100 دن کے وعدے کا پروپیگنڈا
عمران خان 100 دنوں میں کیا سو ماہ میں بھی ان مسائل کی ٹانگ تک نہیں پہنچ سکتے۔
عمران خان کے سیاسی مخالفین کو ان کے خلاف کرپشن کا کوئی کیس نہ مل سکا تو انھوں نے ان کو عوام میں ''ڈی گریڈ''کرنے کے لیے انھیں وزیر اعظم عمران خان لکھنے اورکہنے کے بجائے صرف عمران خان یا عمران کہنا شروع کر دیا ہے۔ اس کا مقصد ان کی لیڈر شپ صلاحیتوںکو کم کر کے انھیں محض سطحی اپروچ کا حامل ایک عام آدمی کا تاثر دینا ہے۔ سیاست میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔
پاکستان بننے سے پہلے ہی یہ سازش کر لی گئی تھی کہ پاکستان میں صرف صنعتی اشرافیہ ہی کو اقتدار میں لایا جائے مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے کسی فرد کو خواہ وہ کتنا ہی قابل، تعلیم یافتہ اور اہل کیوں نہ ہو۔ بعض فوجی حکمرانوں نے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن ان کی ایمانداری اور صلاحیت پر آمریت کا لیبل لگا کر بدنام کیا گیا، ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا تعلق اگرچہ ایک جاگیردار خاندان سے تھا لیکن وہ جاگیردارانہ شان وشوکت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے فقر و فاقہ کے کلچر کو پسند کرتے تھے اور پیوند لگے کپڑے پہنتے تھے۔
لہٰذا انھیں قتل کروا کر راستے سے ہٹا دیا گیا۔ یوں پاکستان پر اشرافیائی اقتدارکے تسلسل کو باقی رکھا گیا، پاکستانی سیاست میں ولی عہدی نظام اسی سازش کا حصہ ہے جس سے باالواسطہ اور بلاواسطہ یہ ثابت کرنا تھا کہ اقتدار کا حق صرف اشرافیہ یعنی جاگیرداروں وڈیروں، صنعتکاروں اور بیوروکریٹس کو ہے، جب کہ عددی اعتبار سے یہ طبقہ دو فیصد سے بھی کم ہے اور 98 فیصد سے بھی کم ہے اور 98 فیصد غریب طبقات پر 71 سال سے حکومت کر رہا ہے۔
عمران خان 22 سال سے مسلسل جدوجہد کر رہا ہے کہ ہمارے ملک پر 71 سالوں سے قابض اشرافیہ کو کسی طرح سیاست بدر کر دے اور وہ 22 سال بعد اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے۔ عمران خان کی کامیابی اشرافیہ کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن گئی ہے اور اشرافیہ کی پوری پوری کوشش ہے کہ ہر قیمت پر عمران خان کی حکومت کو ناکام بنا دے۔ اشرافیہ نے دو طریقوں سے غریب طبقات مزدوروں کسانوں کو اپنے ایجنٹوں کے ذریعے یہ باور کرا رکھا ہے کہ حکومت کرنا صرف اشرافیہ کا حق ہے۔ غریب طبقات کا کام صرف حکمرانوں کی اطاعت کرنا ہے۔
اس سازش کو پر اثر بنانے کے لیے بکاؤ مذہبی قیادت سے بھرپور مدد لی گئی۔ مسجدوں، مندروں، گرجاؤں میں اس حوالے سے اس قدر موثر اور مدلل پروپیگنڈا کیا گیا کہ عام غریب آدمی نے اس پروپیگنڈے کو ایمان کا حصہ بنا دیا۔ جمہوریت میں ہر شہری کو انتخاب لڑنے کی آزادی ہے لیکن اس کتابی آزادی کو انتخابی کلچر کے ذریعے قتل کر دیا گیا۔ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کروڑوں روپے لازم بنا دیے گئے جو لوگ دو وقت کی روٹی کے محتاج ہوتے ہیں وہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کروڑوں روپے کہاں سے لا سکتے ہیں؟ میڈیا میں وراثتی اور ولی عہدی نظام کے خلاف مسلسل لکھنے سے عام آدمی اقتدار پر اشرافیہ کے حق کے فراڈ کو سمجھنے لگا ہے تو اب مڈل کلاس کی حکمرانی کے خلاف حکومت چلانے میں ناکامی کا بھرپور پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان نے بجا طور پرکہا ہے کہ جب سے تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی ہے حکومت گرانے کی سازشیں کی جا رہی ہیں یہ محض کوئی الزام نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے کہ دشمنان عوام کسی ایسی حکومت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں جس کی سربراہی مڈل کلاس کا ایک آزاد بندہ کر رہا ہو۔
ملک اشرافیہ کے قبضے میں ہے۔ دنیا کے جمہوری ملکوں میں عوام کے ذریعے منتخب ہونے والی حکومتیں اقتدار سنبھالنے سے پہلے عوامی مسائل کے حل کی ترجیحات طے کر کے انھیں حل کرنے کی منصوبہ بندی کرتی ہیں جب کہ اشرافیائی حکومتیں ایسے منصوبے تیار کرتی ہیں جس میں مال بنانے کے کھلے اور بے خطر مواقعے حاصل ہوں چونکہ یہ ''ماڈرن جمہوریت'' کا ماڈل سلسلہ لگ بھگ 7 دہائیوں سے جاری ہے اور لوٹ مار کے وسیع تجربات نے انھیں اس میدان کا اس قدر ماہر بنا دیا ہے کہ اس حوالے سے انھیں کسی خاص تگ و دو کی ضرورت نہیں پڑتی۔ حکومت کے اندر باہر ایسے ماہرین موجود ہوتے ہیں کہ ہر کام اس ہوشیاری سے کرتے ہیں کہ انھیں پکڑنے کے لیے نیب جیسے ادارے کو لوہے کے چنے چبانے پڑتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے 100 دنوں میں عوامی مفادات کے ایسے کام کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس سادہ دل بندے کو یہ علم نہ تھا کہ اشرافیہ کی حکومتوں نے لوٹ مار کے ذریعے جو پیچیدہ معاشی مسائل ورثے میں تحریک انصاف کے لیے چھوڑے ہیں وہ اس قدر پیچیدہ اور مشکل ہیں کہ عمران خان 100 دنوں میں کیا سو ماہ میں بھی ان مسائل کی ٹانگ تک نہیں پہنچ سکتے۔
بیورو کریسی جو ان مسائل کی آبیاری میں بے پناہ صلاحیت کا مظاہرہ کرتی ہے مطمئن رہتی ہے کہ ان کے بنائے ہوئے بتوں کو توڑنا آسان نہیں۔ بیورو کریسی عوامی مسائل کو اس قدر پیچیدہ بنا دیتی ہے کہ انھیں حل کرنا کسی نئی حکومت کے لیے ہی نہیں بلکہ اپنی سرپرست پرانی حکومتوں کے لیے بھی آسان نہیں رہتا، اسی فارمولے پر عمل درآمد کی وجہ نئی حکومت بے چاری سابقہ حکومتوں کے پرپیچ مسائل کی ابھی تک تہہ تک بھی نہیں پہنچ سکی اور نئی حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کا طوفان اٹھا دیا کہ عمران حکومت نے عوام کو سبز باغ دکھایا ہے۔
موجودہ نازک صورتحال میں ہر محب وطن کی یہ ذمے داری ہے کہ بقول صدر مملکت ظل الٰہیوں کا دور ختم ہوگیا ہے۔ صدر مملکت کا فرمانا بجا ہے لیکن ظل الٰہیوں نے آنے والوں کے لیے کانٹوں کی جو سڑکیں بنائی ہیں ان پر چل کر 100 دن میں عوام کے مسائل حل کرنا مشکل ہی نہیں مشکل ترین کام ہے اور اپوزیشن اپنی ہی کھڑی کی ہوئی اپنی دیواروں کو پھلانگ کر عوام کے مسائل حل نہ کرنے کا الزام نئی حکومت کو دے کر عوام کے دلوں میں جگہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس بار تو اسے لوہے کے چنے چبانے پڑیں گے اور عمران حکومت اگر ایمانداری سے کام کرے تو اس سیاسی اور معاشی نانگا پربت کو عبور کرلے گی۔
پاکستان بننے سے پہلے ہی یہ سازش کر لی گئی تھی کہ پاکستان میں صرف صنعتی اشرافیہ ہی کو اقتدار میں لایا جائے مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے کسی فرد کو خواہ وہ کتنا ہی قابل، تعلیم یافتہ اور اہل کیوں نہ ہو۔ بعض فوجی حکمرانوں نے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن ان کی ایمانداری اور صلاحیت پر آمریت کا لیبل لگا کر بدنام کیا گیا، ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا تعلق اگرچہ ایک جاگیردار خاندان سے تھا لیکن وہ جاگیردارانہ شان وشوکت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے فقر و فاقہ کے کلچر کو پسند کرتے تھے اور پیوند لگے کپڑے پہنتے تھے۔
لہٰذا انھیں قتل کروا کر راستے سے ہٹا دیا گیا۔ یوں پاکستان پر اشرافیائی اقتدارکے تسلسل کو باقی رکھا گیا، پاکستانی سیاست میں ولی عہدی نظام اسی سازش کا حصہ ہے جس سے باالواسطہ اور بلاواسطہ یہ ثابت کرنا تھا کہ اقتدار کا حق صرف اشرافیہ یعنی جاگیرداروں وڈیروں، صنعتکاروں اور بیوروکریٹس کو ہے، جب کہ عددی اعتبار سے یہ طبقہ دو فیصد سے بھی کم ہے اور 98 فیصد سے بھی کم ہے اور 98 فیصد غریب طبقات پر 71 سال سے حکومت کر رہا ہے۔
عمران خان 22 سال سے مسلسل جدوجہد کر رہا ہے کہ ہمارے ملک پر 71 سالوں سے قابض اشرافیہ کو کسی طرح سیاست بدر کر دے اور وہ 22 سال بعد اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے۔ عمران خان کی کامیابی اشرافیہ کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن گئی ہے اور اشرافیہ کی پوری پوری کوشش ہے کہ ہر قیمت پر عمران خان کی حکومت کو ناکام بنا دے۔ اشرافیہ نے دو طریقوں سے غریب طبقات مزدوروں کسانوں کو اپنے ایجنٹوں کے ذریعے یہ باور کرا رکھا ہے کہ حکومت کرنا صرف اشرافیہ کا حق ہے۔ غریب طبقات کا کام صرف حکمرانوں کی اطاعت کرنا ہے۔
اس سازش کو پر اثر بنانے کے لیے بکاؤ مذہبی قیادت سے بھرپور مدد لی گئی۔ مسجدوں، مندروں، گرجاؤں میں اس حوالے سے اس قدر موثر اور مدلل پروپیگنڈا کیا گیا کہ عام غریب آدمی نے اس پروپیگنڈے کو ایمان کا حصہ بنا دیا۔ جمہوریت میں ہر شہری کو انتخاب لڑنے کی آزادی ہے لیکن اس کتابی آزادی کو انتخابی کلچر کے ذریعے قتل کر دیا گیا۔ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کروڑوں روپے لازم بنا دیے گئے جو لوگ دو وقت کی روٹی کے محتاج ہوتے ہیں وہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کروڑوں روپے کہاں سے لا سکتے ہیں؟ میڈیا میں وراثتی اور ولی عہدی نظام کے خلاف مسلسل لکھنے سے عام آدمی اقتدار پر اشرافیہ کے حق کے فراڈ کو سمجھنے لگا ہے تو اب مڈل کلاس کی حکمرانی کے خلاف حکومت چلانے میں ناکامی کا بھرپور پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان نے بجا طور پرکہا ہے کہ جب سے تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی ہے حکومت گرانے کی سازشیں کی جا رہی ہیں یہ محض کوئی الزام نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے کہ دشمنان عوام کسی ایسی حکومت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں جس کی سربراہی مڈل کلاس کا ایک آزاد بندہ کر رہا ہو۔
ملک اشرافیہ کے قبضے میں ہے۔ دنیا کے جمہوری ملکوں میں عوام کے ذریعے منتخب ہونے والی حکومتیں اقتدار سنبھالنے سے پہلے عوامی مسائل کے حل کی ترجیحات طے کر کے انھیں حل کرنے کی منصوبہ بندی کرتی ہیں جب کہ اشرافیائی حکومتیں ایسے منصوبے تیار کرتی ہیں جس میں مال بنانے کے کھلے اور بے خطر مواقعے حاصل ہوں چونکہ یہ ''ماڈرن جمہوریت'' کا ماڈل سلسلہ لگ بھگ 7 دہائیوں سے جاری ہے اور لوٹ مار کے وسیع تجربات نے انھیں اس میدان کا اس قدر ماہر بنا دیا ہے کہ اس حوالے سے انھیں کسی خاص تگ و دو کی ضرورت نہیں پڑتی۔ حکومت کے اندر باہر ایسے ماہرین موجود ہوتے ہیں کہ ہر کام اس ہوشیاری سے کرتے ہیں کہ انھیں پکڑنے کے لیے نیب جیسے ادارے کو لوہے کے چنے چبانے پڑتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے 100 دنوں میں عوامی مفادات کے ایسے کام کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس سادہ دل بندے کو یہ علم نہ تھا کہ اشرافیہ کی حکومتوں نے لوٹ مار کے ذریعے جو پیچیدہ معاشی مسائل ورثے میں تحریک انصاف کے لیے چھوڑے ہیں وہ اس قدر پیچیدہ اور مشکل ہیں کہ عمران خان 100 دنوں میں کیا سو ماہ میں بھی ان مسائل کی ٹانگ تک نہیں پہنچ سکتے۔
بیورو کریسی جو ان مسائل کی آبیاری میں بے پناہ صلاحیت کا مظاہرہ کرتی ہے مطمئن رہتی ہے کہ ان کے بنائے ہوئے بتوں کو توڑنا آسان نہیں۔ بیورو کریسی عوامی مسائل کو اس قدر پیچیدہ بنا دیتی ہے کہ انھیں حل کرنا کسی نئی حکومت کے لیے ہی نہیں بلکہ اپنی سرپرست پرانی حکومتوں کے لیے بھی آسان نہیں رہتا، اسی فارمولے پر عمل درآمد کی وجہ نئی حکومت بے چاری سابقہ حکومتوں کے پرپیچ مسائل کی ابھی تک تہہ تک بھی نہیں پہنچ سکی اور نئی حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کا طوفان اٹھا دیا کہ عمران حکومت نے عوام کو سبز باغ دکھایا ہے۔
موجودہ نازک صورتحال میں ہر محب وطن کی یہ ذمے داری ہے کہ بقول صدر مملکت ظل الٰہیوں کا دور ختم ہوگیا ہے۔ صدر مملکت کا فرمانا بجا ہے لیکن ظل الٰہیوں نے آنے والوں کے لیے کانٹوں کی جو سڑکیں بنائی ہیں ان پر چل کر 100 دن میں عوام کے مسائل حل کرنا مشکل ہی نہیں مشکل ترین کام ہے اور اپوزیشن اپنی ہی کھڑی کی ہوئی اپنی دیواروں کو پھلانگ کر عوام کے مسائل حل نہ کرنے کا الزام نئی حکومت کو دے کر عوام کے دلوں میں جگہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس بار تو اسے لوہے کے چنے چبانے پڑیں گے اور عمران حکومت اگر ایمانداری سے کام کرے تو اس سیاسی اور معاشی نانگا پربت کو عبور کرلے گی۔