اسپیکر کی منظوری سے صوبائی قائمہ کمیٹیاں تشکیل دیدی گئیں
75 فیصد قائمہ کمیٹیاں حکومتی ارکان جبکہ25 فیصد اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کو دی گئی ہیں۔
تین ماہ کے انتظار کے بعد بالآخر سپیکر صوبائی اسمبلی مشتاق احمد غنی کی منظوری سے صوبائی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کر دی گئی ہے جس کے تحت 75 فیصد قائمہ کمیٹیاں حکومتی ارکان جبکہ25 فیصد اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کو دی گئی ہیں۔
جس سے ترقیاتی فنڈز کی تقسیم کا فارمولا بھی واضح ہوگیا ہے کہ صوبائی حکومت اسی فارمولے کے تحت ترقیاتی فنڈز بھی تقسیم کرے گی اور اپوزیشن جو 30 یا 32 فیصد ترقیاتی فنڈزکے حصول کے خواب دیکھ رہی تھی اس کے ان خوابوں کو تعبیر نہیں مل پائے گی اور اپوزیشن کو 25 فیصد ترقیاتی فنڈز پر ہی گزارا کرنا پڑے گا کیونکہ ایوان میں موجود6 میں سے پانچ آزاد اراکین اسمبلی بھی اپوزیشن کی بجائے حکومت کے ساتھ ہیں اس لیے ان کے لیے ترقیاتی فنڈز کی فراہمی بھی حکومتی کھاتے میں ہی کی جائے گی نہ کہ اپوزیشن کے ساتھ انھیں جوڑا جائے گا البتہ ایک آزاد رکن امجد آفریدی کو اپوزیشن کے کھاتے میں ڈالاجائے گا کیونکہ وہ کھل کر اپوزیشن کے ساتھ کھڑے ہیں اوران کے تحریک انصاف کی طرف واپس رجوع کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
سپیکر صوبائی اسمبلی کی منظوری سے جو قائمہ کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں ان میں ایک مرتبہ پھر ماضی کی طرح اقلیتی ارکان کو نظر انداز کرتے ہوئے انھیں کوئی قائمہ کمیٹی حوالے نہیں کی گئی جبکہ اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی اور مسلم لیگ(ن)کے پارلیمانی لیڈر وسابق وفاقی وزیر سردارمحمد یوسف بھی محرومین میں سے ہیں حالانکہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ سپیکر کی جانب سے اپنے پاس رکھنے کے بعد امکان تھا کہ اپوزیشن لیڈر کو کسی اہم قائمہ کمیٹی کی سربراہی حوالے کی جائے گی اور یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ان کی جانب سے بھی ایک خاص کمیٹی کی چیئرمین شپ کے حصول کے لیے خواہش کا اظہار کیا گیا تھا۔
تاہم ایسا نہیں ہو سکا جہاں تک خواتین ارکان کاتعلق ہے تو ان میں نگہت اورکزئی تواحتجاج کرتے ہوئے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کاحصہ بن گئیں جبکہ بقایا 21 خواتین ارکان میں سے دوحکومت اور ایک اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی خاتون رکن کو قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی دی گئی ہے اور یہ تینوں خواتین ارکان سمیراشمس، مومنہ باسط اور ثمرہارون بلور پہلی مرتبہ ایوان کاحصہ بنی ہیں۔
قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کے سلسلے میں ایک اور اہم کام بھی کیا گیا ہے اور وہ ہے سپیکر قومی اسمبلی اسدقیصر، وفاقی وزیردفاع پرویزخٹک اور وفاقی وزیرعلی امین گنڈاپور کے بھائیوں کو کمیٹیوں کی سربراہی حوالے کیے جانا،کیونکہ مرکز میں اہم عہدے رکھنے والوں کی کوشش تھی کہ وہ صوبہ میں بھی اپنے بھائیوں اور بیٹوں کے لیے وزارتوں کاحصول ممکن بنائیں تاہم ایسا نہیں ہوسکا اور یہی بات خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمودخان خود بھی ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ پی ٹی آئی کی پالیسی کے مطابق کسی بھی ایسے رکن اسمبلی کو صوبہ میں وزارت نہیں دی جائے گی جس کے بھائی یا رشتہ دار کے پاس مرکز میں کوئی عہدہ ہو اوراس اقدام کو دیکھتے ہوئے واضح ہوگیا ہے کہ صوبائی کابینہ کی توسیع کے حوالے سے جو رکاوٹیں وزیراعلیٰ کو درپیش تھیں وہ انہوںنے دور کر لی ہیں جس کے بعد اب کابینہ اور حکومتی ٹیم میں توسیع جلد ہوگی اور اس بارے میں بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ پرویزخٹک حکومت کی طرز پر پارلیمانی سیکرٹریوں کا تقرر کرتے ہوئے پی ٹی آئی اپنی خواتین ارکان کی اکثریت کو اس طریقے سے ایڈجیسٹ کرے گی۔
اور اس ایڈجیسٹمنٹ کے بعد مشیروں، معاونین خصوصی اور ڈیڈک چیئرمینوں کا تقرر کرتے ہوئے تحریک انصاف اپنے بیشتر ارکان کو ایڈجیسٹ کر لے گی جس کے بعد حقیقی معنوں میں وزیراعلیٰ اور ان کی ٹیم فل سوئنگ میں کام شروع کر پائے گی، رواں ہفتے وزیراعظم عمران خان بھی پشاور کا دورہ کر رہے ہیں جس کی اہمیت اس اعتبار سے ہے کہ وہ صوبائی حکومت کی جانب سے تیار کردہ 100روزہ پلان کی لانچنگ کرنے آرہے ہیں، اگرچہ صوبائی حکومت کی جانب سے تیار کردہ مذکورہ پروگرام کے بارے میں کسی حد تک آگاہ کیا جاچکا ہے کہ سوروزہ پلان کے تحت کیا ہوا اور کیاہونے جا رہا ہے۔
تاہم وزیراعظم کی جانب سے اس پروگرام کی باقاعدہ طور پر لانچنگ کے بعد حقیقی معنوں میں یہ پروگرام سامنے بھی آئے گا اور اس پر عمل درآمد بھی شروع ہوگا جس کے تحت صوبائی حکومت اور محکموں کے لیے سمت کا تعین ہو جائے گا اور یہ پلان صرف پہلے سے خیبر پختونخوا میں شامل اضلاع کے لیے نہیں بلکہ ان قبائلی علاقہ جات کے لیے بھی ہے جو خیبرپختونخوا میں ضم کیے گئے ہیں تاکہ ترقی کا عمل یکساں طور پر آگے بڑھے۔
ضم شدہ قبائلی علاقہ جات کے لیے کابینہ کی تشکیل کردہ خصوصی کمیٹی کے حوالے سے بھی عجب ماجرا ہوا کہ کابینہ کے فیصلے کے باوجود اس میں بیوروکریٹس کو شامل نہ کیا گیا اور صرف وزراء پر مشتمل کمیٹی کا ہی اعلان کردیا گیا تاہم جونہی یہ معاملہ سامنے لایا گیا تو تین محکموں کے انتظامی سیکرٹریوں کے علاوہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری فاٹا سیکرٹریٹ کو بھی اس میں شامل کر لیا گیا جس کے بعد اب یہ کمیٹی کام شروع کرے گی جسے دیکھتے ہوئے مذکورہ کمیٹی کو اب دوڑ لگاتے ہوئے کام کرنا ہوگا تاکہ وہ پندرہ دنوں کے اندر اپنی رپورٹ کابینہ میں پیش کر سکے، اگرچہ ضم شدہ قبائلی علاقوں پر صوبائی حکومت کے مکمل کنٹرول کے لیے مختلف اقدامات جاری ہیں تاہم کئی ایسے امور باقی ہیں کہ جن پر یہ کمیٹی غور کرتے ہوئے سفارشات مرتب کرے گی اور ان سفارشات کی روشنی ہی میں معاملات آگے بڑھ پائیں گے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ مالی اوردیگر کئی حوالوں سے جاری مالی سال کے ختم ہونے کا انتظار کرنا ہوگا کیونکہ 30جون 2019 ء تک ان علاقوں کی ترقی اور فنڈنگ کے امور مرکز ہی کے پاس ہیں ۔
اورانتظار صرف آئندہ سال تیس جون کا ہی نہیں ہو رہا تاکہ صوبائی حکومت ان ضم شدہ علاقوں کے حوالے سے تمام تر معاملات اپنے ہاتھوں میں لے سکے بلکہ انتظار نئے قومی مالیاتی ایوارڈ کے اجراء کا بھی کیاجا رہا ہے کیونکہ نیا این ایف سی ایوارڈ جاری ہونے کی صورت ہی میں ان ضم شدہ قبائلی علاقوں کے لیے اضافی وسائل کی فراہمی ممکن ہو پائے گی جس کے لیے مرکز کو اب سنجیدگی سے کام شروع کر دینا چاہیے کیونکہ صوبوں کے حصے سے تین فیصد کی کٹوتی کرنا اتنا بھی آسان نہیں کہ جتنا سمجھ لیا گیا ہے۔
اگرچہ دوصوبوں میں ڈائریکٹ تحریک انصاف کی اپنی حکومت ہے اور بلوچستان میں بھی جو حکومت کام کر رہی وہ تحریک انصاف کے ساتھ جڑی ہوئی ہے تاہم سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے جو اتنی آسانی سے اپنا حصہ نہیں چھوڑے گی اس لیے اگر اب سے قومی مالیاتی ایوارڈ کے حوالے سے کام شروع کیا گیا تو آئندہ تین سے چار ماہ میں اس کا اجراء ممکن ہو سکے گا لیکن اگر اس میں تاخیر کی گئی تو موجودہ حکومت بھی ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت ہی مرکز اورصوبوں کے مابین وسائل کی تقسیم کرنے پر مجبور ہوگی ۔
اے این پی کی صورت حال یہ ہے کہ امکان تھا کہ جونہی اے این پی کے مرکزی صدر اسفندیارولی خان دورہ روس ختم کرتے ہوئے وطن واپس پہنچیں گے پارٹی کی مرکزی کونسل یا مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس فوری طور پر بلاتے ہوئے اس میں پارٹی کی مرکزی نائب صدر بشریٰ گوہر اور سابق سینیٹر افراسیاب خٹک کی پارٹی رکنیت معطلی کا معاملہ پیش کیاجائے گا تاکہ اس کی توثیق کرائی جاسکے لیکن ایسا نہیں ہو پا رہا۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے بظاہرلگ رہا ہے کہ شاید اے این پی کی قیادت کو اس حوالے سے مشکلات درپیش ہیں اور انھیں نظرآرہا ہے کہ پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ یا مرکزی کونسل کا اجلاس بلائے جانے کی صورت میں انھیں ٹف ٹائم مل سکتا ہے اورہو سکتا ہے کہ اس سلسلے میں میدان ہموار کرنے کی کوششیں جاری ہوں۔
تاہم اے این پی کی قیادت کو یہ مرحلہ بہرکیف پارتو کرناہی ہوگا کیونکہ پارٹی کے مرکزی صدر کی جانب سے دونوں رہنماؤں کی پارٹی رکنیت معطلی کا جو فیصلہ کیا گیا ہے اس کی توثیق کرائے بغیر آئینی طور پر مشکلات آڑے آتی رہیں گی اور پھر ایسے فیز میں کہ جب اے این پی آئندہ ماہ باچاخان اور ولی خان کی برسی تقریب کی صورت بڑا جلسہ کرنے جا رہی ہے اسے پہلے اپنے گھر کے معاملات کو درست کرنا چاہیے تاکہ وہ بھرپور عوامی شو کرنے میں کامیاب ہوسکے جو عام انتخابات کے انعقاد کے بعد اے این پی کے لیے عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا سب سے اہم اوربڑا موقع ہے۔
جس سے ترقیاتی فنڈز کی تقسیم کا فارمولا بھی واضح ہوگیا ہے کہ صوبائی حکومت اسی فارمولے کے تحت ترقیاتی فنڈز بھی تقسیم کرے گی اور اپوزیشن جو 30 یا 32 فیصد ترقیاتی فنڈزکے حصول کے خواب دیکھ رہی تھی اس کے ان خوابوں کو تعبیر نہیں مل پائے گی اور اپوزیشن کو 25 فیصد ترقیاتی فنڈز پر ہی گزارا کرنا پڑے گا کیونکہ ایوان میں موجود6 میں سے پانچ آزاد اراکین اسمبلی بھی اپوزیشن کی بجائے حکومت کے ساتھ ہیں اس لیے ان کے لیے ترقیاتی فنڈز کی فراہمی بھی حکومتی کھاتے میں ہی کی جائے گی نہ کہ اپوزیشن کے ساتھ انھیں جوڑا جائے گا البتہ ایک آزاد رکن امجد آفریدی کو اپوزیشن کے کھاتے میں ڈالاجائے گا کیونکہ وہ کھل کر اپوزیشن کے ساتھ کھڑے ہیں اوران کے تحریک انصاف کی طرف واپس رجوع کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
سپیکر صوبائی اسمبلی کی منظوری سے جو قائمہ کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں ان میں ایک مرتبہ پھر ماضی کی طرح اقلیتی ارکان کو نظر انداز کرتے ہوئے انھیں کوئی قائمہ کمیٹی حوالے نہیں کی گئی جبکہ اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی اور مسلم لیگ(ن)کے پارلیمانی لیڈر وسابق وفاقی وزیر سردارمحمد یوسف بھی محرومین میں سے ہیں حالانکہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ سپیکر کی جانب سے اپنے پاس رکھنے کے بعد امکان تھا کہ اپوزیشن لیڈر کو کسی اہم قائمہ کمیٹی کی سربراہی حوالے کی جائے گی اور یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ان کی جانب سے بھی ایک خاص کمیٹی کی چیئرمین شپ کے حصول کے لیے خواہش کا اظہار کیا گیا تھا۔
تاہم ایسا نہیں ہو سکا جہاں تک خواتین ارکان کاتعلق ہے تو ان میں نگہت اورکزئی تواحتجاج کرتے ہوئے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کاحصہ بن گئیں جبکہ بقایا 21 خواتین ارکان میں سے دوحکومت اور ایک اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی خاتون رکن کو قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی دی گئی ہے اور یہ تینوں خواتین ارکان سمیراشمس، مومنہ باسط اور ثمرہارون بلور پہلی مرتبہ ایوان کاحصہ بنی ہیں۔
قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کے سلسلے میں ایک اور اہم کام بھی کیا گیا ہے اور وہ ہے سپیکر قومی اسمبلی اسدقیصر، وفاقی وزیردفاع پرویزخٹک اور وفاقی وزیرعلی امین گنڈاپور کے بھائیوں کو کمیٹیوں کی سربراہی حوالے کیے جانا،کیونکہ مرکز میں اہم عہدے رکھنے والوں کی کوشش تھی کہ وہ صوبہ میں بھی اپنے بھائیوں اور بیٹوں کے لیے وزارتوں کاحصول ممکن بنائیں تاہم ایسا نہیں ہوسکا اور یہی بات خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمودخان خود بھی ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ پی ٹی آئی کی پالیسی کے مطابق کسی بھی ایسے رکن اسمبلی کو صوبہ میں وزارت نہیں دی جائے گی جس کے بھائی یا رشتہ دار کے پاس مرکز میں کوئی عہدہ ہو اوراس اقدام کو دیکھتے ہوئے واضح ہوگیا ہے کہ صوبائی کابینہ کی توسیع کے حوالے سے جو رکاوٹیں وزیراعلیٰ کو درپیش تھیں وہ انہوںنے دور کر لی ہیں جس کے بعد اب کابینہ اور حکومتی ٹیم میں توسیع جلد ہوگی اور اس بارے میں بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ پرویزخٹک حکومت کی طرز پر پارلیمانی سیکرٹریوں کا تقرر کرتے ہوئے پی ٹی آئی اپنی خواتین ارکان کی اکثریت کو اس طریقے سے ایڈجیسٹ کرے گی۔
اور اس ایڈجیسٹمنٹ کے بعد مشیروں، معاونین خصوصی اور ڈیڈک چیئرمینوں کا تقرر کرتے ہوئے تحریک انصاف اپنے بیشتر ارکان کو ایڈجیسٹ کر لے گی جس کے بعد حقیقی معنوں میں وزیراعلیٰ اور ان کی ٹیم فل سوئنگ میں کام شروع کر پائے گی، رواں ہفتے وزیراعظم عمران خان بھی پشاور کا دورہ کر رہے ہیں جس کی اہمیت اس اعتبار سے ہے کہ وہ صوبائی حکومت کی جانب سے تیار کردہ 100روزہ پلان کی لانچنگ کرنے آرہے ہیں، اگرچہ صوبائی حکومت کی جانب سے تیار کردہ مذکورہ پروگرام کے بارے میں کسی حد تک آگاہ کیا جاچکا ہے کہ سوروزہ پلان کے تحت کیا ہوا اور کیاہونے جا رہا ہے۔
تاہم وزیراعظم کی جانب سے اس پروگرام کی باقاعدہ طور پر لانچنگ کے بعد حقیقی معنوں میں یہ پروگرام سامنے بھی آئے گا اور اس پر عمل درآمد بھی شروع ہوگا جس کے تحت صوبائی حکومت اور محکموں کے لیے سمت کا تعین ہو جائے گا اور یہ پلان صرف پہلے سے خیبر پختونخوا میں شامل اضلاع کے لیے نہیں بلکہ ان قبائلی علاقہ جات کے لیے بھی ہے جو خیبرپختونخوا میں ضم کیے گئے ہیں تاکہ ترقی کا عمل یکساں طور پر آگے بڑھے۔
ضم شدہ قبائلی علاقہ جات کے لیے کابینہ کی تشکیل کردہ خصوصی کمیٹی کے حوالے سے بھی عجب ماجرا ہوا کہ کابینہ کے فیصلے کے باوجود اس میں بیوروکریٹس کو شامل نہ کیا گیا اور صرف وزراء پر مشتمل کمیٹی کا ہی اعلان کردیا گیا تاہم جونہی یہ معاملہ سامنے لایا گیا تو تین محکموں کے انتظامی سیکرٹریوں کے علاوہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری فاٹا سیکرٹریٹ کو بھی اس میں شامل کر لیا گیا جس کے بعد اب یہ کمیٹی کام شروع کرے گی جسے دیکھتے ہوئے مذکورہ کمیٹی کو اب دوڑ لگاتے ہوئے کام کرنا ہوگا تاکہ وہ پندرہ دنوں کے اندر اپنی رپورٹ کابینہ میں پیش کر سکے، اگرچہ ضم شدہ قبائلی علاقوں پر صوبائی حکومت کے مکمل کنٹرول کے لیے مختلف اقدامات جاری ہیں تاہم کئی ایسے امور باقی ہیں کہ جن پر یہ کمیٹی غور کرتے ہوئے سفارشات مرتب کرے گی اور ان سفارشات کی روشنی ہی میں معاملات آگے بڑھ پائیں گے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ مالی اوردیگر کئی حوالوں سے جاری مالی سال کے ختم ہونے کا انتظار کرنا ہوگا کیونکہ 30جون 2019 ء تک ان علاقوں کی ترقی اور فنڈنگ کے امور مرکز ہی کے پاس ہیں ۔
اورانتظار صرف آئندہ سال تیس جون کا ہی نہیں ہو رہا تاکہ صوبائی حکومت ان ضم شدہ علاقوں کے حوالے سے تمام تر معاملات اپنے ہاتھوں میں لے سکے بلکہ انتظار نئے قومی مالیاتی ایوارڈ کے اجراء کا بھی کیاجا رہا ہے کیونکہ نیا این ایف سی ایوارڈ جاری ہونے کی صورت ہی میں ان ضم شدہ قبائلی علاقوں کے لیے اضافی وسائل کی فراہمی ممکن ہو پائے گی جس کے لیے مرکز کو اب سنجیدگی سے کام شروع کر دینا چاہیے کیونکہ صوبوں کے حصے سے تین فیصد کی کٹوتی کرنا اتنا بھی آسان نہیں کہ جتنا سمجھ لیا گیا ہے۔
اگرچہ دوصوبوں میں ڈائریکٹ تحریک انصاف کی اپنی حکومت ہے اور بلوچستان میں بھی جو حکومت کام کر رہی وہ تحریک انصاف کے ساتھ جڑی ہوئی ہے تاہم سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے جو اتنی آسانی سے اپنا حصہ نہیں چھوڑے گی اس لیے اگر اب سے قومی مالیاتی ایوارڈ کے حوالے سے کام شروع کیا گیا تو آئندہ تین سے چار ماہ میں اس کا اجراء ممکن ہو سکے گا لیکن اگر اس میں تاخیر کی گئی تو موجودہ حکومت بھی ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت ہی مرکز اورصوبوں کے مابین وسائل کی تقسیم کرنے پر مجبور ہوگی ۔
اے این پی کی صورت حال یہ ہے کہ امکان تھا کہ جونہی اے این پی کے مرکزی صدر اسفندیارولی خان دورہ روس ختم کرتے ہوئے وطن واپس پہنچیں گے پارٹی کی مرکزی کونسل یا مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس فوری طور پر بلاتے ہوئے اس میں پارٹی کی مرکزی نائب صدر بشریٰ گوہر اور سابق سینیٹر افراسیاب خٹک کی پارٹی رکنیت معطلی کا معاملہ پیش کیاجائے گا تاکہ اس کی توثیق کرائی جاسکے لیکن ایسا نہیں ہو پا رہا۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے بظاہرلگ رہا ہے کہ شاید اے این پی کی قیادت کو اس حوالے سے مشکلات درپیش ہیں اور انھیں نظرآرہا ہے کہ پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ یا مرکزی کونسل کا اجلاس بلائے جانے کی صورت میں انھیں ٹف ٹائم مل سکتا ہے اورہو سکتا ہے کہ اس سلسلے میں میدان ہموار کرنے کی کوششیں جاری ہوں۔
تاہم اے این پی کی قیادت کو یہ مرحلہ بہرکیف پارتو کرناہی ہوگا کیونکہ پارٹی کے مرکزی صدر کی جانب سے دونوں رہنماؤں کی پارٹی رکنیت معطلی کا جو فیصلہ کیا گیا ہے اس کی توثیق کرائے بغیر آئینی طور پر مشکلات آڑے آتی رہیں گی اور پھر ایسے فیز میں کہ جب اے این پی آئندہ ماہ باچاخان اور ولی خان کی برسی تقریب کی صورت بڑا جلسہ کرنے جا رہی ہے اسے پہلے اپنے گھر کے معاملات کو درست کرنا چاہیے تاکہ وہ بھرپور عوامی شو کرنے میں کامیاب ہوسکے جو عام انتخابات کے انعقاد کے بعد اے این پی کے لیے عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا سب سے اہم اوربڑا موقع ہے۔