نیب اور ایف آئی اے کی کاروائیاں وفاق اور سندھ کے تعلقات کشیدہ

وفاقی اور سندھ حکومت کے تعلقات کوئی زیادہ بہتر نہیں ہیں۔

وفاقی اور سندھ حکومت کے تعلقات کوئی زیادہ بہتر نہیں ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان گذشتہ روز کراچی کے ایک روزہ دورے پر آئے انہوں نے یہاں گورنر ہاؤس میں بزنس کمیونٹی کے نمائندوں اور دیگر لوگوں کے ساتھ اجلاس منعقد کیے لیکن کسی بھی اجلاس میں وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کو شریک نہیں کیا۔

بعد ازاں وزیر اعظم نے وزیر اعلی سندھ سے ون آن ون ملاقات کی۔ دوسرے دن پیر کو سندھ کی اپیکس کمیٹی کا 23 واں اجلاس طویل عرصے بعد منعقد ہوا، جس میں گورنر سندھ عمران اسماعیل کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ اس سے لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ وفاقی اور سندھ حکومت کے تعلقات کوئی زیادہ بہتر نہیں ہیں۔ اس بات کو نیب اور ایف آئی اے کی پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف کارروائیوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو مستقبل میں معاملات کشیدگی کی طرف بڑھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

کراچی میں وزیر اعظم عمران خان نے تاجروں ، صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں سے طویل ملاقات کی اور ان کے مسائل سے آگاہی حاصل کی ۔ واضح رہے کہ کراچی کی بزنس کمیونٹی نے وزیر اعظم عمران خان اور ان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کی بھرپور حمایت کی تھی لیکن تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے تین ماہ کے اقدامات کی وجہ سے بزنس کمیونٹی بہت پریشان ہو گئی ہے۔ اس کے نمائندوں نے وزیر اعظم کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا اور انہیں بتایا کہ حکومت کے حالیہ اقدامات کی وجہ سے بزنس کمیونٹی خوف و ہراس کا شکار ہے۔ ایف بی آر اور دیگر اداروں کی پکڑ دھکڑ ، روپے کی قدر میں کمی، شرح سود میں اضافہ اور کراچی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کے باعث نہ صرف کاروباری سرگرمیاں کم ہو گئی ہیں بلکہ تجاوزات ہٹانے سے لاکھوں افراد بیروزگار ہو گئے ہیں ۔

ان ملاقاتوں کے بعد جاری کردہ سرکاری پریس ریلیز میں دعوی کیا گیا کہ تاجروں اور صنعت کاروں نے وزیر اعظم کو متعدد تجاویز دیں، جن میں سے بیشتر منظور کر لی گئیں ۔ ملاقات کرنے والے وفود کی سربراہی عقیل کریم ڈھیڈی ، عارف حبیب ، سراج قاسم تیلی اور دیگر کر رہے تھے۔ وزیر اعظم عمران خان نے ان وفود کو بتایا کہ بزنس اور سرمایہ کاری کو تحفظ دیا جائے گا۔ درآمدات اور برآمدات میں فرق کو کم کرنے پر بھرپور توجہ ہے ۔ ایمنسٹی اسکیم سے استفادہ کرنے والوں کو نوٹس دے کر اب بلایا یا ہراساں نہیں کیا جائے گا۔ تجاوزات کے خلاف آپریشن میں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہو گی اور متاثرین کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے گا۔ ان ملاقاتوں کے بعد دوسرے دن اسٹاک مارکیٹ میں کچھ اعتماد نظر آیا اور پوائنٹس میں اضافہ ہوا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان بزنس کمیونٹی کی بے چینی ختم کر سکے ہیں یا نہیں۔ اس کا اندازہ آئندہ کی کاروباری سرگرمیوں سے لگایا جا سکے گا ۔


ان ملاقاتوں میں وزیر اعظم نے وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کو شریک نہیں کیا ۔ بعد ازاں اس پر حکومت سندھ نے افسوس کا اظہار کیا ۔ وزیر اعلی سندھ کے مشیر برائے اطلاعات مرتضی وہاب نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ وزیر اعظم اگر بزنس کمیونٹی سے ملاقاتوں میں وزیر اعلی سندھ کو شریک کرتے تو اچھا ہوتا کیونکہ وہ صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہیں اور تمام معاملات میں اسٹیک ہولڈر ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان نے بعد ازاں وزیر اعلی سندھ سے طویل ملاقات کی، جس میں بعد ازاں گورنر سندھ عمران اسماعیل بھی شریک ہو گئے۔

اس ملاقات میں وزیر اعلی نے وزیر اعظم سے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ وفاقی حکومت کے بعض ادارے صوبائی امور میں مداخلت کر رہے ہیں۔ انہوں نے سندھ کے دیگر مسائل سے بھی آگاہ کیا ۔ دوسرے دن وزیر اعلی سندھ کی زیر صدارت صوبائی اپیکس کمیٹی کا 23 واں اجلاس منعقد ہوا ، جس میں کور کمانڈر کراچی ، ڈی جی رینجرز ، چیف سیکرٹری ، آئی جی اور ہوم سیکرٹری سندھ کے علاوہ دیگر حکام نے شرکت کی ۔ اجلاس مین بہت اہم فیصلے کیے گئے ، جن کے مطابق مدارس سمیت تمام تعلیمی اداروں کی چھان بین کی جائے گی ۔ حکومت سندھ خود سیف سٹی پروجیکٹ پر کام کر ے گی ۔

10 ہزار نئے کیمرے کراچی میں نصب کیے جائیں گے ۔ اسلحہ سے ہونے والے اسٹریٹ کرائم کی ایف آئی آر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج ہو گی ۔ چوری کی گاڑیوں کے پارٹس کی خریدو فروخت کو بھی رجسٹر کرنے کا نظام وضع کیا جائے گا لیکن سب سے اہم فیصلہ یہ ہوا کہ جرائم سے توبہ کرنے والوں اور سزا بھگت کر آنے والوں کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔

کچے کے علاقوں کو ترقی دی جائے گی تاکہ وہ پکے علاقے کے برابر آ سکیں ۔ اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں گورنر سندھ عمران اسماعیل کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی ۔ قبل ازیں سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کو ہر اجلاس میں شرکت کی دعوت دی جاتی تھی۔ حکومت سندھ کا کہنا ہے کہ گورنر کبھی بھی اپیکس کمیٹی کا حصہ نہیں رہا ۔ وفاق اور سندھ حکومت کے تعلقات کے بارے میں کشیدگی کا جو تاثر پایا جاتا ہے ، وہ کچھ دنوں میں مزید حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف وفاقی اداروں نے گھیرا تنگ کر دیا ہے ۔
Load Next Story