
پہلی جنریشن کی جنگی حکمت عملی میں جیت کا معیار جسمانی طور پر مضبوط اور بہترین جنگی مہارت کی حامل افرادی قوت پر مشتمل ایک بڑی فوج کو سمجھا جاتا تھا۔ دوسری نسل کی جنگی حکمت عملی میں توپ خانے کا استعمال شروع ہوا، جبکہ تیسری نسل کی جنگی حکمت عملی میں ایک منظم طریقے سے جدید مشینی ہتھیاروں کے ذریعے زمینی، سمندری اور فضائی حملے کرکے دشمن ملک کو تباہ کیا جاتا تھا۔
چوتھی نسل کی جنگی حکمت عملی میں کسی ملک پر براہ راست حملہ کرنے سے پہلے اس ملک کے بنیادی ڈھانچے کو غیرریاستی قوتوں کی مدد سے اندرونی طور پر تباہ کرنے کی حکمت عملی پر عملدرآمد شروع ہوا۔ جس کی ایک مثال عرب ریاستوں کی تباہ حالی ہے۔
مختلف مرحلوں سے گزر کر اس وقت ہم انسانی تاریخ کے سب سے خطرناک جنگی مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں؛ جسے ماہرین ففتھ جنریشن وار فیئر یا پانچویں نسل کی جنگی حکمت عملی قرار دے رہے ہیں۔ یہ جنگی حکمت عملی بنیادی طور پر ایک مجموعی منصوبہ بندی ہے جسے چانکیا، میکاولی، قدیم چینی فلسفیوں کے متعین شدہ قدیم جنگی اصولوں اور جدید جنگی حکمت عملیوں کا مرکب سمجھا جاسکتا ہے۔ اس فلسفے کے تحت اپنی ریاست کو سیاسی، معاشرتی، معاشی، ٹیکنالوجی، خلائی اور انٹرنیٹ سمیت دیگراہم محاذوں پر مضبوط اور دشمن ریاست کو غیر فعال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس موضوع پر ویسے تو ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے، لیکن آئیے سادہ الفاظ میں جائزہ لیتے ہیں کہ اس حوالے سے کسی بھی ریاست کو کن چیلنجز کا سامنا ہوسکتا ہے۔
اس جنگی حکمت عملی کے پہلے مرحلے میں منظم پراپیگنڈا کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے، اور اس کا شکار مقامی آبادی کے دماغ ہوتے ہیں جن میں بے یقینی، خوف، لالچ، ہوس اور نفرت جیسے منفی جذبات پیدا کیے جاتے ہیں۔ جن کے ذریعے غیر ملکی ایجنسیاں مقامی معاشی وسماجی تقسیم یا مسائل کو استعمال کرتے ہوئے بڑی آسانی کے ساتھ عام لوگوں کے درمیان انتشار پیدا کرتی ہیں۔ اس تباہ کن مشن کی کامیابی کا اہم ذریعہ سماجی رابطوں کے نیٹورکس ثابت ہورہے ہیں جہاں صرف ایک منفی پوسٹ کے ذریعے مذہبی، لسانی اور دیگر حساس معاملات پر غیر ضروری بحث شروع کروادی جاتی ہے، جو آہستہ آہستہ تکرار کی شکل اختیار کرجاتی ہے۔ مختلف سوچ رکھنے والے ہزاروں لوگ اس کی حمایت یا مخالفت میں غیر ضروری دلائل دینے لگتے ہیں، جس سے چاہتے نہ چاہتے ہوئے دلوں میں بغض جنم لیتا ہے۔ اس طرح دشمن کی طرف سے محض ایک چھوٹے سے جملے سے بظاہر تھوڑے وقت کے لیے شروع ہونے والی تکرار لوگوں کے درمیان مستقل طور پر ایک دوسرے کے لیے نفرت پیدا کردیتی ہے جو معاشرتی تقسیم کا باعث بن جاتی ہے۔
دوسری جانب اسی تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے عوام کو ان کے اپنے ہی اداروں مثلاً فوج، ایجینسیوں اور دیگر ریاستی اداروں کے خلاف بھڑکاکر اپنے آلہ کار کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
دوسرا اہم محاذ کسی بھی ملک میں سیاسی ومعاشرتی انتشار پیدا کرکے کھولا جاتا ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت مقامی طور پر رونما ہونے والے چھوٹے بڑے واقعات کو استعمال کرتے ہوئے انتشار کو ہوا دی جاتی ہے، یعنی جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا جاتا ہے۔ مثلاً مذہبی احتجاج، حکومت مخالف اپوزیشن تحریک، مہنگائی کے خلاف عوامی مظاہرے اور دیگر واقعات میں بالواسطہ یا خفیہ مداخلت کے ذریعے ریاست اور اس کے اداروں کوغیر فعال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ حکمت عملی اس لیے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے کیوںکہ عام لوگوں کی اکثریت صرف اس لیے استعمال ہوجاتی ہے کیوںکہ انہیں لگتا ہے وہ اپنے حقوق کےلیے لڑ رہے ہیں۔ اس دو دھاری تلوار کے ذریعے یا تو احتجاج کی کامیابی کی صورت میں ریاست کو کمزور کردیا جاتا ہے، یا پھر ناکامی کی وجہ سے لوگوں میں مزید مایوسی پھیلتی ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں معاشرے میں انتشار یا ہیجان پیدا ہوتا ہے۔
تیسری حکمت عملی کے تحت ریاست کی معیشت کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حکومت یا انتظامیہ میں موجود ذاتی مفادات کے پجاری لوگوں کی ہوس یا نااہلی کو استعمال کرکے کرپشن، ملکی مفاد کے منصوبوں میں تاخیر، غیر مانفع بخش منصوبوں میں غیر ضروری سرمایہ کاری، کثیر ملکی و بین الاقوامی قرضوں، تجارتی اور بجٹ خسارے میں اضافے کے ذریعے معیشت کو کھوکھلا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طریقے سے ایک کمزور معیشت والا ملک عالمی معاشی اداروں اور بڑی طاقتوں پر انحصار کرنا شروع کردیتا ہے اور اس کی خارجہ پالیسی بھی بڑی طاقتوں کی مرہون منت ہوجاتی ہے۔
چوتھی حکمت عملی دفاعی نوعیت کی ہے جس میں ریاستیں اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ فضائی، بحری اور بری محاذوں پر استعمال کیے جانے والے ہتھیاروں کو تکنیکی بنیادوں پر دوسرے ممالک کے ہتھیاروں سے بہتر بنایا جاتا ہے۔ جس کی مثال ڈرون ٹیکنالوجی، پانچویں نسل کے جنگی جہاز، ٹینکس، جوہری بحری آبدوزوں کی جدید شکل اور ایسے ہی بے شمار ہتھیار ہیں۔ یہاں تک کہ اب خلا کو بھی بطور محاذ استعمال کیا جانے لگا ہے۔ تکنیکی برتری کی تگ ودو یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ انٹرنیٹ کو بھی جاسوسی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ دشمن ملک کے حساس اداروں کے کمپیوٹرز اور ڈیٹا تک رسائی حاصل کرکے قومی راز چرانے کی کوشش کی جاتی ہے جس کے ذریعے دشمن ملک کو حسب ضرورت اور حسب منشاء نقصان پہنچایا جاتا ہے۔
پاکستان کے تناظر میں نہ صرف قومی دفاعی اداروں کو ان خطرات سے لڑنے کی حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے، بلکہ بطور نوجوان شہری ہم پرلازم ہے کہ ان سب سازشوں سے باخبر رہیں۔ تاکہ ہم دشمن کا آلہ کار بننے سے بچتے ہوئے بھرپور انداز میں ریاست پاکستان کا دفاع کرسکیں؛ اور اس کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔