قومی حکومت کا اسکرپٹ۔ کیا اگلے سال میں ممکن ہے
نواز شریف کو حقیقت کا ادراک ہو گیا ہے کہ وہ یہ لڑائی مزید نہیں لڑ سکتے۔ اب رسمی اعلانات باقی ہیں۔
کس کو معلوم تھا کہ عمران خان پہلے سو دن میں ہی ناکامی کے اس قدر جھنڈے گاڑدیں گے کہ یو ٹرن کی وکالت کرنے لگ جائیں گے۔ علیمہ خان کی بیرون ملک جائیداد عمران خان کا مسٹر کلین کا امیج ختم کر دے گی۔ کس کو معلوم تھا کہ سو دن میں ہی مہنگائی کے ریکارڈ ٹوٹ جائیں گے۔ وزرا کے جھگڑے اور نااہلیاں زبان زد عام ہو جائیں گی۔ روز ایک نئی کہانی جنم لے گی۔
حکومت ایک تھیٹر اور سرکس بن جائے گی۔ لیکن شاید اس حکومت کے آنے سے پہلے ہی سب معلوم تھا، پتہ تھا۔ پہلے دن سے ملک کی ساری بڑی سیاسی قیادت کو مائنس کر کے نئی قیادت سامنے لانے کا اسکرپٹ موجود تھا۔ لگتا ہے کہ آج بھی اسی پر عمل ہو رہا ہے۔ قومی حکومت کی باز گشت دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔ اس لیے گیم آن ہے۔
میں پہلے سے لکھ رہا تھا کہ عمران خان اور نوازشریف کی لڑائی میں لڑتے لڑتے ہو جائے گی گم ایک کی چونچ ایک کی دم۔ لیکن پہلے مرحلہ میں ایسا نہیں ہو سکا ۔ اس لیے عمران خان بچ گئے۔ اگر نواز شریف اس قدر مزاحمت نہ کرتے،آرام سے بات مان جاتے تو عمران خان کی لاٹری لگنے کے امکانات ہی نہیں تھے۔ لیکن نواز شریف ہٹ دھرم ثابت ہوئے۔ وہ لڑتے گئے۔ مریم نواز نے ماحول کو گرم کر دیا۔ اگر آج خاموش ہونے کے بجائے پہلے دن ہی خاموش ہو جاتے تو عمران خان کبھی وزیر اعظم نہ بن سکتے تھے۔ کہیں نہ کہیں عمران خان کو نواز شریف کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے لڑائی کو اس قدر گرم کر دیا کہ عمران خان کو باری دینے کے سوا کوئی چارہ نہ رہ گیا۔ لیکن اب ماحول بدل رہا ہے۔
نواز شریف کو حقیقت کا ادراک ہو گیا ہے کہ وہ یہ لڑائی مزید نہیں لڑ سکتے۔ اب رسمی اعلانات باقی ہیں۔ شریف فیملی شاید مائنس ہونے کے لیے تیار ہے۔ اس کی شکل کیا ہوگی، یہ بات قبل از وقت ہے۔ لیکن محسوس یہی ہو رہا ہے کہ ن لیگ کی قیادت شریف خاندان سے باہر جا رہی ہے۔ اس میں کچھ وقت لگ سکتا ہے لیکن یہ ہو رہا ہے۔ جو شریف خاندان کے زیادہ وفادار ہیں وہ بھی مائنس ہو جائیں گے۔ ن لیگ کی نئی پارلیمانی شکل سامنے آئے گی۔
عمومی خیال ہے کہ آصف زرداری کو سیاست کی بہت سمجھ ہے لیکن وہ بھی گیم ہار گئے ہیں۔ جب نواز شریف مائنس ہو رہے تھے تو وہ دوستوں کے ساتھ مل گئے کہ ان کی جان بچ جائے گی۔ ان کا خیال تھا کہ اگر وہ نواز شریف کے ساتھ جائیں گے تو انھیں بھی رگڑا لگ جائے گا۔ لیکن وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ وہ نواز شریف کا ساتھ نہ دے کر اپنی سیاسی موت پر مہر لگا رہے ہیں۔ اگر زرداری نواز شریف کے ساتھ مل جاتے تو گیم بدل سکتی تھی۔ آئینی ترامیم ہو سکتی تھیں۔ لیکن زرداری غلط کھیل گئے۔ انھوں نے موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی لیکن موقع تھا ہی نہیں وہ فائدہ کیا اٹھاتے۔ بے شک انھیں سندھ کی حکومت مل گئی لیکن ایسی حکومت کا کیا کرنا ہے جو انھیں بچا ہی نہیں سکتی۔ ایسی تو نواز شریف کے پاس پانچ حکومتیں تھیں۔
بہر حال آصف زرداری اب مائنس ہونے کے فائنل راؤنڈ میں داخل ہو گئے ہیں۔ ان کے پاس دن بدن وقت کم ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن ایک وقت تھا کہ وہ شریف خاندان کو بچانے کے لیے تیار نہیں تھے، آج جب شریف خاندان مائنس ہو چکا ہے ۔سیاسی لڑائی ہار چکا ہے، وہ زرداری کی کوئی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دونوں نے آپس کی لڑائی میں موقع کھو دیا ہے اور مائنس ہو گئے ہیں۔
مجھ جیسے نا واقف لوگوں کا خیال تھا کہ نواز شریف کے بعد شہباز شریف کی باری آجائے گی اور زرداری کے بعد بلاول کی باری آجائے گی۔ لیکن یہ بات سب کے ذہن میں تھی کہ نواز شریف کو مائنس کر کے شہباز شریف کو لانے سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، اسی طرح زرداری کو مائنس کر کے بلاول کو لانے سے بھی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ تبدیلی تو ان سب کو مائنس کر کے عمران خان کو لانے سے بھی نہیں آنی تھی۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ اس میں جمہویت اور سویلین سیٹ اپ کو ساتھ ساتھ چلانا تھا۔ اس لیے بلف گیم جاری رہی ۔ لیکن جیسے میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اگر محاذ آرائی اتنی نہ بڑھتی تو عمران خان کے حوالے سے پہلے کام شروع ہو جاتا۔ پہلے تاثر دیا جا تا رہا کہ شہباز شریف قبول ہے۔ پھر تاثر دیا جاتا رہا کہ بلاول قبول ہے۔یہاں بھی ایک خیال یہی تھا کہ آصف زرداری اس شرط پر مائنس ہونے کو تیار ہوں گے کہ بلاول کو باری مل جائے گی۔ لیکن کوئی بھی بلاول کو کسی قسم کی باری دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ ورنہ بلاول آج وزیر اعلیٰ سندھ ہوتے۔
اس ساری صورتحال کو سمجھنے کے لیے ایم کیو ایم کو سامنے رکھیں۔ وہاں پہلے مرحلہ میں ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان الگ ہو گئے۔ سب کا خیال تھا کہ شاید فاروق ستار کی کہیں ڈیل ہو گئی ہے۔ لیکن فاروق ستار بھی مائنس ہو گئے۔ پھر خالد مقبول اور عامر خان سامنے آگئے۔ لیکن لگتا یہی ہے کہ یہ بھی عارضی سیٹ اپ ہے۔ ایم کیو ایم اپنے منطقی انجام کی طرف گامزن ہے۔اس کا ووٹ بینک بھی ختم ہو رہا ہے۔ مقدمات بھی چل رہے ہیں۔ صرف انھیں گیئر لگانے کی ضرورت ہے۔ جو کسی بھی وقت لگایا جا سکتا ہے۔ جے آئی ٹی بھی بن سکتی ہے۔ صرف مناسب وقت کا انتظار ہے۔اب یہ خیالات عملی شکل کیسے اختیار کریں گے اس کا تو مجھے کوئی پتہ نہیں لیکن خیال یہی ہے کہ سیاسی جیسے آج ہیں کل ایسے نہیں رہیں گے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ کرپشن کے نعرے پرصرف شریف خاندان اور زرداری خاندان کو مائنس کر دیا جائے۔ ن لیگ اور پی پی پی کے سرکرہ لیڈر تو نیب کے شکنجے میں آجائیں لیکن عمران خان اور ان کے دوست بچ جائیں۔ اس طرح تو وہ سب ہیرو بن جائیں گے۔ ماضی میں بھی ایسی غلطیاں ہو تی رہی ہیں۔ ایک کو مائنس کرنے کے چکر میں دوسرے کو لاڈلا بنایا گیا۔ بھٹو کو پھانسی دی گئی لیکن بھٹو خاندان مائنس نہ ہو سکا۔لیکن اب جس قسم کے حالات پیدا ہو رہے ہیں ' ان کا باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو یہی لگتا ہے کہ بلاآخرباری تو سب کی ہی آنی ہے۔
اس تناظر میں عمران خان اور ان کے دوستوں کی بھی باری آ جائے گی۔ اس کے اشارے مل رہے ہیں۔ کسی کو این آر او نہیںملے گا کا مطلب ہے کہ عمران خان اور ان کے دوستوں کو بھی این آر او نہیں ملے گا۔ قانون سب کے لیے برابر ہو گا جو بچے گا وہی سکندر والی صو رتحال ہے۔ ایک آپریشن کلین اپ کی بنیاد ڈالی جا چکی ہے۔ یہ آپریشن کتنا جائز ہے کتنا ناجائز اس کی بحث فضول ہے۔ ملک کے وسیع تر مفاد میں مائنس فارمولہ بن گیا ہوا ہے۔ جس کا نام لسٹ میں ہے مائنس ہونا اس کا مقدر ہے۔
اب شریف فیملی جتنی جلدی خو د کو مائنس کرنے کا عمل شروع کر دے گی۔ اتنی جلدی زرداری اور بلاول بھی مائنس ہو جائیں گے۔ شریف فیملی کی طرف سے تاخیر زرداری اور بلاول کو زندگی دے رہی ہے۔ زرداری اور بلاول کے مائنس ہونے کے بعد عمران خان اور ان کے دوستوں کی باری آجائے گی۔ اس کے بعد قومی حکومت بنے گی۔ جس میں سب جماعتیں شامل ہوںگی اور ملک ایک سنہری مستقبل کی طرف چل پڑے گا۔
میرے خیال میں سندھ میں مراد علی شاہ پی پی پی کی حکومت چلائیں گے۔ انھیں اپنی قیادت کے نا اہل ہونے سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ پنجاب میں چوہدری نثار علی خان وزیر اعلیٰ آسکتے ہیں۔ وہ بچ جانے والی ن لیگ کی قیادت کریں گے۔ مرکز میں شاہ محمود قریشی یا کوئی اور آسکتا ہے۔ سب جماعتیں اقتدار میں ہوںگی اور ملک ترقی کرے گا۔ یہ سب کب تک ہو جائے گا۔ اگلے سال میں ہوجانا چاہیے۔ لیٹ ہونے سے پریشانی ہو سکتی ہے۔