مرغیاں انڈے اور 2000 ارب ڈالر کی ’حلال فوڈ‘ مارکیٹ
ہم باقی باتوں میں توفخرسے یورپ کی تقلیدکرتے ہیں مگربھول جاتے ہیں کہ متعدد ممالک کی معیشت لائیواسٹاک پر چل رہی ہے
یہ حقیقت ہے کہ اپوزیشن کا کام تنقید کرنا ہوتا ہے، لیکن اگر یہ تنقید برائے اصلاح ہو تو معاشرے میں مثبت تبدیلی لاتی ہے، اور اس تنقید کی کوکھ سے نکلنے والی کونپلیں نہ صرف اپنے قرب و جوار کےلیے باعث رحمت ہوتی ہیں بلکہ اپنی خوشبو سے اقوام عالم کو بھی معطر کرتی ہیں۔ لیکن اگر یہ تنقید برائے تنقید اور حقائق کے منافی ہو تو اس کے منفی اثرات نہ صرف اپنے خالق کےلیے نقصان دہ ہوتے ہیں بلکہ معاشرے پر بھی برا تاثر قائم کرتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے ہلال گوشت کے بیان پر ہنگامہ کھڑا کرنے والے اگر غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے مثبت پہلوؤں پر غور کریں اور اس کے فروغ کےلیے اپنی تجاویز دیں تو نہ صرف پاکستان کا فائدہ ہوگا، بلکہ پورے عالم اسلام پر بھی اس کے مثبت اثرات پڑیں گے کیونکہ دنیا بھر میں اس وقت صرف 7.9 فیصد حلال غذا استعمال ہو رہی ہے۔
آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ دنیا میں اس وقت 92 فیصد سے زیادہ حرام غذا استعمال ہورہی ہے۔ ہلال فوڈ کی اس وقت دنیا بھر میں 2000 ارب ڈالر کی مارکیٹ ہے اور بدقسمتی سے اس میں پاکستان کا حصہ صرف 0.5 فیصد ہے؛ کیونکہ ہمیں چھوٹے کام کرتے ہوئے شرم آتی ہے، ہمیں صرف سیمنٹ، سریئے اور بجری میں ہی ترقی نظر آتی ہے۔ ہم یورپ کی باقی باتوں میں تو تقلید کرنا فخر سمجھتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ بہت سے یورپی ممالک کی معیشت لائیو اسٹا ک پر چل رہی ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون میں 25 فروری 2016 کے روز شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق، فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس (ایف پی سی سی آئی) کے صدر عبدالرؤف عالم کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا بھر میں حلال فوڈ کے بڑے بڑے ایکسپورٹر غیر مسلم ممالک ہیں جن میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا، برازیل، انڈیا، فلپائن، تھائی لینڈ اور امریکا وغیرہ شامل ہیں۔ امریکا اور آسٹریلیا حلال بیف کے بڑے ایکسپورٹر ہیں جبکہ برازیل اور فرانس ہلال چکن کے بڑے ایکسپورٹر ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔
یہ ایک تلخ ترین حقیقت ہے کہ سؤر کے گوشت اور چربی سے 375 آئٹم بنے ہوئے ہیں۔ مجھے بہت سے انڈین دوستوں نے بتایا کہ انڈیا میں ہلال گوشت کےلیے ذبیحہ تو مسلمان ہی کرتے ہیں مگر ان کے مالکان ہندو ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہلال فوڈ مارکیٹ مکمل طور پر اغیار کے قبضے میں چلی جائے، ہمیں اپنے سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر وزیراعظم عمران خان کا عملی طور پر ساتھ دینا ہوگا تاکہ ہم کم ازکم برازیل اور فرانس کا تو ہلال چکن ایکسپورٹ کے میدان میں مقابلہ کرسکیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ دنیا میں اس وقت 92 فیصد سے زیادہ حرام غذا استعمال ہورہی ہے۔ ہلال فوڈ کی اس وقت دنیا بھر میں 2000 ارب ڈالر کی مارکیٹ ہے اور بدقسمتی سے اس میں پاکستان کا حصہ صرف 0.5 فیصد ہے؛ کیونکہ ہمیں چھوٹے کام کرتے ہوئے شرم آتی ہے، ہمیں صرف سیمنٹ، سریئے اور بجری میں ہی ترقی نظر آتی ہے۔ ہم یورپ کی باقی باتوں میں تو تقلید کرنا فخر سمجھتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ بہت سے یورپی ممالک کی معیشت لائیو اسٹا ک پر چل رہی ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون میں 25 فروری 2016 کے روز شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق، فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس (ایف پی سی سی آئی) کے صدر عبدالرؤف عالم کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا بھر میں حلال فوڈ کے بڑے بڑے ایکسپورٹر غیر مسلم ممالک ہیں جن میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا، برازیل، انڈیا، فلپائن، تھائی لینڈ اور امریکا وغیرہ شامل ہیں۔ امریکا اور آسٹریلیا حلال بیف کے بڑے ایکسپورٹر ہیں جبکہ برازیل اور فرانس ہلال چکن کے بڑے ایکسپورٹر ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔
یہ ایک تلخ ترین حقیقت ہے کہ سؤر کے گوشت اور چربی سے 375 آئٹم بنے ہوئے ہیں۔ مجھے بہت سے انڈین دوستوں نے بتایا کہ انڈیا میں ہلال گوشت کےلیے ذبیحہ تو مسلمان ہی کرتے ہیں مگر ان کے مالکان ہندو ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہلال فوڈ مارکیٹ مکمل طور پر اغیار کے قبضے میں چلی جائے، ہمیں اپنے سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر وزیراعظم عمران خان کا عملی طور پر ساتھ دینا ہوگا تاکہ ہم کم ازکم برازیل اور فرانس کا تو ہلال چکن ایکسپورٹ کے میدان میں مقابلہ کرسکیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔