وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا

ساجد قریشی اور ان کے بیٹے کے بہیمانہ قتل کے خلاف کراچی سمیت سارے سندھ میں ہڑتال رہی۔


Zaheer Akhter Bedari July 04, 2013
[email protected]

قوموں کی زندگی میں بعض وقت نازک ترین مراحل آتے ہیں۔ ایسے مراحل کا مقابلہ قومیں اپنی اجتماعی دانش سے کرتی ہیں۔ پاکستان تقریباً ایک عشرے سے ایسے ہی بدترین دور سے گزررہاہے۔ اس بدترین دور کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے۔ جس نے اب تک 70ہزار سے زیادہ بے گناہ انسانوں کوکھالیاہے۔ پچھلے صرف 42دن میں377بے گناہ افراد کراچی میں دہشت گردی کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس حوالے سے دہشت گردی کی تازہ واردات میں متحدہ کے ایک ایم پی اے ساجد قریشی کو ان کے25سالہ جوان بیٹے کے ساتھ نارتھ ناظم آباد کی ایک مسجد کے سامنے اس وقت قتل کردیاگیا جب وہ نماز پڑھ کر مسجد سے باہر آرہے تھے۔ اس روز کراچی میں مجموعی طورپر 18افراد کو قتل کردیاگیا۔

ساجد قریشی اور ان کے بیٹے کے بہیمانہ قتل کے خلاف کراچی سمیت سارے سندھ میں ہڑتال رہی۔ متحدہ نے اس قتل کے خلاف 3دن کا یوم سوگ منایا۔ صدر، وزیراعظم سمیت ملک بھر کی سیاسی جماعتوں نے اس قتل کی مذمت کی، سندھ کی حکومت نے حسب روایت تحقیقات کا حکم دیا۔ گورنر سندھ نے 24گھنٹوں کے اندر اندر اس سانحے کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا اور یہ سارے محترمین کسی اگلے سانحے پر بھی خواہ وہ کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو مذمت اور تحقیقات کے بیانات دیتے رہیں گے۔

گلگت میں22جون کو2پاکستانی سیاحوں سمیت 11 سیاحوں کو قتل کردیاگیا۔ جن میں یوکرائن، چین، روس کے سیاح بھی شامل تھے۔ قومی اسمبلی میں اس سانحے کے خلاف روایت کے عین مطابق ایک مذمتی قرارداد پیش کی گئی ہے۔ ایوان نے متفقہ طورپر منظور کرلیا۔ متحدہ نے اپنے ایم پی اے اور ان کے بیٹے کے قتل کے خلاف اسمبلی سے واک آؤٹ کیا اور 23جون کو پاکستان سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں احتجاجی مظاہرے کیے اور روایت ہی کے مطابق ٹی وی کے ٹاک شوز میں ہماری سیاسی جماعتوں کے ترجمانوں نے اس قومی مسئلہ کا کوئی متفقہ حل ڈھونڈنے کے بجائے اپنا سارا زور بیان اپنی ساری جماعتی وفاداریاں، ایک دوسرے پر الزامات لگانے میں صرف کیں۔

دہشت گردی اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا قومی مسئلہ ہے اور اس قسم کے قومی مسائل کے حل کے لیے پہلی شرط قومی اتفاق رائے ہے اور ہماری تمام سیاسی جماعتیں اس مسئلے کی سنگینی کو تو تسلیم کرتی ہیں لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس قومی مسئلے پر ہماری سیاسی جماعتیں دو حصوں میں بٹی ہوئی ہیں۔ ایک حصے کا موقف یہ ہے کہ دہشت گردی کی یہ جنگ ہماری جنگ ہے۔ دوسرے حصے کا موقف یہ ہے کہ دہشت گردی کی یہ جنگ امریکا کی جنگ ہے اور ہمیں فوری طورپر اس ''پراکسی وار'' سے باہر آجانا چاہیے۔ اس موقف کے حامیوں میں بعض مذہبی جماعتوں کے علاوہ سب سے زیادہ سخت موقف تحریک انصاف کا ہے اس جماعت کے سربراہ عمران خان دہشت گردی کی اس جنگ کو امریکا کی جنگ قرار دینے میں سب سے آگے ہیں۔

ہماری (ن) لیگ کا موقف اس حوالے سے بڑا عجیب وغریب ہے۔ وہ ایک طرف دہشت گردی کے ہر واقعے کی مذمت کرتے بھی دکھائی دیتی ہے تو دوسری طرف اس پر یہ الزام بھی عائد کیاجارہاہے کہ وہ انتخابات جیتنے میں بھی انتہا پسندوں کی سپورٹ حاصل کرتی رہی اور انتخابات جیتنے کے بعد حکومت چلانے میں بھی ان کی سپورٹ حاصل کررہی ہے۔ اس موقف کے حامی اس حوالے سے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ (ن) بے خوف وخطر لاکھوں کے جلسے کرتی رہی کسی دہشت گرد نے اس کی طرف نظر بد نہیں ڈالی جب کہ اے این پی، متحدہ اور پیپلزپارٹی کے کارکن اور رہنما ہر روز دہشت گردوں کی نذر ہوتے رہے۔

ان کی کارنر میٹنگوں تک پر حملے ہوتے رہے اور اس کا سبب یہ بتایاجاتارہاکہ یہ جماعتیں نظریاتی حوالے سے لبرل اور روشن خیال ہیں اور لبرازم اور روشن خیالی دہشت گردوں کی نظر میں واجب القتل جرم ہے۔ ہمارے محترم وزیراعظم نے خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کہاہے کہ پنجاب دہشت گردی سے محفوظ ہے اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پنجاب ایک عشرے پر پھیلی ہوئی اس دہشت گردی سے محفوظ ہے لیکن پنجاب کی یہی خصوصیت پورے ملک میں ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے اور سوال کیاجارہاہے کہ پنجاب کے اس تحفظ کا سہرا کس کے سر جاتاہے۔؟

دہشت گردی کی اس ''امریکی جنگ'' میں جہاں اب تک 70ہزار پاکستانی شہری اپنی جانیں گنواں بیٹھے ہیں وہیں پولیس، رینجرز، ایف سی اور فوج کے ہزاروں جوانوں کو بھی انتہائی بیدردی سے قتل کردیاگیاہے اور ہر روز قتل کیاجارہاہے۔ مہران ایئربیس،کامرہ ایئربیس اور جی ایچ کیو جیسے حساس ترین دفاعی اداروں پر حملے کرکے انھیں بھاری نقصان پہنچایاگیا اور پشاور ایئرپورٹ پر حملہ کرکے وطن دوستی کا مظاہرہ کیاگیا۔

ہم نے ابتدا میں اس بات کی نشاندہی کردی ہے کہ اہم ترین قومی مسائل پر قومی اتفاق رائے ضروری ہے۔ اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام دہشت گردی کی اس جنگ کو نہ صرف اپنی جنگ سمجھتے ہیں اور ان کی دلی خواہش ہے کہ ملک سے دہشت گردوں کا نام ونشان مٹادیاجائے۔ اسے اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ ہمارے آرمی چیف جنرل کیانی نے اس اہم ترین مسئلہ پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اس جنگ کو ''ہماری جنگ'' کہاہے اور اس سے نمٹنے کو بھی ہماری ذمے داری تسلیم کیا ہے۔ یہ موقف اس قدر واضح ہے کہ اس میں دو رائے کی سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے لیکن بد قسمتی سے ابھی بھی بعض سیاسی رہنما اس جنگ کو ہماری جنگ ماننے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔ اس فکری اپروچ کا پس منظر کیا ہے...؟

ہمارے ایک وفاقی وزیر صاحب نے غالباً دہشت گردی کے مسئلے کے پس منظر میں اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ ''فوج کو حکومت کا موقف اختیار کرنا چاہیے'' جب کہ آرمی چیف نے اس حوالے سے اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے یہ رائے دی ہے کہ قومئی مسئلے پر ''حکومت اور فوج کا موقف متفقہ ہونا چاہیے''وزیر صاحب کا یہ ارشاد آئین کے عین مطابق ہے کہ فوج کو حکومت کا موقف اختیار کرنا چاہیے کیونکہ آئین کے تحت فوج ایک ماتحت ادارہ ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس واضح اور غیر مبہم مسئلے پر اختلاف رائے کیوں پیدا ہورہاہے؟ دہشت گردی کی جنگ کو امریکا کی جنگ کہنے والے کیا ان تلخ حقائق کا جواب دیںگے کہ دہشت گردی کی اس جنگ میں جو 70ہزار کے لوگ بھگ پاکستانی مارے گئے ہیں کیا وہ امریکا یا نیٹو کی فوج کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔

یا پاکستانی دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں؟ کراچی کے عباس ٹاؤن، کوئٹہ کی علمبردار اور کیرانی روڈ پر جو قتل عام ہوا کیا یہ قتل عام امریکا یا نیٹو کی فوج نے کیا ہے یا پاکستانی دہشت گردوں نے؟ کوئٹہ اور گلگت میں بسوں سے اتارکر اور ان کی شناخت کرکے انھیں گولیوں سے بھوننے والے امریکی یا نیٹو کے فوجی تھے یا ہمارے دہشت گرد تھے؟ خیبرپختونخواکی مسجدوں اور جنازوں کے جلوسوں پر خودکش حملے کرکے سیکڑوں بے گناہ پختونوں کو قتل کرنے والے امریکی اور نیٹو کے فوجی تھے یا ہمارے مہربان انتہا پسند؟ کوئٹہ کی ویمن کالج کی بس میں خودکش حملہ کرکے14معصوم طالبات کو شہید اور 19کو زخمی کرنیوالے امریکی یا نیٹو کے فوجی تھے یا ہمارے مجاہدین...؟ کراچی میں 42دنوں میں377بے گناہ شہریوں کو قتل کرنے والے امریکا یا نیٹو کے فوجی تھے یا پاکستانی دہشت گرد؟ متحدہ اور اے این پی کے ایم پی اے کو قتل کرنیوالے امریکی یا نیٹو کے فوجی تھے یا ہمارے مذہبی انتہا پسند؟ مہران، کامرہ ایئربیس اور جی ایچ کیو پر حملے کرنے والے امریکا یا نیٹو کے فوجی تھے یا ہمارے اپنے؟ گلگت میں11سیاحوں کو قتل کرنے والے امریکا یا نیٹو کے فوجی تھے یا ہمارے مذہبی انتہا پسند؟

ہمارا خیال ہے کہ اس خوفناک مسئلے پر اب اختلاف رائے کا مطلب پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام اور ملک کے مستقبل کی تباہی کے علاوہ کچھ نہیں۔ اب آئینی درجہ بندیوں اور حکومتی اختیارات کی لڑائی کا وقت نہیں۔ یہ وقت ملک اور ملک کے مستقبل کو بچانے کا وقت ہے اور سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر قومی اتفاق رائے کا وقت ہے۔ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ وقت کو ہاتھ سے نہ نکلنے دیں ہوش کے ناخن لیں...!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں