ڈبہ بند خشک دودھ بچوں کی صحت پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے

بچوں کی صحت پر غذا، موسم اور ماحول کے اثرات کے حوالے سے ایک معلوماتی تحریر۔

بچوں کی صحت پر غذا، موسم اور ماحول کے اثرات کے حوالے سے ایک معلوماتی تحریر۔ فوٹو: فائل

بچوں کے بیمار ہونے کی بنیادی اور سب سے بڑی وجہ فی زمانہ ماں کا بچے کو اپنا دودھ نہ پلانا بن رہا ہے۔

بچے کو فیڈر سے پلائے جانے والا اکثر دودھ بچے کے لیے صحت مندی کی بجائے بیماری کا سبب بن رہا ہے۔ دوسری بڑی وجہ ہمارے ہاں صاف و شفاف پانی کا نہ ہونا ہے۔ صاف و شفاف پانی انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے، بچوں کے لیے اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔گھروں میں بچوں کی مناسب صفائی و ستھرائی کا نہ ہونا بھی بچوں میں بیماریاں بڑھنے کا سبب بن رہا ہے۔

بچے کی بنیادی اور ضروری غذا ماں کا دودھ سمجھا جاتا ہے۔ ماں کادودھ ایک مکمل غذا اور بیماریوں سے حفاظت اور بحالی کا بہترین ذریعہ اور ہتھیار مانا جاتا ہے۔ کیونکہ ایسے تمام تر غذائی اجزاء جن کی انسانی جسم کو ضرورت ہوسکتی ہے ماں کے دودھ میں وافر مقدارمیں پائے جاتے ہیں۔ انسانی بدن کے لیے ماں کے دودھ سے اچھی خوراک کو ئی دوسری ہو ہی نہیں سکتی۔بھینس،گائے اور بکری کے دودھ میں اگرچہ مطلوبہ غذائی اجزاء تو پائے جاتے ہیں لیکن تناسب اور تواز ن کے لحاظ سے ماں کا دودھ ہی بہترین ثا بت ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ طبی ماہرین کے مطابق ایسے افراد جو بچپن میں شیر خواری کی پوری مدت میں ماں کا دودھ پیتے ہیں ان کے جسم میں بیماریوں کے خلاف قوت ِمدافعت زیادہ کار گر ثابت ہوتی ہے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ نومولود بچے کو ماں اپنا دودھ پلائے ۔کم ازکم 6 مہینے متواتر بچے کو لازمی دودھ پلانا چا ہیے یہ بچے کا حق بھی ہے۔

اسی طرح اگر فیڈر سے دودھ پلانا مجبوری ہو تو ہر بار فیڈر کو پانی میں پکا کر دھونے کے بعد بچے کو دودھ پلایا جائے۔دھیان رہے کہ ماں کے دودھ کے علاوہ بچے کو بکری، گائے یا بھینس کا دودھ ہی پلایا جانا چاہیے۔ خشک اور ڈبوں والا دودھ بھی بچے کے میٹابولزم کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔

جدید طبی تحقیقات کی روشنی میں حقائق سامنے آئے ہیں کہ ماں کے دودھ میں نہ صرف مطلوبہ غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں بلکہ ایسے مفید اینٹی باڈیز(anti bodies) بھی پائے جاتے ہیں جو بچے کو بیکٹیریا ز،وائرس اور جراثیم سے پھیلنے والی بیماریوں جیسے تشنج،کالی کھانسی، نمونیہ، خناق ،ٹائیفائیڈ،پیچش،فلو،پولیو اور معدہ و آنتوں کی سوزش کے خطرات سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔فی زمانہ مندرجہ بالا امراض کے عام ہونے کی ایک بڑی وجہ ماؤں کا اپنے بچوں کو دودھ نہ پلانا بھی ہے۔

آج کل کی مائیں سمارٹ نس (smartness) کے چکر میں بچوں کو دودھ پلانے سے انکاری ہوتی ہیں، وہ مامتا کے حقیقی تقاضوں اور ذمے داریوں سے پہلوتہی کرتے ہوئے اپنے جگرگوشوں کو بیماریوں کے سپرد کررہی ہیں۔ دودھ میں پائے جانے والے غذائی اجزاء میں نشاستہ،چکنائی، پروٹین،کیلشیم،پوٹاشیم، مگنیشیم،جست، فاسفورس، سوڈیم،آیو ڈین، ریبو فلاوین، وٹامن بی12،وٹامن سی اور وٹامن ڈی وغیرہ شامل ہیں چونکہ نومولود نرم ونازک ہوتے ہیں، ان کا نظام ہضم کمزور ہوتا ہے۔ یوں قدرت نے بچوں کے لیے نرم غذا ہی یعنی دودھ (ماں کا دودھ) کا اہتمام کر کے نسل انسانی کی افزائش اور نشو ونما کا بند وبست بھی فرما دیا۔

بطورِ متوازن غذا ا دودھ کا روزانہ استعمال بچے کو ضروری غذائی اجزاء فراہم کرتا ہے۔بچے کو جسم کی نشوونما کے لیے روزانہ کیلشیم کی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے اور ماں کا دودھ اس ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ یاد رہے کہ کیلشیم ہڈیوں کی بناوٹ اور مضبوطی میں مدد کرتا ہے۔یہ اعصابی افعال، پٹھوں کی تعمیر اور خون کے انجماد میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔

اسی طرح نو مولود کے بدن کو آیوڈین کی مقدار بھی درکار ہوتی ہے جسے دودھ فراہم کرتا ہے۔دودھ کی مصنوعات گلھڑ سے بچانے والے ذرائع خوردنی آیوڈین مہیا کرتی ہیں۔تاہم مُختلف مطالعاتی رپورٹس کے مطابق دودھ میں موسم اور علاقے کے لحاظ سے آیوڈین کی مقدار مُختلف ہوتی ہے۔ایک اوسط درجے کی مقدار 50 ملی گرام تک پائی جاتی ہے۔

وٹامن ڈی کی خاص مقدار بھی انسانی جسم کی روز مرہ ضرورت میں شامل ہوتی ہے۔ وٹامن ڈی کیلشیم کے ساتھ مل کر ہڈیوں کی ساخت بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بدن کی یہ ضرورت دودھ کا استعمال بآسانی پوری کردیتا ہے۔ ریبو فلاوین کی مطلوبہ مقدار بھی ہمیں دودھ سے ہی مہیا ہوسکتی ہے۔ ریبو فلاوین توانائی کشید کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ عام جسم کو روز مرہ فاسفورس کی مخصوص مقدار بھی درکار ہوتی ہے۔ یہ ہڈیوں کی مضبوطی اور توانائی مہیا کرنے کے لیے لازمی سمجھی جاتی ہے۔

دودھ کے مناسب استعمال سے فاسفورس کی مطلوبہ مقدار حاصل کی جاسکتی ہے۔ ایک تن درست بچے کووٹامن بی بھی چاہیے ہوتی ہے، یہ خون کے سُرخ ذرات کے لیے لازمی عنصر سمجھا جاتا ہے۔ ماں کا دودھ بچے کی اس ضرورت کو پورا کرتا ہے، اسی طرح پروٹین بھی ہمارے انسانی بدن کی ایک لازمی ضرورت ہے۔اس کی خاص مقدار بچے کو روزانہ درکار ہوتی ہے۔ پروٹین جسم کے عضلات اور بافتوں کی بہتری کے لیے ایک ضروری جُز ہے لہٰذا دودھ اعلیٰ اور معیاری پروٹین کا سب سے عمدہ ذریعہ ہے جوتمام قسم کے ضروری امینو ایسڈز یا پروٹینی تیزابی مادوں سے لبریز ہوتا ہے۔

پوٹاشیم بھی انسانی جسم کی لازمی ضرورت ہے۔ یہ محلولاتی توازن،بلند فشارالدم اور پٹھوںکی حرکات و تعمیر کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔اس کی مطلوبہ مقدار ہم دودھ سے حاصل کر سکتے ہیں۔ خالص دودھ نہ استعمال کرنے سے انسانی جسم کئی ایک امراض کے نرغے میں پھنس سکتا ہے۔دودھ سے حاصل ہونے والے معدنی اجزاء (کیلیشیم،پوٹاشیم،فاسفورس،جست،آیوڈین،ریبو فلاوین وغیرہ) کی کمی سے ہڈیوں،پٹھوں،آنتوںاورگلھڑ جیسے مُضر مسائل پیدا ہوکر بچوں کو ذہنی اور بدنی الجھنوں سے دو چار کر سکتے ہیں۔

دودھ میں معیاری چکنائی کی مقدار 3.5 فیصد تک مانی جاتی ہے لیکن دنیا کے مُختلف ممالک میںدودھ میں چکنائی کی مقدار مُختلف استعمال کی جاتی ہے۔ عام طور پر ترقی یافتہ ممالک میں ایک فیصد یا چکنائی سے بالکل صاف دودھ پینے کا رواج زور پکڑ رہا ہے۔ دودھ میں10 سے زیادہ غذائی اجزاء ،معدنیات،حیاتین، پروٹینز،نشاستہ اور چکنائیاں پائی جاتی ہیں۔یہ اجزاء ایک صحت مند جسم کے لیے لازمی خیال کیے جاتے ہیں اور مُختلف بیماریوں سے ہماری حفاظت کرتے ہیں۔

انسانی اور حیوانی دودھ میں پائے جانے والے فرق کے بارے جاننا بڑا ضروری ہے تاکہ دودھ کی افادیت کے حوالے سے معلومات سے واقفیت ہو سکے۔انسانی اور حیوانی دودھ میں پائے جانے والے غذائی اجزاء کا فرق کچھ یوں ہے:

غذائی اجزاء فی 100گرام


اجزاء...انسانی دود...حیوانی دودھ

پرٹین... 1.2 گرام...4 گرام

چکنائی...4گرام...3.5 گرام

کاربوہائیڈریٹس...9 گرام...4.9 گرام

کیلشیم...33گرام...118 گرام

فاسفورس...18گرام...97 گرام

سوڈیم...16گرام...50 گرام

انسانی اور حیوانی دودھ کے مابین پائے جانے والے فرق سے واقف ہو کر ہم اپنے بچوں کے لیے بہتر غذا کا انتخاب کر سکتے ہیں۔

بچوں کو پانی ہمیشہ ابلا ہوا اور شفاف پلایا جائے۔ بچے کو چھٹے ماہ سے ٹھوس غذا کا استعمال شروع کروادیا جائے۔تمام موسمی پھل خاص کر کیلا ابلے ہوئے آلو اور دوسرے نرم غذائی اجزاء کا لازمی استعمال شروع کروا دیا جائے۔ بچوں کی حفاظت کے حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ حفاظتی ٹیکے بر وقت اور ضرور لگوائے جائیں۔ بچے کے ماحول کو صاٖ ف ستھرا اور ہوادار رکھا جائے۔ ماحول اور موسم بچے چھوڑ بڑوں کو بھی لازمی متاثر کرتے ہیں۔

بچے کا ماحول ماں کی گود سے شروع ہوتا ہے اور موسمی اثرات بھی ماں کی طرز نگہداشت سے ہی مرتب ہو پاتے ہیں۔بچے کی بہتر صحت کے لیے گھر کا کھلا اور ہوا دار ہونا لازمی ہے۔بچوں کی صحت کو خاندانی اشتراک(Joint family systom) بہت زیادہ متاثر کرتا ہے۔ ایک ہی گھر اور ایک ہی کمرے میں کئی کئی افراد کا رہنا نومولود کی صحت پر بہت برے اثرات ڈالتا ہے۔ چونکہ بچے کی قوت مدافعت کمزور ہونے کی وجہ سے بچہ بریتھنگ سے بہت اثر لیتا ہے جو بعد میں کسی بیماری کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ یاد رکھیں ! خاندانی پیار محبت اپنی جگہ لیکن مختلف خاندانوں کو الگ الگ کھلے اور ہوادار گھروں میں رہنا چاہیے۔

بچے کے لیے موسم کی مناسبت سے لباس،خوراک اور آب و ہوا کا بند بست کرنا گویا بچے کو بیماریوں سے محفوط رکھنا ہے۔سردی کے موسم میں گرم پانی سے مناسب وقت نہلانا،گرم لباس پہنانا ،توانائی سے لبریز غذا کھلانااور سردی کی شدت سے بچانا والدین کی پہلے ذمے داری ہے۔معالجین کے پاس آنے والے اکثر بچے والدین کی عدم توجہ کی وجہ سے موسمی اثرات کی لپیٹ میں آکر بیمار پڑتے ہیں۔

حالانکہ اگر تھوڑی سی توجہ دی جائے تو بچے اور والدین پریشانی سے بچ سکتے ہیں۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بچے کو ماں کا دودھ روزانہ مناسب مقدار میں پلا کر نہ صرف اسے تن درست و توانا رکھ سکتے ہیں بلکہ لا تعداد بیماریوںکے حملوں سے بھی محفوظ بنا سکتے ہیں۔لیکن دھیان رہے کہ اگر بچے کو کسی وجہ سے ماں کا دودھ میسر نہیں آرہا ہو یا ہضم نہیں ہو پارہا ہو تو حیوانی خالص دودھ بچے کو پلاکر ہی ہم اس کی بہتر نگہداشت کر سکتے ہیں ۔

ہمارے ہاں دودھ فروش کمپنیوں نے اپنی مضبوط مارکیٹنگ کے بل بوتے عام صارف کو وائرس، بیکٹیریا اور جراثیم کی آلودگی کا ڈراوا دے کر حیوانی دودھ (بکری،گائے،بھینس) سے خوف زدہ کردیا ہے۔ مارکیٹ میں مصنوعی دودھ کی اس قدر بھرمار ہے اور ٹی وی و اخبارات پر اشتہارات کے ذریعے عوام الناس کو دودھ کے نام پر مبینہ طور پر اراروٹ پاؤڈر،سنگھاڑوںکا آٹا،کاغذ کا گودا،جھاگ بنانے والے کیمیکل، سرف ،میٹھا سوڈا،یوریا کھاد اور نہ معلوم کیا کیا پلا یاجارہا ہے۔

یہی نہیں تازہ دودھ بیچنے والے گوالے بھی اس سلسلے میں اپنی ذمے داریاں بخوبی نبھاتے ہوئے مبینہ طور پر گندے جوہڑوں کا پانی،چاولوں کا آٹا،گاچی(مٹی کی خاص قسم جو دودھ گاڑھا کرنے کے لیے دودھ میں ملاتے ہیں)دودھ میں ملا کر انسانی نسل کشی میں برابر کے شریک ہیں۔ معدے اور انتڑیوں کی امراض میں اضافے کی ایک بڑی وجہ دودھ میں ملاوٹ شدہ اشیاء بھی ہیں۔کیونکہ دودھ میں شامل کیے جانے والے مبینہ مذکورہ اجزاء انتڑیوں کو متاثر کرتے ہیں۔

مصنوعی اور غیر فطری دودھ نہ جسمانی ضرورت کو پورا کر سکتا ہے اور نہ ہی امراض سے بچوں کو تحفظ فراہم کر سکتا ہے۔ بچے ہمارا مستقبل ہیں اور ان کی صحت دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے،ایک ایسی نعمت جس کا ایک پل بھی کسی قیمت پر خریدا نہیں جا سکتا لہٰذا اس کی قدر کرتے ہوئے خالص اور ملاوٹ سے پاک دودھ کا استعمال کر کے اپنے بچوں اور اپنی صحت مندی کا لُطف اُٹھائیں۔ ماؤں کو چاہیے کہ وہ بچوں کو اپنا دودھ پلائیں اور آنے والی نسلوں کی مضبوطی کی بنیاد رکھنے کا سہرا اپنے سر سجائیں۔
Load Next Story