قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران مسلم لیگ (ن) کے رہنما سعد رفیق کی گرفتاری کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن میں شدید گرما گرمی ہوئی اور دونوں نے ایک دوسرے پر کڑی تنقید کی۔
ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا تو سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے سعد رفیق کی گرفتاری کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کو دبانے کے لیے نیب کو استعمال کیا جا رہا ہے، اگر سعد رفیق کی گرفتاری سے حکومت کا تعلق نہیں تو پھر کون یہ کروا رہا ہے، جب احتساب انتقام میں بدل جائے تو جمہوریت بھی خطرے میں ہوتی ہے اور پارلیمان کی بالادستی بھی، قتل کا ریمانڈ بھی چودہ دن کا ہوتا ہے، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا اس سے بھی زیادہ ریمانڈ دیا گیا۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ چیئرمین نیب نے ارکان پارلیمان اور سیاستدانوں کے خلاف بے بنیاد الزامات لگائے، وزیراعظم عمران خان کے خلاف بھی ہیلی کاپٹر کیس ہے، اگر قائد حزب اختلاف گرفتار ہو سکتے ہیں تو قائد ایوان کو بھی گرفتار کیا جائے، علیم خان، علیمہ خان، پرویز خٹک صاحب، اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہیٰ کو بھی گرفتار کر لیا جائے، زلفی بخاری کا نام وزیراعظم ای سی ایل سے نکلوا کر عمرے پر لے جاتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، لیکن حمزہ شہباز کو روک لیا جاتا ہے۔
قومی اسمبلی کا اگلا اجلاس اڈیالہ جیل میں
پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے خواجہ سعد رفیق کے فوری پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح سے اپوزیشن ارکان اسمبلی کی گرفتاریاں ہورہی ہیں لگتا ہے قومی اسمبلی کے اگلے اجلاس اڈیالہ جیل میں کرنا پڑیں گے، جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں بلاول بھٹو زرداری سے اس وقت کے سوالات کیے جا رہے ہیں جب وہ ایک سال کے تھے، حکومت کا مقصد صرف اپوزیشن کو گندہ کرنا ہے، حکومت صرف ایک جماعتی حکمرانی کرنا چاہتی ہے، آمریت میں اپوزیشن کو جیلوں میں ڈالا جاتا ہے۔ جمہوریت میں نہیں۔
فواد چوہدری کے الفاظ اسمبلی کی کارروائی سے حذف
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اس تنقید پر ردعمل دیتے ہوئے اپوزیشن پر خوب تیر برسائے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی تربیت میں مسئلہ ہے اور یہ دوسروں کی بات نہیں سنتے، ضیاء الحق نے ان کی پارٹی بنائی اور تربیت کی۔ فواد چوہدری کی اس بات پر اپوزیشن ارکان اسمبلی برہم ہوگئے اور شور کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر سے کہا کہ انہیں آداب سکھائیں۔ ڈپٹی اسپیکر نے نازیبا الفاظ استعمال نہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے فواد چوہدری کے الفاظ حذف کردیے۔
مریم اورنگزیب کی متوقع گرفتاری
فواد چوہدری نے مریم اورنگزیب کو ٹوکتے ہوئے اور ان کے خلاف نیب تحقیقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے متوقع گرفتاری کا عندیہ بھی دے دیا۔ فواد چوہدری نے مریم اورنگزیب سے کہا کہ آپ نے بھی ابھی جانا ہے حوصلہ رکھیں، ان کو اپنے کرتوتوں کا اچھی طرح پتا ہے، حکومت نیب کی کارروائی نہیں روکے گی، ان داغدار لوگوں سے لوٹے گئے پیسے واپس لیں گے، کیونکہ اگر نہ لے سکے تو تحریک انصاف کو حکومت کرنے کا حق نہیں، احتساب کے عمل کو متنازعہ بنانے کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا، شاہد خاقان عباسی ایک بات کو نظر انداز کر گئے، چیئرمین نیب کا تقرر کرنے والے بھی وہ خود ہیں۔
70 فیصد وزرا جیل میں ہوں گے
فواد چوہدری کی باتوں پر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اس ایوان کے دونوں اطراف کے اراکین کی تضحیک ہو رہی ہے، جو معیار ن لیگ کے رہنمائوں کے لئے اپنایا گیا وہ کابینہ پر لگائیں تو 70 فیصد وزرا جیل میں ہوں گے، ہم نے مشرف کی جیلیں بھگتیں ان کی جیلیں بھی بھگت لیں گے، حکومت کام کرے اور مسائل حل کرے، کیونکہ گالی گلوچ کا زمانہ چلا گیا ہے۔
این آر او مانگنے والا ایوان میں موجود
قومی اسمبلی اجلاس میں وزیر مملکت مراد سعید نے کہا کہ کرپشن کرنے والوں کو ڈی چوک میں پھانسی دینے کی قرارداد منظور کریں اور عمل درآمد کریں۔ کیا صاف پانی، میٹرو بس، آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم بڑا اسکینڈل نہیں ہے، جس نے بھی عوام کا پیسہ لوٹا اس کے اثاثے نیلام کئے جائیں اور ڈی چوک پر پھانسی دی جائے، ن لیگ کے 7 لوگوں نے مجھ سے این آر او مانگا لیکن ان پر کیسز چلیں گے، سب سے پہلے جو شخص این آر او کے لیے میرے پاس آیا وہ اس ایوان میں موجود ہے۔
ملک سے زیادتی کرنے والوں کا احتساب
وفاقی وزیر شفقت محمود نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جس نے قوم کا ایک بھی پیسہ کھایا اسے معاف نہ کرنے کی قرارداد آنی چاہیے، جس نے ملک کے ساتھ زیادتی کی ہے اس کا حساب کتاب ہونے دیں۔