بھنور

ابھی ایک ماہ قبل ترکی میں درختوں کے کٹنے اور پارک بنانے کے خلاف زبردست مظاہرے تھے

anisbaqar@hotmail.com

لگتاہے کہ انتخاب کے بعد بھی پرانی بلکہ اس پرانے پن کے ساتھ کچھ مزید کاروباری حکومت پورے آب وتاب سے جاری ہے۔ اسی لیے دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں براہ راست کاروباری حضرات کو حکومت کا سربراہ نہیں بنایا جاتا ، چنانچہ برطانیہ کے سابق سربراہ ٹونی بلیئر پھر وزیراعظم ہاؤس سے واپس اپنے فلیٹ میں چلے گئے۔ اسی طرح صدر بش واپس اپنے مکان میں۔ مگر پاکستان کے حکمرانوں کی بات ہی نرالی ہے۔ زمین، مکان، انڈسٹری، اسمبلی، وزارت، شوگر اورآٹے کی ملیں، پوری دنیا میں فلیٹ،کاروباری مراکز، روابط پر ترقی یافتہ ملک میں سرمایہ کاری، اتنا خطیر سرمایہ کہ اگر واپس لایاجاتا تو پھر آئی ایم ایف کا کشکول نہ لینا پڑے اور اب ہم کو آئی ایم ایف ڈکٹیشن دیتاہے کہ کس چیز پر سبسڈی ختم کرنی ہے،کتنی کم کرنی ہے،عوام کو کس قدر مزید کچلاجانا ہے، واضح رہے کہ کاروباری حکمران سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ وہ کیسے ٹیکس لگائیں،کن مدوں میں کہ سرمایہ دار پر ضرب نہ لگے بلکہ ان کا سرمایہ ضرب دیتا رہے اور عام آدمی کا سرمایہ بڑے کاروباری لوگوں کی جیب میں جائے۔

اس کی ایک اعلیٰ اور نمایاں مثال سامنے ہے کہ سیل فون پر مزید ٹیکس کی مثال۔اب جو ٹیکس لگایا گیا ہے وہ عام صارف پرلگا۔ اس کے علاوہ چھوٹے کاروباری اور عام گھریلو صارف پر جن کے کام فون پر بغیر سفر کیے حل ہوسکتے ہیں، رہ گیا نوجوان عشاق پر، تو ان پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا کیونکہ ان کا جیب کا خرچ والدین پر ہوتاہے وہ ہر طرح سے پس رہے ہیں۔ یہ سیل فون محض تفریح نہیں بلکہ زندگی کے لیے ایک کل وجز وقتی جز بن گیا ہے۔ سفر سے لے کر اسپتال، دعوتوں سے لے کر اموات تک کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ لہٰذا دانستہ طورپر ایسے ٹیکس نافذ کیے جارہے ہیں جن سے عام انسان دس پندرہ ہزار یا اس سے زائد آمدنی والوں کے لیے ایک تکلیف کا باعث ہے۔

رمضان سے قبل ہر ہفتہ Fuel فیول کی قیمت میں اضافہ اور عام اشیا پر سیلز ٹیکس، جی ایس ٹی اور من مانے ٹیکسوں کا نفاذ عوام پر نحوست کی یلغار سے کم نہیں۔ ٹیکسوں کا نفاذ کچھ اس طورپر کیاجارہاہے کہ عوام کے سر پر مہنگائی کا آسمان گر پڑا مگر محض تھوڑا بہت شور ہوا اور پھر سب ٹھیک ہوگیا۔ مگر حکمرانوں کو اندازہ نہیں کہ ان حرکات کے اثرات سوسائٹی پر کیا پڑسکتے ہیں۔ حب الوطنی میں شگاف، انتشار میں زیادتی، سماجی رویوں میں چڑچڑاپن، خودکشی میں اضافہ، چوری چکاری، اغوا برائے تاوان میں اضافہ، طوائف الملوکی، ذہنی امراض، گھریلوجھگڑے، تنگ دستی، فاقہ کشی، لوٹ مار، بھتہ میں فروغ اور کیا کیا لکھوں اے قلم تجھ سے، مگر کسی سیاسی پارٹی کو ہوش نہیں وہ اقتدار کے تنکے کی تلاش میں ہیں کہ ان کی کشتی ڈوبنے سے بچی رہے۔ خواہ پورا ملک بھنور میں پھنس جائے، ہر پارٹی کو اپنے ہی قائد ، کارکنوں اور اپنی منزل کی تلاش ہے۔ یہ ناخدا صرف اپنی ہی پتوار کے غم میں ہیں۔

ورنہ اس بجٹ کے خلاف ملک بھر میں کم ازکم ایک ہفتہ ہڑتال، یکجہتی ضرور ہوتی جن لوگوں نے تاریخ آزادی ہند پڑھی ہے ان کو معلوم ہوگا کہ اگر ایسا کوئی واقعہ قیام پاکستان سے قبل ہوتا تو مہاتما گاندھی مرن برتھ رکھتے ایک اپیل قوم کے نام کرتے کہ ایک ہفتہ کے لیے موبائل فون استعمال نہ کیاجائے مگر ان دنوں یہ فون نہ تھا لوگ اب بھی پوچھتے ہیں کہ ملک میں نسلی تعصب، فرقہ پرستی، تنگ نظری، قتل وغارت، سفاکی اور ان گنت برائیاں کہاں سے آئی ہیں۔ یہ کوئی امپورٹڈ آئٹم نہیں بلکہ ملکی پیداوار غربت وافلاس نے انھیں جنم دیا اور تشریحات کرنے والوں نے ان کی سیاسی اور مذہبی تشریحات کیں۔

پھر نفرتیں پیدا ہوئیں، بازار ظلم بنے ایک نے کہاکہ پنجابی ظالم، دوسرے نے کہاکہ مہاجر، ایک بولا کہ پٹھان ظالم، ایک نے کہاکہ فلاں فرقہ نے کاروبار پر قبضہ کیا دوسرے نے کہا نہیں، کاروبار تو فلاں کے پاس ہے غرض تشریحات کے لیے کوئی حقیقی وزن نہیں۔

درکار لوگ مذہب اور قومیت کی دیوار کھڑی کرتے ہیں مگر ایک زمانے میں یہ نعرے اسی شہر کراچی میں لگتے تھے۔ مزدور مزدور بھائی بھائی، نہ مذہب، نہ نسل، نہ زبان اب یہ شہر ہوا ویران، شہر کروڑوں کا سائے موت کے، آدمی آدمی سے ڈرتاہے، ہر فرد خوف میں رہتاہے، ہزاروں بیواؤں کا شہر، ہزاروں یتیم بچوں کا شہر نہ کوئی سر پہ سائبان نہ کوئی باٹنے والا درد ودرماں، اب بحث ہورہی ہے بے سود آئین کی شقوں کی، جیسے پہلے ہوچکی ہیں سوئس بینک کی، میمو گیٹ کیس کی، دیگر رقومات کی، کرپشن کی ہونا کیا ہے، ڈھاک کے دو پات عوام کو بس ایک نہ ایک کیس میں مشغول رکھنا تاکہ عوام یہ نہ سوچیں کہ ان کے مسائل کیا ہیں۔ عوام کا اتحاد پارہ پارہ ، ہزارہ قوم کے لوگ جو صدیوں سے کوئٹہ میں آباد تھے ان کی زندگی اس لیے تنگ ہے کہ وہ شیعہ ہیں اور شہر کے مرکز میں ان کی دکانیں ہیں، وہ بھاگیں گے تو قبضہ ہوگا یہ سب قبضہ مافیا ہے اس کے پس پشت جنگ زرگری ہے، مارنے والے کے لب پر اﷲ کا نام اور مرنے والے کے منہ پر بھی اسی رب کا نام ۔ یہ کیا المیہ ہے، دین کے پردے میں جنگ زرگری جار ی ہے۔


ملت اسلامیہ ایک نئے طوفان میں مبتلا ہے۔ ابھی ایک ماہ قبل ترکی میں درختوں کے کٹنے اور پارک بنانے کے خلاف زبردست مظاہرے تھے اور وہ سیکولر حکومت کے لیے کوشاں تھے تاکہ فرقہ پرستی کی جنگ ختم ہو۔ سیکولر کا مطلب لادینیت نہیں بلکہ تمام مذاہب کے لیے یکساں مواقع، دین لوگوں کا ذاتی عقیدہ اور مسلک ہے جس دین کو چاہیں وہ مانیں اب یہ لہر مصر میں بھی جاچکی ہے وہاں صدر مرسی کا جو اخوان المسلمین کے رہنما ہیں فوج نیدھڑن تختہ کردیا مگر ہمارے یہاں سیاسی طورپر یہ نہیں ہورہا ہے بلکہ یہ سب شور وغوغا بس اسی لیے ہے کہ عوام کا غصہ خوف میں بدل دیاجائے۔ جب جان پر بنے گی تو مہنگائی کیا معنی، اب کوئی ہے جو طلبہ کی فیسوں، تعلیم سستی، مہنگائی کے لیے نکلے؟ قتل وغارت روکے۔

اب تو علاقائی سیاست کے شادیانے بجائے جارہے ہیں اور اس کا آخری انجام ملک کے لیے زہر ہلاہل جس کو قند نہیں کہاجاسکتا ہے ، اور آخری انجام کیا ہوگا ؟ افسوس کا مقام ہے کہ سیاست دان جمہوریت کی باتیں کررہے ہیں جب کہ اس وقت ملک کی جتنی کم وبیش بڑی پارٹیاں ہیں ان سب کے لیڈران انھی آمروں کی گود میں پلے ہیں، کوئی ایوب خان کی تو کوئی جنرل ضیاء الحق کی اور کوئی پرویز مشرف کی بلکہ یہی نہیں یہ لیڈیز سیٹ کا شاخسانہ تو پرویز مشرف نے شروع کیا تاکہ لیڈران اپنی بہو بیٹیوں، عزیزواقارب کو اسمبلی میں لائیں، معاشی اور سماجی طورپر عزت مآب کہلائیں، آئین میں یہ ترمیم چلی آرہی ہے، ایسا لگتاہے پاکستانی حکمران ملک کی نازک صورت حال سے ناواقف ہیں اب ایک اور نئے بحران نے جنم لے لیا ہے وہ ہے ڈاکٹر عمران فاروق کی پراسرار موت کی ہمہ گیر تحقیقات۔ایک بھنور ہے۔ دیکھیں کیا گزرے ہے ملک کی اس نازک صورت حال میں ۔ اگر صاحبان نظر اس ملک میں لیڈری کررہے ہوتے تو عوام کی فکر کرتے اور تمام مسائل خود بخود حل ہوجاتے، بجلی کے بحران کو ختم ہونے کو 3سال کا وقت ۔

دیکھیں کیا گزرے ہے قطر کو گہر ہونے تک
ابھی اور نوٹ چھپیں گے روپیہ اپنی قدر اور غالب کھوتا جائے گا
غریب کے لیے زندگی ویسے بھی موت کا سفر ہے
مگر پھر بھی مایوسی نہیں کوئی صاحب نظر، دیدہ ور ضرور آئے
اے خدا کوئی ناخدا تو بھیج تاکہ کشتی بھنور سے نکلے اور عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔
دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
Load Next Story