کشمیر کی آئینی حیثیت
کشمیر کی ریاست نے کچھ شرائط کی بنا پر انڈین یونین کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔
ریاست جموں اور کشمیر کی، آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت، خصوصی حیثیت کی تبدیلی کی ایک بار پھر کوشش کی گئی ہے اور اس حوالے سے بی جے پی نے پہلا پتھر مارا ہے۔ پارٹی کے چوٹی کے لیڈر ایل کے ایڈوانی نے کہا ہے کہ آئین کے اس آرٹیکل کو منسوخ کر دو۔ جواب میں جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ ''یہ کام میری لاش پر سے گزر کر ہی ہو گا''۔ اگرچہ نوجوان مُکھ منتری کا رد عمل کچھ زیادہ ہی شدید تھا لیکن وہ اس میں حق بجانب بھی ہے، کیونکہ آئین کے آرٹیکل تقدس مآب ہوتے ہیں۔
ریاست جموں اور کشمیر کے انڈیا کے ساتھ الحاق کے وقت یہ آرٹیکل سرینگر اور نئی دہلی کے مابین طویل بحث و تمحیص کے نتیجہ میں وضع کیا گیا تھا۔ جب اگست 1947ء میں برطانیہ کی انڈیا سے رخصتی ہوئی تو اس نے نوابوں اور راجے راجاؤں کی ریاستوں کے انڈیا یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا معاملہ نوابوں اور راجے راجاؤں کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔ اگر جغرافیائی قرابت اور آبادی کے رنگ ڈھنگ پر غور کیا جائے تو جموں اور کشمیر کی سرحدیں پاکستان اور انڈیا دونوں سے ملتی ہیں۔ تاہم ریاست کی اکثریتی آبادی مسلمانوں کی تھی جب کہ حکمران ہندو تھا۔ وہ انڈیا اور پاکستان دونوں سے الگ تھلگ اور دور دور رہنے کو ترجیح دیتا تھا۔ لیکن اس کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ ریاست ''لینڈ لاکڈ'' (یعنی چاروں طرف سے خشکی میں گھری ہوئی) تھی۔ پاکستان نے جموں کشمیر کے ہندو راجہ کے ساتھ معاہدہ قائمہ پر دستخط کر دیے تھے کہ پاکستان کے ساتھ الحاق کی صورت میں اسے تمام ضروری سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ اگرچہ مہا راجہ کو معلوم ہو چکا تھا کہ اس کی ریاست پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں ہے ۔ نئی دہلی کے ارباب اختیار معاہدہ قائمہ کے خلاف تھے کیونکہ وہ مہاراجہ ہری سنگھ کے انڈیا کے ساتھ ریاستی الحاق کے لیے بات چیت کر رہے تھے۔ اور انڈیا امور خارجہ' دفاع اور مواصلات کے علاوہ تمام اختیارات ریاست کو دینے پر رضا مند تھا۔ اسی ایک شرط پر مہاراجہ نے انڈیا کے ساتھ الحاق کی دستاویزات پر دستخط کر دیے۔ جب مقبول عام لیڈر شیخ عبداللہ تو اس نے معاہدے کی حمایت کی کیونکہ مہاراجہ ہری سنگھ کے دور اقتدار میں ہی اس نے خفیہ طور پر اس معاہدے کو قابل قبول ٹھہرایا تھا۔
شیخ عبداللہ آرٹیکل 370 پر مِن و عن عمل درآمد چاہتا تھا۔ اسی آرٹیکل (370) کے تحت عدالت عظمیٰ' کمپٹرولر' آڈیٹر جنرل اور یونین پبلک سروس کمیشن کے اختیارات کلی طور پر ریاست کے ہاتھ میں دے دیے گئے تھے۔ اور ریاست وزارت داخلہ' دفاع اور مواصلات کے سوا تمام معاملات میں خود مختار تھی۔
میں کہتا ہوں کہ وہ تمام عناصر جو آرٹیکل 370 کی پارلیمنٹ کے ذریعے منسوخی یا تبدیلی چاہتے ہیں سخت غلطی پر ہیں۔ کشمیر کی ریاست نے کچھ شرائط کی بنا پر انڈین یونین کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ اب اگر مرکز ان شرائط میں تبدیلی چاہتا ہے تو اسے ریاستی عوام کی منظوری و رضا مندی حاصل کرنا ہو گی۔ مرکزی حکومت کسی معاہدے میں یکطرفہ تبدیلی نہیں لا سکتی۔ ایڈوانی کی تجویز پر عمر عبداللہ کا سخت ردعمل ان کے نکتہ نظر کی نمایندگی کر رہا ہے۔ ان کے دادا شیخ عبداللہ نے نئی دہلی کو وزارت خارجہ' دفاع اور مواصلات کے علاوہ کہیں اور تجاوز کرنے نہ دیا اور اس کے لیے انھیں بڑی قیمت چکانا پڑی۔ وہ بارہ سال زیر حراست رہے۔ اس پاداش پر کہ انھوں نے نئی دہلی کو یاد دہانی کرائی کہ وہ الحاق کے معاہدہ پر سے روگردانی نہیں کر سکتے۔ درحقیقت' کشمیر میں (جموں میں نہیں) عوام کی اکثریت اس معاہدے کو ختم کرنا چاہتی ہے اور مکمل آزادی کی طلبگار ہے۔
ان میں سے اکثریت نئی دہلی والوں کو وزیر اعظم جواہر لعل کا وہ وعدہ یاد کراتے ہیں کہ جونہی ریاست میں معاملات درست ہوئے تو وہاں کے عوام سے ان کی مرضی ضرور معلوم کی جائے گی۔ متبادل تو پاکستان ہی تھا۔ لیکن آج جو نئی دہلی کے خلاف احتجاج کرتے ہیں کہ اس نے نہرو کا کیا ہوا وعدہ پورا نہیں کیا، بھول جاتے ہیں کہ نہرو بذات خود اپنے موقف سے یہ کہہ کر منحرف ہو گئے تھے کہ پاکستان نے نیٹو اور سنیٹو جیسے فوجی معاہدوں میں شامل ہو کر صورت حال کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ واضح رہے یہ فوجی معاہدے امریکا نے روس کے خلاف سرد جنگ کے دوران تشکیل دیے تھے۔
ماضی کے حالات سے قطع نظر' وادی کشمیر میں مفادات کی جنگ اور (مبینہ) دراندازی سے انڈیا اپنی آنکھیں بند نہیں رکھ سکتا جو (مبینہ طور پر) افضل گورو کی پھانسی کے بعد بہت بڑھ چکی ہے۔ نوجوان خصوصی طور پر انتہائی مشتعل ہیں۔ اس بات کا زیادہ شعور عام نہیں کہ اس معاملے کا عدالت میں باقاعدہ مقدمہ چلا تھا اور پارلیمنٹ پر حملے کے جرم میں اسے عدالت عظمیٰ نے سزائے موت کا حکم سنایا تھا۔ پارلیمنٹ جسے پورے جنوب مشرقی ایشیا میں جمہوریت کا قلعہ تصور کیا جاتا ہے اور عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور خطے کے دیگر ممالک اس ماڈل کو اپنانا چاہتے ہیں کہ فوج کو پس پشت رکھتے ہوئے جمہوریت کو پارلیمنٹ نے استحکام بخشا ہے۔
مسئلہ کشمیر کا حل ''ہنوز دہلی دُور'' والا معاملہ ہے۔ کسی خاص مرحلے پر پاکستان کو بھی شامل کرنا ہو گا۔ اور وادی کشمیر کے عوام کی خواہشات کو بھی زیر غور لانا ہو گا۔ آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کی باتیں ریاست میں بھارت نواز عناصر کی مساعی کو ناکام بنانے کے مترادف ہیں۔ ابھی تک انھوں نے بڑی بہادری سے ہر دباؤ اور ہر تعذیر کا سامنا کیا ہے۔ کئی ایک اپنی جان سے بھی گزر گئے ہیں۔ ابھی ان کی جدوجہد تمام نہیں ہوئی۔
سب سے بڑی بات یہ کہ فوج بھی بعض اوقات احتیاط کا دامن چھوڑ دیتی ہے۔ اس کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے اور خاص مواقع پر سول انتظامیہ کو معاونت فراہم کرنا۔ لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔ فوج ہر معاملے میں دخیل دکھائی دیتی ہے۔ حتیٰ کہ ریاست کے وزیر اعلیٰ نے اسے واپس بلانے کا مطالبہ کر دیا ہے تا کہ پولیس کی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جا سکے۔ ایک حالیہ واقعے میں فوج کے ہاتھوں دو شہریوں کی ہلاکت نے عوام اور عمر عبداللہ کو سیخ پا کر دیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ فوج نے تفتیش کا حکم دیا ہے اور ان دو سپاہیوں کو مجرم ثابت ہونے پر سزا دینے کا وعدہ کیا ہے۔ لیکن شک کیا جا رہا ہے کہ فوج نے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں اپنے آٹھ جوانوں کی ہلاکت کا بدلہ لیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سول انتظامیہ اور فوج کی راہیں مناسب طریقے سے علیحدہ ہو جائیں تا کہ کسی بھی خطرناک صورت حال سے بچا جا سکے۔
ریاست کے زیادہ تر افراد کو مطمئن کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 370 کو مکمل طور پر نافذ کر دیا جائے۔ نئی دہلی حکومت کو ان قوانین کی تنسیخ پر غور کرنا چاہیے جو مرکزی حکومت نے شیخ عبداللہ کی حراست کے بعد اس آئینی آرٹیکل میں داخل کیے تھے۔ واضح رہے شیخ عبداللہ نے کشمیر کے انڈیا کے ساتھ الحاق پر نہ تو کبھی شک و شبہ ظاہر کیا اور نہ ہی انڈیا کے اس اقدام کو چیلنج کیا۔ لیکن انڈیا نے ان اقدامات پر سوال اٹھایا جو امور خارجہ دفاع اور مواصلات کے علاوہ آرٹیکل 370 سے بالاتر کر لیے گئے تھے۔ شیخ عبداللہ نے بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے ساتھ معاہدے میں اور بھی بہت سی چیزوں کو تسلیم کر لیا تھا۔ تاہم اب اس معاہدے پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے۔ قانونی یا اسی قسم کے دوسرے اقدامات کا اپنے طور پر ہی درجہ تکمیل تک نہیں پہنچ جاتے۔ اصل بات یہ ہوتی ہے کہ لوگ ان کو دل سے قبول کریں لیکن نئی دہلی حکومت اس سلسلے میں کچھ بھی کرتی نظر نہیں آتی۔
ایڈوانی کا یہ مطالبہ کہ آرٹیکل 370 کو کُھرچ دیا جائے صرف آگ پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہے۔ لیکن یہ بات حیرت انگیز ہے کہ ایڈوانی نے اس قسم کا مطالبہ کر دیا ہے۔ وہ بی جے پی کی قیادت میں بننے والی حکومت میں ڈپٹی وزیر اعظم تھے جس نے اپنے حامیوں کو یقین دلایا تھا کہ حکومت آرٹیکل 370 کو بالکل نہیں چھوئے گی۔ بالفرض محال اگر کل کو بی جے پی کو پھر حکومت بنانے کا موقع ملتا ہے تو اسے ایک دفعہ پھر اسی وعدے کا اعادہ کرنا پڑے گا تبھی اس میں شامل ہونے والی پارٹیوں کی حمایت اس کو حاصل ہو سکے گی۔ تو اس صورت میں اس معاملے کو اس وقت اٹھانے کا کیا مقصد ہے۔ حالانکہ ایڈوانی بخوبی جانتے ہوں گے کہ اس قسم کی بات غیر بی جے پی اور غیر کانگریس کے اتحادی ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ ایڈوانی کو معلوم ہونا چاہیے کہ اپنا مفاداتی کھیل کھیلنے سے زیادہ قومی مطالبے کو فوقیت دینا ضروری ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)