سارے رنگ

حیا انسان کا فطری وصف ہے اور بلاشبہہ نہایت بلند اور مستحسن وصف ہے، لیکن شرم و حیا اور بزدلی میں فرق ہے۔

حیا انسان کا فطری وصف ہے اور بلاشبہہ نہایت بلند اور مستحسن وصف ہے، لیکن شرم و حیا اور بزدلی میں فرق ہے۔ فوٹو: فائل

کَوّے کا سوپ
ابن انشا

کو ے ہیں سب دیکھے بھالے، چونچ بھی کالی پر بھی کالے۔ یہ سب ہی ملکوں میں ہوتے ہیں، سوائے جنوبی افریقا کے اور امریکا کی جنوبی ریاستوں کے۔ وہاں صرف سفید کوے پسند کیے جاتے ہیں اور اور سفید کوے اتفاق سے ہوتے ہی نہیں۔ کوا حلال بھی ہوتا ہے، لیکن صرف آغا تقی کے باغ میں۔ سنا ہے کراچی میں بھی ریڑھیوں پر کوؤں کا سوپ ملتا ہے، لوگ بڑے شوق سے پیتے ہیں۔ اپنے رنگ کی رعایت سے یہ بلیک مارکیٹ کے دام پاتا ہے، عرف عام میں اسے یہ سوپ مرغی کا کہلاتا ہے۔

۔۔۔

حیا اور بزدلی
حکیم محمد سعید



حیا انسان کا فطری وصف ہے اور بلاشبہہ نہایت بلند اور مستحسن وصف ہے، لیکن شرم و حیا اور بزدلی میں فرق ہے۔ لاریب شرم و حیا ہمیں ناشائستگی سے روکتی ہے۔ بری خواہشات اور منکرات کے ارتکاب سے بھی ہمیں بچاتی ہے۔ انسانیت جن باتوں پر شرم سے سر جھکا لیتی ہے، حیا ہمیں ان تمام باتوں سے بچاتی ہے۔ ان سے بچنا بزدلی نہیں، بلکہ ایسا حیا کے فطری تقاضوں کی وجہ سے ہوتا ہے، اس لیے یہ مثبت وصف ہے۔ اس کے برعکس بزدلی ایک منفی وصف ہے، یہی وہ بزدلی ہے، جس کی وجہ سے حق بات کہنے سے ہم قاصر رہتے ہیں۔ ہمیں جہاں اپنی جان کا خوف لاحق ہوتا ہے اور اپنے ذاتی دنیاوی مفادات کو ٹھیس لگنے کا ہمیں خطرہ ہوتا ہے، وہاں ہماری زبانیں بزدلی کی وجہ سے گنگ ہو جاتی ہیں، جیسا کہ آج پاکستان میں سیاست و صحافت اور امامت و دولت کی ہر زبان گنگ ہے، آج بد ترین صورت حال یہ ہے کہ ہم میں اظہار حق کی جرأت نہیں ہے۔

یہ حیا نہیں ہے، یہ سراسر بزدلی ہے۔ اسلام اس بزدلی کو منفی طرز عمل قرار دیتا ہے۔ ایک بے حیا اور بے شرم انسان بری اور ناپسندیدہ حرکات کے ارتکاب میں اگر کوئی خوف محسوس نہیں کرتا، تو یہ دلیری اور آزادی نہیں ہے، یہ بے حیائی ہے۔ معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں اور حد سے بڑھی ہوئی اخلاقی باختگی عام ہوجانے کے باوجود اگر ہم منکرات کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہیں کرتے، تو یہ خاموشی اور گنگ زبانی حیا کی جہ سے نہیں ہے، بلکہ دولت کی حرص، مفادات کی لالچ، جان کے خوف اور بزدلی کی وجہ سے ہوتی ہے۔

(کتاب 'آواز اخلاق' میں جمع کیے گئے مضامین سے ماخوذ)

۔۔۔

باس زندہ، ذلّت باقی
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی

آپ مٹی کی ایک مورتی بنائیں، بن جائے گی۔ آپ اسے ''باس'' کا نام دیں، اس کی گردن فوراً اکڑ جائے گی۔ حالات کا تیار کردہ باس ایسا ''پیس'' ہوتا ہے جو منجملہ دیگر خبائث کے اپنی زبان کو آرام اور کانوں کو کام کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس کے سر میں دماغ کی جگہ بھیجا ہوتا ہے جسے وہ سوچنے کے بہ جائے ماتحتوں کو نوچنے میں لگا دیتا ہے۔



یہ امر ہنوز تحقیق طلب ہے کہ باس جیسی مخلوق کی کھوپڑی میں ہوتا کیا ہے۔ بھیجا بُھس یا بھکسا (سڑا ہوا آٹا)؟ ہم یہ سب کچھ اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں، اس لیے کہ سرکار کی نوکری میں ہم 36 سال باس کی تہمت سر پہ لیے پھرے، لیکن چوں کہ ہر باس کا ایک باس ہوتا ہے، اس لیے ماتحتی کی ہزیمت بھی بخوشی برداشت کرتے رہے۔ اگر اپنے باس کے سامنے اپنی خودی کو ایک انچ بھی بلند کرنے کی کوشش کرتے تو ہماری داستان تک بھی نہ ہوتی داستانوں میں۔ (تصنیف ''کتنے آدمی تھے؟'' سے اقتباس)

۔۔۔

صد لفظی کتھا
وفادار



ثمر کے ابّا کا بڑا رعب ہوتا تھا، اُن کے اشارۂ اَبرو پر سارے بیٹے جان دینے کو تیار رہتے۔

رقیبوں نے بیٹوں کو اُکسایا کہ ''کاروبار تم چلاتے ہو، اور حکم ابا۔۔۔

سنبھال لو خود سب۔۔۔!''

ایک دن سارے بیٹوں نے باپ کو 'نفسیاتی مریض' کہہ کر نکال دیا۔۔۔

اپنی تاویل میں وہ ہر ایک کو باپ کی 'اوٹ پٹانگ' حرکات بتاتے۔

باپ کے ساتھ ثمر اکیلا رہ گیا۔


میں نے کہا 'دیکھو، ثمر باپ کا کتنا وفا دار ہے' تو ایک بیٹا کان میں بولا:

''وہ اس لیے وہاں ہے، تاکہ اُن سے ''نفسیاتی'' حرکتیں کراتا رہے۔۔۔!''

۔۔۔

''جھوٹا مقدمہ!''
دیوان سنگھ مفتون



دوسرے لوگ تو جیلوں میں جا کر اپنا وقت گزار کر چلے آتے ہیں، مگر میں جب کبھی جیل گیا، انسانی فطرت کے متعلق میں نے ہمیشہ ہی اپنی معلومات میں کافی اضافہ کیا، کیوں کہ وہاں پڑھنے اور سوچنے کے لیے اتنا وقت ملتا ہے کہ جیل سے باہر اس کا عشر عشیر بھی نصیب نہیں ہو سکتا۔ میں جب شروع شروع میں جیل گیا اور کسی قیدی سے اس کے جرم کے متعلق پوچھا، تو ہر شخص اپنے جرم کو بتاتے ہوئے ہچکچاتا، کیوں کہ انسان چاہے کتنا ہی جرائم پیشہ ہو۔

اس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اپنے چوری، دھوکا یا اس قسم کے دوسرے اخلاقی جرائم کا اقرار کرے، چناں چہ جس قیدی سے میں پوچھتا کہ وہ کیا جرم کر کے آیا ہے تو جواب دینے والا قیدی یا تو ٹالنے کی کوشش کرتا یا اپنے جرم کو غلط بتاتا۔ آخر میں نے ایک ترکیب سوچی، جب کبھی کسی سے پوچھتا تو یہ سوال نہ کرتا کہ تم نے کیا جرم کیا تھا؟ اس سے کہتا تمہارے خلاف پولیس نے کس جرم میں جھوٹا مقدمہ بنایا ہے؟ میرے اس سوال کا قیدی کی ذہنیت پر ہم دردی کا سا اثر ہوتا، اور وہ فوراً جواب دیتا۔ زنا بالجبر، چوری، ڈاکا یا دھوکے کا جھوٹا الزام لگایا گیا ہے۔ میں سمجھ جاتا کہ یہ حضرت کس جرم میں تشریف لائے ہیں اور کا کریکٹر کیا ہے؟

۔۔۔

ہم کو ہمارے سوا کوئی زیر نہیں کرسکتا
مولانا ابوالکلام آزاد



کرۂ ارض کی سب سے بڑی مغرور طاقت بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، ایک طاقت جو ہمیں پل بھر کے اندر پاش پاش کر دے سکتی ہے۔ وہ کون ہے؟۔ وہ خود ہم ہیں اور ہماری خوف ناک غفلت ہے، اگر وہ وقت پر نمودار ہو گئی، ہم پر ہمارے سوا کوئی غالب نہیں آ سکتا۔ ہم ایمان اور استقامت سے مسلح ہو کر اتنے طاقتور ہیں کہ دنیا کا سب سے بڑا ارضی گھمنڈ بھی ہمیں شکست نہیں دے سکتا، لیکن اگر ہمارے اندر اعتقاد اور عمل کی ادنیٰ سے کمزوری اور خامی بھی پیدا ہو گئی، تو ہم خود آپ ہی اپنے قاتل ہوں گے اور ہم سے بڑھ کر دنیا میں اچانک مٹ جانے والی کوئی چیز بھی نہیں ملے گی۔

ہم کو گورنمنٹ شکست نہیں دے سکتی، پر ہماری غفلت ہمیں پیس ڈالے گی۔ ہم کو فوجیں پامال نہیں کر سکتیں، لیکن ہمارے دل کی کم زوری ہمیں روند ڈالے گی۔ ہمارے دشمن اجسام نہیں ہیں، عقائد اور اعمال ہیں۔ اگر ہمارے اندر ڈر پیدا ہو گیا، شک و شبہ نے جگہ پا لی، ایمان کی مضبوطی اور حق کا یقین ڈگمگا گیا، ہم قربانی سے جی چرانے لگے، ہم نے اپنی روح فریبِ نفس کے حوالہ کر دی، ہمارے صبر اور برداشت میں فتور آ گیا، ہم انتظار سے تھک گئے، طلب گاری سے اکتا گئے، ہم میں نظم نہ رہا، ہم اپنی تحریک کے تمام دلوں اور قدموں کو ایک راہ پر نہ چلا سکے۔

ہم سخت سے سخت مشکلوں اور مصیبتوں میں بھی امن اور انتظام قائم نہ رکھ سکے، ہمارے باہمی ایکے اور یگانگت کے رشتے میں کوئی ایک گرہ بھی پڑ گئی، غرض کہ اگر دل کے یقین اور قدم کے عمل میں ہم پکے اور پورے نہ نکلے، تو پھر ہماری شکست، ہماری نامرادی، ہماری پامالی، ہمارے پس جانے اور ہمارے نابود ہو جانے کے لیے نہ تو گورنمنٹ کی طاقت کی ضرورت ہے، نہ اس کے جبر و تشدد کی۔ ہم خود ہی اپنا گلا کاٹ لیں گے اور پھر صرف ہماری نامرادی کی کہانی دنیا کی عبرت کے لیے باقی رہ جائے گی!

ہماری طاقت بیرونی سامانوں کی نہیں ہے کہ انہیں کھو کر دوبارہ پا لیں گے۔ ہماری ہستی صرف دل اور روح کی سچائیوں اور پاکیوں پر قائم ہے اور وہ ہمیں دنیا کے بازاروں میں نہیں مل سکتیں۔ اگر خزانہ ختم ہو جائے، تو بٹور لیا جا سکتا ہے۔ اگر فوجیں کٹ جائیں تو دوبارہ بنا لی جا سکتی ہیں۔ اگر ہتھیار چھن جائیں تو کارخانوں میں ڈھال لیے جا سکتے ہیں، لیکن اگر ہمارے دل کا ایمان جاتا رہا تو وہ کہاں ملے گا؟ اگر قربانی و حق پرستی کا پاک جذبہ مٹ گیا، تو وہ کس سے مانگا جائے گا؟ اگر ہم نے خدا کا عشق اور ملک و ملت کی شیفتگی کھو دی تو وہ کس کارخانہ میں ڈھالی جائے گی؟

۔۔۔

کم سمجھنا
مولانا وحید الدین خان



زندگی نام ہے ناخوش گواریوں کو خوش گواریوں کے ساتھ قبول کرنے کا۔ تھیوڈور روز ویلٹ Theodore Roosevelt نے اسی بات کو ان الفاظ میں کہا کہ زندگی کا سامنا کرنے کا سب سے زیادہ ناقص طریقہ یہ ہے کہ حقارت کے ساتھ اس کا سامنا کیا جائے۔ اصل یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی شخص اکیلا نہیں، بلکہ اس کے ساتھ دوسرے بہت سے لوگ بھی یہاں زندگی کا موقع پائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے منصوبے کے تحت ہر ایک کو اس کا سامان حیات دے رہا ہے۔ کسی کو ایک چیز، کسی کو دوسری چیز اور کسی کو تیسری چیز۔ ایسی حالت میں آدمی اگر دوسروں کو حقیر یا کم سمجھ لے تو وہ حقیقت پسندانہ نظر سے محروم ہو جائے گا۔ وہ نہ اپنے بارے میں صحیح رائے قائم کر سکے گا اور نہ دوسروں کے بارے میں۔

تاریخ انسانی میں جو سب سے بڑا جرم کیا گیا ہے، وہ عدم اعتراف ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں خدا کے نیک بندے حق کا پیغام لے کر اٹھے، انہوں نے لوگوں کو سچائی کی طرف بلایا، مگر ہمیشہ ایسا ہوا کہ ان کے مخالفین کی اکثریت نے ان کو نظرانداز کر دیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ان سچے انسانوں کو حقیر سمجھ لیا، صرف اس لیے کہ ان کے آس پاس انہیں دنیا کی رونقیں نظر نہ آئیں وہ ان کو تخت عظمت پر بیٹھے ہوئے دکھائی نہیں دیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک چھوٹے آدمی کے سامنے کیوں اپنے کو جھکائیں۔

یہی معاملہ قومی رویے کا بھی ہے اگر ہم ایک قوم کو حقیر سمجھ لیں تو اس کے بارے میں ہمارا پورا رویہ غلط ہو کر رہ جائے گا۔ ہم اس قوم کی اچھائیوں کو بھی برائی کے روپ میں دیکھنے لگیں گے۔ ہم اس قوم کی طاقت کا غلط اندازہ کریں گے اور اس سے ایسے مواقع پر غیرضروری طور پر لڑ جائیں گے جہاں بہترین عقل مندی یہ تھی کہ اس سے اعراض کیا جائے۔ دوسروں کو کم سمجھنا بااعتبارنتیجہ خود اپنے آپ کو کم سمجھنا ہے۔ دوسروں کو حقیر سمجھنے کا آخری انجام صرف یہ ہے کہ آدمی دوسروں کی نظر میں حقیر ہوکر رہ جائے۔ (تصنیف 'کتاب زندگی' سے چُنا گیا)

۔۔۔

لاحاصل محبت
مرسلہ: اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ

کچھ تعلقات کی نوعیت بقول ساحر لدھیانوی 'وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن' کے مصداق اس مقام پر پہنچ جاتی ہے جہاں دونوں فریقین ایک دوسرے سے محبت کے خواہاں ہوتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے دونوں کوایک دوسرے کے خلوص پر اعتماد نہیں ہوتا، صورت حال کچھ یوں بن جاتی ہے، نہ میں تم سے امید رکھوں دل نوازی کی نہ تم ہمیں دیکھوں غلط اندازوں سے. بھلے پھر وہ کبھی لوٹ آئے اور لاکھ یقین دلائے۔۔۔ لیکن افسوس۔۔۔! چاہے جانے کا احساس ہونے کے باوجود بھی، نا چاہتے ہوئے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اب میں تمہارے لفظوں پر اعتبار نہیں کرسکتا۔ اسے پتا ہے کیا کہتے ہیں؟ لاحاصل محبت !
Load Next Story