اقتصادی بریک تھرو قوم کی ضرورت

ایک دو ڈیم نہیں لاتعداد آبی ذخائر جگہ جگہ تعمیر ہونے چاہئیں، اگر قوم کا درد کسی کے دل میں ہے


Editorial December 12, 2018
ایک دو ڈیم نہیں لاتعداد آبی ذخائر جگہ جگہ تعمیر ہونے چاہئیں، اگر قوم کا درد کسی کے دل میں ہے (فوٹو: فائل)

ملکی معاشی اور سیاسی صورتحال چیلنجوں سے نبرد آزمائی کے اعصاب شکن مراحل میں ہے، حکومت ملک کو اقتصادی ، سماجی اور سیاسی استحکام دینے کے لیے درست سمت میں سفر جاری رکھنے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے، معاشی اشاریے حزب اختلاف اور حزب اقتدار کی تمناؤں اور خواہشات کے برعکس ایک دلچسپ و ہولناک کشمش کے گرداب سے نکلنے کو بے چین دکھائی دیتے ہیں ، اقتصادی بریک تھرو قوم کی ضرورت ہے اور اسی قدر موثر ، نتیجہ خیز ، فیصلہ کن ، دلیرانہ اور جارحانہ عملی اقدامات کے ذریعے حکومت کو اپنے معاشی روڈ میپ کا تعین بھی کرنا ہے تاکہ قوم کو مطمئن کیا جاسکے، بلاشبہ معاشی جست اور ہمہ جہت کامیابی کے لیے حکومت کے معاشی مشیروں کو ناقابل یقین دباؤ کا سامنا ہے۔

تاہم یہ خوش آیند اطلاع ہے کہ وزیراعظم سے کیپیٹل مارکیٹ کے نمایندوں اور اسٹاک بروکرز کی ملاقات میں مارکیٹ کی بہتری کے لیے تجاویز پر عمل درآمد کی یقین دہانی کے مثبت اثرات پیر کو مرتب ہوئے اور پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں تیزی کی بڑی لہر رونما ہوئی جس سے انڈیکس کی 39200 پوائنٹس کی نفسیاتی حد ایک بارپھر بحال ہوگئی۔ تیزی کے سبب65فیصد حصص کی قیمتیں بڑھ گئیں جب کہ حصص کی مالیت میں 1 کھرب 24 ارب 19 کروڑ 8لاکھ59 ہزار56 روپے کا اضافہ ہوگیا۔مگر اقتصادی سفر کی جزوی تکمیل اور منزل تک پہنچنے کی امنگ سیاسی اتفاق رائے اور سیاسی خیر سگالی کے قیام کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کے لیے پارلیمنٹ میں ہونے والی گفتگو کارروائی، سنجیدہ قانون سازی اور سیاسی رواداری کے افسوس ناک منظر نامے کی گراوٹ کے سدباب میں چشم پوشی غیر دانشمندانہ غفلت شمار ہوگی، ملکی سیاسی اور معاشی حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ سیاسی قائدین اور منتخب اراکین پارلیمنٹ میں تدبر، صبر وتحمل، مفاہمانہ جذبات اور جمہوری اسپرٹ کا شعلہ بجھنے نہ پائے، ہر جمہوری فورم پر قومی انداز فکر کی ترجمانی ہونی چاہیے، سیاست عبادت و خدمت ہے ، سیاست کا بنیادی اخلاقی مطالبہ غیر مشروط اور خندہ پیشانی کے ساتھ شروع ہونے والا سیاسی مکالمہ ہے۔

حکومت اور اپوزیشن ملکی معاملات،تنازعات اور اہم امور پر میڈیا پر سارا وقت برباد نہ کرے، اسے پارلیمنٹ کی حرمت ، جمہوریت اور قومی امنگوں کی ترجمانی کے لیے اسے اپنا حقیقی فورم بنانا ہوگا، اسی سے پارلیمنٹ کی بالادستی کا بھرم قائم ہو گا، مگر سوچیے کیا معاشی اور سیاسی استحکام کے لیے ہم پارلیمنٹ کی ویسی توقیر کررہے ہیں۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں اپوزیشن قائد شہباز شریف کی آمد پر نعرے لگانے کے معاملے پر ن لیگ اور پی ٹی آئی ارکان کے مابین افسوس ناک گرما گرمی ہوئی ، پیر کو قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں شروع ہی تلخ جملوں کے استعمال سے ہوا ، جمہوری قدریں اشکبار ہوئیں۔ تاہم اسپیکر نے پی ٹی آئی رکن راجہ ریاض سمیت ارکان کو آخری وارننگ دیتے ہوئے نازیبا الفاظ حذف کردیے، ایک دل گرفتہ کردینے والی اطلاع کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک دوسرے پر انڈے مارنے کا ممکنہ منصوبہ بھی ناکام بنادیا گیا۔

میڈیا کے مطابق گیٹ پر مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے دو ارکان سے درجنوں انڈے برآمد کیے گئے،پولیس نے انڈے دونوں ارکان اسمبلی کی گاڑیوں سے برآمد کیے، ادھر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف و مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف کے لیے سب جیل قرار دی جانے والی منسٹر انکلیوکی رہائش گاہ پر سینٹرل جیل اڈیالہ راولپنڈی سے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ محمد کامران کی سربراہی میں محکمہ جیل خانہ جات کے چار اہلکاروںکو تعینات کیا گیا۔حکومت قائد حزب اختلاف کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کا چیئرمین بنانے پر کسی طور تیار نہیں جب کہ یہ آئینی نکتہ ہے، اراکین پارلیمنٹ ، وزیراعظم اور ان کی پوری ٹیم کو دیکھنا چاہیے کہ برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کا اپنی پارلیمنٹ میں کیا سلجھا ہوا انداز گفتگو اور سوال جواب کا کس قدر سنجیدہ پارلیمانی معیار ہے ، آج پارلیمنٹ میں بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ کی جانے تھی جسے تھریسامے نے ملتوی کردیا کیونکہ تھریسا مے کو ایسے خدشات تھے کہ پارلیمانی اراکین کی اکثریت اس معاہدے کی مخالفت میں ووٹ دے گی جب کہ ایڈوائزر اور وزرا کی جانب سے تھریسامے کو یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ پارلیمنٹ میں ہونے والی ووٹنگ کو منسوخ کردیا جائے جس میں انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

کیا یہ بردباری اور ڈسپلن ہماری پارلیمنٹ کا تفاخر نہیں بن سکتی؟ سیاست دان ادراک کریں کہ ملک کو ہمہ جہتی چیلنجزدرپیش ہیں،وفاقی وزیرقانون وانصاف بیرسٹرفروغ نسیم نے کہا کہ عالمی برادری کوسندھ طاس معاہدے پر عمل درآمدکے لیے اپناکردارادا کرنا چاہیے، سینٹرفارگلوبل اسٹرٹیجک اسٹڈیزکے زیر اہتمام ''پانی اور برصغیر میں مستقبل میں جنگ اور امن'' کے موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ بھارت جہلم اور چناب کے پانی پرڈیمز بنانے کا ارادہ رکھتا ہے جو ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت اپنی آبی جارحیت پر کمربستہ ہے۔اس طرف حکومت کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے، عالمی بینک سے رجوع کرنے میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ معاشی معاملات تاحال گھمبیر ہیں، قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد شیر پاؤکا کہنا ہے کہ موجودہ اقتصادی صورتحال ملک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، کرتارپور سرحد کھلنا اچھی بات ہے مگر افغانستان کے ساتھ تعلقات پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دنیا گلوبل ولیج ہے، اہل وطن کسی جزیرہ میں نہیں رہتے ، پوری دنیا مین خلفشار اور نا آسودگی کی چنگاریاں سلگ رہی ہیں، فرانس کی آج کیا حالت ہے، کیا فرانس میں عوامی احتجاج ہمارے ارباب اختیار کی نظروں سے اوجھل ہے؟ ہمارے حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ دنیا کے مضبوط ومستحکم سماجی، تہذیبی اور معاشی نظام لرزہ براندام ہیں، کوئی تو وجہ ہوگی۔

چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ بلوچستان ہائیکورٹ بار اورکوئٹہ بار کے ظہرانے سے خطاب میں انھوں نے کہا ڈیم بنانا وقت کی ضرورت ہے، ڈیم نہ بنے تو آیندہ 7سال میں ملک میں پانی نایاب ہو جائے گا۔ یہ صدائے بر حق ہے، ایک دو ڈیم نہیں لاتعداد آبی ذخائر جگہ جگہ تعمیر ہونے چاہئیں ،اگر قوم کا درد کسی کے دل میں ہے۔

ادھر پاکستان اور چین نے سی پیک کو پاکستانی قیادت کے وژن کی روشنی میں تعاون کے نئے شعبوں تک وسعت دینے پر اتفاق اور جاری منصوبہ جات کو مکمل کرنیکا عزم ظاہر کیا ہے۔ پیر کو وزارت خارجہ میں پاکستان اور چین کے درمیان سیاسی مشاورت کا پہلا دور منعقد ہوا۔ پاکستان کی جانب سے اس امر کا اظہار کیا گیا کہ سی پیک حکومت کی قومی ترجیح ہے اور پاکستان اس کے کامیاب نفاذ کے لیے بدستور پرعزم ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی زیرصدارت منعقد ہونے والے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ سی پیک کی جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کے چین میں منعقد ہونے والے اجلاس کی تیاری کے لیے اسلام آباد میں منعقد ہونے والے جوائنٹ ورکنگ گروپ کے اجلاس میں مغربی روٹ کے منصوبے شامل کرنے کے لیے مضبوط موقف اپنایا جائے گا اور سی پیک میں صوبے کی سماجی ترقی کے لیے نئے منصوبے پیش کیے جائیں گے، تاہم ایک انگریزی معاصر نے سی پیک پر بلوچستان کابینہ کی حیرت ناکی کی ایک غیر متوقع رپورٹ دی ہے، اس کو مرکز نگاہ بنانے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں