مشکل فیصلہ
ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار کے پاس ان کے ذاتی خدمت گار کی حیثیت میں فرائض سر انجام دینے والا ایک معصوم اور سیدھا سادہ...
ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار کے پاس ان کے ذاتی خدمت گار کی حیثیت میں فرائض سر انجام دینے والا ایک معصوم اور سیدھا سادہ، دیہاتی، حکومت اور اپنے صاحب کے طفیل چار روزہ سرکاری دورے پر امریکا یاترا کر آیا، واپسی پر بنگلے کے تمام ملازمین نے اُس دیہاتی ملازم کو گھیر لیا اور امریکا کا حال احوال پوچھنے لگے۔ چوکیدار نے پوچھا ''وہاں تو سب لوگ انگریزی بولتے ہوں گے تم نے کہیں اُردو بھی سنی؟'' دیہاتی نے جواب دیا
''سارے گورے کالے وہاں انگریزی ہی بولتے ہیں، بس اذان اردو میں ہوتی ہے، وہاں کی بلیاں اردو میں میاؤں میاؤں کرتی ہیں اور کتے اردو میں بھونکتے ہیں، باقی سب کچھ انگریزی میں ہی ہوتا ہے'' ۔ ''پھر تو تمہیں وہاں زبان کا بڑا مسلئہ پیش آ گیا ہو گا، اس مشکل کا تم نے کیا حل نکالا''؟ خانساماں نے اگلا سوال پوچھا۔ دیہاتی ملازم نے اکڑتے ہوئے سینہ پھلایا اور بولا ''مشکل؟ اور مجھے''؟ پھر قہقہہ لگا کر بولا ''بھائی مشکل تو ان گوروں کے لیے کھڑی ہو گئی تھی، میں تو بڑی روانی کے ساتھ ان سے پنجابی میں بات کرتا پھر رہا تھا۔ وہ میری پنجابی سن پر ہکا بکا رہ جاتے، ایک دوسرے سے انگریزی میں گٹ پٹ کر کے میری بات کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتے مگر میں مسکراتے ہوئے آگے بڑھ جاتا اور کسی دوسرے گورے سے پنجابی میں گفتگو شروع کر دیتا۔ اسی تفریح میں چار روز کدھر گئے؟ مجھے پتہ ہی نہیں چلا''۔ اس ''دانشمند'' دیہاتی نے کتنی آسانی سے اپنی مشکل کو امریکیوں کی مشکل بنا ڈالا تھا؟
اِس فارمولے کو مزید سمجھنے کے لیے آپکو 2013ء کا بجٹ سمجھنا ہو گا۔ پھر آپکی سمجھ میں با آسانی یہ مشکل فارمولا انگوٹھی میں نگینے کی طرح فٹ بیٹھ جائے گا۔ وزیر خزانہ صاحب نے جب یہ فرمایا کہ ''معیشت کے استحکام کے لیے کچھ مشکل فیصلے کرنا پڑے'' تو آپ یقین جانیے یہ فیصلے کرنا، اِن کی منظوری لینا اور اِن کے احکامات جاری کرنا حکومت کے لیے نہایت ہی آسان تھا، جسے وزیر خزانہ صاحب نے مشکل فیصلوں کا نام دے دیا۔ ہاں ان فیصلوں کی وجہ سے عوام کی زندگیاں ضرور مشکلات کا شکار ہو گئیں۔ لیکن بجٹ کو پیش اور منظور کرنے والوں کی زندگیوں پر کسی بھی قسم کی مشکل کا ہرگز کوئی سایہ بھی نہیں پڑے گا۔ کیونکہ ان کے موبائل فونز، گاڑیوں کے پیٹرول، بجلی، گیس کے بلوں اور رہائشی مکانات کا کرایہ یہی عوام اٹھاتے ہیں۔ جن کے معاشی استحکام کے لیے حکومت نے انتہائی غور و فکر کے بعد بادل ناخواستہ یہ مشکل فیصلے کیے کہ بجلی، پیٹرول اور موبائل فون استعمال کرنے پر ان کی جیب سے مزید رقم نکلوائی جائے۔ اب حکومت کی اصل مشکل یہ ہے کہ مشکل فیصلے تو بڑی آسانی سے کر لیے گئے لیکن عوام کو سمجھانے میں حکومت کو جو مشکلات پیش آ رہی ہیں، عوام اسے سمجھنے سے قاصر ہیں۔
2013ء کا بجٹ سننے کے بعد ہمیشہ کی طرح با آسانی یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اس بجٹ سے ''خاص آدمی'' کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ یہ الگ بات کہ حکومت اس معاملے میں اپنی مخصوص اصطلاح کے مطابق خاص کو عام آدمی کہہ کر پکارتی ہے۔ ہمارے ہمزاد حبیب اللہ نے اس بجٹ پر ایک جملے میں کچھ یوں تبصرہ کیا۔ ''اول الذکر آدمی بدستور دندناتا پھرے گا جب کہ موخر الذکر آدمی حسب معمول زندہ درگور ہو جائے گا''۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ '' قوم کی ابتداء میں ہی حجامت بنا کر حکومت نے اپنے آیندہ کے عزائم ظاہر کر دیے ہیں۔ پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آ جاتے ہیں۔ خاص و عام آدمی کی جب ہم نے مزید وضاحت چاہی تو انھوں نے مغموم ہو کر کہا ''جنوں کا نام خرد رکھ دیا، خرد کا جنوں'' حبیب اللہ زلف تراش اپنے آبائی پیشے پر بڑا فخر کرتے ہیں۔ اصلی دائیں ہاتھ کو خیالی میان کی جانب لے جا کر انتہائی پھرتی کے ساتھ خیالی تلوار نکال کر ہوا میں لہراتے ہوئے فرماتے ہیں ''صدیوں سے پیشہ آبا ٔ زلف تراشی رہا ہے۔'' پھر استرا دکھا کر کہتے ہیں ''امتداد زمانہ نے گھِس گھِس کر تلوار کا سائز یہ کر دیا ہے۔
لیکن دھار کی آب و تاب وہی پرانی ہے۔'' پھر اکڑتے ہوئے، اکڑے ہوئے کالر کو جو پہلے ہی کلف کی مار کھا کر کڑکڑا رہا ہوتا ہے، ہا تھ لگا کر مزید اونچا کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ''علامہ صاحب نے بطور خاص ہمارے دادا حضور کے لیے ہی تو فرمایا تھا'' گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر'' ۔ ''ہوش و خرد شکار کر، قلب و نظر شکار کر''۔ بس وہ دن ہے اور آج کا دن ہے قوم کے گیسوؤں کو تابدار سے مزید تابدار بنانے میں جی جان سے جتے ہوئے ہیں۔ دادا جان کے بعد سے یہ معاملہ اب چوتھی پشت تک جا پہنچا ہے۔ گویا ''عمر گزری ہے اِسی دشت کی سیاحی میں''۔ قصہ مختصر کہ اگر اسی طرح کا بجٹ بنا کر حکومتی آمدنی بڑھانی ہے تو خدا کی قسم میں اس سے بھی زیادہ آمدنی بڑھا سکتا ہوں، جتنی اسحاق ڈار صاحب نے بڑھائی ہے۔ انھوں نے سو روپے کا پری پیڈ لوڈ کرنے پر ساڑھے اٹھاون روپے کا بیلنس عوام کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ میں تو اٹھاون روپے پچاس پیسے حکومتی خزانے میں داخل کر کے اکتالیس روپے پچاس پیسے عوام کے لیے چھوڑتا۔ اور اگر انصاف سے کام لیتا تو آدھا عوام کی جیب میں اور آدھا حکومت کے خزانے میں یعنی ففٹی ففٹی کر دیتا اس طرح دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہو جاتا۔ کیونکہ عوام کی اوقات ہی یہی ہے حکمرانوں کی نظر میں۔ ہاں بعد میں وضاحت آئی کہ صرف 25 روپے کا جھٹکا ہے۔
بھئی جب مشکل فیصلے اتنی ہی آسانی سے کرنے ہیں تو منافع بھی خاطر خواہ ہونا چاہیے۔ ہمیں حجامت بنانے کا خاندانی تجربہ بھی حاصل ہے، جس سے ڈار صاحب محروم ہیں، ڈار صاحب کیا جانیں کہ زلف کو کب، کہاں سے اور کتنا تراشنا چاہیے؟ انھوں نے اتنے بے ڈھنگے طریقے سے اوزار چلائے ہیں کہ قوم کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ اگر یہ ناچیز ڈار صاحب کی جگہ ہوتا تو قوم سر جھکا کر ادب سے میرے سامنے بیٹھتی، میں قوم کے گیسوؤں کو نئی آب و تاب بھی دیتا۔ تراش خراش بھی کرتا۔ چمک دمک بھی بڑھاتا یعنی اس طریقے سے حجامت بناتا کہ ایک ہی وار میں قوم کے ہوش اور خرد دونوں بیک وقت شکار ہو جاتے۔ قوم خوش ہو کر معاوضے کے ساتھ ساتھ رضاکارانہ ''ٹپ'' سے بھی نوازتی۔ شکریہ الگ ادا کرتی۔ پھر ڈار صاحب حساب کتاب کر کے دیکھتے، کیونکہ ان کا اصل کام یہی حساب کتاب کرنا تو ہے کہ قومی خزانے میں ساڑھے اٹھاون روپے منتقل ہو چکے ہیں اور عوام کے موبائل فونز ساڑھے اکتالیس روپے پچاس پیسے کا بیلنس دکھا رہے ہیں۔
لیکن عوام خوش اور مطمئن بیٹھے ہیں اِسے کہتے ہیں پیشہ ورانہ اپروچ۔ ورنہ صرف ساڑھے اکتالیس روپے کاٹنے پر عوام یوں واویلا نہ کر رہے ہوتے جیسے ان کا کوئی قریبی عزیز فوت ہو گیا ہو۔ میں ایک مرتبہ پھر اپنی پیشکش دہراتا ہوں، اگر اسی طرح حکومتی آمدنی بڑھا کر ملک چلانا ہے تو میں رضاکارانہ طور پر اپنی دکان بند کر کے یہ ملک چلانے کے لیے تیار ہوں حکومت جب چاہے رابطہ کر سکتی ہے'' ۔ میں نے بجٹ پر اتنا پرمغز، طویل، تاریخی، معاشی اور ادبی تبصرہ سننے کے بعد چپ چاپ ان کی دکان سے نکل کر اپنے گھر لوٹ واپس آنے میں ہی اپنی عافیت جانی جس بجٹ کے تجزیے میں علامہ اقبال اور میر انیس تو خیر سے نہتے ہی سہی، لیکن غالب و جوش تلوار سونت کر اندر گھسے چلے آئیں اسے کوئی معمولی تجزیہ تو کسی بھی صورت نہیں کہا جا سکتا۔ بہرحال چپ چاپ گھر واپس لوٹ آنے کا فیصلہ واقعی ایک مشکل فیصلہ تھا جس پر میں نے با آسانی عمل درآمد کیا اور خیریت سے گھر لوٹ آیا۔