’اقبال‘ حرفِ نعت اور تشکیلِ افکار

حوالے اور مثالیں درکار ہوں تو اور بھی بہت کچھ نہایت آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔

حوالے اور مثالیں درکار ہوں تو اور بھی بہت کچھ نہایت آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ فوٹو: فائل

(آخری حصہ)

یہ ٹھیک ہے کہ اقبال نے مغرب کا مطالعہ بہت انہماک سے کیا تھا، اس کے نمائندہ اہلِ دانش و بصیرت کو توجہ سے پڑھا تھا اور ممکن ہے کسی سطح پر کوئی اثر بھی قبول کیا ہو، لیکن اُن کے یہاں یہ معاملہ سیاسی حقائق کی تفہیم اور سماجی و گروہی حالات کے تحلیل و تجزیے کی حد تک تھا۔

اس نے اقبال کے یہاں مغرب کی قبولیت کی راہ قطعاً ہموار نہیں کی تھی۔ مغربی تہذیب اور اس کے سیاسی و سماجی مظاہر و مسائل پر اقبال کی گہری نظر تھی اور وہ دیکھ رہے تھے کہ مغرب کے بلند اور روشن میناروں کی بنیادوں میں وہ تموج خیز لہریں پیدا ہوچکی ہیں جو بالآخر تہذیب کے اخلاقی و روحانی زوال و انہدام کا جواز بنتی ہیں۔

اس کا دوسرا اہم سبب یہ بھی تھا کہ مدینے کی فلاحی ریاست کے انتظام و انصرام نے یہ بات اقبال کے دل میں بٹھا دی تھی کہ کوئی بھی نظامِ سیاست و مملکت کسی ملک و قوم کے لیے اس وقت تک فلاح و بقا کی ضمانت نہیں دے سکتا، جب تک کہ اُس کا ڈھانچا مضبوط اخلاقی و روحانی بنیادوں پر استوار نہ ہو۔ اقبال نے اپنے خیالات و افکار کو قدیم مسلمان صوفیا اور حکما کا تکملہ، بلکہ تفسیر کہا ہے۔ ان سب حقائق کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے سوچنا چاہیے، ایسا کس وجہ سے ہوا؟ اصل میں یہ ہوا سیاست اور اخلاق کے باہمی ناگزیر رشتے کے شعور کی وجہ سے۔ اس رشتے کی نوعیت اور حقیقت کا ادراک اقبال کو سیرتِ رسول، شعائرِ دین اور تاریخِ اسلام سے حاصل ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کا سیاسی شعور مغرب کا نکتہ چیں ہے۔ اس سلسلے میں اقبال کے یہاں کوئی اشتباہ یا ابہام نظر نہیں آتا۔ وہ صاف انداز میں اور پوری قطعیت سے کہتے ہیں:

جلالِ بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

-----

ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی

ہوس کی امیری، ہوس کی وزیری

دوسری طرف اقبال اپنی روایت و تہذیب کا وہ شعور بھی رکھتے ہیں جو انھیں اپنے انسانی (اور بالخصوص بحیثیت مسلمان) مقام و منصب کی ماہیت سے بخوبی آگاہ کرتا ہے۔ چناںچہ وہ اپنے یہاں اختیار و اقتدار کی حقیقت کو ان لفظوں میں بیان کرتے ہیں:

سروری در دینِ ما خدمت گری ست

عدلِ فاروقی و فقرِ حیدری ست

در ہجومِ کار ہائے ملک و دیں

با دلِ خود یک نفس خلوت گزیں

-----

آں مسلماناں کہ میری کردہ اند

در شہنشاہی فقیری کردہ اند

-----

ہستیِ مسلم ز آئین است و بس

باطنِ دینِ نبی این است و بس

ساتھ ہی جب وہ مشرق و مغرب کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

ان کی جمعیّت کا ہے ملک و نسب پر انحصار

قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیّت تری

تو یہ اُس شعور کا اظہار ہے جو اپنی دینی روایت نے اُن کے اندر پیدا کیا ہے۔ ادراک کی یہ سطح انھیں اصل میں اُس فکر و نظر کے تحت حاصل ہوئی ہے جس نے آپؐ کے کردار اور آپؐ ا کے تربیت یافتہ خلفائے راشدینؓ کے حکومتی ادوار کو مطالعے نہیں تجربے کے طور پر دیکھا اور محسوس کیا ہے۔ اسی وجہ سے آپ توجہ سے پڑھیے تو محسوس ہوگا کہ 'خاص ہے ترکیب میں۔۔۔۔۔'' والا مصرع اصل میں درود و سلام کا لہجہ رکھتا ہے۔ یہ نعت ہی کا تو فیض ہے جو اقبال کے یہاں اِس رُخ سے رونما ہوتا ہے اور اُن کے فکر و سخن کی معنویت کا سیاق متعین کرتا ہے۔

یہ بات ذرا طویل ہوگئی، لیکن فکرِاقبال کی اس جہت کو ذرا تفصیل سے دیکھنا اس لیے ضروری تھا کہ وہ بنیادی پہلو جو اُن کے فکرونظر کو ترتیب دیتا ہے، اپنے طول و عرض میں سامنے آجائے۔ اس کے بعد اقبال کے دوسرے افکار و تصورات کو اجمالی طور پر دیکھتے ہوئے ہم اپنے اصل موضوع کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔ چناںچہ اب وہ مرحلہ آگیا ہے۔ یہاں ہم اُن کے چند ایک بڑے تصورات پر طائرانہ نظر ڈال کر اپنے نتائج مرتب کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر عقل و عشق اقبال کے نظامِ خیال کے بہت بنیادی استعارے ہیں۔

اس جہانِ رنگ و بو میں انسانی تگ و تاز کی ساری معنویت کا انحصار اقبال کے نزدیک اس امر پر ہے کہ اُس کے مرکز میں عشق کارفرما ہو۔ مرکز کا یہ اصول بھی اقبال نے کہیں اور سے نہیں طواف میں مرکز کی معنویت سے لیا ہے۔ چناںچہ عشق اقبال کے یہاں ایمان کے درجے میں آجاتا ہے، یعنی یقین اور وابستگی کی ایک غیر مشروط اور کامل حالت۔ اب اگر صورتِ حال اس کے برعکس ہے، یعنی بنیاد عشق پر نہیں ہے تو وہ اقبال کے یہاں اوّل تو سراسر منفی شے ہے اور اگر منفی نہیں تو کم سے کم لایعنی ضرور ہے۔ مثال کے طور پر ذرا یہ اشعار دیکھ لیجیے:

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق

عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

-----

اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی

نہ ہو تو مردِ مسلماں بھی کافر و زندیق

-----

عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفیٰ

عشق خدا کا رسول ، عشق خدا کا کلام

تازہ مرے ضمیر میں معرکۂ کہن ہوا

عشق تمام مصطفیٰ عقل تمام بولہب

اب دیکھیے، عشق خواہ آتشِ نمرود میں کود رہا ہو، مسلمان ہونے کی علامت ہو یا سربسر مصطفی ا ہو، مراد یہ ہے کہ اقبال کے یہاں عشق دراصل خیرِ کامل ہے۔ وجہ یہ کہ اس کی نسبت کلیتاً آپ ا کی ذاتِ گرامی سے ہے۔ ہمارے یہاں بیشتر ناقدین اس نوع کے اشعار کو اقبال کے عشقِ رسول ا سے موسوم کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ''عشق تمام مصطفی۔۔۔'' بجا کہ عشقِ رسول کا اظہار ہے، اور اس سے بھی انکار کفر کے مصداق ہے کہ ایک صاحبِ ایماں کے لیے عشقِ رسول ا دین و دنیا کی سب سے بڑی دولت ہے۔

اس حقیقت کے اعتراف کے ساتھ اگر ایک سوال پر بھی غور کرلیا جائے تو کیا مضائقہ ہے، وہ یہ کہ اقبال کے یہاں فکری تشکیلات کا ماخذ بننے والا یہ عشق کیا وہی یا اُس سے ملتی جلتی کوئی شے ہے، جسے ہم عشق کے عنوان سے اردو شاعری، بلکہ دنیا کی ساری شاعری میں پڑھتے آئے ہیں؟ سوال ذرا بڑا ہے، لیکن جملہ تفصیلات سے حذر کرتے ہوئے ایک اصولی، سادہ اور مختصر جواب سے ہمارا کام چل سکتا ہے۔ لہٰذا جواب یہ ہے کہ قطعاً نہیں۔ یہ عشق فی الاصل ایمانِ کامل کا مجمل اظہار ہے، اور اقبال کے یہاں یہ ایمان پیدا ہوا ہے شعائرِ اسلام کی جامع تفہیم اور تاریخِ انسانی کے اس گہرے ادراک سے کہ آپؐ ا تمام جہانوں، سب زمینوں اور سارے زمانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجے گئے ہیں۔

لہٰذا آپ ا سے پہلے کی ارضی تاریخ آپ ا کے بعد کے زمانی دائرے سے مل کر کونیاتی امر کی تکمیل کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ یہ ایک مسلمان کا ایمان ہے- اور اُس وقت جب بندۂ مومن، مردِ آگاہ کو تکوینِ الٰہیہ کا شعور القا ہوجائے تب اسے یہ ایمان نصیب ہوتا ہے۔ اس لیے ''عشق تمام مصطفی ا ۔۔۔'' یا ''عشق خدا کا رسول۔۔۔'' دراصل مدحِ رسولِ کریمؐ ہے، یعنی نعت کا قرینہ ہے۔ یہ قرینہ اسی بندۂ مومن کو عطا ہوتا ہے جس کے بارے میں اقبال کہتے ہیں:


کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے

مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق

-----

نہ چینی و عربی وہ نہ رومی و شامی

سما سکا نہ دو عالم میں مردِ آفاقی

-----

پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی

ستارے جس کی گردِ راہ ہوں وہ کارواں تو ہے

-----

وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود

ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا

اب سوال یہ ہے کہ وہ انسان جسے اقبال نے بندۂ مومن، مردِ آفاقی، مردِ آگاہ اور مسلمان کہا ہے، اس شعور و ادراک کی منزل کو تو رحمتِ الٰہی کی ودیعت سے حاصل کرلیتا ہے، لیکن اس حقیقتِ حقہ کو وہ خود بھی کسی کسوٹی پر جانتا پرکھتا ہے، یا محض جو اُسے حاصل ہوجائے اُس پر اکتفا کرکے بیٹھ رہتا ہے۔ اس کا جواب ملتا ہے ہمیں کلامِ اقبال میں اُن اشعار سے جو عہدِحاضر کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ 'عہدِ حاضر' اقبال کے یہاں ایک استعارے اور ایک اصطلاح کا درجہ رکھتا ہے۔ چناںچہ یہ وہ تناظر ہے جس میں بندۂ مومن اپنے عہد کے حقائق اور تجربات کے رُو بہ رو اپنے ایمان کی تصدیق اور استحکام کے مرحلے سے گزرتا ہے۔ کس طرح گزرتا ہے اور اس کے بعد کن نتائج تک پہنچتا ہے، دیکھ لیجیے:

طلسمِ عصرِ حاضر راشکستم

ربودم دانہ و دامش گسستم

خدا داند کہ مانندِ براہیم

بنارِ او چہ بے پروا نشستم

-----

تری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود

مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا

وجود کیا ہے ، فقط جوہرِ خودی کی نمود

کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا

-----

تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا

جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی

یہ صنّاعی مگر جھوٹے نَگوں کی ریزہ کاری ہے

-----

عذابِ دانشِ حاضر سے باخبر ہوں میں

کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل ؑ

اقبال کے افکار و تصورات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ حوالے اور مثالیں درکار ہوں تو اور بھی بہت کچھ نہایت آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ بات طول کھینچتی رہے گی۔ یوں بھی اوراقِ گذشتہ میں جو چند نکات پیش کیے گئے اور جو مثالیں درج کی گئیں، وہ ہماری بات کی وضاحت اور مؤقف کی تائیدواستحکام کے لیے کافی ہیں۔ علاوہ ازیں فی الوقت افکارِاقبال کا احاطہ و تجزیہ مقصود بھی نہیں ہے۔ اصل میں وہ جو ایک بات اقبال کی نعت کے حوالے سے کہی گئی تھی، ہمیں تو صرف اُس کی تصدیق کے لیے اقبال کے یہاں سے نعت کے فکری و اسلوبیاتی تناظر میں کچھ نکات اور اشارے حاصل کرنا مقصود تھا۔ وہ کام کیا جاچکا ہے، سو اب ہمیں مزید حوالوں کی ضرورت نہیں ہے۔

چناںچہ ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اقبال کی نعت اپنی فکر اور اسلوب دونوں لحاظ سے اردو نعت کی شعری روایت میں اسی طرح انفرادی حیثیت کی حامل ہے جس طرح اقبال کی شاعری ہماری پوری شعری روایت میں۔ گفتگو کے اس اختتامی مرحلے پر ہمیں یہ بات بھی فیصلہ کن طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ اقبال کی نعت اپنی یگانگت اور انفرادیت کا ایک اور بہت اہم حوالہ یہ رکھتی ہے کہ اقبال نے جس طرح نعت کی موضوعاتی وسعت کو کائناتی سطح تک پھیلایا اور اس کی لے کو سوزِ دروں اور جذبِ باطن سے ہم آہنگ کیا ہے۔

اسی طرح انھوں نے نعت کی صنفی اور ہیئتی قیود کو بھی کراں تا بہ کراں کشادہ کیا ہے کہ اُس میں وجود و شہود، زمین و زماں، شاہد و مشہود اور حضوری و سپردگی کے تصورات سے تجربات تک تہ در تہ عناصر مل کر ایک ایسا کلامیہ تشکیل دیتے ہیں کہ جو کشف و الہام کی سطح کو پہنچا ہوا معجزۂ فن بن جاتا ہے۔ فن کی یہ نمود بھلا کیوں کر ایک روایتی پیرائے میں معرضِ بیاں میں آسکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کے یہاں رواں دواں نظم کے کسی ایک مرحلے پر نعت کا ایک شعر آتا ہے اور نظم کی پوری کیفیت و معنویت کو یکسر بدل کر رکھ دیتا ہے۔ اسی لیے اقبال نے مروّجہ سانچے میں نعتیہ اشعار پیش نہیں کیے ہیں کہ وہ جانتے ہیں، دو ایک شعر یا چند ایک مصرعے نظم کے مکمل سلسلۂ خیال کو حضوری کے تجربے سے ہم کنار کرسکتے ہیں، پورے کلام کو نعت کے اسلوب میں ڈھال سکتے ہیں اور سارے فکری تصورات کو نعت کی تحویل میں دے سکتے ہیں۔ فن کی یہی نمود شعر و فکرِ اقبال کی بلند اقبالی کا جواز ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا شے ہے جو اقبال کے حرفِ سخن میں شامل ہوتی ہے اور اس کی تاثیر کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔ یہ سوال اس مقام پر بہت سادگی سے اور بہت سرسری انداز میں پوچھ لیا گیا ہے، لیکن یہ بہت بنیادی نوعیت کا استفسار ہے۔ صرف اس لیے نہیں کہ اس کلید سے تفہیمِ اقبال کا نیا در کھل سکتا ہے، وہ تو خیر کھل ہی جائے گا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے ذریعے ہند اسلامی ادب و شعر کی وہ جہت بھی آشکارا ہوتی ہے جو بلاتفریقِ رنگ و نسل اور بلاامتیازِ ملک و قوم پوری ملتِ اسلامیہ کے شعور و احساس کو ایک مشترک مرکز سے جوڑ دیتی ہے۔ اقبال کی طرزِسخن میں شامل ہونے والی وہ شے ہے، حجازی لے۔ یہاں حجازی لے سے مراد ہے آنحضورؐ سے نسبت و تعلق کا وہ اظہار جو زمانوں اور زمینوں کے تعینات سے ماورا کرتے ہوئے صرف شاعر کو ہی نہیں، بلکہ اُس کے قاری کو بھی سر بہ سر حضوری کی بے پایاں اور وجد آفریں سرشاری سے ہم کنار کرتا ہے۔ تبھی تو اقبال نے افتخارِ جاں کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا:

عجمی خم ہے تو کیا، مے تو حجازی ہے مری

نغمہ ہندی ہے تو کیا، لے تو حجازی ہے مری

یہی وہ لے ہے جو کلامِ اقبال میں آثار و افکار سے لے کر اسلوبیات و جمالیات تک تخلیقِ فن کے پورے منظرنامے میں برقی رَو کی طرح زندگی کی وہ حرارت جگاتی ہے جو شعور و احساس کی تشکیل و تعبیر اور اظہار و ابلاغ کو معجزۂ فن بنا دیتی ہے۔ یہی لے اس حقیقت کو بھی نمایاں کرتی ہے کہ اقبال کے یہاں حرفِ نعت محض رسمِ محبت و عقیدت کا مظہر نہیں ہے، بلکہ یہ اُس مرکز سے رشتے کا اظہار ہے جسے اقبال نے عشق کہا ہے، جو انسان کے سینے میں دل کی طرح دھڑکتا ہے، اُس کی رگوں میں خون کی گردش اسی عشق کی قوت پر منحصر ہے، اور یہی ستاروں، سیاروں اور کہکشاؤں کی اس محیط و بسیط کائنات میں انسان کے وجود کو بلند رتبہ بناتی ہے۔ اس شعور کا اظہار اقبال کے کلام میں جا بہ جا ہوتا ہے اور اُن کیفیات و علائم کے ساتھ کہ جو اُن کے فن کی سطح اور سخن کی معنویت کے دائرے کو کائنات گیر بنا دیتے ہیں۔ لاریب، یہ صرف اور صرف حرفِ نعت کا فیضان ہے۔

در دلِ مسلم مقامِ مصطفی است

آبروئے ما ز نامِ مصطفی است

-----

سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے

کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں

اقبال کی ساری شاعری اسی حرفِ نعت کی دولتِ پرمایہ سے مالامال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے ہماری ہند اسلامی تہذیب اور اُس کی ادبی و فکری روایت میں جس حجازی لے کو شامل کیا اُس نے اردو کی شعری روایت کے کیف و کم کو اُس تغیر سے آشنا کیا کہ وہ کچھ سے کچھ ہوگیا۔ اسی کیف و کم کا اثر ہے کہ اقبال کی شاعری سر بہ سر ایک ایسے سانچے میں ڈھل گئی کہ جس نے اُن کے حرفِ شعر کو حرفِ نعت کی اُس معراج تک پہنچا دیا کہ جہاں اُن کے بڑے بڑے افکار و تصورات کی تشکیل نعت کے حرفِ باریاب سے ہوئی۔ یہ اسی جوہر کی نمود ہے کہ اقبال کی شاعری تاریخ و تہذیب کے حقائق و تجربات اور مذہب و فلسفہ کے تصورات، اشارات اور کنایات کو اس طرح اپنے اندر سمولیتی ہے کہ وہ مجرد نہیں رہتے، بلکہ فکرِ محسوس کے پیکر میں ڈھل جاتے ہیں۔ یوں وہ بہ یک وقت قلب و نظر دونوں کے لیے بالیدگی اور روشنی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔
Load Next Story