خود پسندی
کائنات میں اللہ کی مرضی کے بغیر کچھ ممکن نہیں۔
خود پسندی ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کے اعمال کو تباہ و برباد کردیتی ہے۔ جس سے انسان اپنی دنیا کے ساتھ اپنی آخرت بھی تباہ کر بیٹھتا ہے۔
خود پسندی میں انسان اپنے نفس کا ہم نوا بن جاتا اور اس میں بے شمار روحانی امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ عام طور پر انسان اپنے کسی بھی عمل کی وجہ سے خود پسندی میں مبتلا ہوجاتا اور یہ سمجھنے لگتا ہے کہ وہ بہت اچھا ہے اور نیک اعمال کرنے میں اس کی قوت ارادی کا دخل ہے۔ یعنی اس کی نسبت اپنی طرف کرتا ہے جو نری جہالت ہے۔ اس کائنات میں اللہ کی مرضی کے بغیر کچھ ممکن نہیں، لیکن خود پسندی میں ہم خود کو اپنے نفع کا مالک سمجھ لیتے ہیں۔ جب کہ اگر اللہ کی جانب سے حکم نہ ہو ہم سانس بھی نہیں لے سکتے، ہم اس قدر اس کے محتاج ہیں۔
کبھی انسان اپنے حسن و جمال، قوت و ہیبت کی وجہ سے خود پسندی میں مبتلا ہوجاتا ہے اور کبھی اپنی عقل و دانائی اور ذہانت اسے خود پسند بنا دیتی ہے۔ انسان اپنی اولاد، خاندان و عزیز و اقارب یا مال و اسباب کی وجہ سے بھی خود پسندی کا شکار ہوجاتا ہے۔ جب انسان کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوجاتی ہے کہ میں دوسروں سے بہتر ہوں، میں اعلی و افضل ہوں تو وہ تکبّر میں مبتلا ہوجاتا ہے، دوسرے لوگوں کو خود سے حقیر جانتا ہے اور ان سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ ایسا شخص خود بھی ذہنی طور پر مطمئن نہیں رہتا۔ دنیاوی معاملات میں تو یہ ہے ہی تباہ کن لیکن اگر خود پسندی دین میں تو اور بھی زیادہ مہلک ہے۔
ایسا انسان خود کو برتر سمجھنے کے ساتھ ریاکاری میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے۔ وہ اپنی ہر نعمت کو اپنی ذات سے منسوب کرنے لگتا ہے، یہاں تک کہ نیکی کی سعادت ملنے کو بھی اپنی خوبی جانتا ہے، اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان خود پسندی سے خود فریبی میں مبتلا ہوکر اپنے گناہوں کو بُھول جاتا ہے اور عبادات ایسے کرتا ہے جیسے گویا اللہ پر احسان کر رہا ہے۔ پھر وہ اللہ کی نعمتیں فراموش کردیتا ہے کہ یہ عبادت کی توفیق اور قدرت بھی اللہ ہی نے بخشی ہے۔
خود پسندی سے اللہ تعالی نے منع فرمایا ہے کیوں کہ یہ مرض ہی اس قدر مہلک ہے کہ اگر اس کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو خود پسند تکبّر جیسے موذی مرض کا شکار ہوجاتا ہے۔ خود پسند اپنی رائے کو حرف آخر سمجھتا اور خود کو عقل کُل سمجھنے کی وجہ سے کسی اور سے رائے و مشورہ طلب نہیں کرتا۔
خود پسندی انتہائی مہلک مرض ہے جس کی آفات و تباہ کاریاں بہت زیادہ ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے نفس کو ٹٹولیں، اگر ہم بھی خود پسندی کا شکار ہوں تو توبہ کریں۔ آج ہی اصلاحِ نفس کی کوشش اور محنت کریں، کیوں کہ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ جلد ہی اس فانی دنیا کو چھوڑ جانا ہے۔ قیامت میں سب کو ان کے اعمال کی بنیاد انعامات و سزا ملے گی۔ جنت یا جہنم ہی انسان کا اصل ٹھکانا ہے۔
انسان کو ہمیشہ اپنے نفس سے محتاط رہنا چاہیے اور جب بھی خود پسندی کا شبہہ بھی محسوس ہو فورا توبہ استغفار کرنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ یہ ساری نعمتیں جو مجھے میسر ہیں درحقیقت اللہ کا فضل ہے، اس میں میرا کوئی کمال نہیں، جو اللہ دے سکتا ہے وہ واپس لے بھی سکتا ہے۔
خود پسندی میں انسان اپنے نفس کا ہم نوا بن جاتا اور اس میں بے شمار روحانی امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ عام طور پر انسان اپنے کسی بھی عمل کی وجہ سے خود پسندی میں مبتلا ہوجاتا اور یہ سمجھنے لگتا ہے کہ وہ بہت اچھا ہے اور نیک اعمال کرنے میں اس کی قوت ارادی کا دخل ہے۔ یعنی اس کی نسبت اپنی طرف کرتا ہے جو نری جہالت ہے۔ اس کائنات میں اللہ کی مرضی کے بغیر کچھ ممکن نہیں، لیکن خود پسندی میں ہم خود کو اپنے نفع کا مالک سمجھ لیتے ہیں۔ جب کہ اگر اللہ کی جانب سے حکم نہ ہو ہم سانس بھی نہیں لے سکتے، ہم اس قدر اس کے محتاج ہیں۔
کبھی انسان اپنے حسن و جمال، قوت و ہیبت کی وجہ سے خود پسندی میں مبتلا ہوجاتا ہے اور کبھی اپنی عقل و دانائی اور ذہانت اسے خود پسند بنا دیتی ہے۔ انسان اپنی اولاد، خاندان و عزیز و اقارب یا مال و اسباب کی وجہ سے بھی خود پسندی کا شکار ہوجاتا ہے۔ جب انسان کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوجاتی ہے کہ میں دوسروں سے بہتر ہوں، میں اعلی و افضل ہوں تو وہ تکبّر میں مبتلا ہوجاتا ہے، دوسرے لوگوں کو خود سے حقیر جانتا ہے اور ان سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ ایسا شخص خود بھی ذہنی طور پر مطمئن نہیں رہتا۔ دنیاوی معاملات میں تو یہ ہے ہی تباہ کن لیکن اگر خود پسندی دین میں تو اور بھی زیادہ مہلک ہے۔
ایسا انسان خود کو برتر سمجھنے کے ساتھ ریاکاری میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے۔ وہ اپنی ہر نعمت کو اپنی ذات سے منسوب کرنے لگتا ہے، یہاں تک کہ نیکی کی سعادت ملنے کو بھی اپنی خوبی جانتا ہے، اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان خود پسندی سے خود فریبی میں مبتلا ہوکر اپنے گناہوں کو بُھول جاتا ہے اور عبادات ایسے کرتا ہے جیسے گویا اللہ پر احسان کر رہا ہے۔ پھر وہ اللہ کی نعمتیں فراموش کردیتا ہے کہ یہ عبادت کی توفیق اور قدرت بھی اللہ ہی نے بخشی ہے۔
خود پسندی سے اللہ تعالی نے منع فرمایا ہے کیوں کہ یہ مرض ہی اس قدر مہلک ہے کہ اگر اس کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو خود پسند تکبّر جیسے موذی مرض کا شکار ہوجاتا ہے۔ خود پسند اپنی رائے کو حرف آخر سمجھتا اور خود کو عقل کُل سمجھنے کی وجہ سے کسی اور سے رائے و مشورہ طلب نہیں کرتا۔
خود پسندی انتہائی مہلک مرض ہے جس کی آفات و تباہ کاریاں بہت زیادہ ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے نفس کو ٹٹولیں، اگر ہم بھی خود پسندی کا شکار ہوں تو توبہ کریں۔ آج ہی اصلاحِ نفس کی کوشش اور محنت کریں، کیوں کہ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ جلد ہی اس فانی دنیا کو چھوڑ جانا ہے۔ قیامت میں سب کو ان کے اعمال کی بنیاد انعامات و سزا ملے گی۔ جنت یا جہنم ہی انسان کا اصل ٹھکانا ہے۔
انسان کو ہمیشہ اپنے نفس سے محتاط رہنا چاہیے اور جب بھی خود پسندی کا شبہہ بھی محسوس ہو فورا توبہ استغفار کرنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ یہ ساری نعمتیں جو مجھے میسر ہیں درحقیقت اللہ کا فضل ہے، اس میں میرا کوئی کمال نہیں، جو اللہ دے سکتا ہے وہ واپس لے بھی سکتا ہے۔