اب ہنسی نہیں آتی

جدید دنیا بدلتی جا رہی ہے۔ اس کا مزاج خاموش، لاتعلق اور سنجیدہ دکھائی دیتا ہے۔ یہ ہماری مشرقی اقدار سے بہت مختلف ہے۔


Shabnam Gul July 03, 2013
[email protected]

جدید دنیا بدلتی جا رہی ہے۔ اس کا مزاج خاموش، لاتعلق اور سنجیدہ دکھائی دیتا ہے۔ یہ ہماری مشرقی اقدار سے بہت مختلف ہے۔ مشرق ہمیشہ سے اخلاقی قدروں کا ترجمان رہا ہے۔ مشرقی تہذیبیں قدیم، بامعنی اور روحانیت سے سرشار ہیں۔ جو باطن کی فہم و فراست سے مرقع ہیں لیکن ایشیاء کے بہت سے ملک اپنے قدیم ورثے اور مزاج کو بھولتے جا رہے ہیں۔ جدیدیت کے رنگ میں رنگی ہوئی یہ قومیں ذہنی سکون و جسمانی استحکام کھوتی جا رہی ہیں۔ جس کی سب سے بڑی وجہ ہے انسان کے مقابلے میں اشیاء سے محبت کرنا اور انسانیت کے سنہری اصولوں سے منہ موڑ لینا۔ منفی رویوں کو اپنا لینا اور روح کی ضرورتوں کو نظرانداز کرنے کی کوشش نے انسان کو لاشعوری طور پر خوشی سے علیحدہ کر دیا ہے۔ ایک غیر محسوس بے چینی و اداسی نے دلوں میں بسیرا کر لیا ہے۔ اب ہر طرف افسردہ چہرے دکھائی دیتے ہیں۔ جو خوش نظر آتے ہیں ان کی مسرت بھی بناوٹ و تصنع سے عاری نہیں دکھائی دیتی۔ نہ جانے کیوں اب ہنسی نہیں آتی!

پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی

اب کسی بات پر نہیں آتی

مسکراہٹ روح کا دریچہ کھول دیتی ہے کھلی فضاؤں کی طرف ہنسی زندہ رہنے کا جواز مہیا کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مزاح وبائی بیماری کی طرح ہے۔ جب مسکراہٹ و ہنسی بانٹی جاتی ہے تو خوشی، قربت، اپنائیت، اعتماد و یکجہتی کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں۔ بچے دن میں 400 مرتبہ مسکراتے ہیں جب کہ بڑے فقط 15 مرتبہ مسکراتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بچوں کی خوشی غیر مشروط ہے۔ مگر ہمارے ملک میں اب اکثریت میں لوگ دن میں ایک مرتبہ بھی نہیں مسکراتے۔ مسکراہٹوں سے کنارہ کش ہو کر وہ اپنی روح کو بوجھل بنا دیتے ہیں بلکہ اردگرد کا ماحول بھی اجنبی دکھائی دیتا ہے۔

ڈاکٹر لی برک نے لوما یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کیلی فورنیا میں دس لوگوں پر تجربہ کیا۔ وہ یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ مزاح جسم و ذہن کی کارکردگی پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ انھوں نے پانچ لوگوں کو ایک گھنٹے کی مزاحیہ فلم دکھائی جو فلم دیکھنے کے دوران ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتے رہے جب کہ باقی پانچ لوگوں کو ایک طرف خاموش بٹھا دیا گیا۔ اس کے بعد تمام افراد کے خون کے ٹیسٹ کیے گئے۔ مزاحیہ فلم دیکھنے والوں کی ذہنی و جسمانی کارکردگی رپورٹ میں فعال دکھائی گئی۔ ہنسنے والے گروپ کے Cortisole (وہ ہارمونز جو ذہنی دباؤ کے وقت پیدا ہوتے ہیں) کم ہو گئے۔ برک نے یہ بھی نتیجہ اخذ کیا کہ کامیڈی دیکھنے کے دوران ان لوگوں کے جسم میں Natural Killer Cells کی تعداد بڑھ گئی جو وائرس اور ٹیومر سیلز پر حملہ آور ہوتے ہیں جب کہ اسٹریس کے دوران یہ خلیے دب جاتے ہیں اور ان کا اخراج نہ ہونے کے باعث جسم بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔

مغرب نے بہت سے روحانی علاج دریافت کیے ہیں تا کہ انسان اپنی ذات کے حصار سے باہر نکل کر زندگی کی خوبصورتی سے محظوظ ہو سکے۔ یہ حقیقت ہے کہ موت کے بعد زندگی محسوس نہیں ہو گی اس لیے جیتی جاگتی زندگی میں فقط زندگی کی بات ہونی چاہیے۔ زندگی رواں دواں ہے ہر لمحہ رنگ بدلتی ہے۔ اگر خزاں دائمی حقیقت نہیں ہے تو بہار بھی کب رکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایشیاء کے قدیم سیانے انسان کو انتشار میں بھی ارتکاز اختیار کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ ایک ایسا ٹھہراؤ جو زندگی کے دکھوں و تلخیوں کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔ بقول ان کے ٹھہراؤ خود آگہی سکھاتا ہے اور زندگی کے دکھ احساس کی مٹی کو نم کر کے ذہن کو زرخیز بناتے ہیں۔ لیکن مادیت پرستی کے سخت حصار میں جکڑے ہوئے آج کے انسان کو زندگی کی مسرتوں سے دور کر دیا ہے۔

آج ہمارے معاشرے میں ہر طرف جو افراتفری و بے ترتیبی نظر آتی ہے وہ برداشت کا ہنر کھونے اور حد سے زیادہ خواہش پرستی کا نتیجہ ہے۔ لیکن تمام تر منفی رویے اپنا کر بھی انسان کو وہ سکون نہیں مل پاتا جس کی اسے ہمیشہ سے تلاش رہی ہے۔ غیر فطری زندگی جو اسے رشتوں و انسانیت کی محبت سے دور لے جاتی ہے، وہی اس کی ذات میں بے سکونی کا نقب لگاتی ہے۔ یورپ و امریکا کے لوگ روحانیت کی طرف واپس لوٹ رہے ہیں۔ کیونکہ مادیت پرستی شخصی عدم استحکام کا سبب بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حادثوں سے بھرپور اس دنیا میں انسان نے خود کو بہتری کی طرف لے جانے کے لیے Laugher Therapy دریافت کی تا کہ انسان کو احساس دلایا جائے کہ ہنسنا اس کی زندگی کی اہم ضرورت ہے، جسے وہ فراموش کر چکا ہے۔ ہنسی میں اس کی بقا کا راز مضمر ہے، کیونکہ ہنسی جسم کے تنے ہوئے مسلز کو پر سکون حالت میں لے کر آتی ہے۔ تھکاوٹ کو رفع کرتی ہے اور خون کے بہاؤ کو رواں دواں رکھتی ہے۔ یہ Immunoglobin کی تعداد بڑھاتی ہے جسم کا جراثیم سے دفاع کرتی ہے۔ ہنسنے کی یہ مشق خون میں سفید خون کے خلیوں میں اضافہ کرتی رہتی ہے جو انسانی صحت کا دفاع کرتے ہیں۔

مسکراہٹ و ہنسی ایک مثبت رویہ ہے۔ ایک بھرپور قہقہہ ذہن و جسم کے بہتر تعلق کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ لوگ جو زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محظوظ ہونا جانتے ہیں ہمیشہ مسکراتے رہتے ہیں اور بعض لوگ زندگی میں بہت سی کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد بھی نہیں مسکراتے، خود رحمی، مسائل کو ذات پر طاری کرنے کی عادت اور تشکر کے احساس سے منہ موڑ لینے کی وجہ سے مسکراہٹیں چہروں سے روٹھ جاتی ہیں۔ اب اکثر گاڑی چلاتے ہوئے مجھے پرسکون اور مسکراتے ہوئے لوگ بہت کم نظر آتے ہیں بلکہ اردگرد کہیں بھی دکھائی نہیں دیتے۔ چہروں پر تفکر، منفی تاثرات، غصہ و تناؤ زیادہ محسوس ہونے لگے ہیں۔ اگر آپ رش میں گاڑی چلا رہے ہیں، آپ کے سامنے گاڑیوں کی قطاریں کھڑی ہیں لیکن پیچھے ایک گاڑی کا مسلسل ہارن سنائی دے گا چہرے پر تیوریاں اور منہ میں کچھ نہ کچھ بڑبڑاتے رہیں گے، یہ حقیقت ہے کہ بہت سے مسائل خود ساختہ ہیں، جو انسانی رویوں کو منتشر رکھتے ہیں اور انسان کے ذہن کا یہ انتشار اسے اپنی ذات میں بالکل تنہا کر دیتا ہے کیونکہ متضاد رویوں کے حامل لوگوں سے دور رہنے میں عافیت نظر آتی ہے۔

حالات کی سنگینی کے پیش نظر ہمارے معاشرتی رویے بے یقینی، عدم تحفظ، اذیت پسندی، جارحیت، خود رحمی اور افسردگی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ جب کہ ہم قناعت اور ذات کی خود اعتمادی سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔ جس کی وجہ سے دکھاوا اور احساس کمتری رویوں سے جھلکنے لگے ہیں جو بے اطمنانی اور غیر یقینی صورت حال کا سبب بن رہے ہیں۔ ہم طنزیہ گفتگو اور غیبت کیے بغیر رہ نہیں سکتے، ہر وقت مسائل کا رونا روتے رہتے ہیں ایک دوسرے کو اور اذیت کے سوا کچھ نہیں دے سکتے، اور ہمارے راستے میں کہیں بھی خود احتسابی کا کوئی اسپیڈ بریکر نہیں آتا اور کچھ نہیں تو فطرت کی زندگی سے خوش رہنے اور مسکرانے کا راز سیکھ لیں۔ اوس کے قطرے جذب کرتے ہی پھول کی تازگی و خوشی قابل دید ہوتی ہے۔ بارش کے بعد درخت کس قدر مستی میں جھومتے ہیں، بالکل اسی طرح ایک اچھے احساس سے خوشی کے لامتناہی سلسلے چل نکلتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں