لوگ سَر کھاتے ہیں۔۔۔۔ وہ بال کھاتی ہیں
’’چندا‘‘ کی عطا کی ہوئی اس چندیا پر خوب مال خرچ کرنے کے باوجود پھر بال نہیں اُگتے۔
بال کی کھال نکالنے والے تو بہت ہوتے ہیں لیکن ایک خاتون بال کھال سمیت کھاتی رہی ہیں۔برطانوی اخبار ''انڈیپنڈینٹ'' کی خبر کے مطابق ان38 سالہ برطانوی خاتون کا آپریشن کرکے ان کے معدے سے 15سینٹی میٹر طوالت کے بالوں کا گچھا نکالا گیا ہے۔
بال ''تناول'' کرنے کی وجہ سے وہ مختلف طبی مسائل کا شکار ہوگئی تھیں اور انھوں نے ڈاکٹر سے رجوع کیا تھا، جس کے بعد انھیں آپریشن کے مرحلے سے گزرنا پڑا۔یہ خاتون، جن کا نام مخفی رکھا گیا ہے، دراصل ایک ایسے نادر عارضے کا شکار ہیں جس کے طبی تاریخ میں اب تک صرف 88 کیس سامنے آئے ہیں۔
اس عارضے میں مبتلا افراد میں اپنیبال توڑنے اور بعض اوقات انھیں کھانے کی خواہش پوری شدت سے جنم لے لیتی ہے۔ ہم نے سر کھانے والے تو بہت دیکھے اور بُھگتے ہیں، لیکن ''بال خوری'' کا پہلی بار سُنا ہے۔
اگرچہ خبر کے مطابق طبی تاریخ میں بال کھانے کے عارضے کے بس اٹھاسی کیسز ہی سامنے آئے ہیں، لیکن ہم اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتے۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اپنے بال کھانے کا عارضہ نادر ہے، لیکن دوسرے کے بال ہڑپ کرلینے کی بیماری تو بہت عام ہے۔
اس بیماری کی شکار اکثر خواتین ہوتی ہیں، جن کا شکار ان کے شوہر بنتے ہیں، کیوں کہ یہ شکار ''شیرنی'' کی کچھار میں ہوتا ہے، اس لیے بڑا زوردار اور پائے دار ہوتا ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شوہر حضرات کے بال کم ہوتے ہوتے غائب ہوجاتے ہیں، اور ایسے غائب ہوتے ہیں کہ بیوی کے معدے سے بھی برآمد نہیں کیے جاسکتے۔ وہ بے چارے پھر عمر بھر گنج کا رنج لیے جیتے ہیں۔
''چندا'' کی عطا کی ہوئی اس چندیا پر خوب مال خرچ کرنے کے باوجود پھر بال نہیں اُگتے۔ کاش طبی ماہرین اور محققین اس عام بال خوری کے عارضے کا کوئی علاج دریافت کرلیں، ورنہ یہ عارضہ بڑھتا گیا تو مرد جاتی کے سر پر بال ملنا محال ہوجائے گا۔
بال ''تناول'' کرنے کی وجہ سے وہ مختلف طبی مسائل کا شکار ہوگئی تھیں اور انھوں نے ڈاکٹر سے رجوع کیا تھا، جس کے بعد انھیں آپریشن کے مرحلے سے گزرنا پڑا۔یہ خاتون، جن کا نام مخفی رکھا گیا ہے، دراصل ایک ایسے نادر عارضے کا شکار ہیں جس کے طبی تاریخ میں اب تک صرف 88 کیس سامنے آئے ہیں۔
اس عارضے میں مبتلا افراد میں اپنیبال توڑنے اور بعض اوقات انھیں کھانے کی خواہش پوری شدت سے جنم لے لیتی ہے۔ ہم نے سر کھانے والے تو بہت دیکھے اور بُھگتے ہیں، لیکن ''بال خوری'' کا پہلی بار سُنا ہے۔
اگرچہ خبر کے مطابق طبی تاریخ میں بال کھانے کے عارضے کے بس اٹھاسی کیسز ہی سامنے آئے ہیں، لیکن ہم اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتے۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اپنے بال کھانے کا عارضہ نادر ہے، لیکن دوسرے کے بال ہڑپ کرلینے کی بیماری تو بہت عام ہے۔
اس بیماری کی شکار اکثر خواتین ہوتی ہیں، جن کا شکار ان کے شوہر بنتے ہیں، کیوں کہ یہ شکار ''شیرنی'' کی کچھار میں ہوتا ہے، اس لیے بڑا زوردار اور پائے دار ہوتا ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شوہر حضرات کے بال کم ہوتے ہوتے غائب ہوجاتے ہیں، اور ایسے غائب ہوتے ہیں کہ بیوی کے معدے سے بھی برآمد نہیں کیے جاسکتے۔ وہ بے چارے پھر عمر بھر گنج کا رنج لیے جیتے ہیں۔
''چندا'' کی عطا کی ہوئی اس چندیا پر خوب مال خرچ کرنے کے باوجود پھر بال نہیں اُگتے۔ کاش طبی ماہرین اور محققین اس عام بال خوری کے عارضے کا کوئی علاج دریافت کرلیں، ورنہ یہ عارضہ بڑھتا گیا تو مرد جاتی کے سر پر بال ملنا محال ہوجائے گا۔