کچھ کمانا چاہتے ہیں تو کمفرٹ زون سے باہر نکلیے
کمفرٹ زون سے نکلنے سے نئے لیول تک جانے اور کامیابی تک پہنچنے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں
اسی معاشرے میں چھوٹے کاروبارکرنے والے آپ کو بارش میں مینڈکوں کی طرح ہر گلی، چوراہے، سڑک پہ نظر آئیں گے۔ اکثر لوگ یہ عرض کرتے ہیں کہ ہم کاروبار شروع کرنا چاہتے ہیں لیکن پیسے کم ہیں، کوئی آئیڈیا بتائیں کہ ہم کیا کریں؟ بہت سے دوستوں سے سنا کہ کیا کوئی ایسا طریقہ ہے جس سے اچھی انکم والا اپنا کاروبار کر سکیں توایسے دوستوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ کاروبار چھوٹا ہو یا بڑا، محنت طلب ہوتا ہے۔
یہ آپ کا خلوص، اپنے کام سے محبت اور مستقل مزاجی ہوتی ہے جو آپ کے کاروبار کو چار چاند لگاتی ہے۔ ہمارے ایک دوست کے پاس پچاس ہزار روپے تھے۔ انہوں نے دوسال پہلے ایک لاکھ اسی ہزارروپے میں پرانے ماڈل کی کار لی۔ 50 ہزارایڈوانس دیے اور 80 ہزار قسطوں میں دینے کا وعدہ کر لیا۔ (آج کل مارکیٹ میں اچھی جان پہچان ہو تو پی آر کی وجہ سے قسطوں میں ایسی چیزیں مل جاتی ہیں۔) پانچ ہزارروپے میں کرائے پر ایک دکان لی اور ایک اچھا سا ''ڈرائیونگ اسکول '' کا پینافلکس بنو اکر لگا دیا۔ انھوں نے ڈرئیونگ اسکول کا لائسنس جو کہ مفت میں بن جاتا ہے، حاصل کیا اور کام کا آغاز کر دیا۔
مہینے میں 12 سے 20 اسٹوڈنٹ انہیں ملنے لگے۔ فی اسٹوڈنٹ انھوں نے 3500 روپے فیس رکھی۔ انھیں 40 سے 63 ہزار کی آمدن ہر ماہ ہونے لگی۔ جس میں سے دکان کا کرایہ، سی این جی، گاڑی کی قسط، مینٹیننس نکال کر 15 ہزارماہانہ انہیں بچ جاتے۔ اب اگر بندہ بیٹھے بٹھائے بغیر نوکری کیے 15000 کماتا رہے تو اسے نوکری کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن انہوں نے اپنے کام کو مزید آگے بڑھایا اور ڈیڑھ سال کے اندر ایک بولان ہائی روف لے لی۔ وہ صبح، دوپہر کی اسکول کی شفٹیں خود اٹھاتا ہے اور شام کو ڈرئیونگ اسکول چلاتا ہے۔ اگر کسی قریبی جان پہچان یا رشتہ داروں میں تقریب ہوتی ہے تو وہ اپنی خدمت پیش کر دیتا ہے۔ اس سے یہ سہولت رہتی ہے کہ رشتہ داروں کو سواری کی پریشانی نہیں ہوتی اور گاڑی والے کو کسی ''پک اینڈ ڈراپ'' کے اڈے پہ کھڑا نہیں ہونا پڑتا۔ مہینے میں پک اینڈ ڈراپ کے چار چکر بھی لگ جائیں اور اوسط کرایہ 2000 ہو تو وہ اضافی 8000 روپے کما لیتا ہے۔ یہ تینوں کام یعنی ڈرئیونگ اسکول، اسکول کی شفٹیں اٹھانا اور پک اینڈ ڈراپ سے وہ ایک لاکھ کے لگ بھگ آمدنی حاصل کر رہا ہے۔ جس میں سے خرچ نکال کر 50000 روپے و ہ منافع بچا لیتا ہے۔
اب آپ بتایئے کہ پچاس ہزار سے شروع کیا گیا کاروبار اچھی حکمت عملی سے چھ لاکھ تک پہنچا کہ نہیں؟
ہمیں اکثر مارکیٹ جانا ہوتا ہے۔ ہم کچھ دن قبل صدر گئے۔ گرمی کی شدت سے ہمیں پیاس لگی تو ہم ایک مٹکے کی لسی بیچنے والے کے پاس پہنچے۔ ہم نے اس سے لسی لی اور ساتھ ہی ان کے کاروباری حالات معلوم کرنے کے لیے انہیں کریدا تو ہمیں لسی بیچنے والے بابا نے حیران کردیا۔ وہ حیرانی کیا تھی آپ بھی سنیئے۔
اس لسی کو عموماََ ''چاٹی کی لسی'' کہا جاتا ہے۔ بابا کا کہنا تھا کہ 15 کلو دہی سے 100 لیٹر چاٹی کی لسی بناتا ہوں۔ اس کا خرچ بھی کم ہے اور محنت تو نام کی ہے۔ ددوھ، آگ، برف، نمک کا خرچ ملا کر تقریباََ دو ہزار تک ہو جاتا ہے۔ 100 لیٹر لسی سے آدھا لیٹر والے 200 مگ بن جاتے ہیں اور یہ شام تک بڑے اطمنان سے بک بھی جاتے ہیں۔ ایک مگ 20 روپے کا ہوتا ہے تو اس سے چار ہزار روپے آتے ہیں، جس میں سے 2 ہزار خرچ نکال کر 2 ہزار منافع مل جاتا ہے۔ ہم نے غٹاغٹ لسی حلق میں انڈیلی اور انگلیاں گننے لگے۔ 2 ہزار روز کا مطلب ہے 60000 روپے ماہانہ۔ اور ساٹھ کو بارہ مہینوں پہ ضرب کیا تو سات لاکھ بیس ہزار سال کا منافع۔ ہم تو ساری زندگی نوکریاں کرکر کے اتنا سارا مال پورے سال میں جمع نہ کر پائیں۔ ہوئے نا آپ بھی حیران؟ ہم بھی ہوئے تھے۔
اس لیے کہتے ہیں کہ آپ تعلیم یافتہ ہوں یا ان پڑھ، کاروبار کرنا سیکھیے۔ کیوں؟ کیوں کہ جب آپ پروفیشنل زندگی میں قدم رکھتے ہیں اور خود کو بہتر بنانے کی طرف جاتے ہیں تو آپ کو نت نئے چیلنجوں کو قبول کرنا سیکھنا ہوگا۔ اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ بروئے کار لانا ہوگا۔ اکثر لوگ ایک خاص لیول تک کامیابی حاصل کرکے ر ک جاتے ہیں، ایک گولز کرچکے ہوتے ہیں اور اسی کو کامیابی تسلیم کر لیتے ہیں۔ وہ اگلے لیول پر جانے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے وہ سستی کا شکار ہو جاتے ہیں اور آرام طلب بن جاتے ہیں۔
کوئی بھی کا م کرنا ہو، اسکلز میں مہارت ضروری ہے۔ اور یہ چیز کاروبار شروع کرنے سے پہلے آپ کو اپنے اندر تلاش کرنی ہے۔ کسی بھی بڑے کاروبار کو کرنے سے پہلے مارکیٹیئر بننا ہوگا۔ مثلاََ آپ کو کپڑے کا کاروبار کرنا ہے، دکان کھولنی ہے، تو آپ کسی کپڑے کی دکان پہ کام کرنے لگ جائیں۔ اسی طرح اگر آپ کو کاسمیٹکس کی دکان لگانی ہو یا فینسی جیولیری کی، آپ جب تک کسی سے سیکھیں گے نہیں، اس کام میں نقصان ہی کریں گے۔ فائدہ کچھ نہیں ہوگا۔ لہذا جس کام کو سیکھ کر کیا جائے، اس میں نقصان کا اندیشہ کم ہوتا ہے۔
کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جن میں ذہنی پختگی، چیلنجوں سے لڑنے کا حوصلہ اور نتائج کا صبر کے ساتھ انتظار کرنا ہوتا ہے۔ فی الفور اور ادھر کام ادھر دام والا معاملہ بڑے کاروبار کے ساتھ چھوٹے کاروبار کے لیے بھی زہر قاتل ہے۔ اس لیے آپ کو اپنے کاروبار سے متعلق معلومات کو بڑھانا ہوگا۔ ارد گرد کا جائزہ لیتے رہیں اور اپنی اسکلز میں بہتری لاتے رہیں۔ اس سے نا صرف آپ کمفرٹ زون سے باہر آجائیں گے، بلکہ نئے لیول تک جانے اور کامیابی تک رسائی کے چانسز بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے اگر کاروبار میں کامیابی چاہتے ہیں توکمفرٹ زون سے باہر نکلیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
یہ آپ کا خلوص، اپنے کام سے محبت اور مستقل مزاجی ہوتی ہے جو آپ کے کاروبار کو چار چاند لگاتی ہے۔ ہمارے ایک دوست کے پاس پچاس ہزار روپے تھے۔ انہوں نے دوسال پہلے ایک لاکھ اسی ہزارروپے میں پرانے ماڈل کی کار لی۔ 50 ہزارایڈوانس دیے اور 80 ہزار قسطوں میں دینے کا وعدہ کر لیا۔ (آج کل مارکیٹ میں اچھی جان پہچان ہو تو پی آر کی وجہ سے قسطوں میں ایسی چیزیں مل جاتی ہیں۔) پانچ ہزارروپے میں کرائے پر ایک دکان لی اور ایک اچھا سا ''ڈرائیونگ اسکول '' کا پینافلکس بنو اکر لگا دیا۔ انھوں نے ڈرئیونگ اسکول کا لائسنس جو کہ مفت میں بن جاتا ہے، حاصل کیا اور کام کا آغاز کر دیا۔
مہینے میں 12 سے 20 اسٹوڈنٹ انہیں ملنے لگے۔ فی اسٹوڈنٹ انھوں نے 3500 روپے فیس رکھی۔ انھیں 40 سے 63 ہزار کی آمدن ہر ماہ ہونے لگی۔ جس میں سے دکان کا کرایہ، سی این جی، گاڑی کی قسط، مینٹیننس نکال کر 15 ہزارماہانہ انہیں بچ جاتے۔ اب اگر بندہ بیٹھے بٹھائے بغیر نوکری کیے 15000 کماتا رہے تو اسے نوکری کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن انہوں نے اپنے کام کو مزید آگے بڑھایا اور ڈیڑھ سال کے اندر ایک بولان ہائی روف لے لی۔ وہ صبح، دوپہر کی اسکول کی شفٹیں خود اٹھاتا ہے اور شام کو ڈرئیونگ اسکول چلاتا ہے۔ اگر کسی قریبی جان پہچان یا رشتہ داروں میں تقریب ہوتی ہے تو وہ اپنی خدمت پیش کر دیتا ہے۔ اس سے یہ سہولت رہتی ہے کہ رشتہ داروں کو سواری کی پریشانی نہیں ہوتی اور گاڑی والے کو کسی ''پک اینڈ ڈراپ'' کے اڈے پہ کھڑا نہیں ہونا پڑتا۔ مہینے میں پک اینڈ ڈراپ کے چار چکر بھی لگ جائیں اور اوسط کرایہ 2000 ہو تو وہ اضافی 8000 روپے کما لیتا ہے۔ یہ تینوں کام یعنی ڈرئیونگ اسکول، اسکول کی شفٹیں اٹھانا اور پک اینڈ ڈراپ سے وہ ایک لاکھ کے لگ بھگ آمدنی حاصل کر رہا ہے۔ جس میں سے خرچ نکال کر 50000 روپے و ہ منافع بچا لیتا ہے۔
اب آپ بتایئے کہ پچاس ہزار سے شروع کیا گیا کاروبار اچھی حکمت عملی سے چھ لاکھ تک پہنچا کہ نہیں؟
ہمیں اکثر مارکیٹ جانا ہوتا ہے۔ ہم کچھ دن قبل صدر گئے۔ گرمی کی شدت سے ہمیں پیاس لگی تو ہم ایک مٹکے کی لسی بیچنے والے کے پاس پہنچے۔ ہم نے اس سے لسی لی اور ساتھ ہی ان کے کاروباری حالات معلوم کرنے کے لیے انہیں کریدا تو ہمیں لسی بیچنے والے بابا نے حیران کردیا۔ وہ حیرانی کیا تھی آپ بھی سنیئے۔
اس لسی کو عموماََ ''چاٹی کی لسی'' کہا جاتا ہے۔ بابا کا کہنا تھا کہ 15 کلو دہی سے 100 لیٹر چاٹی کی لسی بناتا ہوں۔ اس کا خرچ بھی کم ہے اور محنت تو نام کی ہے۔ ددوھ، آگ، برف، نمک کا خرچ ملا کر تقریباََ دو ہزار تک ہو جاتا ہے۔ 100 لیٹر لسی سے آدھا لیٹر والے 200 مگ بن جاتے ہیں اور یہ شام تک بڑے اطمنان سے بک بھی جاتے ہیں۔ ایک مگ 20 روپے کا ہوتا ہے تو اس سے چار ہزار روپے آتے ہیں، جس میں سے 2 ہزار خرچ نکال کر 2 ہزار منافع مل جاتا ہے۔ ہم نے غٹاغٹ لسی حلق میں انڈیلی اور انگلیاں گننے لگے۔ 2 ہزار روز کا مطلب ہے 60000 روپے ماہانہ۔ اور ساٹھ کو بارہ مہینوں پہ ضرب کیا تو سات لاکھ بیس ہزار سال کا منافع۔ ہم تو ساری زندگی نوکریاں کرکر کے اتنا سارا مال پورے سال میں جمع نہ کر پائیں۔ ہوئے نا آپ بھی حیران؟ ہم بھی ہوئے تھے۔
اس لیے کہتے ہیں کہ آپ تعلیم یافتہ ہوں یا ان پڑھ، کاروبار کرنا سیکھیے۔ کیوں؟ کیوں کہ جب آپ پروفیشنل زندگی میں قدم رکھتے ہیں اور خود کو بہتر بنانے کی طرف جاتے ہیں تو آپ کو نت نئے چیلنجوں کو قبول کرنا سیکھنا ہوگا۔ اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ بروئے کار لانا ہوگا۔ اکثر لوگ ایک خاص لیول تک کامیابی حاصل کرکے ر ک جاتے ہیں، ایک گولز کرچکے ہوتے ہیں اور اسی کو کامیابی تسلیم کر لیتے ہیں۔ وہ اگلے لیول پر جانے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے وہ سستی کا شکار ہو جاتے ہیں اور آرام طلب بن جاتے ہیں۔
کوئی بھی کا م کرنا ہو، اسکلز میں مہارت ضروری ہے۔ اور یہ چیز کاروبار شروع کرنے سے پہلے آپ کو اپنے اندر تلاش کرنی ہے۔ کسی بھی بڑے کاروبار کو کرنے سے پہلے مارکیٹیئر بننا ہوگا۔ مثلاََ آپ کو کپڑے کا کاروبار کرنا ہے، دکان کھولنی ہے، تو آپ کسی کپڑے کی دکان پہ کام کرنے لگ جائیں۔ اسی طرح اگر آپ کو کاسمیٹکس کی دکان لگانی ہو یا فینسی جیولیری کی، آپ جب تک کسی سے سیکھیں گے نہیں، اس کام میں نقصان ہی کریں گے۔ فائدہ کچھ نہیں ہوگا۔ لہذا جس کام کو سیکھ کر کیا جائے، اس میں نقصان کا اندیشہ کم ہوتا ہے۔
کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جن میں ذہنی پختگی، چیلنجوں سے لڑنے کا حوصلہ اور نتائج کا صبر کے ساتھ انتظار کرنا ہوتا ہے۔ فی الفور اور ادھر کام ادھر دام والا معاملہ بڑے کاروبار کے ساتھ چھوٹے کاروبار کے لیے بھی زہر قاتل ہے۔ اس لیے آپ کو اپنے کاروبار سے متعلق معلومات کو بڑھانا ہوگا۔ ارد گرد کا جائزہ لیتے رہیں اور اپنی اسکلز میں بہتری لاتے رہیں۔ اس سے نا صرف آپ کمفرٹ زون سے باہر آجائیں گے، بلکہ نئے لیول تک جانے اور کامیابی تک رسائی کے چانسز بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے اگر کاروبار میں کامیابی چاہتے ہیں توکمفرٹ زون سے باہر نکلیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔