تجاوزات کے ذمے دار محفوظ کیوں
لینڈ مافیا اور متعلقہ اداروں کے افسروں کو دیکھ کر با اثر شہری کیسے پیچھے رہتے۔ انھوں نے سڑکوں کے اطراف گھر بڑھا لیے۔
ملک بھر میں تجاوزات کے خلاف سپریم کورٹ کی ہدایت پر جاری انہدامی مہم دوسرے ماہ میں داخل ہو چکی ہے اور ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں کامیابی سے جاری ہے۔ یہ بھی سو فی صد حقیقت ہے کہ ملک کے بڑے شہروں میں تجاوزات کی صورتحال انتہائی تشویشناک صورتحال اختیارکر چکی تھی۔ قبضہ خوروں نے سرکاری اراضی تو کیا اسکول دیکھے نہ اسپتال، فٹ پاتھوں کو چھوڑا نہ ہی قبرستانوں کو بخشا ہر جگہ من مانی تجاوزات قائم کیں اور غیر قانونی تعمیرات کی انتہا کر دی مگر متعلقہ ادارے اور صوبائی حکومتیں خاموش تماشائی بنی رہیں اور سپریم کورٹ کو ایکشن لینا پڑا۔
تجاوزات قائم کرانے میں متعلقہ بلدیاتی اداروں اور پولیس کا سب سے بڑا ہاتھ رہا ہے۔ کچی آبادیوں میں غیر قانونی قبضے اور گھروں کی تعمیرات متعلقہ تھانوں کی سر پرستی کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی تھیں اور یہی کچی آبادیاں جرائم کا گڑھ ہی نہیں بلکہ وہاں وہاں سپریم کورٹ کے بقول بڑے بڑے پلازے اور گھر غیر قانونی طور پر کرائے پر دیے گئے ہیں۔ جہاں سے قبضہ داروں کو معقول آمدنی حاصل ہوتی ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر لاہورکا سب سے بڑا قبضہ گیر منشا بم پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے کی بجائے خود عدالت عظمیٰ میں پیش ہوا۔ اُدھیڑ عمر منشا بم چند روز حوالات میں بند ہونے کے بعد عدالت عظمیٰ میں پیش ہوا تو رونے لگا جس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کو کہنا پڑا کہ ''جب سرکاری اراضی کے علاوہ لوگوں کی نجی زمینوں پر قبضہ کرتے تھے تو رونا کیوں نہ آیا۔'' لاہور میں نہ جانے کتنے بڑے قبضہ خور ہوںگے مگر سپریم کورٹ کے باعث منشا بم پکڑا گیا جسے گرفتار کرنے کے حکم پر لاہور پولیس نے عمل نہیں کیا کیونکہ وہ خود منشا بم کی سب سے بڑی سرپرست اور متعلقہ سرکاری ادارے اس کی پشت پر تھے۔ یہ منشا بم لاہور کی شہری آبادیوں میں خالی سرکاری پلاٹوں پر جانوروں کی منڈیاں لگوا کر لوگوں سے ماہانہ کرایہ اور اس کا بیٹا جانور فروخت کرنے والوں سے بھتے کی صورت میں لاکھوں روپے ہفتہ وصول کیا کرتا تھا۔
ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی تو قبضہ خوروں اور تجاوزات قائم کرنے والوں کا سب سے بڑا گڑھ ہے جس میں متعدد سیاسی جماعتیں اور لینڈ مافیاز ملوث ہیں اور کراچی کی زمین واقعی سونا ہے جو ہر جگہ بکھری پکڑی تھی اور کھربوں روپے مالیت کی سرکاری اراضی لینڈ مافیا کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ تھا مگر سرکاری اراضی کی اب ملکیت کے دعویدار بلدیہ عظمیٰ، کے ڈی اے، ایم ڈی اے، ایل ڈی اے، ریلوے، محکمہ ریونیو، واٹر بورڈ، کے پی ٹی و دیگر اس کے محافظ تھے مگر کسی نے اپنی ذمے داری پوری نہیں کی اور سرکاری زمینوں پر وہ قبضے ہوتے دیکھتے اور سابقہ کے بی سی اے ان جگہوں پر مرضی کی ہونے والی غیر قانونی تعمیرات دیکھتے رہے۔
لاکھوں روپے روزانہ کمانے والے کے بی سے اے کے بد عنوان افسروں کی زبانوں پر تالے لگے رہے پولیس اور متعلقہ اداروں کے افسروں نے خود سرکاری اراضی اور گوٹھوں پر قبضے کرائے ہی نہیں بلکہ خود کیے اور بعد میں قبضے لاکھوں روپے کے عوض فروخت کیے۔ ہر برسر اقتدار حکومت میں شامل سیاست دانوں نے بھی موقعے سے بھرپور فائدہ اٹھایا جس میں متحدہ کے ایک سابق وفاقی وزیر ب غ کا نام سب سے نمایاں ہوا۔ اہم علاقوں میں انھوں نے قبضے کر کے اپنے شادی ہال بنوائے اور سرکاری اراضی سے اربوں روپے سمیٹ کر ملک سے فرار ہو گئے۔
چائنا کٹنگ کراچی میں بڑی مشہور ہوئی جس کا سہرا کراچی کی نمایندگی کی دعویدار جماعت میں شامل اس کے اپنے رہنماؤں اور ذمے داروں کے نہیں بلکہ سندھ پر دس سال سے حکمرانی کرنے والی پیپلزپارٹی مختلف علاقوں میں اثر و رسوخ کی حامل اے این پی، جئے سندھ کے گروپوں کے ذمے داروں نے بھی سرکاری اراضی پر خوب ہاتھ صاف کیے اور جس کو جہاں موقع ملا اس نے سرکاری زمینوں کو نہیں بخشا۔ کراچی کے نواحی علاقوں میں قبضے کر کے گوٹھ آباد کرائے گئے، کچی آبادیاں تیزی سے پروان چڑھائی گئیں اور متعلقہ سرکاری اداروں کے کانوں پر جوں نہ رینگی۔
لینڈ مافیا اور متعلقہ اداروں کے افسروں کو دیکھ کر با اثر شہری کیسے پیچھے رہتے۔ انھوں نے سڑکوں کے اطراف بنگلے اور گھر بڑھا لیے۔ کمرشل جگہوں پر غیر قانونی دکانیں تعمیر کرائیں یا بڑی کر لیں۔ فٹ پاتھوں پر دکانیں بنیں اور پتھارے لگوا کر اضافی آمدنی حاصل کی گئی۔ سرکاری اراضی پر بنگلے والوں نے اپنے گیراج اور پودے لگا کر بنگلوں کو خوبصورت بنا لیا اور کسی کو خیال نہیں آیا کہ یہ سب ان کی آبائی جاگیر نہیں، مختلف اداروں کی سرکاری زمین ہے۔
یہ سلسلہ دو چار سال نہیں عشروں پر محیط ہے مگر کسی ادارے کو اپنی ذمے داری کا رتی بھر احساس نہ ہوا اور ان کے افسروں کی توجہ کمائی پر مرکوز رہی۔ اور ایسا کرانے والے اداروں کے متعلقہ افسران آج بھی محفوظ ہیں کیونکہ موجودہ تجاوزات کے خلاف انہدامی مہم سے ان کا کوئی بھی نقصان نہیں ہوا اور نقصان ان کا ہوا جنھوں نے انھیں رشوت دے کر غیر قانونی تعمیرات کی تھیں یا ان ہی سے غیر قانونی پلاٹوں کے درست ہونے کی تصدیق کرائی تھی۔
سپریم کورٹ نے 30 سال قبل پاکپتن میں غیر قانونی دکانیں تعمیرات کرانے پر سابق وزیراعلیٰ پنجاب سے باز پرس کی ہے تو تین عشروں ہی کے دوران تجاوزات قائم کرانے والے سرکاری افسروں سے بھی جواب طلبی ضروری ہے۔ کیونکہ عام لوگوں کا اربوں روپے کا نقصان ہو گیا تو تجاوزات کے اصل ذمے دار محفوظ کیوں ہیں؟