پنجاب پولیس میں اصلاحات کا نعرہ
ایسا لگ رہا ہے کہ پنجاب میں پولیس اصلاحات کا جنازہ دھوم سے نکل رہا ہے
FAISALABAD:
پنجاب پولیس میں گلو بٹ کلچر کا خاتمہ اور پولیس ریفارمز تحریک انصاف بالخصوص عمران خان کا انتخابی نعرہ تھا۔ عمران خان نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں بھی پنجاب پولیس میں ریفارمز پر بات کی تھی۔ وعدے کیے گئے تھے۔ ایک امید تھی کہ تحریک انصاف کی حکومت اور کچھ کر سکے یا نہ کر سکے لیکن پولیس میں اصلاحات ضرور کرے گی۔
میری ذاتی رائے بھی یہی تھی کہ پہلے سو دن میں عوام کو مطمئن کرنے کے لیے پولیس ریفارمز کی جا سکتی ہیں۔ اگر پولیس میں اصلاحات کامیاب ہو جاتی ہیں تو تحریک انصاف کی حکومت کا فی حد تک عوام میں تبدیلی کی امید قائم رکھنے میں کا میاب ہو جائے گی۔ لیکن پولیس ریفارمز میں تحریک انصاف کے سپر اسٹار ناصر درانی ابتدائی دنوں میں ہی کلین بولڈ ہو گئے۔
پولیس اصلاحات کے لیے لگائے جانے والے پنجاب کے آئی جی طاہر خان بھی بولڈ ہو گئے۔ ان دونوں کے بولڈ ہونے کے بعد سب کی رائے تھی کہ اب پولیس میں اصلاحات قصہ پارینہ بن جائیں گی۔ لیکن میرا خیال تھا کہ ناصر درانی اور طاہر خان پہلے دن سے غلط چوائس تھے۔ انھیں پنجاب اور کے پی کا فرق ہی معلوم نہیں تھا۔ کے پی اور پنجاب کے سیاسی کلچر اور پولیس کلچر میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
پنجاب پولیس اور کے پی کے کام کرنے کے انداز اور کام کی نوعیت میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس لیے ناصر درانی نے بے شک کے پی میں شاندار کام کیا ہو۔ حالانکہ اس ضمن میں بھی تحفظات موجود ہیں کہ کام شاندار نہیں تھا اس کی تشہیر شاندار تھی۔ لیکن پھر بھی ناصر درانی کے پی کی اصلاحات پنجاب میں نافذ نہیں کر سکتے۔ اس ضمن میں پنجاب کو ایک ایسے آئی جی کی ضرورت ہے جو پنجاب پولیس کو اس کے کام کرنے کے انداز کو اور اس کو اچھی طرح سمجھتا ہو۔ جس نے گزشتہ دس سال میں پنجاب میں کام کیا ہو۔ جو دس سال پنجاب سے دور ہے۔ جس نے پنجاب میں کام ہی نہیں کیا اسے پنجاب کا کیا پتہ۔
بہر حال آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی کے آئی جی بننے پر میں نے بھی لکھا تھا کہ وہ بہتر ہوںگے۔ حالانکہ امجد جاوید سلیمی کے آئی جی بننے پر بہت شور مچایا گیا تھا۔ دوست لکھ رہے تھے کہ ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ لیکن ایسی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں اور امجد جاوید سلیمی پنجاب کے آئی جی بن گئے۔ میری ذاتی رائے میں یہ تبدیلی مثبت تھی۔ مجھے امیدہے کہ امجد جاوید سلیمی پنجاب پولیس اصلاحات کا بوجھ اٹھا لیں گے۔ زیادہ نہ کچھ کر سکیں لیکن کچھ نہ کچھ کر دکھائیں گے ۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پنجاب میں پولیس اصلاحات پر کافی کام ہو بھی چکا ہے۔ پنجاب کے سا بق آئی جی مشتاق سکھیرا اس ضمن میں کافی کام کر کے گئے ہیں۔ لیکن شہباز شریف پنجاب پولیس کے اس کام کو سیاسی آشیر باد دینے کے لیے تیار ہی نہیں تھے۔ وہ خود ہر وقت پنجاب پولیس سے نالاں رہتے تھے۔
اس لیے موجودہ حکومت کے دور میںپنجاب پولیس کی انھی اصلاحات کوہی دوبارہ مارکیٹ کیا جا سکتا تھا۔ لیکن ایسا بھی نہیں کیا گیا۔اصلاحات کی بجاے پنجاب پولیس میں تبادلوں اور ترقیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ بس ہر وقت تقرر تبادلے اور ترقیاں ہی ہو رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اب تک دو سو ستر سے زائد تبادلے ہوچکے ہیں۔ سو سے زائد افسران کو ترقیاں دی گئی ہیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ تقرر تبادلوں اور ترقیوں کو ہی پنجاب پولیس میں اصلاحات سمجھ لیا گیا ہے۔ میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ یہ حکومت وقت کا اختیار ہونا چاہیے کہ وہ کس افسر کہاں لگائے۔حکومت اگر مرضی کے افسر نہیں لگا سکتی تو کس بات کی حکومت ہے۔ لیکن دوسری طرف حکومت وقت کو بھی تقرر تبادلوں کو مذاق نہیں بنا لینا چاہیے۔گڈ گورننس کے لیے اس اختیار میں بیلنس قائم رکھنا ناگزیر ہے۔
یہاں یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ آئی جی آفس سے تبادلوں اور تقریوں کا یہ کام ڈی آئی جی ہیڈکواٹر کرتا ہے۔ ہر آئی جی اپنے سب سے قابل اعتماد افسر کو ہی ڈی آئی جی ہیڈ کواٹر تعینات کرتا ہے۔ عموی طور پر ڈی آئی جی ہیڈکواٹر پر سنیئر ڈی آئی جی کو لگایا جاتا ہے۔ لیکن اب ایک جونیئر افسر بابر بخت کو یہ عہدہ دیا گیا۔ بہر حال ایک آئی جی کو اپنی مرضی کی ٹیم بنانے کی اجازت ہونی چاہیے۔ تب ہی وہ کوئی کام کر کے دکھا سکے گا۔
لیکن اب نیا سوال پیدا ہوگیا ہے۔ ایک ڈی آئی جی ہیڈکواٹر جس نے خاصی تعداد میں تبادلے اور ترقیاں کر دی ہیں۔ یک دم راتوں رات اسے بھی پنجاب سے سرنڈر کر دیا گیا ہے۔ ہر کوئی سوال کر رہا ہے کہ کیا ہوا ہے۔ اسی طرح سہیل سکھیرا کو بھی پنجاب بدر کرنے سے مزید سوالات اور شکوک و شبہات پیدا کیے ہیں۔
عوام تھانہ کلچر میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ لوگ تھانوں میں سفارش کلچر کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے کلچر کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ لوگ پولیس کو عوام دوست دیکھنا چاہتے ہیں۔ پولیس میں رشوت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ تفتیش کے نظام کو بہتر کرنے کے خواہاں ہیں۔ تھانوں میں بے گناہوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ رکنا چاہیے۔ جھوٹی ایف آئی آر کا اندراج روکنا چاہتے ہیں۔ بے گناہوں کی تذلیل روکنا چاہتے ہیں۔ ڈکیتی کے مال کی واپسی چاہتے ہیں۔ پولیس کے رویہ میں تبدیلی چاہتے ہیں۔
تھانوں میں فرنٹ ڈیسک بنائے گئے تھے لیکن وہ سلسلہ بھی رک گیا ہے۔ اصلاحات کو روک دیا گیا ہے۔ کیوں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پنجاب میں پولیس اصلاحات کا جنازہ دھوم سے نکل رہا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ ان اصلاحات پر کوئی بڑی رقم بھی خرچ نہیں ہونی ہے۔ ملک کے معاشی بحران سے بھی اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ چند بنیادی نوعیت کے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن کوئی وہ بھی کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ کیوں؟
پنجاب پولیس میں گلو بٹ کلچر کا خاتمہ اور پولیس ریفارمز تحریک انصاف بالخصوص عمران خان کا انتخابی نعرہ تھا۔ عمران خان نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں بھی پنجاب پولیس میں ریفارمز پر بات کی تھی۔ وعدے کیے گئے تھے۔ ایک امید تھی کہ تحریک انصاف کی حکومت اور کچھ کر سکے یا نہ کر سکے لیکن پولیس میں اصلاحات ضرور کرے گی۔
میری ذاتی رائے بھی یہی تھی کہ پہلے سو دن میں عوام کو مطمئن کرنے کے لیے پولیس ریفارمز کی جا سکتی ہیں۔ اگر پولیس میں اصلاحات کامیاب ہو جاتی ہیں تو تحریک انصاف کی حکومت کا فی حد تک عوام میں تبدیلی کی امید قائم رکھنے میں کا میاب ہو جائے گی۔ لیکن پولیس ریفارمز میں تحریک انصاف کے سپر اسٹار ناصر درانی ابتدائی دنوں میں ہی کلین بولڈ ہو گئے۔
پولیس اصلاحات کے لیے لگائے جانے والے پنجاب کے آئی جی طاہر خان بھی بولڈ ہو گئے۔ ان دونوں کے بولڈ ہونے کے بعد سب کی رائے تھی کہ اب پولیس میں اصلاحات قصہ پارینہ بن جائیں گی۔ لیکن میرا خیال تھا کہ ناصر درانی اور طاہر خان پہلے دن سے غلط چوائس تھے۔ انھیں پنجاب اور کے پی کا فرق ہی معلوم نہیں تھا۔ کے پی اور پنجاب کے سیاسی کلچر اور پولیس کلچر میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
پنجاب پولیس اور کے پی کے کام کرنے کے انداز اور کام کی نوعیت میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس لیے ناصر درانی نے بے شک کے پی میں شاندار کام کیا ہو۔ حالانکہ اس ضمن میں بھی تحفظات موجود ہیں کہ کام شاندار نہیں تھا اس کی تشہیر شاندار تھی۔ لیکن پھر بھی ناصر درانی کے پی کی اصلاحات پنجاب میں نافذ نہیں کر سکتے۔ اس ضمن میں پنجاب کو ایک ایسے آئی جی کی ضرورت ہے جو پنجاب پولیس کو اس کے کام کرنے کے انداز کو اور اس کو اچھی طرح سمجھتا ہو۔ جس نے گزشتہ دس سال میں پنجاب میں کام کیا ہو۔ جو دس سال پنجاب سے دور ہے۔ جس نے پنجاب میں کام ہی نہیں کیا اسے پنجاب کا کیا پتہ۔
بہر حال آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی کے آئی جی بننے پر میں نے بھی لکھا تھا کہ وہ بہتر ہوںگے۔ حالانکہ امجد جاوید سلیمی کے آئی جی بننے پر بہت شور مچایا گیا تھا۔ دوست لکھ رہے تھے کہ ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ لیکن ایسی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں اور امجد جاوید سلیمی پنجاب کے آئی جی بن گئے۔ میری ذاتی رائے میں یہ تبدیلی مثبت تھی۔ مجھے امیدہے کہ امجد جاوید سلیمی پنجاب پولیس اصلاحات کا بوجھ اٹھا لیں گے۔ زیادہ نہ کچھ کر سکیں لیکن کچھ نہ کچھ کر دکھائیں گے ۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پنجاب میں پولیس اصلاحات پر کافی کام ہو بھی چکا ہے۔ پنجاب کے سا بق آئی جی مشتاق سکھیرا اس ضمن میں کافی کام کر کے گئے ہیں۔ لیکن شہباز شریف پنجاب پولیس کے اس کام کو سیاسی آشیر باد دینے کے لیے تیار ہی نہیں تھے۔ وہ خود ہر وقت پنجاب پولیس سے نالاں رہتے تھے۔
اس لیے موجودہ حکومت کے دور میںپنجاب پولیس کی انھی اصلاحات کوہی دوبارہ مارکیٹ کیا جا سکتا تھا۔ لیکن ایسا بھی نہیں کیا گیا۔اصلاحات کی بجاے پنجاب پولیس میں تبادلوں اور ترقیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ بس ہر وقت تقرر تبادلے اور ترقیاں ہی ہو رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اب تک دو سو ستر سے زائد تبادلے ہوچکے ہیں۔ سو سے زائد افسران کو ترقیاں دی گئی ہیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ تقرر تبادلوں اور ترقیوں کو ہی پنجاب پولیس میں اصلاحات سمجھ لیا گیا ہے۔ میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ یہ حکومت وقت کا اختیار ہونا چاہیے کہ وہ کس افسر کہاں لگائے۔حکومت اگر مرضی کے افسر نہیں لگا سکتی تو کس بات کی حکومت ہے۔ لیکن دوسری طرف حکومت وقت کو بھی تقرر تبادلوں کو مذاق نہیں بنا لینا چاہیے۔گڈ گورننس کے لیے اس اختیار میں بیلنس قائم رکھنا ناگزیر ہے۔
یہاں یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ آئی جی آفس سے تبادلوں اور تقریوں کا یہ کام ڈی آئی جی ہیڈکواٹر کرتا ہے۔ ہر آئی جی اپنے سب سے قابل اعتماد افسر کو ہی ڈی آئی جی ہیڈ کواٹر تعینات کرتا ہے۔ عموی طور پر ڈی آئی جی ہیڈکواٹر پر سنیئر ڈی آئی جی کو لگایا جاتا ہے۔ لیکن اب ایک جونیئر افسر بابر بخت کو یہ عہدہ دیا گیا۔ بہر حال ایک آئی جی کو اپنی مرضی کی ٹیم بنانے کی اجازت ہونی چاہیے۔ تب ہی وہ کوئی کام کر کے دکھا سکے گا۔
لیکن اب نیا سوال پیدا ہوگیا ہے۔ ایک ڈی آئی جی ہیڈکواٹر جس نے خاصی تعداد میں تبادلے اور ترقیاں کر دی ہیں۔ یک دم راتوں رات اسے بھی پنجاب سے سرنڈر کر دیا گیا ہے۔ ہر کوئی سوال کر رہا ہے کہ کیا ہوا ہے۔ اسی طرح سہیل سکھیرا کو بھی پنجاب بدر کرنے سے مزید سوالات اور شکوک و شبہات پیدا کیے ہیں۔
عوام تھانہ کلچر میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ لوگ تھانوں میں سفارش کلچر کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے کلچر کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ لوگ پولیس کو عوام دوست دیکھنا چاہتے ہیں۔ پولیس میں رشوت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ تفتیش کے نظام کو بہتر کرنے کے خواہاں ہیں۔ تھانوں میں بے گناہوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ رکنا چاہیے۔ جھوٹی ایف آئی آر کا اندراج روکنا چاہتے ہیں۔ بے گناہوں کی تذلیل روکنا چاہتے ہیں۔ ڈکیتی کے مال کی واپسی چاہتے ہیں۔ پولیس کے رویہ میں تبدیلی چاہتے ہیں۔
تھانوں میں فرنٹ ڈیسک بنائے گئے تھے لیکن وہ سلسلہ بھی رک گیا ہے۔ اصلاحات کو روک دیا گیا ہے۔ کیوں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پنجاب میں پولیس اصلاحات کا جنازہ دھوم سے نکل رہا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ ان اصلاحات پر کوئی بڑی رقم بھی خرچ نہیں ہونی ہے۔ ملک کے معاشی بحران سے بھی اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ چند بنیادی نوعیت کے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن کوئی وہ بھی کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ کیوں؟