جھوٹ اور کرپشن کا ساتھ

نیب اور عدلیہ کے ساتھ ساتھ حکومت جتنا اس مسئلے کے خاتمے کے لیے سرگرم ہے، اسے اتنی ہی رکاوٹوں کا سامنا بھی ہے۔


اکرام سہگل December 15, 2018

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ہمارے معاشرے میں معاشی، سماجی اور سیاسی بہتری کی راہ میں سب بڑی رکاوٹ کرپشن ہے، اور یہی ''نیا پاکستان'' کی تعمیروترقی کے لیے بھی سدّ راہ ہے، یہ محض خیال نہیں بلکہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔

ملک کی بہتری کے لیے عمران خان کی حکومت کی کوششوں میں کرپشن سے مقابلے کو مرکزیت حاصل ہے۔ نیب اور عدلیہ کے ساتھ ساتھ حکومت جتنا اس مسئلے کے خاتمے کے لیے سرگرم ہے، اسے اتنی ہی رکاوٹوں کا سامنا بھی ہے۔ بدعنوانوں کو اپنا انجام سامنے نظر آرہا ہے ، اسی لیے انھوں نے تحریک انصاف کی حکومت اور انھیں جوابدہ بنانے والے اداروں کی جانب اپنی توپوں کا رُخ کردیا ہے اور حکومت کو ناکام بنانے کے لیے سرگرمی سے مہم کا آغاز کرچکے ہیں۔

کرپشن کی کئی شکلیں اور بہروپ ہیں لیکن بہر طور جھوٹی گواہی اس کے تسلسل کی ضامن ہے۔ جھوٹی گواہی سے مراد عدالت میں حلف اٹھا کر غلط بیانی اور دروغ گوئی سے کام لینا ہے، پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں یہ ایک جرم ہے۔ تعزیرات پاکستان کے مطابق عدالت میں جعلی، من گھڑت اور جھوٹے شواہد پیش کرنے والے کے لیے دس سال تک قید بامشقت اور جرمانہ کی سزا رکھی گئی ہے۔تاہم عدالت کو گمراہ کرنے اور جھوٹ بولنے کی نیت سے آنے والوں کو روکنے کے لیے اس قانون کا استعمال شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔

اگست 2018میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ، سندھ ہائی کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے عدالتی اصلاحات کے ایک معاملے میں داخل کیے گئے، جواب کے مطابق ''سندھ ہائی کورٹ اور اس کی ماتحت عدالتوں میں گزشتہ تین برسوں میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 193اور 196کے تحت جھوٹی گواہی کے جرم میں ایک بھی سزا نہیں ہوئی۔''

جھوٹی گواہی ہر اعتبار سے اس لیے خطرناک ہے کہ یہ جرم نظام عدل کے اہداف ، ملکی قانون اور مجموعی طور پر عدلیہ کو متاثر کرتی ہے اور عوام کو انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ہے۔ انصاف کی فراہمی ریاست کا بنیادی ترین فرض ہے، کسی بھی حکومت یا حکومتی ادارے کا اعتبار اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک وہ انصاف فراہم نہیں کرتا، بلکہ انصاف کی عدم فراہمی کا تاثر بھی نظام اور ریاست کو کمزور کرتا ہے۔ ہولناک بات یہ ہے کہ یہ تو تسلیم کیا جاتا ہے کہ جھوٹی گواہی ایک معمول بن چکا ہے لیکن اس کی روک تھام کے لیے اقدامات نظر نہیں آتے۔

اس لیے حیرت کی بات نہیںکہ ایک دیانت دار شہری صرف اس لیے عدالتوں میں جانے کا حوصلہ نہیں کرپاتا کہ اسے انصاف ملنے کا یقین ہی نہیں ہوتا۔ اس کے مقابلے میں اوباش اور جرائم پیشہ افراد کو پورا یقین ہوتا ہے کہ اپنی سہولت کے مطابق اس نظام سے وہ کچھ نہ کچھ حاصل کر لینے میں کام یاب ہوجائیں گے۔ اسی لیے دروغ گوئی، دستاویزات میں جعل سازی، شواہد کو مسخ کرنے اور حقیقت چھپانے میں کوئی ہرج محسوس نہیں کیا جاتا اور یہی وجہ ہے کہ سیاستدان بڑے اعتماد سے ''احتساب'' کا سامنا کررہے ہیں۔

مزید یہ ہے کہ جب یہ اقتدار میں ہوتے ہیں تو کوئی ان کے بارے میں سچ بولنے کی جرأت نہیں کرسکتا ۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اگر کوئی حقائق چھپانے، غلط بیانی کرنے اور اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی نیت سے عدالت میں جاتا ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس ادارے میں انصاف کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

اپنے انداز فکر اور لوگوں میں اس حوالے سے تبدیلی لانے کے لیے کیا کیا جائے؟ اس جانب پہلا قدم تو یہ ہے کہ پہلے سے موجود قوانین پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے۔ اس سے آگے بڑھ کر ایسا نظام تشکیل دیا جائے جس میں جعلی دستاویزات یا مسخ شدہ شواہد کی حقیقت سامنے لانے کی صلاحیت نہ ہو۔ لیکن کسی بھی قانون کا نفاذ بھی اسی وقت ممکن ہے جب عوام بھی اس قانون کو منصفانہ تسلیم کرتے ہوں۔ سب سے پہلے لوگوں کے سوچنے کا طریقہ بدلنا ہوگا۔

عدالتوں میں جھوٹی گواہی مسئلے کا محض ایک پہلو ہے۔ پاکستان میں جھوٹ بولنا ایک مشغلہ بن چکا ہے۔ لوگ بلاضرورت عادتاً جھوٹ بولتے ہیں۔ ہم روز اس کا تجربہ کرتے ہیں؛ مثلاً طالب علم تاخیر سے پہنچنے پر جھوٹے عذر کرتے ہیں یا چھٹی لینے کے لیے اپنے کسی قریبی عزیز کی موت کا بہانہ تراش لیتے ہیں۔ ملازمت پیشہ افراد کا بھی حال یہی ہے۔ جب باپ اپنی اولاد سے کہتا ہے کہ فون کرنے والے سے کہہ دو میں سورہا ہوں تو دراصل وہ اپنے بچوں کو جھوٹ بولنا سکھا رہا ہوتا ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتین بچے کے دل و دماغ میں بیٹھ جاتی ہیں۔

مرعوب یا خوف زدہ ہو کر جھوٹ بولنا جاگیردارانہ معاشروں کی ایسی خامی ہے دنیا جس سے جان چھڑا رہی ہے۔ دنیا بھر میں جاگیرداری کو پسپائی کا سامنا ہے جب کہ پاکستان میں نہ صرف یہ قائم ہے بلکہ پرپرُزے پھیلا رہی ہے، ''نودولتیے'' اب ''نو جاگیردار'' بن چکے ہیں۔ ایک بڑے خاندان کا نوجوان تو سبھی کو یاد ہوگا جس نے ماں باپ کے اکلوتے بیٹے کو قتل کر ڈالا اور سفاکانہ قتل کے بدلے میں سزائے موت ہونے کے باوجود جسے معافی دے دی گئی؟ اسلام میں ''خوں بہا'' کا قانون اور اس کے اطلاق کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔ اس کا اطلاق اسی صورت میں ہوتا ہے جب مقتول کے لواحقین دل سے قاتل کو معاف کردیں۔ جس انداز میں پاکستان میں اس قانون کا استعمال کیا جاتا ہے یہ اس کی روح کے خلاف ہے۔

ایک مؤقر انگریزی روزنامے سے بات کرتے ہوئے مقتول کی والدہ عنبرین اورنگزیب نے کہا تھا کہ انھوں نے قاتل کو صرف اس لیے معاف کردیا کہ اس کی گرفتاری اور سزا ہونے کے باوجود انھیں اسے سزا ملنے کا یقین نہیں تھا۔ ''ہم پوری زندگی خوف میں نہیں گزار سکتے۔۔۔۔ ہم نے حالات کے پیش نظر ہی یہ فیصلہ کیا۔''یہ ان کی دھمکیوں کا خوف تھا جو بارسوخ خاندان کی جانب سے انھیں دی جارہی تھیں اور اسی سبب اس خاندان کو خطرات اور خدشات لاحق تھے۔ کیا معاف کرنا انتقام سے بہتر ہونے کے فرمان خداوندی کا مقصود یہ تھا؟ مساوی انصاف کا تصور خیال و عمل کی سطح پر عدلیہ ہی نہیں عوام کے دلوں میں بھی جاں گزیں ہونا چاہیے۔ عادلانہ نظام معاشرت کا قیام اسلام کے بنیادی ترین مقاصد میں شامل ہے، اسلام ایک مسلمان کے کردار میں راست بازی اور سچائی کو مرکزی حیثیت دیتا ہے۔

آئین کی دفعات 62اور 63 کے خاتمے سے متعلق کچھ ماہ پہلے شروع ہونے والے مباحثے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں اسلام کے مقاصد کو سمجھا ہی نہیں گیا۔ جب وزیر اعظم ریاست مدینہ کے احیاء کی بات کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں ہرگز ساتویں صدی کی عرب شہری ریاست کا تصور نہیں ہوتا، جس طرح بعض تبصرہ نگاروںنے اس کی غلط تعبیر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ عمران خان جب ریاست مدینہ کا حوالہ دیتے ہیں تو وہ ان اصولوں کی بات کررہے ہوتے ہیں جن پر اس معاشرے کی بنیادیں استوار کی گئیں، ان کے ذہن میں ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ وہ گاڑیوں پر پابندی عائد کرکے ہمیں اونٹوں پر سوار کروا دیں گے۔کامل انصاف کی فراہمی مثالی اسلامی ریاست کا اہم ترین اصول ہے ۔ ہماری عدالتوں میں انصاف کی فراہمی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک عدالت کے سامنے حلف اٹھا کر جھوٹی گواہی دینے کے رجحان کا مقابلہ نہیں کیا جاتا، اس وقت تک ہم ملک کی آئینی پہچان''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' کے تقاضے بھی پورے کرنے سے قاصر رہیں گے۔

دروغ گوئی اور نا انصافی کے مابین اس گہرے تعلق کو نظام تعلیم اور میڈیا کے ذریعے واضح کرنا چاہیے۔ صرف قوانین سے لوگوں کا انداز فکر تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیں ایک ایسے سماج کی تشکیل کی ضرورت ہے جہاں جھوٹے کا سماجی مقاطعہ کیا جائے، اسے چالاکی کی داد نہ دی جائے۔ یہ تبدیلی لانے میں وقت درکار ہے لیکن نوجوان نسل کی فلاح اسی میں ہے کہ انھیں جھوٹ اور اس کے معاشرے پر پڑنے والے مضر اثرات سے آگاہی فراہم کی جائے۔

سب سے پہلے انتہائی ضروری ہے کہ عمران خان کو اپنے گرد جمع جھوٹ اور فریب دہی کی شہرت رکھنے والوں کو خود سے دور کرنا چاہیے۔ دوسرے اس وقت تک انصاف کے لیے ان کی جدوجہد کا اعتبار نہیں کریں جب تک وہ اپنی صفوں سے ایسے عناصر کو نہیں نکالتے۔ ایسے لوگ ظاہری اور خفیہ طور پر نظام حکومت میں بھی روڑیں اٹکائیں گے۔ اگر عمران خان ان عناصر کی بیخ کنی نہیں کرتے تو ان میں اور پچھلوں میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ بڑے جھوٹوں کو نشان عبرت بنانا ہوگا۔ عمران خان شوق سے ''نیا پاکستان'' پر گفتگو کرتے رہیں لیکن جب تک جھوٹی گواہی اور قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا ''نیا پاکستان'' محض خواب رہے گا، جو عوام کی آنکھوں میں عمران خان نے سجایا تھا، لیکن جھوٹ اور فریب دہی کا قلع قمع کیے بغیر اس کی تعبیر ممکن نہیں۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور سلامتی امور کے ماہر ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں