ایک سفر باب الاسلام کے تاریخی مقامات کا تیسرا حصہ
گڑھی خدابخش میں بھٹو خاندان کا مزار کسی صوفی کی درگاہ، مغلوں کی یادگار اور سیاسی روداد کا ایک مرکب ہے
موئن جو دڑو کو الوداع کہنے کے بعد ہم ﺳﺎﺑﻖ ﻭﺯﯾﺮﺍﻋﻈﻢ ﺷﮩﯿﺪ ﻣﺤﺘﺮﻣﮧ ﺑﯿﻨﻈﯿﺮ ﺑﮭﭩﻮ اور سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کے مزار پر پہنچے۔ تاریخ میں ایسی ہستیوں کا نام سنہری حروف میں لکھا جاتا ہے جنہوں نے اپنی خداداد صلاحیتیں اپنی قوم اور انسانیت کی خدمت کےلیے وقف کردی تھی۔ ایسی ارفع شخصیات کا تعلق خواہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے ہو، انہوں نے اپنی جدوجہد، علم، تدبر، جرأت اور دوسروں کےلیے کچھ کر گزرنے کا عزم لے کر زندگی گزاری۔ درحقیقت لاڑکانہ نوڈیرو اور گڑھی خدابخش کی سڑکوں پر چہل قدمی اور ڈرائیونگ کرتے ہوئے آپ ایسے محسوس کریں گے کہ جیسے ایک سیاسی جشن میں شریک ہونے جا رہے ہیں۔ لاڑکانہ سے گڑھی خدابخش جانے والے تمام راستوں پر پیپلزپارٹی کے بڑے بڑے استقبالیہ بینر لگا جاتے ہیں۔ ان بینرز میں سندھ اور پاکستان بھر سے آنے والے حمایتوں کا خیرمقدم کیا جاتا ہے۔ بھٹو خاندان کی تصاویر کے پرانے بینروں کے ہجوم کے ساتھ ہر طرف صوبائی، ضلعی اور مقامی عہدے داروں کی بڑی بڑی تصاویر کے بینرز بھی سڑکوں پر ہرطرف بکھرے ہوتے ہیں جنہیں اٹھانے والا کوئی نہیں ہوتا۔
یہ بلاگز بھی ضرور پڑھیے:
ایک سفر باب الاسلام کے تاریخی مقامات کا (پہلی قسط)
ایک سفر باب اسلام کے تاریخی مقامات کا (دوسری قسط)
ہم لاڑکانہ شہر کے جنت چوک سے سیدھا گڑھی خدا بخش کی جانب رواں دواں تھے، وہ شہر دنیا بھی گڑھی خدا بخش لاڑکانہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس شہر کی خوبصورتی اگر کسی چیز سے ہے وہ بھٹو خاندان کے مزاروں پر بنی تاج نما عمارت سے ہے۔ مستری وقار اکبر رضوی اور ضیغم جعفری نے یہ تاج محل جیسی شاندار عمارت تعمیر کروائی ہے۔
اس عمارت میں پانچ گنبد اور چار ایوان، تاج محل کی طرح سے تعمیر کیے گئے ہیں۔ اسے مکمل طور پر سفید پتھر سے بنایا گیا ہے۔ ٹائلوں پر سندھی نقش و نگار کی ہیں۔ اس چمکتی دمکتی عمارت کی بلند و بالا دیواروں سے باہر کی دنیا یعنی بھٹو کے مزار کے اردگرد ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور خستہ حال گھر اور سڑکیں موجود ہیں جو علاقے کی داستان سناتے ہیں؛ جبکہ اس تاج محل عمارت میں جو شخصیات مدفون ہیں، وہ قومی سیاست میں اہم کردار ادا کرچکی ہیں۔ اس یادگار عمارت کے یہی شایانِ شان ہوسکتا ہے، خاص طور پر بھٹو خاندان کی شخصیات کا درجہ اب سندھ میں سیاستدان کے ساتھ ساتھ لوک داستانوں کے ہیروز کی مانند ہوچکا ہے۔ حیرت انگیز بات نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے سیاسی قتل کی وجہ سے سندھ میں ان کی شخصیت کے تصور پر تقریباً صوفیانہ رنگ چڑھ گیا ہے۔ یہ مزار قائد عوام جناب ذوالفقار علی بھٹو شہید کی آخری آرام گاہ ہے۔ آخری آرام گاہ کے باہر سردی سے مقابلہ کرنے کےلیے پھیری لگانے والے اُبلے ہوئے انڈے، چاٹ، پاپڑ اور بھاپ اُڑاتی ہوئی گرما گرم چائے فروخت کر رہے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو، پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم اور بابائے آئینِ پاکستان ہیں۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ یہاں بھٹو خاندان کے بزرگ دفن ہیں جن میں شاہ نواز بھٹو، خورشید بیگم، سکندر بھٹو، امداد علی بھٹو، شاہنواز بھٹو مرتضی بھٹو اور بے بینظیر بھٹو شامل ہیں۔ بے ﻧﻈﯿﺮ ﺑﮭﭩﻮ ﻣﻠﮑﯽ ﺳﯿﺎﺳﯽﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﯽ ﺑﮯ ﻣﺜﺎﻝ ﻟﯿﮉﺭ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﺍﮐﯿﺲ ﺟﻮﻥ 1953 ﮐﻮ ﺫﻭﺍﻟﻔﻘﺎﺭ ﻋﻠﯽ ﺑﮭﭩﻮ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﯿﮟ۔ ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﮐﺮﺍﭼﯽ، ﺭﺍﻭﻟﭙﻨﮉﯼ، ﺍﻭﺭ ﻣﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻋﻠﯽٰ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﺎرﻭﺭﮈ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍٓﮐﺴﻔﻮﺭﮈ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯽ۔ ﺍٓﺭﻣﯽ ﭼﯿﻒ ﺟﻨﺮﻝ ﺿﯿﺎ ﺍﻟﺤﻖ ﻧﮯ 1977 ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺷﻞ ﻻﺀ ﻧﺎﻓﺬ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﭩﻮ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﮨﻮﺋﮯ۔ بعد ازاں ﺫﻭﺍﻟﻔﻘﺎﺭ ﻋﻠﯽ ﺑﮭﭩﻮ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﮯ ﺍﻟﺰﺍﻡ ﻣﯿﮟ ﺳﺰﺍﺋﮯ ﻣﻮﺕ ﺳﻨﺎﺋﯽ ﮔﺌﯽ۔ 1985 ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﻧﻈﯿﺮﮐﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺷﺎﮨﻨﻮﺍﺯ ﺑﮭﭩﻮ ﻓﺮﺍﻧﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﺍﺳﺮﺍﺭ ﻣﻮﺕ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﻮﺋﮯ تھے۔ ﯾﮧ ﺩﻭﺭ ﺑﮯ ﻧﻈﯿﺮ ﺑﮭﭩﻮ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺑﺪﺗﺮﯾﻦ ﺩﻭﺭ ﺗﮭﺎ۔ 1988 میں بے نظیر بھٹو ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎتھ ﺳﺎتھ ﻣﺴﻠﻢ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﻭﺯﯾﺮﺍﻋﻈﻢ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ 20 ﻣﺎﮦ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﻮ ﮐﺮﭘﺸﻦ ﮐﮯ ﺍﻟﺰﺍﻣﺎﺕ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺗﺤﻠﯿﻞ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔ 1993 ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺍﻧﺘﺨﺎﺑﺎﺕ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﻮ ﺑﮯ ﻧﻈﯿﺮ ﺍﯾﮏ مرتبہ ﭘﮭﺮ ﻓﺎﺗﺢ تھیں۔
آخر وہ دن آگیا جب 27 ﺩﺳﻤﺒﺮ 2007 ﮐﻮ ﺑﮯ ﻧﻈﯿﺮ ﺑﮭﭩﻮ، ﻟﯿﺎﻗﺖ ﺑﺎﻍ راولپنڈی ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﺨﺎﺑﯽ ﺟﻠﺴﮯ ﺳﮯ ﺧﻄﺎﺏ ﮐﺮﻧﮯ ﺍٓﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﭘﺮ ﺑﯿﮏ ﻭﻗﺖ ﺩﮬﻤﺎﮐﮯ ﺍﻭﺭ ﮔﻮﻟﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﻮﻧﺞ ﻧﮯ ﻣﻨﻈﺮﻧﺎﻣﮧ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮐﺮﺩﯾﺎ اور ﺑﮯ ﻧﻈﯿﺮ اﺴﭙﺘﺎﻝ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺩﻡ ﺗﻮﮌگئیں۔ اس طرح بھٹو خاندان کی اسٹوری ختم ہوگئی۔ آج کل سندھ کے باسی اس طرح کی لوک داستانیں بچوں کو سناتے ہیں۔
سندھ دھرتی کے جو آج کل حالات ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ میں کئی مرتبہ بھٹو خاندان کے مزار پر گیا ہوں مگر میں نے جو دیکھا وہ حیران کن تھا۔ بھٹو خاندان کے مزار پر موجود اس چاردیواری کے کئی خصوصی دروازے ہیں جن میں ایک دروازہ بلاول کا، ایک دروازہ آصفہ کا، ایک دروازہ زرداری کا، ایک دروازہ صحافیوں کا، ایک دروازہ پی پی کے ایم این اے کا، ایک ایم پی اے کا، ایک دروازہ وکیل برادری کا، ایک دروازہ سندھ پولیس کا، ایک دروازہ پی پی سندھ کے کارکنان کا، ایک دروازہ چاروں صوبوں کے پی پی کے جیالوں کا۔ میں سوچ رہا تھا کہ آخر عام لوگوں کا دروازہ کون سا ہے جس سے ہم جیسے لوگ داخل ہوں گے۔ میں اسی کوشش میں تھا کہ ہم کس دروازے سے اندر جائیں تو اسی دوران ہمیں بتایا گیا کہ ہم جیسے غریبوں کا دروازہ 13 نمبر ہے۔ اس دروازے تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔ یہ ایک ایسا دروازہ ہے جس پر کچھ پولیس والے ہماری فل تلاشی لینے کےلیے کھڑے تھے۔
جب ہمیں اپنا دروازہ ملا تو ہم پھنس گئے۔ اب ہم اپنی بائیک کہا ٹھرائیں، تو پارکنگ کا اسٹال ڈھونڈھنے لگے۔ 15 منٹ کی مسافت کے بعد کہیں جا کر بائیک کا اسٹال ملا جہاں پر 50 کا نوٹ دے کر بائیک کھڑی کی اور ایک ٹوکن ہمیں تھما دیا گیا تاکہ واپسی پر اپنی بائیک سنبھال کر لے جائیں۔ اب ہم اندر کی طرف چل پڑے۔ اندر داخل ہوئے تو سب سے پہلے ہمارا شناختی کارڈ دیکھا گیا۔ شناختی کارڈ دیکھتے ہی پولیس والا بولا بلوچستان سے آئے ہو؟ تو ہم بولے جی ہاں، تو اس وقت ہماری فل تلاشی لی گئی جیسے ہم بڑے دہشت گرد صوبے سے آئے ہیں۔ پاؤں سے لے کر سر تک ہماری تلاشی لی گئی اور اس کے بعد اندر داخل ہونے دیا گیا۔ بلوچستان کا شناختی کارڈ ہمیں مہنگا پڑ گیا۔ شاید سی پیک کی ترقی کی وجہ سے ہم پولیس والوں کو بہت برے لگنے لگ گئے۔
بہرحال! ہم اندر داخل ہوگئے تو ہمیں بتایا گیا کہ اس چاردیواری کے اندر بہت سے الگ الگ پنڈال بنے ہوئے ہیں۔ ایک پنڈال غریبوں کا، ایک پنڈال وڈیروں کا، ایک پنڈال سینئر صحافیوں کا، ایک پنڈال نوجوانوں کا، ایک پنڈال جیالوں کا، اور ایک پنڈال بچوں کا ہے جنہیں ستائیں دسمبر کے روز اسکول سے چھٹی دی جاتی ہے۔ اس دن رش اتنا ہوتا ہے کہ کوئی اٹھتا تو جلد اس کو بیٹھنے کا بولا جاتا تھا۔ اس دن ہمارے ملک کے ایم این اے اور ایم پی اے کچھ کچھ نظر آتے جن کے چہرے برسوں میں بہ مشکل کوئی دیکھ پاتا ہے۔ کاش اس موقعے پر ہم بھی کبھی جائیں تو عید کے چاند کی طرح ان کا چہرہ دیکھ سکیں گے۔ ویسے بھی اس وقت رویت ہلال کمیٹی کے پاس اپنی دوربین فارغ ہوتی ہے، کاش وہ ہمیں دے دیں تو آج ہم ان سب چہروں کو دیکھ پاتے جو اس ملک کے سربراہ بنے اور کچھ بننے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ ان کی تقاریر کا آغاز ہمیشہ کی طرح چھوٹے چھوٹے جیالے کرتے ہیں، پھر کچھ بڑے جیالے آجاتے ہیں، پھر اس سے بڑے جیالے آ جاتے ہیں۔ اس طرح تقاریر پر تقاریر چلتی رہتی ہیں۔ جیالے نعرے لگانے میں اس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ سردی کے باوجود شدید سردی کا احساس تک کسی کو نہیں رہتا۔ اس وجہ سے جیالوں کو دسمبر زکام ضرور ہوتا ہے۔
پھر سب سے بڑا جیالا آجاتا ہے تو زکام کا احساس ختم ہوجاتا ہے۔ اس جیالے کی تقریر بڑی جذباتی ہوتی ہے۔ وہ سب پر تنقید کرتا ہے اور سب کو تیر کا نشانہ بناتا ہے؛ اور عوام ان تقاریر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جیالے تالیاں بجاتے رہتے ہیں جبکہ ہم جیسے عوام ٹی وی پر جذباتی تقاریریں سننے کے ساتھ جذباتی ہوتے رہتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ گڑھی خدا بخش میں جو کچھ بھی ہے، وہ نہایت منفرد ہے۔ خاص طور پر اگر کوئی بھٹو خاندان کے مزار کی جانب رات کے وقت سفر کرے تو رات کی تاریکی میں گڑھی خدابخش کو جاتی ویران سڑک، تاریک پس منظر میں ٹمٹماتے قمقمے کی مانند روشنی سے نہایا ہوا مزار اُبھرتا ہے جو کسی صوفی کی درگاہ، مغلوں کی یادگار اور سیاسی روداد کا ایک مرکب ہے۔
پیپلز پارٹی کی سیاست کے بارے میں کسی کی جو بھی سوچ ہو، لیکن یہ عمارت سب کےلیے نہایت جاذبِ نظر ہے۔ یہاں آنے والے افراد کی بڑی تعداد ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے، جبکہ کچھ لوگ اس لیے آتے ہیں کہ یہاں ان کی دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں۔ سندھ میں صوفی بزرگوں کے ساتھ عقیدت و محبت کے تعلق کی ثقافتی جڑیں بہت گہرائی تک چلی گئی ہیں۔ ہم نے اس تاج محل نما عمارت کو خیرباد کہا اور صوفی بزرگ سچل سر مست کے مزار کی طرف چل پڑے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ بلاگز بھی ضرور پڑھیے:
ایک سفر باب الاسلام کے تاریخی مقامات کا (پہلی قسط)
ایک سفر باب اسلام کے تاریخی مقامات کا (دوسری قسط)
ہم لاڑکانہ شہر کے جنت چوک سے سیدھا گڑھی خدا بخش کی جانب رواں دواں تھے، وہ شہر دنیا بھی گڑھی خدا بخش لاڑکانہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس شہر کی خوبصورتی اگر کسی چیز سے ہے وہ بھٹو خاندان کے مزاروں پر بنی تاج نما عمارت سے ہے۔ مستری وقار اکبر رضوی اور ضیغم جعفری نے یہ تاج محل جیسی شاندار عمارت تعمیر کروائی ہے۔
اس عمارت میں پانچ گنبد اور چار ایوان، تاج محل کی طرح سے تعمیر کیے گئے ہیں۔ اسے مکمل طور پر سفید پتھر سے بنایا گیا ہے۔ ٹائلوں پر سندھی نقش و نگار کی ہیں۔ اس چمکتی دمکتی عمارت کی بلند و بالا دیواروں سے باہر کی دنیا یعنی بھٹو کے مزار کے اردگرد ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور خستہ حال گھر اور سڑکیں موجود ہیں جو علاقے کی داستان سناتے ہیں؛ جبکہ اس تاج محل عمارت میں جو شخصیات مدفون ہیں، وہ قومی سیاست میں اہم کردار ادا کرچکی ہیں۔ اس یادگار عمارت کے یہی شایانِ شان ہوسکتا ہے، خاص طور پر بھٹو خاندان کی شخصیات کا درجہ اب سندھ میں سیاستدان کے ساتھ ساتھ لوک داستانوں کے ہیروز کی مانند ہوچکا ہے۔ حیرت انگیز بات نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے سیاسی قتل کی وجہ سے سندھ میں ان کی شخصیت کے تصور پر تقریباً صوفیانہ رنگ چڑھ گیا ہے۔ یہ مزار قائد عوام جناب ذوالفقار علی بھٹو شہید کی آخری آرام گاہ ہے۔ آخری آرام گاہ کے باہر سردی سے مقابلہ کرنے کےلیے پھیری لگانے والے اُبلے ہوئے انڈے، چاٹ، پاپڑ اور بھاپ اُڑاتی ہوئی گرما گرم چائے فروخت کر رہے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو، پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم اور بابائے آئینِ پاکستان ہیں۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ یہاں بھٹو خاندان کے بزرگ دفن ہیں جن میں شاہ نواز بھٹو، خورشید بیگم، سکندر بھٹو، امداد علی بھٹو، شاہنواز بھٹو مرتضی بھٹو اور بے بینظیر بھٹو شامل ہیں۔ بے ﻧﻈﯿﺮ ﺑﮭﭩﻮ ﻣﻠﮑﯽ ﺳﯿﺎﺳﯽﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﯽ ﺑﮯ ﻣﺜﺎﻝ ﻟﯿﮉﺭ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﺍﮐﯿﺲ ﺟﻮﻥ 1953 ﮐﻮ ﺫﻭﺍﻟﻔﻘﺎﺭ ﻋﻠﯽ ﺑﮭﭩﻮ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﯿﮟ۔ ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﮐﺮﺍﭼﯽ، ﺭﺍﻭﻟﭙﻨﮉﯼ، ﺍﻭﺭ ﻣﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻋﻠﯽٰ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﺎرﻭﺭﮈ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍٓﮐﺴﻔﻮﺭﮈ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯽ۔ ﺍٓﺭﻣﯽ ﭼﯿﻒ ﺟﻨﺮﻝ ﺿﯿﺎ ﺍﻟﺤﻖ ﻧﮯ 1977 ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺷﻞ ﻻﺀ ﻧﺎﻓﺬ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﭩﻮ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﮨﻮﺋﮯ۔ بعد ازاں ﺫﻭﺍﻟﻔﻘﺎﺭ ﻋﻠﯽ ﺑﮭﭩﻮ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﮯ ﺍﻟﺰﺍﻡ ﻣﯿﮟ ﺳﺰﺍﺋﮯ ﻣﻮﺕ ﺳﻨﺎﺋﯽ ﮔﺌﯽ۔ 1985 ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﻧﻈﯿﺮﮐﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺷﺎﮨﻨﻮﺍﺯ ﺑﮭﭩﻮ ﻓﺮﺍﻧﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﺍﺳﺮﺍﺭ ﻣﻮﺕ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﻮﺋﮯ تھے۔ ﯾﮧ ﺩﻭﺭ ﺑﮯ ﻧﻈﯿﺮ ﺑﮭﭩﻮ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺑﺪﺗﺮﯾﻦ ﺩﻭﺭ ﺗﮭﺎ۔ 1988 میں بے نظیر بھٹو ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎتھ ﺳﺎتھ ﻣﺴﻠﻢ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﻭﺯﯾﺮﺍﻋﻈﻢ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ 20 ﻣﺎﮦ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﻮ ﮐﺮﭘﺸﻦ ﮐﮯ ﺍﻟﺰﺍﻣﺎﺕ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺗﺤﻠﯿﻞ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔ 1993 ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺍﻧﺘﺨﺎﺑﺎﺕ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﻮ ﺑﮯ ﻧﻈﯿﺮ ﺍﯾﮏ مرتبہ ﭘﮭﺮ ﻓﺎﺗﺢ تھیں۔
آخر وہ دن آگیا جب 27 ﺩﺳﻤﺒﺮ 2007 ﮐﻮ ﺑﮯ ﻧﻈﯿﺮ ﺑﮭﭩﻮ، ﻟﯿﺎﻗﺖ ﺑﺎﻍ راولپنڈی ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﺨﺎﺑﯽ ﺟﻠﺴﮯ ﺳﮯ ﺧﻄﺎﺏ ﮐﺮﻧﮯ ﺍٓﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﭘﺮ ﺑﯿﮏ ﻭﻗﺖ ﺩﮬﻤﺎﮐﮯ ﺍﻭﺭ ﮔﻮﻟﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﻮﻧﺞ ﻧﮯ ﻣﻨﻈﺮﻧﺎﻣﮧ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮐﺮﺩﯾﺎ اور ﺑﮯ ﻧﻈﯿﺮ اﺴﭙﺘﺎﻝ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺩﻡ ﺗﻮﮌگئیں۔ اس طرح بھٹو خاندان کی اسٹوری ختم ہوگئی۔ آج کل سندھ کے باسی اس طرح کی لوک داستانیں بچوں کو سناتے ہیں۔
سندھ دھرتی کے جو آج کل حالات ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ میں کئی مرتبہ بھٹو خاندان کے مزار پر گیا ہوں مگر میں نے جو دیکھا وہ حیران کن تھا۔ بھٹو خاندان کے مزار پر موجود اس چاردیواری کے کئی خصوصی دروازے ہیں جن میں ایک دروازہ بلاول کا، ایک دروازہ آصفہ کا، ایک دروازہ زرداری کا، ایک دروازہ صحافیوں کا، ایک دروازہ پی پی کے ایم این اے کا، ایک ایم پی اے کا، ایک دروازہ وکیل برادری کا، ایک دروازہ سندھ پولیس کا، ایک دروازہ پی پی سندھ کے کارکنان کا، ایک دروازہ چاروں صوبوں کے پی پی کے جیالوں کا۔ میں سوچ رہا تھا کہ آخر عام لوگوں کا دروازہ کون سا ہے جس سے ہم جیسے لوگ داخل ہوں گے۔ میں اسی کوشش میں تھا کہ ہم کس دروازے سے اندر جائیں تو اسی دوران ہمیں بتایا گیا کہ ہم جیسے غریبوں کا دروازہ 13 نمبر ہے۔ اس دروازے تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔ یہ ایک ایسا دروازہ ہے جس پر کچھ پولیس والے ہماری فل تلاشی لینے کےلیے کھڑے تھے۔
جب ہمیں اپنا دروازہ ملا تو ہم پھنس گئے۔ اب ہم اپنی بائیک کہا ٹھرائیں، تو پارکنگ کا اسٹال ڈھونڈھنے لگے۔ 15 منٹ کی مسافت کے بعد کہیں جا کر بائیک کا اسٹال ملا جہاں پر 50 کا نوٹ دے کر بائیک کھڑی کی اور ایک ٹوکن ہمیں تھما دیا گیا تاکہ واپسی پر اپنی بائیک سنبھال کر لے جائیں۔ اب ہم اندر کی طرف چل پڑے۔ اندر داخل ہوئے تو سب سے پہلے ہمارا شناختی کارڈ دیکھا گیا۔ شناختی کارڈ دیکھتے ہی پولیس والا بولا بلوچستان سے آئے ہو؟ تو ہم بولے جی ہاں، تو اس وقت ہماری فل تلاشی لی گئی جیسے ہم بڑے دہشت گرد صوبے سے آئے ہیں۔ پاؤں سے لے کر سر تک ہماری تلاشی لی گئی اور اس کے بعد اندر داخل ہونے دیا گیا۔ بلوچستان کا شناختی کارڈ ہمیں مہنگا پڑ گیا۔ شاید سی پیک کی ترقی کی وجہ سے ہم پولیس والوں کو بہت برے لگنے لگ گئے۔
گڑھی خدابخش کی ایک پرانی یادگار تصویر
بہرحال! ہم اندر داخل ہوگئے تو ہمیں بتایا گیا کہ اس چاردیواری کے اندر بہت سے الگ الگ پنڈال بنے ہوئے ہیں۔ ایک پنڈال غریبوں کا، ایک پنڈال وڈیروں کا، ایک پنڈال سینئر صحافیوں کا، ایک پنڈال نوجوانوں کا، ایک پنڈال جیالوں کا، اور ایک پنڈال بچوں کا ہے جنہیں ستائیں دسمبر کے روز اسکول سے چھٹی دی جاتی ہے۔ اس دن رش اتنا ہوتا ہے کہ کوئی اٹھتا تو جلد اس کو بیٹھنے کا بولا جاتا تھا۔ اس دن ہمارے ملک کے ایم این اے اور ایم پی اے کچھ کچھ نظر آتے جن کے چہرے برسوں میں بہ مشکل کوئی دیکھ پاتا ہے۔ کاش اس موقعے پر ہم بھی کبھی جائیں تو عید کے چاند کی طرح ان کا چہرہ دیکھ سکیں گے۔ ویسے بھی اس وقت رویت ہلال کمیٹی کے پاس اپنی دوربین فارغ ہوتی ہے، کاش وہ ہمیں دے دیں تو آج ہم ان سب چہروں کو دیکھ پاتے جو اس ملک کے سربراہ بنے اور کچھ بننے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ ان کی تقاریر کا آغاز ہمیشہ کی طرح چھوٹے چھوٹے جیالے کرتے ہیں، پھر کچھ بڑے جیالے آجاتے ہیں، پھر اس سے بڑے جیالے آ جاتے ہیں۔ اس طرح تقاریر پر تقاریر چلتی رہتی ہیں۔ جیالے نعرے لگانے میں اس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ سردی کے باوجود شدید سردی کا احساس تک کسی کو نہیں رہتا۔ اس وجہ سے جیالوں کو دسمبر زکام ضرور ہوتا ہے۔
پھر سب سے بڑا جیالا آجاتا ہے تو زکام کا احساس ختم ہوجاتا ہے۔ اس جیالے کی تقریر بڑی جذباتی ہوتی ہے۔ وہ سب پر تنقید کرتا ہے اور سب کو تیر کا نشانہ بناتا ہے؛ اور عوام ان تقاریر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جیالے تالیاں بجاتے رہتے ہیں جبکہ ہم جیسے عوام ٹی وی پر جذباتی تقاریریں سننے کے ساتھ جذباتی ہوتے رہتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ گڑھی خدا بخش میں جو کچھ بھی ہے، وہ نہایت منفرد ہے۔ خاص طور پر اگر کوئی بھٹو خاندان کے مزار کی جانب رات کے وقت سفر کرے تو رات کی تاریکی میں گڑھی خدابخش کو جاتی ویران سڑک، تاریک پس منظر میں ٹمٹماتے قمقمے کی مانند روشنی سے نہایا ہوا مزار اُبھرتا ہے جو کسی صوفی کی درگاہ، مغلوں کی یادگار اور سیاسی روداد کا ایک مرکب ہے۔
پیپلز پارٹی کی سیاست کے بارے میں کسی کی جو بھی سوچ ہو، لیکن یہ عمارت سب کےلیے نہایت جاذبِ نظر ہے۔ یہاں آنے والے افراد کی بڑی تعداد ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے، جبکہ کچھ لوگ اس لیے آتے ہیں کہ یہاں ان کی دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں۔ سندھ میں صوفی بزرگوں کے ساتھ عقیدت و محبت کے تعلق کی ثقافتی جڑیں بہت گہرائی تک چلی گئی ہیں۔ ہم نے اس تاج محل نما عمارت کو خیرباد کہا اور صوفی بزرگ سچل سر مست کے مزار کی طرف چل پڑے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔