لمحۂ قبولیتِ دعا

لرزتے ہونٹوں اور اشک بار آنکھوں کے ساتھ دستِ دعا بلند کیا جائے تو خالقِ کائنات کا درِ فیض باز فوراً کشادہ ہوجاتا ہے۔


لرزتے ہونٹوں اور اشک بار آنکھوں کے ساتھ دستِ دعا بلند کیا جائے تو خالقِ کائنات کا درِ فیض باز فوراً کشادہ ہوجاتا ہے۔ فوٹو : فائل

ایک صاحبِ ایمان کے پاس اپنے مسائل و مشکلات کے حل کے لیے دعا وہ بیش قیمت اثاثہ ہوتا ہے، جس کی قدر و قیمت اور متبادل دیگر ادیان میں نظر نہیں آتا۔ تفکرات و مصائب و آلام میں خلوص نیّت کے ساتھ اگر بارگاہ ربُ العزّت میں کپکپاتے ہاتھوں ، لرزتے ہونٹوں اور اشک بار آنکھوں کے ساتھ دستِ دعا بلند کیا جائے تو خالق کائنات کا درِ فیض باز فوراً کشادہ ہو جاتا ہے۔ اور اس کے عاجز بندے کے ہاتھ نیچے آنے تک دعا شرف قبولیت حاصل کرچکی ہوتی ہے۔

یہ فرمان خداوندی انسان کے قلب و ذہن میں پوری طرح راسخ ہو جاتا ہے کہ : '' میں ایک پکار سننے والے کی پکار سنتا ہوں۔'' دعا کی قبولیت کے وقت کا تعین ٹھیک خدائے بزرگ و برتر اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ اس کے بندے کا کام اپنے خالق کے حضور دست طلب دراز کرتے چلے جانا ہے۔

انسان کی جبّلت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ اپنے مالک سے اپنی خواہشات کی فوری تکمیل چاہتا ہے، کہ ادھر دست دعا بلند ہو اور ادھر افلاک سے اس کے نالوں کا فوری قبولیت کی صورت میں جواب آجائے۔ لیکن حکمت خدا وندی کو سمجھنا انسانی قوت ِ ادراک و فراست سے باہر ہے کہ کسی سائل کے تمنائے ثمر پر برگ و بار لانا ضروری ہے بھی یا نہیں اور اگر اس کو عطا کرنا ضروری ہے تو کب در فیض باز کرنا ہے اور اسے عنایات کا مستحق گرداننا ہے۔ مگر جو پیکرانِ یاس و قنوطیت قبولیت کی تاخیر کی صورت میں پژمردگی اور مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں حقیقت میں اُن کے روحانی تصرف کا تعلق اپنے اللہ سے ٹوٹ جاتا ہے۔ نتیجتا ً حاملان یاسیت سے مشیت ایزدی بھی روٹھ جاتی ہے۔ حالاں کہ ارشاد خدا وندی کا واضح مفہوم ہے کہ : '' اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا مسلمان کا شیوہ نہیں ہوتا۔'' ایک عاجز انسان کو معلوم ہونا چاہیے کہ

فدائے شیوۂ رحمت کہ در لباسِ بہار

بہ عذر خواہی و رندان بادہ نوش آمد

جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ دعاؤں کا کوئی خاص لمحہ نہیں ہوتا، رحمت خداوندی کسی بھی وقت جوش میں آسکتی ہے اور رحمت کے چند پھول مانگنے والوں کو پورا چمنستان عطا کر دیا جاتا ہے۔ وہ بزرگان دین جو انتہائے قربت خداوندی کے باعث مہر و ما ہ بن کر چرخ نیلی فام پر رات کی تاریکیوں میں ہی نہیں، دن کے اجالوں میں بھی ضیاء پاشیاں کر رہے ہیں اور جن کے نام کے ساتھ عشق و محبت اور دنیائے ذوق و شوق کی آبرو وابستہ ہے، اُن کی پاکیزہ زندگی بتاتی ہیں کہ انھوں نے میدان عشقِ خدا اور رسول ؐ میں محبت کی منازل طے کرتے ہوئے جو ارتفاع و ارتقاء حاصل کیا وہ اُن کی آہِ سحر خیزی کا ثمر ہے۔ اقبال نے حقیقت کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا تھا:

عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو

کچھ ہاتھ نہیں آتا، بے آہ سحر گاہی

ان پاک باز اور پاک نگاہ ہستیوں کے نزدیک آہ سحر وہ متاع گراں مایہ ہوتی ہے جس کی بہ دولت بڑے سے بڑے خاطی و عاصی انسان کے نالے حدود افلاک کو چیرتے ہوئے اللہ رب العزت کے حضور شرف باریابی پاتے ہیں، اور تحائف کامرانی حاصل کرتے ہیں۔ سحر خیزی کی بہ دولت ہی انسان کی قوت ادراک کو رفعت گردوں عطا ہوتی ہے۔ سحر خیزی ہی گریۂ خزاں کو خندۂ بہار کی ثروت عطا کرتی ہے۔ سحر خیزی ہی دست دعا کو وہ شکوہ و قوت بخشتی ہے کہ دامن کبریا کو مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے اور پھر نیاز و ناز کا وہ دل کش منظر دیکھنے میں آتا ہے کہ رحمت حق خود بہ خود مائل بہ کرم ہو جاتی ہے۔ وقت سحر ہی بندگان خدا کو '' واذا سالک عبادی عنی فانی قریب'' کی نوید جاں فزا عطا کرتا ہے۔

سحر خیزی ہی صبح خُمار کی افسردہ جماہیوں کو نکہت گل کی لطافت بخشتی ہے۔ سحر خیزی ہی انسانی کارخانۂ ہزار شیوہ رنگ میں حمد خداوند لایزال کا جوہر ٹپکاتی ہے۔ سحر خیزی ہی تر دامنی انساں کو سبک سری عصیاں سے نجات دلاتی ہے۔ سحر خیزی ہی دریائے معصیت کی تلاطم خیز موجوں کے بے رحم مد و جذر سے نجات دلا کر ساحل مراد سے ہم کنار کرتی ہے ۔ سحر خیزی ہی آشفتگان محبت کے ذوق جستجوئے رحمت حق کو مہمیز بخشتی ہے۔ سحر خیزی ہی انسانی ذہن کے جمود و تعطل کو توڑ کر بالیدگی فطانت عطا کرتی ہے۔

وقت سحر ہی مسلمان کے بیاض شعور میں تفحص الفاظ کی دولت کا اضافہ کرتا ہے۔ وقت سحر ہی دعائے نطق کی رگوں میں موج نور کی ندیاں رواں کرتا ہے۔ وقت سحر اگر دعا میں خلوص اور اشکوں میں ایثار جھلکتا ہو تو سیارگان فلک اجابت در حق کے لیے مسکرا کر استقبال کرتے ہیں۔ بہ وقت سحر مانگی ہوئی دعا رہروان آگہی کو انداز تفکر و تدّبر سے آشنائی کا شرف بخشتی ہے۔ تابانی سحر کا تقدس ہی تیرگی ظلمات کو تابش شمس و قمر عطا کرتا ہے۔ صبح کے وقت ہی جنبش لب سے جب ابواب اجابت کی کشاد ہوتی ہے تو رب کی شان غفور الرحیمی مائل بہ کرم ہوجاتی ہے ۔

میرے دعا، نہ اثر سے کبھی ملول ہوئی

ادھر زبان سے نکلی، ادھر قبول ہوئی

بہ وقت سحر دعا کی قبولیت کے امکانات کا حد سے بڑا ہوا ہونے کی ٹھوس وجوہات ہیں، بالخصوص جاڑوں کے موسم میں تو سحر خیزی کی مقصدیت و معنویت اور لذت اور زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس وقت نسل آدمیت کا کثیر حصہ دنیا و مافیہا سے بے خبر محو استراحت ہوتا ہے۔ گرم بستر سے اٹھ کر ٹھنڈے پانی سے وضو کرکے بادہ شبانہ کی سرمستیوں کو تج کر، لذت عالم خواب و راحت کو چھوڑ کر، بارگاہ خداوندی کے حضور جانا جہاد اکبر سے کم نہیں۔ نم ناک پلکوں پر تیرتے ہوئے لرزیدہ آنسوؤں کو شان کریمی موتی سمجھ کر چن لیتی ہے، اگرچہ وہ عرق انفعال کے قطرے ہی کیوں نہ ہوں۔ ایک کیف آفریں سکوت میں جب دل کی عمیق ترین گہرائیوں سے نکلی ہوئی التماس شب تار الست کو چیرتی ہوئی آسمان کی طرف رخ کرتی ہے تو بزم انجم و کہکشاں مسکراتی ہوئی اس کا استقبال کرتی ہے۔

بہ وقت سحر مانگی ہوئی دعا سوز و ساز رومی و پیچ و تاب رازی عطا کرتی ہے۔ یہ نظارہ بڑا جمال آور اور جاذبیت کا حامل ہو تا ہے۔ سحری کے وقت تلاوت قرآن حکیم وجدان میں عجیب گداز پیدا کرتی ہے۔ اس کیفیت میں آسمان سے رنگ و نور کی برسات ہوتی محسوس ہوتی ہے اور نزول قرآن کا مقصد صحیفۂ قلب پر نقوش مدام چھوڑتا چلا جاتا ہے۔ انسان انتہائے قرب خداوندی محسوس کرنے لگتا ہے۔ یہ مال و دولت دنیا بتان وہم و گماں محسوس ہونے لگتے ہیں اور قرب اللہ رب العزت کی منزل قریب تر آجاتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں