نوجوان نسل ڈپریشن کا شکار کیوں
تمام قواعد و ضوابط کو پورا کر لینے کے بعد درخواست وقت مقررہ پر پوسٹ کردیتے ہیں.
ملک بھر کے لاکھوں تعلیم یافتہ اور ہنرمند بشمول ناخواندہ بے روزگاروں کے لیے یہ خبرخوش آیند ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قائم شدہ نئی وفاقی حکومت نے اپنے پہلے مالی سال کے بجٹ میں ملک سے بے روزگاری کے خاتمے کے لیے ''وزیر اعظم روزگار پروگرام برائے عوام'' شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پروگرام کے تحت خواندہ اور ناخواندہ افراد کو اپنا کاروبار خود شروع کرنے کے لیے آسان شرائط پر قرضے دیے جائیں گے۔ ناخواندہ افراد کو چھوٹے پیمانے پر کاروبار شروع کرنے کے لیے 50 ہزار سے 3 لاکھ روپے جب کہخواندہ افراد (میٹرک سے ماسٹرز) کو کاروبار شروع کرنے کے لیے ایک لاکھ سے 5 لاکھ روپے تک قرضے دیے جائیں گے۔ پروگرام کے تحت پہلے مرحلے میں 5 لاکھ افراد کو قرضوں کو اجراء کیا جائے گا اور قرضوں کا اجراء مکمل کمپیوٹرائزڈ ہوگا اور میرٹ کے مطابق قرضوں کا اجراء کیا جائے گا اور حکومت کی پہلی ترجیح ہنرمند افراد کو قرضوں کی فراہمی ہوگی، قرضوں کی واپسی کا عمل اجراء کے 6 ماہ بعد آسان شرائط پر ہوگا اور اس پر شرح سود انتہائی کم رکھی جائے گی۔
بلاشبہ بے روزگاری ملک کا گمبھیر مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی نئی نویلی حکومت اقدامات اٹھا رہی ہے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان اقدامات کے تحت ملک سے بے روزگاری کا یکسر خاتمہ ہوگا البتہ اس میں کچھ افاقہ ضرور ہوگا کیونکہ بے روزگاروں کی تعداد لاکھوں میں ہے جو بتدریج درست اقدامات کے تحت کم ہوسکتے ہیں۔ یہاں میں ملک کے ان بے روزگاروں سے مخاطب ہوں جو صرف سرکاری ملازمت کے متلاشی ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ وقت وحالات بدل چکے ہیں۔ سرکاری ملازمت کا دور تقریباً ختم ہوچکا ہے، کیوں کہ سرکاری ادارے نج کاری کے مراحل سے گزر چکے ہیں اور جو باقی بچے ہیں وہ بھی نج کاری کے منتظر ہیں۔ لہٰذا بدلتے ہوئے ان حالات میں سرکاری ملازمت کے متلاشی بے روزگاروں کو بھی اپنا ذہن بدلنا ہوگا۔
پرائیویٹ سیکٹر میں وہی لوگ کھپ سکتے ہیں جنھیں کوئی ہنر آتا ہو جو تعلیم یافتہ ہو اور اس عہدے کے لیے اہمیت رکھتا ہو جب ہم ملک کے بیروزگاروں پر نظرکرتے ہیں تو ملی جلی صورت حال سامنے آتی ہے۔بے روزگاروں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو تعلیم یافتہ اور ہنرمند بھی ہے لیکن مخصوص وجوہات کی بناء پر وہ اپنی تعلیمی ڈگری اور ہنر کا ڈپلومہ لیے دفتر در دفتر خاک چھان رہے ہیں۔ صبح و شام اخبارات میں شایع شدہ ''ضرورت ہے'' کا اشتہار تراشتے ہیں۔ خوشی خوشی درخواستیں ٹائپ کراتے ہیں پھر ان کی فوٹوکاپیاں کرتے ہیں۔
تمام قواعد و ضوابط کو پورا کر لینے کے بعد درخواست وقت مقررہ پر پوسٹ کردیتے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ اس کے بھی اچھے دن آنے والے ہیں۔ اول تو انٹرویو کال لیٹر مشکل سے آتا ہے اگر آ بھی جائے تو اس میں درج انٹرویو کی تاریخ گزر چکی ہوتی ہے اور اگر خوش قسمتی سے کوئی نوجوان انٹرویو دینے کے لیے پہنچ پاتا ہے تو وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے باوجود ملازمت کے لیے منتخب ہو نہیں پاتا اسے طفل تسلی دے کر نام نہاد خوش گوار خوابوں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ اس قسم کے نوجوانوں میں سے کچھ نوجوان حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اور اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اپنی منزل کی راہیں متعین کرتے ہیں جب کہکچھ نوجوان حالات سے گھبرا کر مایوسی کو تقدیر سمجھ لیتے ہیں اس طرح ان کی صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا ہے اور وہ دوسروں کو کوستے ہوئے اندھیری راہوں میں گم ہوجاتے ہیں۔
ملک میں نوجوانوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو تعلیم یافتہ تو ہے لیکن کوئی ہنر نہیں جانتا۔ یہ طبقہ ہمیشہ تعلیم حاصل کرنے کے عمل کو بے کار سمجھتا ہے اور اپنی ناکامی کا بدلہ لینے کے لیے دوسروںسے کہتا پھرتا ہے کہ ''تعلیم حاصل کرلینے سے کس کی تقدیر بدلی ہے؟ تم بھی تعلیم حاصل کرکے اپنا وقت برباد مت کرو''۔ نوجوانوں کا یہ طبقہ ایسا ہے جو ہنرمند ہے مگر ان پڑھ ہے۔ تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے ہنر کو وسعت دینے سے قاصر ہے۔ انھی نوجوان طبقوں میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو بیک وقت یکسر تعلیم و ہنر سے محروم ہے اور وہ مفت کی روٹی کھانے کا عادی ہے۔
ایسے نوجوان اکثر کام سے جی چراتے ہوئے اپنے والدین سے جھوٹ بولتے نظر آتے ہیں کہ ''میں کام کی تلاش میں فلاں دوست کے ہمراہ فلاں جگہ پر گیا تھا مگر کام مل نہ سکا، کام بہت سخت مگر تنخواہ بہت کم ہے''اس طرح کے دیگر بہانے تراشے جاتے ہیں۔ یہی وہ طبقہ ہے جو بالآخر اپنے ہاتھوں اپنا مستقبل تاریک راہوں کے حوالے کردیتے ہیں جب انھیں ہوش آتا ہے تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
مذکورہ بالا صورت حال کے قطع نظر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ ملک کے نوجوانوں کو ایسا ماحول فراہم نہیں کیا گیا کہ جس میں رہ کر ان کی صلاحیتوں کو پنپنے کا موقع مل سکے۔ نوجوانوں کو یہ بتانے سے گریز کیا جاتا رہا ہے کہ وہ کس طرح سے اپنی صلاحیتوں کو مثبت سمت میں استعمال کرسکتے ہیں۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو تسلیم کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں، جو لوگ نوجوان نسل کی رہنمائی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں وہ اپنا کردار اداکرنے سے قاصر ہیں۔
ملک میں تعلیم عام کرنے کے دعویداروں کی کمی نہیں ہے لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ طبقوں میں بٹی ہوئی مہنگی تعلیم کے باعث صرف ان گھرانوں کے بچے، نوجوان منزل تک پہنچ پاتے ہیں جو مالی لحاظ سے مستحکم ہوتے ہیں جب کہملک کے نوے فیصد گھرانوں کے نوجوان منزل کی تلاش میں بھٹکتے رہ جاتے ہیں۔ نوجوانوں پر یہ الزام غلط ہے کہ وہ اپنے فرائض سے غافل ہیں۔ ہمارے ملک کے نوجوان کسی سے کم نہیں ہیں۔ انھیں صرف مناسب رہنمائی کی ضرورت ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ قومی فرض کون نبھائے گا؟ صرف نصیحتیں کی جاتی ہیں کہ نوجوان راہ راست پر آجائیں اور اپنی تمام تر توجہ حصول تعلیم پر مرکوز کریں، لیکن کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ نوجوان ڈپریشن کا شکار کیوں ہیں؟ اور اس کا حل کیا ہے؟ نوجوانوں پر طرح طرح کے الزام لگائے جاتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو ملک کے نوجوانوں کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے، ان کا کوئی پرسان حال نہیں، یہی وجہ ہے کہ کمزور اعصاب کے نوجوان ہمت ہار جاتے ہیں اور غلط راستہ اختیار کرلیتے ہیں جب کہباہمت نوجوان اپنا راستہ تلاش کرکے منزل کو پالینے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں اور کامیاب ہوجاتے ہیں۔
بلاشبہ ملک کی ترقی و تنزلی میں نوجوان طبقہ مرکزی کردار ادا کرتا ہے اس لیے وزیر اعظم نواز شریف سے توقع ہے کہ ان کی حکومت نوجوانوں کو اہمیت دیتے ہوئے ان کے جملہ مسائل حل کرنے کی سعی کریں گے اور پہلی فرصت میں یوتھ پالیسی کا اجراء کریں گے۔
بلاشبہ بے روزگاری ملک کا گمبھیر مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی نئی نویلی حکومت اقدامات اٹھا رہی ہے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان اقدامات کے تحت ملک سے بے روزگاری کا یکسر خاتمہ ہوگا البتہ اس میں کچھ افاقہ ضرور ہوگا کیونکہ بے روزگاروں کی تعداد لاکھوں میں ہے جو بتدریج درست اقدامات کے تحت کم ہوسکتے ہیں۔ یہاں میں ملک کے ان بے روزگاروں سے مخاطب ہوں جو صرف سرکاری ملازمت کے متلاشی ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ وقت وحالات بدل چکے ہیں۔ سرکاری ملازمت کا دور تقریباً ختم ہوچکا ہے، کیوں کہ سرکاری ادارے نج کاری کے مراحل سے گزر چکے ہیں اور جو باقی بچے ہیں وہ بھی نج کاری کے منتظر ہیں۔ لہٰذا بدلتے ہوئے ان حالات میں سرکاری ملازمت کے متلاشی بے روزگاروں کو بھی اپنا ذہن بدلنا ہوگا۔
پرائیویٹ سیکٹر میں وہی لوگ کھپ سکتے ہیں جنھیں کوئی ہنر آتا ہو جو تعلیم یافتہ ہو اور اس عہدے کے لیے اہمیت رکھتا ہو جب ہم ملک کے بیروزگاروں پر نظرکرتے ہیں تو ملی جلی صورت حال سامنے آتی ہے۔بے روزگاروں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو تعلیم یافتہ اور ہنرمند بھی ہے لیکن مخصوص وجوہات کی بناء پر وہ اپنی تعلیمی ڈگری اور ہنر کا ڈپلومہ لیے دفتر در دفتر خاک چھان رہے ہیں۔ صبح و شام اخبارات میں شایع شدہ ''ضرورت ہے'' کا اشتہار تراشتے ہیں۔ خوشی خوشی درخواستیں ٹائپ کراتے ہیں پھر ان کی فوٹوکاپیاں کرتے ہیں۔
تمام قواعد و ضوابط کو پورا کر لینے کے بعد درخواست وقت مقررہ پر پوسٹ کردیتے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ اس کے بھی اچھے دن آنے والے ہیں۔ اول تو انٹرویو کال لیٹر مشکل سے آتا ہے اگر آ بھی جائے تو اس میں درج انٹرویو کی تاریخ گزر چکی ہوتی ہے اور اگر خوش قسمتی سے کوئی نوجوان انٹرویو دینے کے لیے پہنچ پاتا ہے تو وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے باوجود ملازمت کے لیے منتخب ہو نہیں پاتا اسے طفل تسلی دے کر نام نہاد خوش گوار خوابوں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ اس قسم کے نوجوانوں میں سے کچھ نوجوان حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اور اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اپنی منزل کی راہیں متعین کرتے ہیں جب کہکچھ نوجوان حالات سے گھبرا کر مایوسی کو تقدیر سمجھ لیتے ہیں اس طرح ان کی صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا ہے اور وہ دوسروں کو کوستے ہوئے اندھیری راہوں میں گم ہوجاتے ہیں۔
ملک میں نوجوانوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو تعلیم یافتہ تو ہے لیکن کوئی ہنر نہیں جانتا۔ یہ طبقہ ہمیشہ تعلیم حاصل کرنے کے عمل کو بے کار سمجھتا ہے اور اپنی ناکامی کا بدلہ لینے کے لیے دوسروںسے کہتا پھرتا ہے کہ ''تعلیم حاصل کرلینے سے کس کی تقدیر بدلی ہے؟ تم بھی تعلیم حاصل کرکے اپنا وقت برباد مت کرو''۔ نوجوانوں کا یہ طبقہ ایسا ہے جو ہنرمند ہے مگر ان پڑھ ہے۔ تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے ہنر کو وسعت دینے سے قاصر ہے۔ انھی نوجوان طبقوں میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو بیک وقت یکسر تعلیم و ہنر سے محروم ہے اور وہ مفت کی روٹی کھانے کا عادی ہے۔
ایسے نوجوان اکثر کام سے جی چراتے ہوئے اپنے والدین سے جھوٹ بولتے نظر آتے ہیں کہ ''میں کام کی تلاش میں فلاں دوست کے ہمراہ فلاں جگہ پر گیا تھا مگر کام مل نہ سکا، کام بہت سخت مگر تنخواہ بہت کم ہے''اس طرح کے دیگر بہانے تراشے جاتے ہیں۔ یہی وہ طبقہ ہے جو بالآخر اپنے ہاتھوں اپنا مستقبل تاریک راہوں کے حوالے کردیتے ہیں جب انھیں ہوش آتا ہے تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
مذکورہ بالا صورت حال کے قطع نظر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ ملک کے نوجوانوں کو ایسا ماحول فراہم نہیں کیا گیا کہ جس میں رہ کر ان کی صلاحیتوں کو پنپنے کا موقع مل سکے۔ نوجوانوں کو یہ بتانے سے گریز کیا جاتا رہا ہے کہ وہ کس طرح سے اپنی صلاحیتوں کو مثبت سمت میں استعمال کرسکتے ہیں۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو تسلیم کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں، جو لوگ نوجوان نسل کی رہنمائی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں وہ اپنا کردار اداکرنے سے قاصر ہیں۔
ملک میں تعلیم عام کرنے کے دعویداروں کی کمی نہیں ہے لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ طبقوں میں بٹی ہوئی مہنگی تعلیم کے باعث صرف ان گھرانوں کے بچے، نوجوان منزل تک پہنچ پاتے ہیں جو مالی لحاظ سے مستحکم ہوتے ہیں جب کہملک کے نوے فیصد گھرانوں کے نوجوان منزل کی تلاش میں بھٹکتے رہ جاتے ہیں۔ نوجوانوں پر یہ الزام غلط ہے کہ وہ اپنے فرائض سے غافل ہیں۔ ہمارے ملک کے نوجوان کسی سے کم نہیں ہیں۔ انھیں صرف مناسب رہنمائی کی ضرورت ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ قومی فرض کون نبھائے گا؟ صرف نصیحتیں کی جاتی ہیں کہ نوجوان راہ راست پر آجائیں اور اپنی تمام تر توجہ حصول تعلیم پر مرکوز کریں، لیکن کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ نوجوان ڈپریشن کا شکار کیوں ہیں؟ اور اس کا حل کیا ہے؟ نوجوانوں پر طرح طرح کے الزام لگائے جاتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو ملک کے نوجوانوں کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے، ان کا کوئی پرسان حال نہیں، یہی وجہ ہے کہ کمزور اعصاب کے نوجوان ہمت ہار جاتے ہیں اور غلط راستہ اختیار کرلیتے ہیں جب کہباہمت نوجوان اپنا راستہ تلاش کرکے منزل کو پالینے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں اور کامیاب ہوجاتے ہیں۔
بلاشبہ ملک کی ترقی و تنزلی میں نوجوان طبقہ مرکزی کردار ادا کرتا ہے اس لیے وزیر اعظم نواز شریف سے توقع ہے کہ ان کی حکومت نوجوانوں کو اہمیت دیتے ہوئے ان کے جملہ مسائل حل کرنے کی سعی کریں گے اور پہلی فرصت میں یوتھ پالیسی کا اجراء کریں گے۔