قصاص تمہارے لیے زندگی ہے

سزائے موت کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی 2010 میں 41 کے مقابلے میں 109 ووٹوں کی ...


Adnan Ashraf Advocate July 03, 2013
[email protected]

سزائے موت کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی 2010 میں 41 کے مقابلے میں 109 ووٹوں کی اکثریت رائے سے سزائے موت کو معطل کرنے کی قرارداد کی منظوری دے چکی ہے۔ جس کے لیے بعض ممالک سول سوسائٹی اور این جی اوز مسلسل تگ و دو کررہے ہیں۔ سزائے موت کے خلاف عالمی دن بھی منایا جاتا ہے۔ پچھلے سال اس عالمی دن کی دسویں سالگرہ کے موقع پر اسلام آباد میں 6 یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں دنیا سے سزائے موت ختم کرنے کا مطالبہ دہرایا۔ اس موقعے پر انھوں نے کہاکہ دنیا میں کئی جنگیں ایسی ہیں جو تنہا نہیں جیتی جاسکتیں، ان میں سے ایک سزائے موت کے خاتمے کی جنگ بھی ہے۔ مختلف ممالک میں سزائے موت ختم کرانے کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوسکیں، جہاں آج بھی سزائے موت دی جاتی ہے۔

اسلام آباد میں فرانسیسی سفارت خانے سے جاری کردہ پریس ریلیز میں آسٹریا، فرانس، جرمنی، اٹلی اور سوئٹزرلینڈ کے وزرائے خارجہ نے سزائے موت کے خلاف عالمی دن کے موقعے پر کہا تھا کہ یہ دن ہمیں موقع فراہم کرتا ہے کہ تمام تر حالات کے باوجود سزائے موت کے خلاف جدوجہد تیز کردیں۔ ہمیں اس سزا کے خلاف کوششوں کو ایک آواز اور مربوط کرنا ہوگا تاکہ 21 ویں صدی میں اس کا وجود باقی نہ رہے۔ اس پریس ریلیز میں بتایا گیا تھا کہ گزشتہ 20 سال میں 130 ممالک نے اسے ختم کردیا ہے اور 50 سے زائد ممالک سزائے موت پر عمل نہیں کرتے ہیں۔ تاہم 50 ممالک میں اس سزا پر اب بھی عمل ہورہا ہے۔ مذکورہ ممالک نے سزائے موت کو انسانی وقار کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بعض اوقات سزائے موت امتیازی بنیادوں پر بھی دی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں بے گناہ پھانسی چڑھ جاتے ہیں اور یہ کہ سزائے موت جرائم کی روک تھام میں بھی مددگار ثابت نہیں ہوتی ہے۔

سزائے موت کے خاتمے کے سلسلے میں دیگر ممالک کی طرح پاکستان پر بھی عالمی دبائو ہے اور خاص طور پر توہین رسالت پر سزا یافتہ مجرموں نے تو دنیا بھر کے ممالک، سربراہان اور این جی اوز کی توجہ اور دبائو کا رخ پاکستان کی جانب مبذول کردیا۔ 2008 میں برسر اقتدار آنے کے بعد پی پی پی حکومت نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی 55 ویں سالگرہ کے موقعے پر سزائے موت عمرقید میں تبدیل کرنے اور قیدیوں کی سزا میں 90 دن کی تخفیف کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اس کو محترمہ کے ہمراہ جان کا نذرانہ پیش کرنے والے لوگوں کی طرف سے تحفہ قرار دیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ سزائے موت کو ختم کرنے کے لیے سمری منظوری کے لیے صدر مملکت کو بھیجی جائے گی۔

اسلام آباد میں یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق سزائے موت سے متعلق دنیا کے ممالک کی درجہ بندی کچھ اس طرح کی گئی ہے، پہلی کیٹیگری ان ممالک کی ہے جن میں سزائے موت پر عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ دوسری کیٹیگری ان ممالک کی ہے جہاں سزائے موت تو ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا ہے اور تیسری کیٹیگری ان ممالک کی ہے جہاں سزائے موت کو یکسر ختم کردیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان پہلی کیٹیگری میں تھا جہاں سزائے موت پر عمل درآمد کیا جاتا تھا۔ اس کے صدر مملکت کی طرف سے ایک آرڈیننس کے ذریعے سزائے موت پر عمل درآمد روک دینے سے دوسری کیٹگری میں چلا گیا تھا۔ لیکن 30 جون کو اس کی مدت ختم ہونے سے پھر کیٹیگری ون میں آگیا ہے۔

آرڈیننس کے اجرا سے جن سزا یافتہ مجرموں نے سکھ کا سانس لیا تھا اس کے خاتمے کے ساتھ ہی خوف و بے چینی کا شکار ہوگئے ہیں، جن میں سے اکثر کے ڈیتھ وارنٹ بھی جاری ہوچکے تھے۔ گزشتہ روز سندھ ہائی کورٹ میں دہشت گردی اور قتل وغارت سے متعلق مقدمہ میں داخل کردہ جواب میں ڈپٹی ایڈووکیٹ جنرل نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وفاقی حکومت پھانسی کی سزا پر عمل درآمد سے متعلق موجودہ پالیسی پر نظر ثانی کررہی ہے۔ قانونی اور مذہبی حلقے اس حکومتی موقف کے سخت خلاف ہیں جن کا کہناہے کہ سزا کے بغیر کوئی معاشرہ صحت مندانہ انداز میں ترقی نہیں کرسکتا۔ اگر سزا کا خوف نہیں ہوگا تو جرائم عام ہوجائیں گے۔

سزا کا بنیادی مقصد مجرم کی اصلاح، عبرت عامہ اور متاثرہ شخص کے جذبہ انتقام کی تسکین ہوتا ہے تاکہ مجرم کی اصلاح ہو، معاشرہ عبرت حاصل کرے اور متاثرہ فریق کے جذبہ انتقام کی تسکین بھی ہوسکے تاکہ قانون کو ہاتھ میں لینے، اپنا بدلہ اور انتقام خود لینے کا رجحان پروان نہ چڑھے۔ اگر ہم سزائے موت کے خاتمے کا معاشرتی نقطہ نظر سے جائزہ لیتے ہوئے ان ترقی یافتہ ممالک سے موازنہ کریں جہاں اس کا اطلاق نہیں ہے تو زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ ان ممالک میں قانون موثر، پولیس مستعد و تربیت یافتہ، جیلیں اصلاح خانہ اور آسائشات سے مزین ہیں۔ عوام کو سستا، فوری انصاف، معاشی مساوات، احتساب کا بلا تفریق نظام اور گڈ گورننس موجود ہے جس کی بنا پر وہ جرائم کو کنٹرول کرنے میں بڑی حد تک کامیاب رہتے ہیں لیکن اگر صرف بجلی فیل ہوجائے یا کوئی طوفان آجائے تو ایسے ایسے جرائم ہوجاتے ہیں جن پر عقل حیران ہوجاتی ہے۔ جب کہ ہمارے معاشرے میں نہ قانون موثر ہے نہ پولیس مستعد و آراستہ اور تربیت یافتہ ہے، گڈ گورننس نام کی کوئی چیز نہیں ہے، عدالتوں کا برا حال ہے، جیلیں اصلاح کے بجائے اسلحہ خانے، جرائم پیشہ عناصر کی آرام گاہیں اور پناہ گاہیں اور بے گناہوں کے لیے عقوبت خانہ ہیں۔

کراچی جیسے شہر میں پچھلے 6 ماہ کے دوران ڈیڑھ ہزار افراد قتل کیے گئے، 13 ہزار گاڑیاں اور دس ہزار موبائل فونز چھینے گئے، غیر رجسٹرڈ واقعات کی تعداد ان سے کئی گنا زیادہ ہے، زیادہ تر مجرم و قاتل گرفتار ہی نہیں ہوتے، جو ہوتے ہیں استغاثہ کی کمزوریوں، گواہوں کے خوف سے بری ہوجاتے ہیں، معمولی تعداد میں جرم ثابت ہونے پر عدالتیں مجرموں کو سزائیں سناتی ہیں تو ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا، اسی لیے مجرم بے خوفی سے وارداتیں کرتے ہیں، سب کچھ لوٹ لینے کے بعد بلا سبب قتل بھی کردیتے ہیں۔ ذاتی غصہ اور تکبر کی وجہ سے سرعام قتل کے واقعات عام ہوچکے ہیں۔ دوسری جانب جذبہ انتقام کے تحت مجرموں کو سنگسار کردینا، ان کی لاشیں جلادینا عوامی ردعمل بنتا جارہا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بعض اوقات ایسے مجرموں کو قانون کے حوالے کرنے کے بجائے ماورائے عدالت قتل کردینے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ انھیں یقین نہیں ہوتا کہ مجرم کیفر کردار تک پہنچیںگے۔ اس قسم کے رویوں سے معاشرے میں لاقانونیت وبربریت کا دور دورہ ہوتا ہے، جس کا سامنا آج ہم کررہے ہیں۔ قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ نے واضح طور پر فرما دیا ہے کہ ''قصاص تمہارے لیے زندگی ہے''۔

دنیا میں سزائے موت ختم کرانے اور پاکستان سے اس پر عمل کرنے کا مطالبہ کرنے والے ممالک اپنے مقاصد کی خاطر تو دنیا بھر میں قتل عام کرتے ہیں، پاکستان میں بھی ڈرونز حملوں میں بے گناہوں کی جانیں لیتے ہیں مگر عدالتوں سے سزائے موت پانے والے مجرموں کے لیے انسانی وقار کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ ملک میں تشدد اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے دعویدار حکمران سزائے موت کے خاتمے کی صورت میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت، اغوا برائے تاوان، قتل اور دھماکوں کے مرتکب افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے کونسا قانونی طریقہ استعمال کریںگے؟ لہٰذا حکومت کو کوئی ایسی ترمیم لانے سے قبل اپنے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے مضمرات کا بغور جائزہ لے لینا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں