اسکول کی فیس اور سرزد بچے

اس وقت عدلیہ و انتظامیہ کی ساری توجہ اور بحث کا محور پرائیویٹ اسکول کی ہوش ربا فیسیں اور متوسط طبقے کے بچے ہیں۔

سپریم کورٹ نے نجی اسکولوں کی فیس میں بیس فیصد کمی کرنے، موسمِ گرما کی تعطیلات میں وصول کی جانے والی فیس نصف واپس کرنے یا پھر ماہانہ فیسوں میں ایڈجسٹ کرنے ، فیسوں میں سالانہ اوسطاً پانچ فیصد یا ریگولیٹری اتھارٹی کی آمادگی کی صورت میں زیادہ سے زیادہ آٹھ فیصد سالانہ اضافے کے احکامات جاری کیے ہیں۔نیز لگ بھگ اکیس معروف اسکولوں کے مالی معاملات کا فورنزک آڈٹ ایف آئی اے اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ذمے لگایا ہے۔

اس فیصلے سے شائد متوسط اور اعلی متوسط طبقے کے والدین کی وقتی تشفی تو ہو جائے لیکن دیگر شعبوں کی طرح نجی تعلیمی صنعت میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے پاس اپنا خسارہ پورا کرنے کے بیسیوں راستے موجود ہیں۔

سب سے آسان راستہ اسکولی عملے بالخصوص اساتذہ کی تنخواہوں میں تخفیف کا ہے۔اساتذہ کی اسی فیصد تعداد خواتین پر مشتمل ہے اور بیشتر اساتذہ ضرورت مند ہیں۔ نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کی ایسوسی ایشن ضرور ہے مگر سرکاری اساتذہ کے برعکس نجی اساتذہ کی کوئی تنظیم یا ٹریڈ یونین نہیں۔نہ ہی انھیں سرکاری اساتذہ کے برعکس نوکری کا تحفظ حاصل ہے۔لہٰذا عدالتی حکم کے بموجب نجی اسکولوں کے منافعے میں جو خسارہ ہو گا اس کی کم ازکم نصف بھرپائی سب سے کمزور طبقے یعنی اسکولی عملے سے کی جائے گی اور باقی نقصان تعلیمی سہولیات بشمول کورس میٹریل کے نرخ پر اضافی نظرثانی سے پورا ہوگا۔

نجی تعلیمی شعبہ اس تاثر کی بنیاد پر فروغ پا رہا ہے کہ بھاری فیسوں کے بدلے معیاری تعلیم دی جاتی ہے اور یہ ''کارِ خیر '' نجی شعبہ اپنے بل بوتے پر کسی سرکاری سبسڈی کے بغیر انجام دے رہا ہے۔یہ تاثر بالائی سطح کے کچھ اسکول سسٹمز کی حد تک تو درست ہے مگر نجی شعبے میں بھی اے بی سی ڈی کیٹگری کے اسکول اور اسی معیار کی تعلیم بھی پائی جاتی ہے۔صرف کیمبرج سسٹم یا انگلش میڈیم اسکول کا بورڈ لگا دینے سے معیارِ تعلیم بلند نہیں ہوتا۔

مگر مشکل یہ ہے کہ تعلیم اٹھارویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں صوبائی ذمے داری بن گئی ہے۔ نجی تعلیمی شعبے کو باقاعدہ بنانے اور اس کے معیار پر نظر رکھنے کے لیے ہر صوبے کے ڈائریکٹوریٹ آف پرائیویٹ اسکولز کے اپنے اپنے معیارات ہیں۔ان معیارات کی تفصیل ، نوعیت اور عمل درآمد کی کیا صورتِ ہے ؟ اس کا علم یا تو عمل درآمد کروانے کے ذمے دار اہلکاروں کو ہے یا پھر نجی اسکولوں کی انتظامیہ کو۔صارفین یعنی بچوں کے والدین اس دائرے سے بالکل باہر ہیں۔صارف کے فرائض تو واضح ہیں مگر حقوق اتنے ہی غیر واضح۔

طاقتور نجی تعلیمی شعبے کو ریگولیٹ کرنے والی اتھارٹی اپنے اختیارات کا عملاً اتنا ہی استعمال کرتی ہے جتنا کہ فیکٹریوں کی انپسکشن کے ذمے دار لیبر انسپکٹر یا فارماسوٹیکل سیکٹر پر نگاہ رکھنے والے ڈرگ انسپکٹر یا ہوٹلوں اور ریستورانوں کے صحت و صفائی اور کھانے کے معیار کو جانچنے والے فوڈ انسپکٹر۔

اگر مذکورہ ریگولیٹری اتھارٹیز اتنی ہی فعال ، فرض شناس اور ضابطوں کی موثر نفاذ کار ہوتیں تو آج ہمارے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں ، فیکٹریوں ، فارماسوٹیکل سیکٹر اور ریستورانوں کی حالت ویسی نہ ہوتی کہ ہر ہر موڑ پر عدلیہ کو مداخلت کرنا پڑتی۔

آئین پڑھیں تو میٹرک تک معیاری اور مفت تعلیم تک رسائی ہر پاکستانی بچے کا بنیادی حق ہے۔عملاً صورت یہ ہے کہ ریاست نے اس بابت اپنی بنیادی ذمے داریوں سے مرحلہ وار کم از کم چار عشرے پہلے ہاتھ اٹھا لیا۔جب تک ارضِ خداداد میں نجی شعبے کے نام پر صرف مشنری یا کمیونٹی اسکول تھے اور اشرافیہ کے اکثر بچے سرکاری اسکولوں، کالجوںاوریونیورسٹیوں میں پڑھتے تھے اور ان تمام اسکولوں کے درمیان تعلیمی معیار و نتائج کی مسابقت کے بل پر اچھی یا بری شہرت کا مقابلہ تھا تب تک سرکاری تعلیمی شعبے کا معیار کسی سے کم نہ تھا۔


تو آنکھوں دیکھی ہے کہ جس بچے کو مشنری یا سرکاری اسکول میں داخلہ نہیں ملتا تھا اسے ناچار کسی غیر مشنری و غیر سرکاری اسکول میں داخل کروانا پڑتا تھا۔جو بچے مشنری و سرکاری اداروں میں زیرِ تعلیم ہونے کے باوجود ٹیوشن پڑھتے تھے انھیں غبی سمجھا جاتا تھا اور ان کے اساتذہ کی پیشہ ورانہ اہلیت کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

پھر ایک دن کرنا خدا کا یوں ہوا کہ مشنری اسکول قومی تحویل میں لے لیے گئے اور سرکاری اسکول سیاسی سفارشی چراگاہوں میں بدلتے چلے گئے۔نااہلیت کے اس خلا میں وہ نجی شعبہ پروان چڑھا کہ جس نے اشرافیہ ، اعلی متوسط و تنخواہ دار متوسط طبقے کے بچوں کو اعلی و معیاری تعلیم دینے کا وعدہ کیا۔

رفتہ رفتہ نجی شعبہ ترقی اور سرکاری اسکول تنزلی کا استعارہ بنتاگیا۔یہ سرکاری و نجی شعبے میں صحت مند مسابقت کی فضا یا پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا معاملہ نہیں تھا۔سنہرے مستقبل کی نجی چابی اور تعلیم کے نام پر سرکاری پیلے اسکول کی راندہِ درگاہی میں مقابلہ تھا۔

جو کہانی نجی اسکول سے شروع ہوئی وہ نجی کالج اور نجی یونیورسٹی تک جا پہنچی۔ایک ہی علاقے میں فرسٹ ورلڈ اور تھرڈ ورلڈ کے نمونے ابھرنے لگے۔پیسے نے میرٹ کو بھی خرید لیا۔یوں ہیلتھ سیکٹر ہو کہ ایجوکیشنل سیکٹر دونوں نے ایک صحت مند پاکستان کے بجائے دو پاکستان تخلیق کر دیے ایک اکیسویں صدی کا اشرافی پاکستان اور دوسرا انیسویں صدی کا عوامی پاکستان۔

اس وقت عدلیہ و انتظامیہ کی ساری توجہ اور بحث کا محور پرائیویٹ اسکول کی ہوش ربا فیسیں اور متوسط طبقے کے بچے ہیں۔سرکاری اسکولوں اور مدارس میں آج بھی پاکستان کے ستر فیصد بچے زیرِ تعلیم ہیں۔مگر وہ فیس اور معیار کی گیم سے بالکل باہر ہیں۔ان سے بالکل الگ ساٹھ لاکھ وہ بچے بھی ہیں جن کے مقدر میں سرکاری اسکول تک نہیں۔

ان بچوں کے وجود کی حیثیت پرچھائیں سے زیادہ نہیں۔ہر چند کہ ہیں پر نہیں ہیں۔وہ کسی مکینک کی ورکشاپ ، کسی ریستوران کے کچن ، کسی بھٹے کے پیچھے یا کسی متوسط گھر میں کسی اور کے بچے کی یونیفارم دھونے اور استری کرنے میں مصروف ہیں۔وہ کسی بھی ازخود نوٹس کی حدود سے دور بہت دور ہیں۔وہ کب بڑے ہوتے ہیں ، کیوں بڑے ہوتے ہیں اور کب مر جاتے ہیں۔یہ تو انھیں جننے والے بھی نہیں جانتے۔یہ وہ بچے ہیں جو پیدا نہیں ہوتے بس سرزد ہو جاتے ہیں۔

ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے بھاری فیسوں کے بوجھ سے جوج رہے اعلی و نیم متوسط طبقے کے والدین کو کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور ملے گا۔مگر اس وقت میری توجہ پانچ چھ سال کا یہ بچہ لگاتار بھٹکا رہا ہے جو مجھ سے اجازت لیے بغیر جلدی جلدی میری کار کے ونڈ اسکرین کو اچک اچک کر گیلے برش سے صاف کرنے کی اپنی سی کوشش کر رہا ہے۔اس کی آدھی توجہ میرے اسپاٹ چہرے پر اور آدھی لال سگنل پر ہے جو جانے کب ہرا ہو جائے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
Load Next Story