہ نے ملک کودرپیش مسائل کی ذمے داری بیرونی عوامل پرڈالنے کے بجائے اپنے ادارے سمیت دیگر اندرونی عوامل کو ذمے دار ٹہرایاہے۔ان کی تقریرکے تین اہم نکات تھے۔اول ، ملک کی اندرونی دگرگوں صورتحال۔ دوئم، قومی سلامتی کے پیچیدہ مسائل جن میں دہشت گردی سرفہرست ہے اور سوئم، حسب روایت پاکستان اور اسلام کاتعلق۔ان کی اس تقریر نے سیاسی جماعتوںاورسول سوسائٹی کے لیے غور وفکر کے کئی دریچے کھول دیے ہیں۔اس لیے ان کی تقریرکے مندرجات کا پاکستان کی مجموعی صورتحال کے تناظر میں جائزہ لینا ضروری ہوگیا ہے۔
ابھی اس اظہارئیے کاابتدائیہ ہی مکمل ہوا تھا کہ دو انتہائی افسوسناک خبریں سامنے آئیں۔پہلی خبرکامرہ ائیر بیس پر دہشت گرد حملے کے بارے میں تھی، جس میں 9دہشت گرد ہلاک اور ایک جوان شہید ہوا۔ جب کہ دوسری تشویشناک خبر مانسہرہ کے قریب ایک مخصوص فقہہ کے ماننے والے 25مسافروںکوبس سے اتار کر شہید کیے جانے کے بارے میں تھی۔دونوں خبریں اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ دہشت گرد عناصر اس قدر مضبوط اور توانا ہوچکے ہیں کہ وہ جب چاہیںاورجہاں چاہیںحملہ آور ہوسکتے ہیں۔کامرہ بیس پر حملہ جی ایچ کیو اور مہران بیس کے بعد فوجی اداروںاورتنصیبات پر تیسرا بڑا حملہ تھا۔ حساس اداروںاور تنصیبات تک دہشت گردوں کی رسائی اور حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان کے جاسوسی نظام اور حفاظتی حکمت عملیوںمیں بیشمار سقم اور خامیاںہیں۔اس کے علاوہ بعض تجزیہ نگاروں کے اس خیال سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس قسم کے حملے بغیر اندرونی معاونت ممکن نہیں ہیں۔
مانسہرہ کے قریب ہونے والاسانحہ بلوچستان میںہونے والے واقعات اور ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ سے مماثل تھا۔اس کے علاوہ ملک بھر میں فرقہ وارانہ اور لسانی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ روزکا معمول بن چکاہے،خاص طورپر کراچی قتل وغارت گری کا نہ ختم ہونے والاسلسلہ کئی برسوں سے مسلسل جاری ہے۔جنرل کیانی نے اپنی تقریر میں اس مسئلے کی حساسیت کوتسلیم کیا۔ان کا کہنا تھا کہ وہ امن وامان کی دگرگوں صورتحال،بگڑتی ہوئی اقتصادیات اور کرپشن کے نتیجے میں عوام کی تشویش سے بخوبی آگاہ ہیں،لیکن اس وقت ملک کا اہم ترین مسئلہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی ہے۔ فوج اور عوام نے دہشت گردی کے خلاف عظیم قربانیاں دی ہیں۔یہ قربانیاں اسی وقت بارآور ہوں گی، جب سول حکومت فوج کی مدد کے بغیر اپنی ذمے داریاں سنبھالنے کے قابل ہوگی۔
اس حوالے سے پاکستان کی سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں کافی عرصے سے اس بات پر زور دیتی رہی ہے کہ دہشت گردی جیسے واقعات پر قابو پانے کے لیے فوجی آپریشن جیسے اقدامات وقتی اور ناکافی ہوتے ہیں۔اس عفریت پر قابو پانے کے لیے مناسب اور فعال قانون سازی کی ضرورت ہے۔ پیپلزپارٹی کے سینیٹر فیصل رضاعابدی دہشت گردوں کی گرفتاری کے بعدعدالتوں سے کمزور شہادتوں کی وجہ سے رہائی پر خاصے سیخ پا ہیں،انھیں چاہیے کہ وہ عدالتوں پر الزام عائد کرنے کے بجائے بحیثیت ایک سینیٹر اپنی جماعت پر اس حوالے سے قانون سازی کے لیے دبائوڈالیں۔
چنانچہ اب یہ پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے سیاسی بصیرت اور عزم کو بروئے کار لاتے ہوئے ٹھوس قانون سازی کریں خاص طورپر قانونِ شہادت کومزید فعال بنانے کی کوشش کریں۔ تاکہ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار عناصر کمزور شہادتوں کا سہارا لے کر آزاد نہ ہونے پائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اسی ویژن کوبروئے کار لانا ہوگا جو اٹھارویں ،انیسویں اور بیسویں آئینی ترامیم کی منظوری کا سبب بنااور NFCایواڈ کے ذریعے صوبوں کے درمیان مالیاتی امور پر مفاہمت کا راستہ کھلا۔
جنرل کیانی کی تقریر کا دوسرا نکتہ ملک کی مجموعی صورتحال سے متعلق تھا، جس میں بگڑتی ہوئی اقتصادی صورتحال، امن وامان کا پیچیدہ ہوتا مسئلہ اور کرپشن اوربدعنوانیوں کے رجحان میں اضافہ جیسے مسائل شامل ہیں۔ان خرابیوں کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کیا اورسویلین انتظامیہ کے ساتھ اپنے ادارے کو بھی ذمے دار ٹہرایا۔ان سے قبل فوجی سربراہ سارا ملبہ سیاسی جماعتوںاورسول انتظامیہ پر ڈال کرفوج کو ان خامیوں سے مبرا قرار دیتے تھے،جس کی وجہ سے سول ملٹری کشیدگی میں اضافہ ہوتاتھا۔
ان کی اس بات سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فوج کی اعلیٰ قیادت ملک کو درپیش مسائل کا جائزہ لتے ہوئے اپنے ادارے کی کوتاہیوں اور خامیوں سے صرف نظر نہیں کررہی۔اس کا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ فوج اب اقتدار پر قبضہ کو مسائل کا حل نہیں سمجھتی بلکہ سیاسی قیادت کے ساتھ مل کر ان مسائل کے حل پر غور کررہی ہے۔ اگر یہ سوچ فوج کے اندرونی حلقوں میں پروان چڑھ رہی ہے تواس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
تیسرا نکتہ یعنی پاکستان اور اسلام کے تعلق کے حوالے ہے،جس میں انھوں نے پاکستان اور اسلام کو لازم وملزوم قراردیاہے۔یہ ایک طے شدہ امرہونے کی وجہ سے اس وقت نان ایشیو ہے۔البتہ فوج کے مورال کو بلند رکھنے کی حد تک یہ بیان قابل قبول ہے ۔لیکن اگر اس سے آگے بڑھ کران کے ذہن میں مذہب کی بنیاد پرکسی نئی تشکیلات کاخاکہ ہے،تواس کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ ریاست کے منطقی جواز کا مسئلہ 1973 کے متفقہ آئین نے حل کردیا ہے۔اس لیے اب اس پر مزید بحث یا اؤیڈونچرازم قومی یکجہتی کے لیے نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔
گزشتہ اظہاریہ میں بھی ہم نے یہی لکھا تھا کہ 1973 کے آئین پر مذہبی اقلیتوں سمیت مسلمانوں کے تمام فرقے اور مسالک مطمئن تھے، جنھیں جنرل ضیاء الحق کے ایڈونچر نے عدم اطمینان کا شکار کیا ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی خانہ جنگی جیسی کیفیت اورمتشددفرقہ وارانہ آویزش اور غیر مسلم کے ساتھ امتیازی سلوک کا سبب ان کے دور میں نافذ ہونے والے بعض امتیازی قوانین ہیں۔
لہٰذا اس مسئلے پر مزید سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ویسے بھی پارلیمنٹ نے اٹھارویں، انیسویں اور بیسویں ترامیم کے ذریعے آئین کی اصل شکل کو خاصی حد تک بحال کردیا ہے۔اس لیے آئین کے ابتدائیہ میںکسی قسم کا ایڈونچریاردوبدل نئے تنازعات پیدا کرنے کا سبب بن سکتاہے۔جس کا یہ ملک اب متحمل نہیں ہوسکتا۔چنانچہ تمام سیاسی جماعتوں اور قومی اداروںکو آئین کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے سیاسی اورسماجی عمل کو آگے بڑھانا چاہیے۔
جنرل کیانی کی زیر بحث تقریر سے پاکستان میں سیاسی نظام کوبظاہر کوئی بڑا خطرہ محسوس نہیں ہورہا۔بلکہ اہم قومی مسائل پر فوج کا نقطہ نظر سامنے آیا ہے ۔اس لیے جن احباب کے ذہنوں میں یہ خدشہ گردش کررہاہے کہ فوج کسی وقت موجودپارلیمانی نظام کا بوریا بستر لپیٹ دے گی،انھیں جنرل کیانی کی تقریر کے بعدمطمئن ہوجانا چاہیے کہ فوج سیاسی عمل کو جاری رکھنے کی خواہش مند ہے۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ فوج اس وقت قومی سلامتی پیچیدہ مسائل میں گھری ہوئی ہے اوراسے کئی چیلنج درپیش ہیں۔دوسرے بار بار کی فوجی مداخلت نے فوج کی پیشہ ورانہ اہلیت کو متاثر کیا ہے، جس کے اثرات اب نمایاں طورپر سامنے آرہے ہیں۔اس لیے اب وہ کسی قسم کا رومانوی ایڈونچر کرکے اپنے ادارے کے لیے مزید مشکلات پیدا کرنا نہیں چاہتی۔
ہمارے خیال میں جنرل کیانی کی زیر بحث تقریرکوانہی سیاق وسباق میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ سیاسی جماعتوں کو اب کسی غیر سیاسی سیٹ اپ کے قیام کے خوف سے باہر نکل کر پورے اعتماد کے ساتھ اگلے انتخابات کے لیے تیاری میں مصروف ہوجاناچاہیے۔ اگرآیندہ عام انتخابات شفاف اور غیر جانبدارانہ ہوجاتے ہیں،تویقیناًاس سے سیاسی نظام کو مزید تقویت حاصل ہوگی۔اس کے علاوہ مستحکم جمہوریت کے لیے جمہوری اداروں کا استحکام ضروری ہے،جو قومی اداروں کے درمیان اختیارات کے توازن کے بغیر ممکن نہیں۔اس مقصد کے لیے تمام ریاستی اداروں کو ادارہ جاتی تصادم سے گریز کرتے ہوئے آئینی محدودات کے اندر رہتے ہوئے کام کرنے کے لیے خودکو آمادہ کرناہوگا۔ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ پاکستان میں ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کا خاصا پوٹینشیل ہے۔ لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک کہ ملک میں ایک دیرپا اور مستحکم جمہوری سیاسی نظام تشکیل نہیں پاجاتا۔
تصحیح: میرے گزشتہ کالم '' روح کے کرب کا اظہار'' میں یہ فقرہ درج ہوا تھا کہ 2010 سے اب تک 3 ہزار کے قریب ہندو خاندان جیکب آباد، شکارپور، کشمور اور بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بھارت نقل مکانی کرچکے ہیں۔ درحقیقت یہ غیر محتاط تخمینہ مختلف سندھی اخبارات و جرائد کے مطالعے سے سامنے آیا تاہم اس تخمینے میں کم و بیش کا لفظ سہواً رہ گیا۔ قارئین و تجزیہ نگار 3 ہزار کے تخمینے کو حتمی نہ سمجھیں۔
13اور14اگست کی درمیانی شب آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کاکول اکیڈمی میں پرچم کشائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ملکی صورتحال پرتفصیلی اظہار خیال کیا۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی فوجی سربراہ نے ملک کودرپیش مسائل کی ذمے داری بیرونی عوامل پرڈالنے کے بجائے اپنے ادارے سمیت دیگر اندرونی عوامل کو ذمے دار ٹہرایاہے۔ان کی تقریرکے تین اہم نکات تھے۔اول ، ملک کی اندرونی دگرگوں صورتحال۔ دوئم، قومی سلامتی کے پیچیدہ مسائل جن میں دہشت گردی سرفہرست ہے اور سوئم، حسب روایت پاکستان اور اسلام کاتعلق۔ان کی اس تقریر نے سیاسی جماعتوںاورسول سوسائٹی کے لیے غور وفکر کے کئی دریچے کھول دیے ہیں۔اس لیے ان کی تقریرکے مندرجات کا پاکستان کی مجموعی صورتحال کے تناظر میں جائزہ لینا ضروری ہوگیا ہے۔
ابھی اس اظہارئیے کاابتدائیہ ہی مکمل ہوا تھا کہ دو انتہائی افسوسناک خبریں سامنے آئیں۔پہلی خبرکامرہ ائیر بیس پر دہشت گرد حملے کے بارے میں تھی، جس میں 9دہشت گرد ہلاک اور ایک جوان شہید ہوا۔ جب کہ دوسری تشویشناک خبر مانسہرہ کے قریب ایک مخصوص فقہہ کے ماننے والے 25مسافروںکوبس سے اتار کر شہید کیے جانے کے بارے میں تھی۔دونوں خبریں اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ دہشت گرد عناصر اس قدر مضبوط اور توانا ہوچکے ہیں کہ وہ جب چاہیںاورجہاں چاہیںحملہ آور ہوسکتے ہیں۔کامرہ بیس پر حملہ جی ایچ کیو اور مہران بیس کے بعد فوجی اداروںاورتنصیبات پر تیسرا بڑا حملہ تھا۔ حساس اداروںاور تنصیبات تک دہشت گردوں کی رسائی اور حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان کے جاسوسی نظام اور حفاظتی حکمت عملیوںمیں بیشمار سقم اور خامیاںہیں۔اس کے علاوہ بعض تجزیہ نگاروں کے اس خیال سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس قسم کے حملے بغیر اندرونی معاونت ممکن نہیں ہیں۔
مانسہرہ کے قریب ہونے والاسانحہ بلوچستان میںہونے والے واقعات اور ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ سے مماثل تھا۔اس کے علاوہ ملک بھر میں فرقہ وارانہ اور لسانی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ روزکا معمول بن چکاہے،خاص طورپر کراچی قتل وغارت گری کا نہ ختم ہونے والاسلسلہ کئی برسوں سے مسلسل جاری ہے۔جنرل کیانی نے اپنی تقریر میں اس مسئلے کی حساسیت کوتسلیم کیا۔ان کا کہنا تھا کہ وہ امن وامان کی دگرگوں صورتحال،بگڑتی ہوئی اقتصادیات اور کرپشن کے نتیجے میں عوام کی تشویش سے بخوبی آگاہ ہیں،لیکن اس وقت ملک کا اہم ترین مسئلہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی ہے۔ فوج اور عوام نے دہشت گردی کے خلاف عظیم قربانیاں دی ہیں۔یہ قربانیاں اسی وقت بارآور ہوں گی، جب سول حکومت فوج کی مدد کے بغیر اپنی ذمے داریاں سنبھالنے کے قابل ہوگی۔
اس حوالے سے پاکستان کی سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں کافی عرصے سے اس بات پر زور دیتی رہی ہے کہ دہشت گردی جیسے واقعات پر قابو پانے کے لیے فوجی آپریشن جیسے اقدامات وقتی اور ناکافی ہوتے ہیں۔اس عفریت پر قابو پانے کے لیے مناسب اور فعال قانون سازی کی ضرورت ہے۔ پیپلزپارٹی کے سینیٹر فیصل رضاعابدی دہشت گردوں کی گرفتاری کے بعدعدالتوں سے کمزور شہادتوں کی وجہ سے رہائی پر خاصے سیخ پا ہیں،انھیں چاہیے کہ وہ عدالتوں پر الزام عائد کرنے کے بجائے بحیثیت ایک سینیٹر اپنی جماعت پر اس حوالے سے قانون سازی کے لیے دبائوڈالیں۔
چنانچہ اب یہ پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے سیاسی بصیرت اور عزم کو بروئے کار لاتے ہوئے ٹھوس قانون سازی کریں خاص طورپر قانونِ شہادت کومزید فعال بنانے کی کوشش کریں۔ تاکہ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار عناصر کمزور شہادتوں کا سہارا لے کر آزاد نہ ہونے پائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اسی ویژن کوبروئے کار لانا ہوگا جو اٹھارویں ،انیسویں اور بیسویں آئینی ترامیم کی منظوری کا سبب بنااور NFCایواڈ کے ذریعے صوبوں کے درمیان مالیاتی امور پر مفاہمت کا راستہ کھلا۔
جنرل کیانی کی تقریر کا دوسرا نکتہ ملک کی مجموعی صورتحال سے متعلق تھا، جس میں بگڑتی ہوئی اقتصادی صورتحال، امن وامان کا پیچیدہ ہوتا مسئلہ اور کرپشن اوربدعنوانیوں کے رجحان میں اضافہ جیسے مسائل شامل ہیں۔ان خرابیوں کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کیا اورسویلین انتظامیہ کے ساتھ اپنے ادارے کو بھی ذمے دار ٹہرایا۔ان سے قبل فوجی سربراہ سارا ملبہ سیاسی جماعتوںاورسول انتظامیہ پر ڈال کرفوج کو ان خامیوں سے مبرا قرار دیتے تھے،جس کی وجہ سے سول ملٹری کشیدگی میں اضافہ ہوتاتھا۔
ان کی اس بات سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فوج کی اعلیٰ قیادت ملک کو درپیش مسائل کا جائزہ لتے ہوئے اپنے ادارے کی کوتاہیوں اور خامیوں سے صرف نظر نہیں کررہی۔اس کا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ فوج اب اقتدار پر قبضہ کو مسائل کا حل نہیں سمجھتی بلکہ سیاسی قیادت کے ساتھ مل کر ان مسائل کے حل پر غور کررہی ہے۔ اگر یہ سوچ فوج کے اندرونی حلقوں میں پروان چڑھ رہی ہے تواس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
تیسرا نکتہ یعنی پاکستان اور اسلام کے تعلق کے حوالے ہے،جس میں انھوں نے پاکستان اور اسلام کو لازم وملزوم قراردیاہے۔یہ ایک طے شدہ امرہونے کی وجہ سے اس وقت نان ایشیو ہے۔البتہ فوج کے مورال کو بلند رکھنے کی حد تک یہ بیان قابل قبول ہے ۔لیکن اگر اس سے آگے بڑھ کران کے ذہن میں مذہب کی بنیاد پرکسی نئی تشکیلات کاخاکہ ہے،تواس کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ ریاست کے منطقی جواز کا مسئلہ 1973 کے متفقہ آئین نے حل کردیا ہے۔اس لیے اب اس پر مزید بحث یا اؤیڈونچرازم قومی یکجہتی کے لیے نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔
گزشتہ اظہاریہ میں بھی ہم نے یہی لکھا تھا کہ 1973 کے آئین پر مذہبی اقلیتوں سمیت مسلمانوں کے تمام فرقے اور مسالک مطمئن تھے، جنھیں جنرل ضیاء الحق کے ایڈونچر نے عدم اطمینان کا شکار کیا ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی خانہ جنگی جیسی کیفیت اورمتشددفرقہ وارانہ آویزش اور غیر مسلم کے ساتھ امتیازی سلوک کا سبب ان کے دور میں نافذ ہونے والے بعض امتیازی قوانین ہیں۔
لہٰذا اس مسئلے پر مزید سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ویسے بھی پارلیمنٹ نے اٹھارویں، انیسویں اور بیسویں ترامیم کے ذریعے آئین کی اصل شکل کو خاصی حد تک بحال کردیا ہے۔اس لیے آئین کے ابتدائیہ میںکسی قسم کا ایڈونچریاردوبدل نئے تنازعات پیدا کرنے کا سبب بن سکتاہے۔جس کا یہ ملک اب متحمل نہیں ہوسکتا۔چنانچہ تمام سیاسی جماعتوں اور قومی اداروںکو آئین کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے سیاسی اورسماجی عمل کو آگے بڑھانا چاہیے۔
جنرل کیانی کی زیر بحث تقریر سے پاکستان میں سیاسی نظام کوبظاہر کوئی بڑا خطرہ محسوس نہیں ہورہا۔بلکہ اہم قومی مسائل پر فوج کا نقطہ نظر سامنے آیا ہے ۔اس لیے جن احباب کے ذہنوں میں یہ خدشہ گردش کررہاہے کہ فوج کسی وقت موجودپارلیمانی نظام کا بوریا بستر لپیٹ دے گی،انھیں جنرل کیانی کی تقریر کے بعدمطمئن ہوجانا چاہیے کہ فوج سیاسی عمل کو جاری رکھنے کی خواہش مند ہے۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ فوج اس وقت قومی سلامتی پیچیدہ مسائل میں گھری ہوئی ہے اوراسے کئی چیلنج درپیش ہیں۔دوسرے بار بار کی فوجی مداخلت نے فوج کی پیشہ ورانہ اہلیت کو متاثر کیا ہے، جس کے اثرات اب نمایاں طورپر سامنے آرہے ہیں۔اس لیے اب وہ کسی قسم کا رومانوی ایڈونچر کرکے اپنے ادارے کے لیے مزید مشکلات پیدا کرنا نہیں چاہتی۔
ہمارے خیال میں جنرل کیانی کی زیر بحث تقریرکوانہی سیاق وسباق میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ سیاسی جماعتوں کو اب کسی غیر سیاسی سیٹ اپ کے قیام کے خوف سے باہر نکل کر پورے اعتماد کے ساتھ اگلے انتخابات کے لیے تیاری میں مصروف ہوجاناچاہیے۔ اگرآیندہ عام انتخابات شفاف اور غیر جانبدارانہ ہوجاتے ہیں،تویقیناًاس سے سیاسی نظام کو مزید تقویت حاصل ہوگی۔اس کے علاوہ مستحکم جمہوریت کے لیے جمہوری اداروں کا استحکام ضروری ہے،جو قومی اداروں کے درمیان اختیارات کے توازن کے بغیر ممکن نہیں۔اس مقصد کے لیے تمام ریاستی اداروں کو ادارہ جاتی تصادم سے گریز کرتے ہوئے آئینی محدودات کے اندر رہتے ہوئے کام کرنے کے لیے خودکو آمادہ کرناہوگا۔ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ پاکستان میں ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کا خاصا پوٹینشیل ہے۔ لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک کہ ملک میں ایک دیرپا اور مستحکم جمہوری سیاسی نظام تشکیل نہیں پاجاتا۔
تصحیح: میرے گزشتہ کالم '' روح کے کرب کا اظہار'' میں یہ فقرہ درج ہوا تھا کہ 2010 سے اب تک 3 ہزار کے قریب ہندو خاندان جیکب آباد، شکارپور، کشمور اور بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بھارت نقل مکانی کرچکے ہیں۔ درحقیقت یہ غیر محتاط تخمینہ مختلف سندھی اخبارات و جرائد کے مطالعے سے سامنے آیا تاہم اس تخمینے میں کم و بیش کا لفظ سہواً رہ گیا۔ قارئین و تجزیہ نگار 3 ہزار کے تخمینے کو حتمی نہ سمجھیں۔