حقیقت یا کسی مجذوب کی بڑ
وطن عزیز کی اتنی دلکش اور مسحورکن منظرکشی پرہمیں بھی اب خواب اور وہم کا گمان ہونے لگا ہے۔
یہ اِس قوم کی خوش قسمتی ہے کہ اُسے خان صاحب جیسا دانا، زیرک، دور اندیش اور بالغ نظر حکمراں ملا ہے، جس کی ذہانت، بصیرت اور قابلیت کے چرچے نہ صرف برصغیر ہندوپاک میں ہی مشہور ہیں بلکہ اب تو ساری دنیا میں مقبول ومعروف ہیں۔ انھوں نے اپنے پہلے ہی دور اقتدار کے محض سو دنوں میں اِس ملک وقوم کوکہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ان سے پہلے آنے والے حکمراں تو صرف باتیں اوردعوے ہی کیاکرتے تھے۔ خان صاحب نے اپنی لیاقت ،حکمت ودانائی اور روشن خیالی سے اِس قوم کی سمت ہی بدل ڈالی ہے۔
انھوں نے اِنہیں غربت، پستی اور مایوسیوں کے اندھیروں سے نکال کرکامیابیوںکی بلند و ارفع وسعتوں پر پہنچادیا ہے۔ قوم مطمئن ہے کہ اُس کے مسائل صرف تین ماہ میں ہی حل ہوگئے۔ مہنگائی توکجا تمام چیزیں اتنی سستی ہوچکی ہیں کہ لوگوں کو اپنی آمدنی بہت زیادہ معلوم ہونے لگی ہے۔ بجلی اورگیس کے نرخ اتنے کم کردیے گئے ہیں کہ لوگوں کو اپنی قوت سماعت اور بصارت پر شک ہونے لگا ہے۔ وزیر اعظم اور اُن کے انتہائی قابل اور ذہین وزراء پر مبنی پوری ٹیم کی انتھک محنت اورکاوشوں سے ہمارا یہ ملک خطے کا سب سے تیز ترقی کرنے والا ملک بن گیا ہے۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد ہے کہ سنبھالے نہیں سنبھلا جا رہا۔ ایسا لگتا ہے ہمیں اب کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی حاجت باقی نہیں رہی۔
ملک میں مالی بدعنوانی اورکرپشن کاخاتمہ ہوچکا ہے۔اب یہاں کسی سرکاری محکمے میں کوئی رشوت نہیں لی جا رہی۔ پولیس بھی اب صرف اپنی تنخواہ پر ہی گزارا کر رہی ہے۔ منی لانڈرنگ کے تمام دروازے بندکردیے گئے ہیں ۔ اب یہاں سے ایک روپیہ بھی غیر قانونی طور پر باہر نہیں جاسکتا ۔ ذرمبادلہ کے ذخائر بے تحاشہ بڑھتے جا رہے ہیں۔ ملک میں اب کوئی مالی بحران باقی نہیں رہا۔ تمام گردشی قرضے بھی ادا کردیے گئے ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے وزیراعظم کی ایک ہی اپیل پر ترسیلات زرکے ڈھیرلگا دیے۔
ڈیم بنانے کے لیے ایک ایک ہزار ڈالربھیجنے کی استدعا پر تارکین وطن لوگوں نے فوراً ہی لبیک کہتے ہوئے اتنے سارے ڈالرز بھیج دیے کہ اب ہمیں کسی ملک سے بیل آؤٹ پیکیج مانگنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ برآمدات بڑھانے کے لیے ایسی دلکش اور پرکشش مراعات کااعلان کیاکہ درآمدات اور برآمدات کے بیچ مالیاتی فرق یک دم ختم ہوکر رہ گیا۔ تمام تجارتی خسارہ بھی اب نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔سابقہ حکومت کی نااہلیوں کے سبب ڈالرکو جس طرح زبردستی قابو میں رکھا جا رہا تھا، ہم نے وہ پابندی بھی اب ختم کردی ہے، جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہیں ۔ ڈالر مادر پدر آزاد ہوکر اب چھلانگیں مار رہا ہے۔ فکر کرنے یاگھبرانے کی قطعاًضرورت نہیں ۔
یہ سب کچھ ملک و قوم کی بہتری میں کیا جا رہا ہے۔ تجارتی خسارہ پورا کرنے کی اِس سے اچھی فوری کوئی تدبیر ہوہی نہیں سکتی تھی۔آپ دیکھیے گا یہ ملک اگلے چند ماہ میں کس طرح ترقی وخوشحالی کی بلندیوں کو چھوئے گا۔آپ صرف چھ ماہ حالات کی مثبت تصویرکشی کیا کریں ۔ ویسے بھی مایوسی اور نااُمیدی تو ہمارے مذہب میں حرام کہلاتی ہے۔
سارے ملک میں اب کسی کے ساتھ کوئی زیادتی یاظلم نہیں ہو رہا۔ ریاست مدینہ کی مانند سارے لوگ آرام وسکون کی زندگی گذار رہے ہیں ۔ انھیں صحت وعلاج کی تمام تر سہولتیں میسر ہو گئی ہیں ۔اب کوئی مریض علاج نہ ملنے کے سبب مر نہیں سکتا۔ سرکاری اسپتالوں کی حالت زار بدل دی گئی ہے۔
وہاں فرش پر پڑا کوئی مریض اب دکھائی نہیں دیتا۔ نہ وہاں کسی بستر پراب دو دو یاتین تین مریض اکھٹے پڑے نظر آتے ہیں ۔کسی غریب کا کوئی بچہ اب اسپتال جاتے ہوئے راستے یارکشے میں پیدا نہیں ہوتا ۔ شہر شہرقریہ قریہ غیر قانونی دکانوں اورمکانوں کومسمار کرکے ہم نے نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دی ہے۔اب یہاںکوئی بھی غیر قانونی کام نہیں ہوگا ۔ صاف ستھرا ، خوب صورت اوردلکش پاکستان بہت جلد نئے دور کے جدید تقاضوں کو پوراکرتا دکھائی دے گا۔ہر طرف انصاف کا بول بالا ہوگا۔ بڑے سے بڑا بااختیار اورطاقتور شخص بھی عدالت کے سامنے جواب دہ ہوگا۔وہ چاہے لیفٹننٹ جنرل اسد درانی ہو یا پھرپولیس افسر ایس ایس پی راؤ انوار ہوسبھی کو عدالت کے روبروکٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا ۔
اب یہاں سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور کے مجرموں کو بھی سزا ملے گی اور بلدیہ ٹاؤن کراچی میں 250 افراد کو زندہ جلاکر مار ڈالنے والوں کو بھی کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔ ملک سے پیسہ لوٹ کر باہر لے جانے والوں کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا اور اربوں روپے کے قرضے لے کر معاف کروانے والوں سے بھی رعایت نہیں برتی جائے گی ۔ اب بے نظیر بھٹو شہید کے قاتلوں کو بھی ڈھونڈا جائے گا اور12مئی 2007ء کو کراچی میں قتل عام کے ذمے داروں اور اُن کی پشت پناہی کرنے والوں کو بھی پکڑاجائے گا۔
1990 ء میں آئی جے آئی بنا کر سیاستدانوں میں پیسے بانٹنے والوں کو بھی گرفت میں لیاجائے گااور1999ء میں ملک میں مارشل لاء لگاکر آئین ودستور کو معطل کرنے والوں کو بھی گرفتار کیاجائے گا۔ آسیہ بی بی کی رہائی پرہنگامہ آرائی کرنے والوں کو بھی سزادی جائے گی اورعدلیہ کے اُن ججوں سے بھی باز پرس ہوگی جنہوںنے آسیہ کو گستاخ رسول کامجرم قرار دے کرموت کی سزا سنائی تھی۔ عدل وانصاف اورقانون پر عملداری کا ایسا حسین دور اِس قوم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ شاید اِسی لیے اُسے اپنی آنکھوں اورکانوں پر یقین نہیں ہو رہا۔
وطن عزیز کی اتنی دلکش اور مسحورکن منظرکشی پرہمیں بھی اب خواب اور وہم کا گمان ہونے لگا ہے۔کیا یہ سب کچھ سچ اور حقیقت ہے۔ ہم سب نے ماضی میں ایسی بہت سی خام خیالیاں اورخوش گمانیاں دیکھی اورسنی ہیں۔لیکن حقائق اور نتائج بالکل اِس کے برعکس ہی نکلے ۔ شاید اِسی لیے ہمیں یہ سب کچھ ایک خواب خرگوش یا کسی مجذوب کی بڑ کی مانند دکھائی دے رہا ہے۔مایوسیاں اور بدگمانیاں اتنی زیادہ ہیں کہ ہم تبدیلی اور سونامی کے اِس حسین دور کوقبول کرنے کوتیار نہیں۔ ہمیں تلقین کی جا رہی ہے کہ اب اِس ملک کے حالات کی مثبت تصویر پیش کیا کریں۔وزیراعظم خواہ خود ہی دوسرے ملکوں میں جاکر اپنے میلے کپڑے دھوتے رہیں لیکن ہم پر واجب ہے کہ ہم ''سب اچھا ہے'' کا ورد اگلے چھ ماہ تک بڑی پابندی سے کرتے رہیں۔
فرمان امروز جاری ہوا ہے کہ میڈیا منفی رپورٹنگ سے پرہیز اور اجتناب کرے اور دنیا میں اپنے ملک کے بارے میں ایسی سہانی تصویر دکھائے کہ ریٹنگ طے کرنے والے سارے عالمی ادارے ہماری اِس حق پرستی اور راست گوئی کے قائل ہوجائیں اورہمیں ایک تیزی سے ترقی کرتی ہوئی قوم کا درجہ نواز دیں۔آج کی یہ تحریر اُسی حکم کی تعمیل میں رقم کی گئی ہے۔قارئین کے لیے ضروری اورلازم نہیں کہ وہ اِس کے مندرجات سے متفق اور ہم خیال ہوں ۔