بلوچستان میں پینے کے پانی کی صورتحال پر کمیشن قائم
کمیشن بلوچستان میں پانی کی صورتحال سے آگاہ کرے گا،چیف جسٹس
سپریم کورٹ نے بلوچستان میں پینے کے پانی کی صورتحال پر کمیشن قائم کرکے دو ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے بلوچستان کے علاقے بھاگ ناڑی میں پانی کے بحران سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں بھاگ ناڑی میں پانی کے تالاب کی ویڈیو چلائی گئی۔
وڈیو دیکھ کر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تالاب سے گدھوں پر پانی لے جایا جاتا ہے، حکومت بلوچستان یہ ویڈیو دیکھے، اس طرح کا پانی لوگوں کو پلا رہے ہیں، یہ پانی لوگوں کو پلا کر ان کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں، کسی نے آر او پلانٹ نہیں لگایا۔
ڈی سی بولان نے عدالت کو بتایا کہ سارے مسائل کی وجہ علاقے میں پانی کی کمی ہے، از خود نوٹس کے بعد صوبائی کابینہ نے 7 کروڑ 50 لاکھ کی منظوری دے دی ہے۔
بھاگ ناڑی کے مکین نے عدالت کو بتایا کہ ہماری حالت تھر سے بھی بدتر ہے، کوئٹہ سے ہمارا علاقہ دو سو کلومیٹر دور ہے، بھاگ ناڑی میں واٹر سپلائی اسکیم 2000 سے غیرفعال ہے ، پانی کی کمی کی وجہ سے علاقہ کی آبادی دو لاکھ سے 73 ہزار رہ گئی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ متعلقہ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ پانی کو صاف کریں، کم ازکم تالاب کا پانی ہی ٹریٹ کر دیں۔ بھاگ ناڑی کے علاوہ بھی کئی علاقوں میں پانی کی یہی صورتحال ہے۔
دوران سماعت رکن قومی اسمبلی شاہ زین بگٹی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وہ نوٹس لینے پر عدالت کے شکرگزار ہیں، انہوں نے ذاتی اخراجات پر ٹیوب ویل شروع کروایا، انہوں نے استدعا کی کہ عدالت علاقے میں واٹرسپلائی سکیم کی انکوائری کروائے۔
سپریم کورٹ نے بلوچستان میں پینے کے پانی کی صورتحال پر صدر سپریم کورٹ بار امان اللہ کنرانی کی سربراہی میں کمیشن قائم کرکے دو ہفتے میں رپورٹ طلب کر لی۔ اس کے علاوہ عدالت عظمیٰ نے ایک ماہ میں بھاگ ناڑی میں آر او پلانٹ نصب کرنے کا بھی حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ بار کے صدر کو ہدایت کی کہ جہاں جہاں ایسے حالات ہیں مجھے رپورٹ بنا کر دیں، کمیشن بلوچستان میں پانی کی صورتحال سے آگاہ کرے گا، کمیشن رپورٹ پر حکومت سے عملدرآمد کا ٹائم فریم لیں گے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تھرمیں کسی نے آراوپلانٹ کا پانی پینے کی کوشش نہیں کی؟ ، رکن قومی اسمبلی رمیش کمار نے عدالت کو بتایا کہ تھر کی کوئی ڈویلپمنٹ اتھارٹی نہیں ہے، اتھارٹی کے قیام تک تھر کے حالات بہتر نہیں ہوں گے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے بلوچستان کے علاقے بھاگ ناڑی میں پانی کے بحران سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں بھاگ ناڑی میں پانی کے تالاب کی ویڈیو چلائی گئی۔
وڈیو دیکھ کر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تالاب سے گدھوں پر پانی لے جایا جاتا ہے، حکومت بلوچستان یہ ویڈیو دیکھے، اس طرح کا پانی لوگوں کو پلا رہے ہیں، یہ پانی لوگوں کو پلا کر ان کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں، کسی نے آر او پلانٹ نہیں لگایا۔
ڈی سی بولان نے عدالت کو بتایا کہ سارے مسائل کی وجہ علاقے میں پانی کی کمی ہے، از خود نوٹس کے بعد صوبائی کابینہ نے 7 کروڑ 50 لاکھ کی منظوری دے دی ہے۔
بھاگ ناڑی کے مکین نے عدالت کو بتایا کہ ہماری حالت تھر سے بھی بدتر ہے، کوئٹہ سے ہمارا علاقہ دو سو کلومیٹر دور ہے، بھاگ ناڑی میں واٹر سپلائی اسکیم 2000 سے غیرفعال ہے ، پانی کی کمی کی وجہ سے علاقہ کی آبادی دو لاکھ سے 73 ہزار رہ گئی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ متعلقہ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ پانی کو صاف کریں، کم ازکم تالاب کا پانی ہی ٹریٹ کر دیں۔ بھاگ ناڑی کے علاوہ بھی کئی علاقوں میں پانی کی یہی صورتحال ہے۔
دوران سماعت رکن قومی اسمبلی شاہ زین بگٹی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وہ نوٹس لینے پر عدالت کے شکرگزار ہیں، انہوں نے ذاتی اخراجات پر ٹیوب ویل شروع کروایا، انہوں نے استدعا کی کہ عدالت علاقے میں واٹرسپلائی سکیم کی انکوائری کروائے۔
سپریم کورٹ نے بلوچستان میں پینے کے پانی کی صورتحال پر صدر سپریم کورٹ بار امان اللہ کنرانی کی سربراہی میں کمیشن قائم کرکے دو ہفتے میں رپورٹ طلب کر لی۔ اس کے علاوہ عدالت عظمیٰ نے ایک ماہ میں بھاگ ناڑی میں آر او پلانٹ نصب کرنے کا بھی حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ بار کے صدر کو ہدایت کی کہ جہاں جہاں ایسے حالات ہیں مجھے رپورٹ بنا کر دیں، کمیشن بلوچستان میں پانی کی صورتحال سے آگاہ کرے گا، کمیشن رپورٹ پر حکومت سے عملدرآمد کا ٹائم فریم لیں گے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تھرمیں کسی نے آراوپلانٹ کا پانی پینے کی کوشش نہیں کی؟ ، رکن قومی اسمبلی رمیش کمار نے عدالت کو بتایا کہ تھر کی کوئی ڈویلپمنٹ اتھارٹی نہیں ہے، اتھارٹی کے قیام تک تھر کے حالات بہتر نہیں ہوں گے۔