ہر گھر سے مُنا نکلے گا تم کتنے مُنے چھپاؤگی
ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کوئی ملک، دشمنی کی بنا پر سازش کے تحت کسی ریاست کی آبادی کم دکھانے کی کوشش کیوں کرے گا؟
ایران میں ایک گائناکولوجسٹ خاتون کو اس الزام کے تحت گرفتار کرلیا گیا ہے کہ وہ غیرملکی عناصر کے لیے جاسوسی کررہی تھیں اورایرانی آبادی کو 'قصداً کم' کر کے ظاہر کررہی تھیں۔
مہمنت حسینی نامی ان خاتون کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ یونیورسٹی آف میلبورن سے وابستہ ہیں اور اسکول آف پاپولیشن اینڈ گلوبل ہیلتھ کے لیے کام کررہی تھیں۔ اس الزام کے تحت خاندانی منصوبہ بندی کے لیے کام کرنے والے متعدد سماجی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے، جن پر الزام ہے کہ ''ان جاسوسوں نے ایران دشمن عناصر کو آبادی سے متعلق حساس معلومات فراہم کیں اور اعداد وشمار میں ردوبدل کیا تاکہ 'ثقافتی اور سماجی حملہ' ہو سکے۔''
ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کوئی ملک، دشمنی کی بنا پر سازش کے تحت کسی ریاست کی آبادی کم دکھانے کی کوشش کیوں کرے گا؟ اور آبادی سے متعلق حساس معلومات کیا ہوتی ہیں؟ ممکن ہے ان خاتون نے ''بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے'' کے علامہ اقبال کے طنز کو بھانپتے ہوئے مردم شماری گننے کے بہ جائے تول کر کی ہو، جس کے بعد انھوں نے ایران کی آبادی کی بابت اپنی رپورٹ میں لکھا ہوگا ۔۔۔بڑی مشکل سے ''ہوتے ہیں'' چمن میں دیدہ ور پیدا۔'' یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انھوں نے ''مردم شماری'' کی اصطلاح میں ''مردم'' کا غلط مفہوم لیتے ہوئے صرف مَردوں کو شمار کیا ہو اور سوچا ہو خانم شماری بعد میں کرلوں گی۔
اب اتنی سی بات پر انھیں گرفتار کرلینا کہاں کا انصاف ہے۔ حکومت اس الزام کی تردید ان الفاظ میں کر سکتی تھی''خانم مہمنت! یہ ہماری آبادی ہے تمھاری عمر نہیں کہ تم چھپالو۔ ہر گھر سے مُنّا نکلے گا تم کتنے مُنّے چھپاؤ گی۔''
اس سے بھی بات نہ بنتی تو ''دشمن ممالک'' کے تہران میں واقع سفارت خانوں اور سفیروں کی رہائش گاہوں کے دائیں بائیں آگے پیچھے ہر طرف قطاردرقطار زچہ خانے قائم کردیے جاتے، جن پر لاؤڈاسپیکر لگاکر ان کا رخ سفارت خانوں اور سفیروں کے گھروں کی طرف کردیا جاتا، وہ دن رات ''اوں آں اوں آں'' کی آوازیں سُنتے تو انھیں خود یقین آجاتا کہ ایران کی آبادی تو شب وروز بڑھ رہی ہے۔
اگر ایرانی حکام آبادی کم ہونے کے تاثر کو بیرونی سازش سمجھتے ہیں، تو انھیں چاہیے تھا کہ گرفتاریاں کرنے کے بہ جائے پاکستان کے وفاقی ادارہ برائے شماریات کی مدد لیتے اور پاکستان سے مردم شماری کا عملہ منگوا کر من مانی مردم شماری کروالیتے۔
ایرانیوں کو شاید علم نہیں کہ ہمارا مردم شماری سے متعلق افسران اور عملہ اگر مردم بے زاری پر اُتر آئیں تو پوری کی پوری آبادی کھاجاتے ہیں اور ڈکار بھی نہیں لیتے، اور اگر ان پر افرادی قوت بڑھانے کا جُنون سوار ہوجائے تو ایک ہی فرد کو کئی کئی بار گن جائیں، مثال کے طور پر اکیلے ''بابوبھائی'' میں سے وہ اس طرح کئی افراد برآمد کرسکتے ہیں، ۔۔۔بنے میاں کے بیٹے بابو بھائی، شبن خالہ کے صاحب زادے بابو بھائی، شبراتن کے شوہر بابو بھائی، مُنی کے ابا بابو بھائی، چُنو کے پاپا بابو بھائی، پپو کے ڈیڈی بابو بھائی، لُڈن کے ابو بابوبھائی، نتیجہ ایک ہی گھر میں کُل مِلا کے آٹھ بابو بھائی۔
مہمنت حسینی نامی ان خاتون کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ یونیورسٹی آف میلبورن سے وابستہ ہیں اور اسکول آف پاپولیشن اینڈ گلوبل ہیلتھ کے لیے کام کررہی تھیں۔ اس الزام کے تحت خاندانی منصوبہ بندی کے لیے کام کرنے والے متعدد سماجی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے، جن پر الزام ہے کہ ''ان جاسوسوں نے ایران دشمن عناصر کو آبادی سے متعلق حساس معلومات فراہم کیں اور اعداد وشمار میں ردوبدل کیا تاکہ 'ثقافتی اور سماجی حملہ' ہو سکے۔''
ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کوئی ملک، دشمنی کی بنا پر سازش کے تحت کسی ریاست کی آبادی کم دکھانے کی کوشش کیوں کرے گا؟ اور آبادی سے متعلق حساس معلومات کیا ہوتی ہیں؟ ممکن ہے ان خاتون نے ''بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے'' کے علامہ اقبال کے طنز کو بھانپتے ہوئے مردم شماری گننے کے بہ جائے تول کر کی ہو، جس کے بعد انھوں نے ایران کی آبادی کی بابت اپنی رپورٹ میں لکھا ہوگا ۔۔۔بڑی مشکل سے ''ہوتے ہیں'' چمن میں دیدہ ور پیدا۔'' یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انھوں نے ''مردم شماری'' کی اصطلاح میں ''مردم'' کا غلط مفہوم لیتے ہوئے صرف مَردوں کو شمار کیا ہو اور سوچا ہو خانم شماری بعد میں کرلوں گی۔
اب اتنی سی بات پر انھیں گرفتار کرلینا کہاں کا انصاف ہے۔ حکومت اس الزام کی تردید ان الفاظ میں کر سکتی تھی''خانم مہمنت! یہ ہماری آبادی ہے تمھاری عمر نہیں کہ تم چھپالو۔ ہر گھر سے مُنّا نکلے گا تم کتنے مُنّے چھپاؤ گی۔''
اس سے بھی بات نہ بنتی تو ''دشمن ممالک'' کے تہران میں واقع سفارت خانوں اور سفیروں کی رہائش گاہوں کے دائیں بائیں آگے پیچھے ہر طرف قطاردرقطار زچہ خانے قائم کردیے جاتے، جن پر لاؤڈاسپیکر لگاکر ان کا رخ سفارت خانوں اور سفیروں کے گھروں کی طرف کردیا جاتا، وہ دن رات ''اوں آں اوں آں'' کی آوازیں سُنتے تو انھیں خود یقین آجاتا کہ ایران کی آبادی تو شب وروز بڑھ رہی ہے۔
اگر ایرانی حکام آبادی کم ہونے کے تاثر کو بیرونی سازش سمجھتے ہیں، تو انھیں چاہیے تھا کہ گرفتاریاں کرنے کے بہ جائے پاکستان کے وفاقی ادارہ برائے شماریات کی مدد لیتے اور پاکستان سے مردم شماری کا عملہ منگوا کر من مانی مردم شماری کروالیتے۔
ایرانیوں کو شاید علم نہیں کہ ہمارا مردم شماری سے متعلق افسران اور عملہ اگر مردم بے زاری پر اُتر آئیں تو پوری کی پوری آبادی کھاجاتے ہیں اور ڈکار بھی نہیں لیتے، اور اگر ان پر افرادی قوت بڑھانے کا جُنون سوار ہوجائے تو ایک ہی فرد کو کئی کئی بار گن جائیں، مثال کے طور پر اکیلے ''بابوبھائی'' میں سے وہ اس طرح کئی افراد برآمد کرسکتے ہیں، ۔۔۔بنے میاں کے بیٹے بابو بھائی، شبن خالہ کے صاحب زادے بابو بھائی، شبراتن کے شوہر بابو بھائی، مُنی کے ابا بابو بھائی، چُنو کے پاپا بابو بھائی، پپو کے ڈیڈی بابو بھائی، لُڈن کے ابو بابوبھائی، نتیجہ ایک ہی گھر میں کُل مِلا کے آٹھ بابو بھائی۔