بائیں بازو کے سیاسی ابہام اور امکان

کسی نسل کا سیاسی المیہ اس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ اُسے اپنے حصے میں کوئی بھرپور تحریک تو نہ ملی ہو...


عابد میر July 03, 2013
[email protected]

کسی نسل کا سیاسی المیہ اس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ اُسے اپنے حصے میں کوئی بھرپور تحریک تو نہ ملی ہو لیکن اپنے بزرگوں کی ناکامیوں کا بوجھ بھی اسے اپنے کندھوں پر اٹھانا پڑے... پاکستان میں بائیں بازو کے نظریات سے وابستہ نئی نسل اس المیے کا شکار ہی نہیں، 'شہکار' بھی ہے۔ پاکستان جیسے بنیاد پرست معاشرے میں بائیں بازو کے سیاسی نظریات سے وابستگی ہی 'کارِ منصور' سے کم نہیں، ایسے میں اُس کی تنظیم سازی اور سیاسی عمل میں بامعنی شرکت جیسی سرگرمیوں کے لیے بہرحال ہر قسم کی تنقید و طعنوں کو سننے کے واسطے ایک پتھر جیسا دل اور مصائب سہنے کو پہاڑ جیسا حوصلہ تو چاہیے۔ وہ احباب جنہوں نے اس ساری صورت حال میں تمام تر اختلافات کے باوجود، دو تین تنظیموں کے انضمام سے پاکستان میں ایک بار پھر بائیں بازو کی ایک سرگرم سیاسی جماعت کے قیام کی جانب پیش رفت کی کوشش کی ہے، ان کا حوصلہ قابلِ تحسین اور کاوش بہرحال قابلِ رشک تو ہے۔

پھر ان حالات میں کوئٹہ تک اس کی تنظیم سازی کا کشٹ اٹھانا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس ٹیم کے کوئٹہ میں دو، تین روز کے قیام کے دوران ہونے والے مختلف مباحث میں پائے گئے کنفیوژن یا ابہام، اس کالم کا بنیادی موضوع ہیں۔ ماضی کی نسبت ہماری توجہ حال اور مستقبل کے امکانات پر ہو گی۔ نیز بلوچستان میں بائیں بازو کے سیاسی امکانات بھی ہماری بحث کا حصہ ہوں گے۔

پہلی بات تو یہ کہ کسی نکتہ نظر میں ابہام کا پایا جانا از خود کوئی خرابی نہیں، خرابی اسے ابہام نہ ماننے اور اُس کے درست ہونے پر اصرار کرنے میں ہے۔ پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست سے وابستہ احباب (نجی سطح پر نہیں، پارٹی کی سطح پر) قومی مسئلے پر کوئی ایک حتمی رائے قائم نہیں کر پائے۔ ممکن ہے اس کی ایک وجہ پارٹی کا یکجا نہ ہونا بھی ہو۔ فرقہ واریت مذہب جیسی قوت کو متحد نہیں ہونے دیتی، اس بدعت کے ہوتے ہوئے سیاسی جماعتوں کی یکجائی کیوں کر ممکن ہے۔ لیکن بہرحال اسے جواز بنا کر اس اہم معاملے سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ ماضی میں قوموں کے تشخص کی بات تو کی جاتی رہی، لیکن بھٹو جیسے سوشلزم کے داعی کی سربراہی میں بزنجو جیسے سوشلسٹ بھی آئین سازی میں حصے داری کے باوجود اس معاملے کو آئین کا حصہ نہ بنا سکے۔ اور یہی وہ نکتہ تھا جو سوشلسٹ خیال کے حامی بلوچستان کے واحد سردار، خیر بخش مری کی ان سے سیاسی علیحدگی کا باعث بنا۔ انھوں نے اس آئین پر دستخط کرنے سے انکار کر کے خود کو اس داغ سے بچا لیا۔

لیکن اب جب کہ پاکستان میں قومی مسئلہ تشخص اور شناخت سے بڑھ کر قوموں کے حقِ خود اختیاری، حقِ علیحدگی اور جغرافیائی تبدیلیوں تک جا پہنچا ہے، ایسے میں لیفٹ کی قیادت کی سوئی اُنیس سو چالیس کی قرارداد پہ اٹکی ہوئی ہے، جس کا مطالبہ بلوچستان کے 'منچلے وزیراعلیٰ' نواب اسلم رئیسانی بھی اپنی وزارتِ اعلیٰ کے دوران بارہا دہراتے رہے۔ یہ طرزِ فکر ظاہر کرتا ہے کہ لیفٹ کی پرانی قیادت اپنے پرانے فریم ورک سے نکلنے کو تیار نہیں۔ اُنیسویں صدی کی آخری دہائی اور اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے دوران دنیا تیز رو سیاسی تبدیلیوں سے گزر چکی۔ عالمی سیاست سے لے کر مقامی سیاست کے معاملات یکسر تبدیل ہو کر رہ گئے ہیں، ایسے میں سن ستر اور اَسی کی دہائی کے موقف کے ساتھ سیاسی عمل کیسے بامعنی قرار پا سکتا ہے۔ لیفٹ کی پرانی قیادت کو یہ ادراک کر لینا چاہیے کہ یا تو وہ نئے سیاسی منظر نامے کو سمجھنے میں ناکام ہیں یا پھر نئی نسل کو اپنا موقف سمجھانے میں ناکام ہیں۔ ہر دو صورتوں میں انھیں اپنے رویے اور حکمتِ عملی پہ نظر ثانی کی ضرورت ہو گی۔

ماضی میں بائیں بازو کی سیاست پاکستان کے تمام حصوں میں یکساں صورت میں کی گئی، ایک ہی حکمتِ عملی اور ایک ہی نکتہ نظر کے ساتھ۔ یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ موجودہ صورت حال میں کم از کم ایسا ممکن نہیں۔ پنجاب کے موجودہ سیاسی تضادات خیبرپختونخوا سے، پختونخوا کے سندھ سے، سندھ کے بلوچستان سے یکسر مختلف ہیں۔ اس لیے ان سے متعلق موقف بھی مختلف ہو گا نیز ان سے کھیلنے کی حکمتِ عملی بھی مختلف ہو گی۔ اس بنیادی نقطے پر اتفاق کیے بنا آگے بڑھنا شاید ہی ممکن ہو۔

ماضی کا ایک بڑا المیہ یہ رہا کہ نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر (حتیٰ کہ نجی اختلاف کی بنیاد پر بھی) پارٹی ٹوٹ کر گروہوں، فرقوں، مسلکوں اور پھر ذاتی دوستیوں کے سرکلز تک محدود ہوتی چلی گئی۔ یہ بجا کہ اختلاف نظریاتی لوگوں میں ہی ہوتا ہے، غیر نظریاتی لوگ تو مفادات کے لیے کہیں بھی اتفاق کر لیتے ہیں، لیکن اب جب کہ 'بنیادی مرکز' ہی نہ رہا تو کیا یہ ممکن نہیں کہ ایک عظیم مقصد کی تکمیل کے لیے چھوٹے موٹے گروہی اختلافات کو کچھ عرصے کے لیے بالائے طاق رکھ دیا جائے۔ اس سے یہ مراد ہر گز نہیں کہ اختلافات پہ کوئی بات ہی نہ کی جائے یا انھیں دبا دیا جائے۔ لیکن اگر یہ اختلاف ایک ڈسپلن کے اندر رہ کر ہوں تو کیا مضائقہ ہے۔ آخر پارٹیوں کے اندر بھی تو اختلافات ہوتے ہیں۔ لیکن اس کارِ خیر کے لیے بھی تنظیم سازی کی ذمے داری لینے والے احباب کو ہی آگے بڑھنا ہو گا۔ پرانے کامریڈوں کی انا پھول کر اس قدر کپا ہو چکی ہے کہ اب اُس کے سامنے کھڑا ہونا ہی مشکل ہے، اس لیے یہ توانائی نئی پود پہ خرچ کرنا شاید زیادہ مناسب ہو۔

اختلافی نکات میں شاید سب سے اہم بات یہی ہو کہ اسٹیٹس کو کے موجودہ استحصالی نظام کے اندر رہتے ہوئے بھلا کس قسم کی تبدیلی ممکن ہے؟ یہ بلاشبہ اہم سوال ہے، لیکن اس کا تعلق حکمت ِعملی سے ہے، اس لیے اس پر بحث ہو سکتی ہے، لیکن اسے جواز بنا کر بائیں بازو کی سیاسی پارٹی کے امکان کو یکسر رد نہیں کیا جا سکتا۔ جب بین الاقوامی اور مقامی حالات آپ کے حق میں سازگار نہ ہوں تو آپ بیٹھ کر انقلاب کا انتظار نہیں کر سکتے۔ اور اگر محض بحث و مباحثے سے انقلاب تو رہا ایک طرف، کیڈر سازی ہی ممکن ہوتی تو آج لیفٹ کے پاس ایک خاطر خواہ عوامی قوت موجود ہوتی، کہ گزشتہ بیس برسوں میں نشر و اشاعت اور دیگر فورمز پہ بائیں بازو کی سیاسی ناکامیوں سمیت مستقبل کے امکانات پہ مسلسل مباحث ہوتے رہے ہیں۔ اس لیے اب ضرورت عملی شرکت کی ہے۔ اور یہ ہمت بھی نئی پود کو ہی کرنا ہو گا۔ ماضی کی ناکامیوں کے دشنام سہنے ہوں گے، بزرگوں کا کیا دھرا اپنے سر لینا ہو گا کہ بہرحال انھی کے طفیل آج ایک شدت پسند معاشرے میں ہم انتہاپسندی کے خلاف ایک محاذ پہ کھڑے ہونے کے قابل تو ہیں۔ سیاست میں کامیابیوں کی طرح ناکامیاں بھی مستقل نہیں ہوا کرتیں، بشرطیکہ ان کا ادراک کرتے ہوئے معروض کے پیش نظر درست سیاسی حکمت ِعملی کا تعین کیا جائے۔

بلوچستان میں بائیں بازو کے سیاسی امکانات پہ ہم آیندہ نشست میں بات کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں