16 دسمبر دشمن کو پہچاننے کا دِن

آج تک پاکستان کی قیادت نے پاکستانی قوم کو متفقہ طور پر یہ نہیں بتایا کہ 16دسمبر کا سانحہ کیوں وقوع پذیر ہُوا؟


Tanveer Qaisar Shahid December 14, 2018
[email protected]

اس قومی سانحہ کو ہُوئے سنتالیس ، اڑتالیس سال گزر چکے ہیں۔ اتنے برسوں کے دوران ایک نسل پیدا ہو کر بڑھاپے میں قدم رکھ رہی ہوتی ہے۔ دشمن کا لگایا گیا یہ زخم مگر اتنا گہرا ہے کہ تقریباً نصف صدی گزرنے کے باوجود ہم اِسے فراموش نہیں کر سکے ہیں۔

فراموش کرنا بھی نہیں چاہیے۔ اگر کوئی اسے دانستہ بھلانا بھی چاہے تو بھی نہیں بھلا سکتا۔ کسی حادثے میں اگر انسانی بدن کا کوئی حصہ کٹ کر الگ ہو جائے تو کیا اُس جدا شدہ حصے اور حادثے کو بھلایا جا سکتا ہے؟ ان گزرے چار عشروں سے زائد عرصے کے دوران ہر سال جب بھی 16دسمبر کا دن آتا ہے، مشرقی پاکستان کے زخم پھر سے ہرے ہو جاتے ہیں۔ سقوطِ ڈھاکا سے وابستہ یادوں سے خون رِسنے لگتا ہے۔دسمبرکے ان اداس اور افسردہ ایام میں تین تصنیفات راقم کے زیر مطالعہ ہیں:خرم مراد کی سوانح حیات ''لمحات'' اور قطب الدین عزیز کی Blood and Tears اور گیری جے باس کی The Blood Telegram۔ تینوں کتابیں سانحہ مشرقی پاکستان کی خونی اور افسوسناک یادوں کو تازہ کرتی ہیں ۔ جناب خرم مراد تو اِسی سانحہ کی پاداش میں بھارت کے جنگی قیدی بھی رہے۔

اُن کی کتاب ''لمحات'' میں ہمیں وہ آنکھوں دیکھا احوال پڑھنے کو ملتا ہے جب بھارت کی نگرانی اور پشت پناہی سے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کی کوششیں تیز ہو گئی تھیں اور ہمارے مشرقی بازو میں بھارتی مکتی باہنی اور شیخ مجیب الرحمن کے غنڈوں نے غیر بنگالیوں پر جینا حرام کر دیا تھا۔ اس کتاب میں ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ ہمارے اپنے کئی ذمے داران بھی مجرمانہ غفلت، نالائقی اور فرائض سے فرار کے مرتکب ہُوئے۔ خرم مراد نے بڑے دکھ سے لکھا ہے کہ مشرقی پاکستان میں وہ نوجوان جو افواجِ پاکستان کا ساتھ دے رہے تھے، اُن میں سے بھی کئی نوجوانوں کو اپنوں نے اُٹھا لیا تھا۔

قطب الدین عزیز نے اپنی دلفگار کتاب میں جہاں چشم دید واقعات کے ساتھ یہ لکھا ہے کہ بھارتی اور مغربی میڈیا نے جھوٹ کے انبار لگا کر ساری دُنیا کو متحدہ پاکستان کے خلاف گمراہ کیا ، وہیں یہ بھی لکھا ہے کہ جنرل یحییٰ خان کے حکم سے پاکستانی اخبار نویسوں کو سچ لکھنے سے بھی روک رکھا تھا ۔ وہ لکھتے ہیں کہ جنرل یحییٰ خان کے حکم سے مشرقی پاکستان سے نکالے گئے مغربی صحافیوں نے بھی انتقام میں پاکستان اور افواجِ پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے جنرل یحییٰ خان کا یہ حکم نہایت غیر حکیمانہ ثابت ہُوا ۔

جھوٹ ، بد انتظامی ، ظلم اور بیرونی مداخلت کے بَل پر بنگلہ دیش بن گیا ۔رُوس، بھارت اور امریکا نے بھی پاکستان دو لخت کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ امریکی صحافی گیری جے باس نے اپنی کتاب میں اِس کا ذکر تفصیل کے ساتھ کیا ہے ۔ بھارتی کردار نمایاں ترین تھا کہ وہی اکہتر کی جنگ میں پاکستان کے مقابل فاتح ٹھہرا تھا اور اُسی کے سر بنگلہ دیش بنانے کا سہرا باندھا گیا۔ نریندر مودی چھاتی پر ہاتھ مار کر اِس کا ذکر فخر سے کرتے ہیں ۔ پاکستان میں بھی اس سانحے کے بارے میں لکھا اور بولاگیا ہے۔ان بریگیڈئر(ر) اے آر صدیقی یعنی عبدالرحمن صدیقی صاحب بھی شامل ہیں۔

بریگیڈئر صدیقی صاحب ہمارے لیے اس لیے بھی محترم ہیں کہ فوج کے علاوہ اُن کا دیرینہ تعلق صحافت سے بھی رہا ہے۔آپ چھ سات سال افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ نصف درجن سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ ایک انگریزی جریدے (ڈیفنس جرنل) کے ایڈیٹر بھی رہے۔ مشرقی پاکستان مرحوم پر بھی ایک کتاب (ایسٹ پاکستان ، دی اینڈ گیم)لکھ چکے ہیں۔اُن کی عمر اس وقت ، ماشاء اللہ، تقریباً94برس ہے ، لیکن اس پیرانہ سالی کے باوجود اتنے باہمت ہیں کہ ''آرمی اینڈ جہاد'' کے زیر عنوان کتاب لکھ رہے ہیں۔ حکومتِ پاکستان کی طرف سے ستارئہ امتیاز اور تمغہ دفاعِ پاکستان ایسے اعزازات سے بھی نوازے گئے ہیں۔ایسے اسٹیٹس کا آدمی جب سانحہ مشرقی پاکستان بارے دل آزار بات کہے گا تو لا محالہ محبِ وطن پاکستانیوں کو رنج ہوگا۔

بریگیڈئر (ر) عبدالرحمن صدیقی صاحب نے روزنامہ'' ایکسپریس'' کے سنڈے میگزین (11نومبر 2018ء) کو انٹرویو دیتے ہُوئے یوں ارشاد فرمایا ہے:''1971ء کی جنگ سے گریز کیا جانا چاہیے تھا، جو ہم نے ہار دی۔ یہ جنگ آپ نے مسلّط کی ۔1971ء میں جب سقوطِ مشرقی پاکستان کا سانحہ ہُوا تو مَیں پرنسپل اسپوکس مین تھا۔ مجھے بہت دکھ ہوتا ہے یہ کہتے ہُوئے کہ کسی قسم کا کوئی منصوبہ تھا ہی نہیں۔ مَیں جنرل یحییٰ خان کی بہت عزت واحترام کرتا ہُوں مگر جو کام اُن کی موجودگی میں ہُوا، وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس(71ء کی جنگ) دوران وہ اپنے ہوش میں نہ تھے۔

صورتحال یہ تھی کہ 16دسمبر 1971ء کو کسی کو بھی پتہ نہیں تھا کہ کیا ہورہا ہے؟ اور کیا ہونے والا ہے؟ خدا کرے اب ایسا دن کبھی نہ آئے۔ اس دن(16دسمبر) مشرقی پاکستان کے وقت کے مطابق چار بجے ہم نے ہتھیار ڈال دیے تھے ۔ اس کی پوری داستان بھارتی جنرل جیکب ( جس کے سامنے پاکستانی فوج نے جنرل نیازی کی قیادت میں ہتھیار ڈالے تھے) نے اپنی کتاب میں لکھی ہے ۔ جنرل جیکب نے لکھا ہے کہ شکست خوردہ (جنرل) نیازی کس طرح بھارتی کمانڈر سے پنجابی میں مذاق کررہے تھے۔

اُس کی عادت ایسی تھی۔''ڈھاکا سے ( مغربی پاکستان ) واپسی کے حوالے سے بریگیڈئر(ر)عبدالرحمن صدیقی کہتے ہیں:''ستمبر 1971ء (جنگ شروع ہونے سے تقریباً تین ماہ قبل)میں واپسی سے پہلے جب مَیں جنرل نیازی اور دیگر کو خدا حافظ کہنے گیا تو صورتحال یہ تھی کہ ہمارے جوان خندقیں کھود کر احکامات کے منتظر تھے مگر احکامات آتے نہیں تھے۔ جنرل مجھ سے اور جنرل (صاحبزادہ) یعقوب (علی خان) سے کہا کرتے تھے: دیکھو بچو، یہ جنگ تمہارا کام نہیں ہے۔ تم پڑھے لکھے لوگ ہو، اپنا کام کرتے رہو اور تم دیکھنا مَیں ہندوستان جاؤں گا۔ وہ ہندوستان ضرور گیا لیکن (بھارتی) قیدی کی حیثیت میں۔'' جب ہمارے درمیان ایسے ''اصحابِ دانش و بینش'' موجود ہوں تویہی کہا جا سکتا ہے: ہُوئے تم دوست جس کے، دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو!

افسوس کی بات یہ ہے کہ ساڑھے چار عشرے سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود آج تک پاکستان کی قیادت نے پاکستانی قوم کو متفقہ طور پر یہ نہیں بتایا کہ 16دسمبر کا سانحہ کیوں وقوع پذیر ہُوا؟ اِس المیے کا اصل ذمے دار کون تھا اور انھیں سزائیں کیوں نہ دی جا سکیں؟ کہا جاتا ہے کہ اگر حمود الرحمن کمیشن رپورٹ قوم کے سامنے پیش کر دی جاتی تو سانحہ مشرقی پاکستان کے ذمے داران کے چہرے بے نقاب کیے جا سکتے تھے لیکن ایسا نہ ہو سکا ۔

جناب الطاف حسن قریشی نے اپنی کتاب ''ملاقاتیں کیا کیا'' میں حمود الرحمن کمیشن میں مندرج الفاظ کو دہراتے ہُوئے لکھا ہے کہ اُدھر مشرقی پاکستان ٹوٹ رہا تھا اور اِدھر مغربی پاکستان میں ایوانِ صدر غیر اخلاقی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہُوا تھا( صفحہ310) بھارت نے ہماری اِنہی سرگرمیوں اور نالائقیوں کا فائدہ اُٹھایا۔ بھارت اب بھی باز نہیں آرہا ۔ خدا کا شکر ہے کہ آج ہماری عسکری قیادت بیدار مغز بھی ہے اور کھلی آنکھوں سے بھارت پر نگاہ رکھے ہُوئے ہے ۔ بھارت مگر پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔

سچ کہا گیا ہے کہ مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بن جانا دراصل پاکستان کے خلاف بھارتی ہائبرڈ وار فیئر (Hybrid Warfare) کی پہلی فتح تھی ۔ بھارت اب جدید حربوں اور ہتھکنڈوں سے پاکستان کے خلاف ہائبرڈ وار چلا رہا ہے ۔ ہمیں اس طرف متوجہ ہوناچاہیے۔ہمارے ممتاز ترین دانشور جناب منیر اکرم( جو اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب بھی رہے) نے بھی اپنے ایک تازہ آرٹیکل میں پاکستان کے خلاف جاری بھارتی ہائبرڈ وار سے ہمارے حکمرانوں کو خبردار کیا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں