پاک برطانیہ تجارتی حجم

اگرچہ برطانیہ کی 100 کے لگ بھگ کمپنیاں پاکستان میں تجارت کر رہی ہیں۔


ایم آئی خلیل July 05, 2013

برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون مسلم لیگ (ن) کی نئی حکومت کے پہلے بطور سربراہ حکومت غیرملکی مہمان تھے جوکہ گزشتہ ہفتے کی شام پاکستان پہنچے تھے۔ ان کے اس دورے کے موقع پر برطانیہ نے اس بات کا اعلان کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون کے علاوہ تعلیم کے فروغ اور سرمایہ کاری میں تعاون کے ساتھ باہمی تجارت کا حجم 3 ارب پاؤنڈ تک بڑھائے گا۔ اس سے قبل مئی 2012 میں لندن میں برطانیہ کے وزیراعظم نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ 2015 تک باہمی تجارت کا حجم ڈھائی ارب پاؤنڈ تک کردیا جائے گا۔

50 کروڑ پاؤنڈ مزید اضافی ہدف مقرر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یورپی پارلیمنٹ نے 13 ستمبر 2012 کو پاکستانی برآمدات کے لیے رعایتی پیکیج کی منظوری دی تھی۔ اگرچہ اس میں پاکستان پر یہ شرط عائد کی گئی تھی کہ پاکستان کو چند عالمی شرائط و ضوابط کی پابندی کرنا ہوگی۔ خلاف ورزی کی صورت میں یورپی پارلیمنٹ ہی کسی بھی کارروائی کی مجاز ہوگی۔ یہ پیکیج آیندہ 2 سال کے لیے ہے مزید ایک سال توسیع کا امکان ہے۔ یکم جنوری 2013 سے پاکستان نے یورپی یونین کو 75 اشیا جن پر 2.5 فیصد رعایتی ٹیرف حاصل ہوا برآمدات شروع کی۔

یورپی یونین جوکہ پہلے 27 یورپی ملکوں پر مشتمل تھا، اب کروشیا بھی اس میں شامل ہوگیا ہے، 28 ملکوں کے اس گروپ میں برطانیہ کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ لہٰذا اس بات کے امکانات واضح ہوتے چلے گئے کہ دونوں ممالک کے تجارتی حجم میں مزید اضافہ ہوگا اور برطانیہ کے لیے پاکستان برآمدات و درآمدات میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ لہٰذا اب یہ ہدف 3 ارب پاؤنڈ مقرر کیا گیا ہے۔ اس وقت ایک برطانوی پاؤنڈ 155 روپے سے زائد کا ہے۔ یورپی یونین کی کرنسی یورو 132 روپے کے لگ بھگ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ممالک باہمی تجارت کو 2015 تک پاکستانی کرنسی کے مطابق 465 ارب روپے تک لے جانا چاہتے ہیں۔

فروری 2013 میں برطانیہ کے وزیراعظم نے جب بھارت کا دورہ کیا تو ان کے ساتھ 100 سے زائد برطانوی کمپنیوں کے نمایندے تھے اور 4 وزرا بھی تھے۔ برطانیہ جوکہ اس وقت دنیا کی چھٹی بڑی معیشت ہے اور بھارت چند ہی عشروں میں دنیا کی بہت بڑی معاشی قوت بننے جارہا ہے۔ برطانیہ کی طرف سے بھارت کے ساتھ تجارت میں دلچسپی اسی بات سے واضح ہوجاتی ہے کہ اتنا بڑا تجارتی وفد اور کئی وزراء بھی ساتھ تھے۔ دونوں ملکوں نے 2015 تک باہمی تجارت کا حجم 23 ارب پاؤنڈ تک لے جانے کا عزم ظاہر کیا۔

اگرچہ برطانیہ کی 100 کے لگ بھگ کمپنیاں پاکستان میں تجارت کر رہی ہیں۔ لیکن توانائی کے بحران نے پاکستان کی تجارت کو ناصرف برطانیہ بلکہ دیگر ملکوں کے ساتھ باہمی تجارت کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ نیز ملک میں بدامنی کے واقعات اور یورپ اور امریکا کی طرف سے کئی ایشیائی ملکوں کو ملنے والی رعایت مثلاً بنگلہ دیش کو GSP رعایتی پیکیج ملنے کے باعث وہاں سے یورپی یونین کو ایکسپورٹ میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت سے صنعتکاروں نے ملکی حالات سے بددل ہوکر پاکستان کے علاوہ دیگر ملکوں میں اپنی صنعتیں قائم کردیں۔

اب جب کہیہ اکنامک بینیفٹ پاکستان کو مل رہا ہے تو ایسی صورت میں توانائی کے بحران کے حل کے ساتھ ہی پاکستانی صنعت کار یورپی یونین اور برطانیہ کے لیے اپنی برآمدات میں تیزی لاسکیں گے۔ اگرچہ پاکستان سے دھاگے کی برآمدات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ لیکن ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی برآمدات میں پاکستان خطے کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں پیچھے ہے۔

75 اشیاء کی لسٹ دیکھی جائے تو پاکستان کے لیے مواقع پیدا ہورہے ہیں کہ وہ یورپی یونین اور برطانیہ کو تیار شدہ اشیاء کی برآمدات میں اضافہ کرسکے۔ خصوصاً ٹیکسٹائل مصنوعات میں، چونکہ پاکستان کو خصوصیت حاصل ہے۔ تیار شدہ ملبوسات و دیگر کی برآمدات میں اضافے سے جہاں اس بات کی توقع کی جارہی ہے کہ پاکستانی صنعتکار دوبارہ پاکستان میں اپنی صنعتوں کو بڑھانے میں دلچسپی لیں گے۔ لیکن حکومت کو توانائی کے بحران کو اولین ترجیح کے تحت حل کرنا ہوگا۔

پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے دورہ چین میں اسی بات کو اولیت دی جائے گی کہ چین سے توانائی بحران کے حل کے لیے بھرپور مدد طلب کی جائے۔ لیکن ادھر آئی ایم ایف کے شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے مصنوعات کی لاگت میں بے تحاشا اضافہ ہوگا۔ اس وقت وہ حکومتیں جوکہ ملک میں عوام اور صنعتوں کے لیے سستی بجلی مہیا کر رہی ہیں۔ وہی ممالک اپنی برآمدات میں تیزی سے اضافہ کرتے چلے جارہے ہیں۔ جب کہپاکستان کئی عشرے سے عالمی مالیاتی اداروں کی سخت شرائط کے باعث بجلی کی قیمت میں مسلسل تیزی سے اضافہ کیے جارہا ہے۔ گزشتہ دنوں بجلی کی فی یونٹ قیمت میں ایک روپے بارہ پیسے کا اضافہ کردیا گیا ہے۔

نئے مالی سال جس کا آغاز یکم جولائی سے ہوچکا ہے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ پٹرول 2 روپے، ڈیزل 2.16 روپے اور مٹی کا تیل 2.50 روپے فی لیٹر مہنگا کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سی این جی کی قیمت 1.85 روپے فی کلو بڑھ گئی ہے۔ پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ جس کے منفی اثرات برآمدات پر پڑتے ہیں۔

اسی طرح کے آئے روز اضافے کے باعث سرمایہ کار صنعتیں لگانے سے گریز کرتے ہیں۔ برطانوی وزیراعظم کے دورہ پاکستان کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ برطانوی سرمایہ کار پاکستان آئیں۔ جی ایس پی پلس 2014 میں شمولیت کے لیے برطانیہ کے تعاون کے خواہاں ہیں۔ ڈیوڈ کیمرون نے بھی اس بات پر مسرت کا اظہار کیا کہ وہ پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد دورہ کرنیوالے پہلے سربراہ حکومت ہیں۔ برطانیہ دنیا بھر میں امریکا کا ساتھ دینے والا ملک ہے۔ افغانستان میں برطانیہ کا انتہائی اہم کردار ہے۔ گزشتہ دنوں امریکی وزیر خارجہ نے بھارت کا دورہ کیا۔ لیکن پاکستان آمد سے گریز کیا تھا۔ گزشتہ دنوں برطانوی وزیراعظم کے دورہ پاکستان سے قبل وزیراعظم نوازشریف نے کہا تھا کہ پاکستان دوحہ میں امریکا طالبان مذاکرات کی حمایت کرتا ہے۔ تاہم پاکستان کو نظر انداز کرکے خطے میں امن کا قیام ممکن نہیں۔ ادھر برونائی میں پاکستان کے مشیر خارجہ نے امریکی وزیرخارجہ اور بھارت کے وزیر خارجہ سے ملاقات کی ہے۔

برطانوی وزیراعظم کے دورے کا اہم موضوع افغانستان سے امریکی انخلا ہی رہا ہے ۔ برطانیہ میں 10 لاکھ سے زائد پاکستانی موجود ہیں۔ خطے میں دہشت گردی کے مضر اثرات وہاں کے پاکستانی کمیونٹی پر بھی پڑتے ہیں۔ اس خطے میں برطانیہ کو بھی اپنے مفادات سے دلچسپی ہے۔ لہٰذا برطانوی وزیراعظم کا دورہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اور اس طرح افغانستان میں پاکستان کے کردار کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔ اگرچہ اس دورے میں تجارتی حجم بڑھانے کی بات کی گئی ہے۔ لیکن پس پردہ دورے کے مقاصد سیاسی ہی تھے۔ کیونکہ فروری میں جب برطانوی وزیراعظم نے بھارت کا دورہ کیا تھا تو جیساکہ آغاز میں لکھا گیا کہ ان کے ساتھ ایک بڑا تجارتی وفد اور کئی وزرا بھی تھے۔آئیے! اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پاک برطانیہ تجارتی حجم میں اضافے کے کیا امکانات ہیں؟ برطانیہ پاکستان کا اہم ترین تجارتی شراکت دار ہے۔

پاکستانی ایکسپورٹ پر نظر ڈالیں تو برطانیہ پانچواں اہم ملک ہے۔ جنوری 2013 میں برطانیہ کو پاکستانی برآمدات کا حجم 11 ارب 81 کروڑ 40 لاکھ روپے کا تھا جب کہجنوری 2012 میں یہ مالیت 8 ارب 14 کروڑ 80 لاکھ روپے کی تھی۔ اور اس ماہ کی کل ایکسپورٹ میں یہ حصہ 4.7 فیصد تھا۔ جب کہجنوری 2013 میں یہ نسبت بڑھ کر 6 فیصد ہوگئی۔ جب کہجولائی 2011 تا جنوری 2012 تک U.K کو کل ایکسپورٹ کی مالیت 60 ارب روپے رہی اور جولائی 2012 تا جنوری 2013 تک برآمدی مالیت 71 ارب 54 کروڑ روپے رہی جو کل برآمدات کا 5.33 فیصد ہے، یعنی ساڑھے گیارہ ارب روپے کا پاکستانی برآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اب برطانیہ سے کی گئی درآمدات پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو بات واضح ہوجائے گی۔ جولائی 2011 تا جنوری 2012 پاکستان نے برطانیہ سے 28 ارب 69 کروڑ روپے مالیت کا سامان خریدا جب کہجولائی 2012 تا جنوری 2013 کے دوران 48 ارب 20 کروڑ روپے کی درآمدات کی گئیں۔ جو کل درآمدات کا 1.96 فی صد تھا۔

یعنی 19 ارب 51 کروڑ روپے کی برطانوی درآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح برطانوی حکومت اس بات میں دلچسپی رکھتی ہے کہ مئی 2012 میں طے کردہ ہدف کہ تجارتی حجم کو ڈھائی ارب پاؤنڈ تک لے جائیں گے۔ اب اسے بڑھاکر 3 ارب پاؤنڈ کردینا کہ 2015 تک یہ ہدف حاصل کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی برطانیہ 2014 GSP کے لیے بھی پاکستان کی مدد کرنے میں دلچسپی لے گا۔ لیکن یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ برطانیہ کے ساتھ تجارت پاکستان کے حق میں رہی ہے۔ کیونکہ برطانیہ سے درآمدات کی نسبت پاکستانی برآمدات برائے برطانیہ کا حجم زیادہ رہتا ہے۔ لہٰذا یورپی یونین میں پاکستان کو مراعات دلوانے میں جہاں برطانیہ کا فائدہ ہے وہاں پاکستان کی برآمدات میں بھی نمایاں اضافہ ہوگا۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں توانائی کی ضروریات کو جنگی بنیادوں پر حل کیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں