بُک شیلف

جانئے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

جانئے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو: کیریٹیو کامنز

لاہور:
نام...اسلام اورجمہوریت
مصنف... مولانا ابوالکلام آزاد،قیمت...200روپے
ناشر...مکتبہ جمال، تیسری منزل ، حسن مارکیٹ، اردوبازار، لاہور

مولانا ابوالکلام آزادکا اصل نام 'محی الدین احمد' تھا، والدمحترم محمد خیر الدین انھیں فیروزبخت (تاریخی نام) کہہ کر پکارتے تھے۔ مولانا1888ء میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے، والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا۔ سلسلہ نسب شیخ جمال الدین سے ملتا ہے جو اکبر اعظم کے عہد میںہندوستان آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں مولاناآزاد کے والد کو ہندوستان سے ہجرت کرنا پڑی، کئی سال تک عرب میں رہے۔

مولانا کا بچپن مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں گزرا۔ ابتدائی تعلیم گھرپر حاصل کی، پھر جامعہ ازہر(مصر) چلے گئے۔ چودہ سال کی عمر میں علوم مشرقی کا تمام نصاب مکمل کرلیا تھا۔ مولانا کی ذہنی صلاحتیوں کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں ماہنامہ جریدہ 'لسان الصدق' جاری کیا جس کی مولانا الطاف حسین حالی نے بھی بہت تعریف کی۔26برس کی عمر یعنی 1914ء میں 'الہلال' نکالا۔ یہ اپنی طرز کا منفرد جریدہ تھا۔ ترقی پسند سیاسی تخیلات اور عقل پر پوری اترنے والی مذہبی ہدایت کا گہوارہ اور بلند پایہ سنجیدہ ادب کا نمونہ ۔ مولانا ابوالکلام آزاد بیک وقت عمدہ انشا پرداز، جادو بیان خطیب، بے مثال صحافی اور ایک بہترین مفسر تھے۔

زیرنظرکتاب میں مولانا نے ثابت کیا ہے کہ رسول اکرم ﷺ اور آپ کے جانشینوں کی حکومت مکمل جمہوری تھی، صرف قوم کی رائے، نیابت اور انتخاب سے اس کی بناوٹ ہوتی تھی، اسلام نے بادشاہ کے اقتدار اور شخصیت سے انکارکیاہے، مولانا لکھتے ہیں:

'' اگرآج خالص اسلامی حکومت قائم ہوجائے مگر اس کا نظام بھی شخصی ہو یا چند حاکموں کی بیوروکریسی ہوتو بہ حیثیت مسلمان ہونے کے اس وقت بھی میرا فرض یہی ہوگا کہ اس کو ظالم کہوں اور تبدیلی کا مطالبہ کروں۔ اسلام کے علمائے حق نے ہمیشہ جابربادشاہوں کے خلاف ایسا ہی اعلان ومطالبہ کیاہے''۔

مولانا ابوالکلام آزاد نے اسلام اور جمہوریت کے عنوان سے ایک بڑی بحث کو اس کتاب میں پوری جامعیت سے سمیٹا ہے۔ انھوں نے اسلامی حکومت کے پس منظر کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اصلاحات ایسی حکومت کا سنگ اولین ہوتی ہیں، پھر اسلامی حکومت کے زیرسایہ مساوات کی بے نظیرمثالوں کو جمع کیا، ساتھ ہی یورپی جمہوریت کی بھول بھلیوں کو واضح کیا۔ خلافت و جمہوریت میں انتخاب کے عمل کو بیان کیا، اسی طرح ایسی حکومت کی ذمہ داریوں اور اس کے اثرات کو پوری تفصیل سے بیان کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد کی یہ کتاب قاری کے بہت سے شکوک وشبہات دور کرتی ہے اور اسے ایک راہ عمل پر راسخ کردیتی ہے۔

٭٭٭

نام...لب گویا
مصنف... عمرعبدالرحمن جنجوعہ،قیمت...350روپے

نوجوان مصنف کی یہ دوسری کتاب ہے،پہلی 'زمین' کے نام سے شائع ہوئی جس میں اسلام آباد اور راولپنڈی میں رئیل سٹیٹ کا کاروبار کرنے والے بڑے کاروباریوں کے انٹرویوز تھے جبکہ 'لب گویا'مصنف کے کالموں ، فیچرزاور مضامین کا مجموعہ ہے جو مختلف اخبارات وجرائد میں شائع ہوئے۔

زیادہ تر روزنامہ 'ایکسپریس' ہی میں شائع ہوئے ہیں۔ کتاب کے ٹائٹل پر غیرمعمولی ذہانت رکھنے والی پاکستانی بیٹی ارفع کریم رندھاوا، نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی،معروف شاعر انوارفطرت، کشمیری مجاہد برہان وانی شہید، جماعۃ الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید، امریکی جیل میں قید پاکستانی بیٹی ڈاکٹرعافیہ صدیقی، جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق، مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نوازشریف، وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان، پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ جناب آصف علی زرداری ، مرحوم ادیب منشایاد اور معروف شاعر افتخار عارف کی تصاویر ہی اس کتاب کے موضوعات میں تنوع کی خبردیتی ہیں۔

ان کے بیشتر کالم نوجوانوں کے بارے میں ان کی دردمندی کے مظہر ہیں، انھیں رواداری کا سبق دیتے ہیں، ان کے اندر شوقِ مطالعہ کو ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں، بعض کالم ایسے افراد اور اداروں سے متعلق بھی ہیں جو اس معاشرے میں فلاح وبہبودعامہ کی غرض سے شبانہ روزکام کررہے ہیں۔ اس ملک کے روشن ستاروں کے انٹرویوز بھی شامل ِ کتاب ہیں، مثلامقتدرہ قومی زبان کے صدرنشین افتخار عارف، معروف سابقہ ماڈل و اداکارہ سارہ چودھری،20لاکھ بچوں میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے ریکارڈ ہولڈر ننھے پاکستانی رائے حارث منظور، نامور بزرگ آرکیٹیکٹ سعید احمد میاں، فوک موسیقی کا مشہور نام نعیم ہزاروی، نامور مصور شفقت محمود ۔

اس تناظر میں دیکھاجائے تو کتاب ازحد دلچسپ ہے۔ خوبصورت ٹائٹل اور مضبوط جلد کی حامل یہ کتاب آپ کی لائبریری میں ایک اچھا اضافہ ثابت ہوگی۔ کتاب حاصل کرنے کے لئے مصنف کے فون نمبر03345020195پر رابطہ کیاجاسکتاہے۔



٭٭٭

نام...سنگاپور سے جاپان

مصنف:ڈاکٹرآصف محمود جاہ(ستارہ امتیاز) قیمت:600روپے، ناشر...علم وعرفان پبلشرز،40الحمد مارکیٹ، لاہور

زیرنظرکتاب دیار غیر میں گزرے چند ایام کی سرگزشت ہے۔ پاکستان میں سول سروس کی آخری سیڑھی چڑھنے کے لئے چارماہ کا لازمی تربیتی کورس NMC کرنا پڑتا ہے۔ اس دوران کورس کے شرکا کو بیرون ممالک کا دورہ بھی کروایا جاتاہے۔ ڈاکٹرآصف محمود جاہ کلکٹرکسٹمز ہیں، وہ107ویںنیشنل مینجمنٹ کورس میں شریک تھے، انھیں اور ان کے دیگرساتھیوں کو سنگاپور اور جاپان جانے کا دورہ کرایاگیا۔ واپسی پر حسب روایت انھوں نے اپنے پورے سفر کا احوال لکھا۔ اگر آپ زیرنظرکتاب کا مطالعہ کریں تو اس میں سنگاپور اور جاپان کے کلچر، تہذیب اور معاشرت کی جھلکیاں بھی ملیں گی، اس کے ساتھ دونوں ملکوں کے محنتی ، مہذب، مہمان نواز اور اوصاف حمیدہ کے حامل لوگوں سے تعارف کے ساتھ سنگاپور اور جاپان کی جگمگاتی گلیوں اور روشن شاہراؤں سے بھی آشنائی ہوگی۔

جاپانیوں کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:

''کام،کام اور بس کام جاپانیوں کی گھٹی میں پڑا ہواہے۔ صبح سے شام تک کام میں جتے رہتے ہیں۔ دیرتک کام کرنے کی انھیں کوئی پروا نہیں ہوتی۔ دنیا بھر میں سروے ہوا کہ جاپانی ورکرز/آفیسرز چھٹیاں بہت کم کرتے ہیں بلکہ جو سالانہ چھٹیاں ملتی ہیں ان میں بھی کوئی نہ کوئی کام لے لیتے ہیں۔ پچھلے دو تین سالوں میں جاب کے دوران سٹریس اور ذہنی دباؤ کی وجہ سے کئی لوگوں نے خودکشیاں بھی کیں۔ سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں باس کو خوش کرنے کے لئے ملازمین دفتروں میں رات گئے تک بیٹھے رہتے ہیں اور بعض تو دفاتر میں ہی سوجاتے ہیں اور صبح اٹھ کر دوبارہ وہی روٹین شروع کردیتے ہیں''۔

ڈاکٹرصاحب کا سفرنامہ خاصے کی چیز ہے، نہایت معلومات افزا۔ آپ بھی اس کا مطالعہ ضرور کیجئے گا تاکہ آپ دو دنیاؤں کی سیر کرسکیں۔

٭٭٭

نام...کامیابی کیسے؟
مصنف: برین ایڈمز ، قیمت:900روپے،ناشر...بک ہوم، بک سٹریٹ،46مزنگ روڈ لاہور


کامیابی کے حصول پر لکھی جانے والی یہ کتاب برین ایڈمز کی ایک نایاب تخلیق ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے بڑی مہارت سے ان سنہری اصولوں کو بیان کیا ہے جن کے مدد سے ناکامی کو کامیابی میں تبدیل کیاجاسکتاہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگوں کو اپنی قسمت سے شکایت رہتی ہے۔ اکثر لوگ اپنی زندگی میں موجود پریشانیوں اور ناکامیوں کے باعث مایوسی کا شکار رہتے ہیں اور بعض افراد مایوسی کے باعث خودکشی جیسے گناہ کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں لوگوں کی کثیرتعداد اپنے کاموں کو مستعد اندازمیں تو کرتی ہے لیکن ان کی کوششوں کا انجام ناکامی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ بہت سے لوگ محنتی اور ذہین ہونے کے باوجود اپنے مقصد میں ناکام ہوجاتے ہیں ، انھیں اپنے کاموں میں رکاوٹ پیش آتی ہے لیکن یہ لوگ اپنی ناکامیوں کی اصل وجوہات سے بے خبر ہوتے ہیں۔

زیرنظرکتاب میں مصنف نے بتایاہے کہ انسان کی پیدائش کا مقصد کامیابی کا حصول ہے، اگلے ابواب میں بتایا ہے کہ عظیم ذہنی صلاحیتیں کیسے کام کرتی ہیں؟ کامیابی کو پانے کے لئے اپنی سوچ کو کیسے منظم کیاجائے؟ زندگی میں آنے والی کامیابی سے ناکامی تک کسی بھی صورت حال میں تبدیلی کے لئے ایک عظیم اصول کوکیسے اپنایاجائے؟ عمر کے کسی بھی حصے میں کامیابی کو کیسے حاصل کیاجائے؟ قانون فطرت کو اپنی زندگی میں کیسے اختیارکیاجائے جس کی مدد سے انسان کی زندگی ایک نیاموڑلیتی ہے، انسان کی شخصی قوت میں اضافے کی خاطر حوصلہ افزائی کرنے والے پانچ انفرادی راستوں کا انتخاب کیسے کیاجائے؟کامیابی کی بلندیوں پر پہنچنے والے پانچ اہم افراد کا انتخاب کیسے کیاجائے ؟ کس طرح بہترین منصوبہ بندی کامیابی کی سنہری فصل کو کاٹنے میں معاون ثابت ہوتی ہے؟ کس طرح صحیح فیصلوں کی بدولت مسائل پر قابوپایاجاتاہے؟ کیسے ذہنی صلاحیتوں کو موثربنایاجاسکتاہے؟ کیسے جسمانی صلاحیتوں کو بہتر بنایا جاسکتاہے؟ دعاؤں کی مدد سے سکون اور اطمینان کیسے حاصل کیاجاسکتاہے اور کامیابی کے فلسفے پر کیسے عمل درآمد کیاجائے؟

بک ہوم نے 'سیلف ہیلپ کلاسیک' کے نام سے ایک شاندار سیریرز کا اہتمام کیاہے جس میں دنیا کی بہترین فروخت ہونے والی کتب کے تراجم شائع کیے گئے ہیں۔ یقیناً یہ کتابیں لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کا بہترین ذریعہ ثابت ہوتی ہیں۔

٭٭٭

نام... پاکستان کی لوک داستانیں
مولف: پروفیسر حمیداللہ شاہ ہاشمی،قیمت:600روپے
ناشر... بک کارنر، جہلم

کسی خطے کی لوک کہانیاں اور داستانیں وہاں بسنے والے لوگوں کی ثقافت و کردار کی آئینہ دار ہوتی ہیں جو عوام کے حقیقی جذبات واحساسات کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ کہانیاں بڑی جاندار ہوتی ہیں اور اس خطہ کی روحانی ، معاشرتی اور رومانی زندگی کی ان گنت روایات کو اپنے پہلوؤں میں سمیٹے ہوئے ہیں۔ عوامی زندگی کا حاصل اور ثقافتی ورثہ یہی کہانیاں ہیں۔ ان قصوں سے زمانہ سلف کے رسم ورواج، تہذیب و تمدن، انسان زندگی کے مختلف زاویے اور نظریات کے ان گنت پہلو بے نقاب ہوتے ہیں۔

زیرنظرکتاب اس اعتبار سے انفرادیت کی حامل ہے کہ اس میں پاکستان کے چاروں صوبوں میں پروان چڑھنے والی محبت کی داستانیں جمع کردی گئی ہیں۔ اس میں پنجاب کی 'ہیررانجھا' اور سوہنی مہینوال، مرزا صاحباں، پورن بھگت، دلابھٹی اور سمی کی کہانیاں بھی شامل ہیں اور خیبرپختونخوا کے موسیٰ خان گل مکئی کی، آدم درخانئی، محبوبہ جلاوت، یوسف کڑہ مار۔ شہہ توردلئی، زرسانگہ، میمونہ اور شیرعالم کی داستانیں بھی ہیں، سندھ کی سسی پنوں، میندھرا مومل، عمرماروی، لیلاں چینسر، نوری جام تماچی، مورڑومیربحر، بھٹائی گھوٹ کے قصے بھی ہیں اور بلوچستان کے حانی شہ مرید، شیریں اور دوستیں، شہداد اور ماہناز، سمو اور مست توکلی، بیگم رئیس دربیش، عزت مہرک اور للہ گراناز کے رومان کے تذکرے بھی ہیں۔

اگران سب کہانیوں کو پوری تفصیل سے بیان کیاجائے تو کئی جلدیں درکارہوں گی لیکن پروفیسر حمیداللہ شاہ ہاشمی نے دریا کو کوزے میں بند کردیاہے، نہ صرف انھوں نے داستانیں بیان کی ہیں بلکہ تبصرہ بھی شامل کیا ہے، ظاہر ہے کہ یہ سب کہانیاں مختلف روایات کے ذریعے سامنے آئی ہیں، ان میں کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ اختلاف بھی ہے، پروفیسرصاحب نے انھیں بھی شامل کرکے پوری تصویر پیش کردی ہے۔سچائی، وفاداری، رشتوں کا احترام اور ان سب سے بڑھ کر عشق کے امتحان میں ان کرداروں کی ثابت قدمی اور عشق کی سچائی میں جان قربان کردینے کا جذبہ ایک الگ ہی کیفیت میں لے جاتاہے۔



٭٭٭

نام... سب کچھ ممکن ہے
مصنف: مہدی فخرزادہ،قیمت:500روپے
ناشر...بک کارنر، جہلم

اڑسٹھ (68) برس قبل کی بات ہے، ایک ایرانی نوجوان نے نیویارک میں ایک لائف انشورنس کمپنی کے سیلز کے شعبے میں ملازمت کے لئے درخواست دی، اس کی درخواست مستردکردی گئی کہ ایرانی نوجوان اچھی انگریزی زبان نہیں بول سکتا تھا۔ کمپنی کے ڈسٹرکٹ سیلز مینیجر کی رائے تھی کہ یہ نیویارک سٹی میں بجلی میٹرپڑھنے کا کام تو کرسکتا ہے لیکن لائف انشورنس پالیسی بیچنا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ نوجوان اس سے پہلے الاسکا میں ایک لانڈری میں کام کرچکاتھا، جب طالب علم تھا تو اسی طرح کے مزید کچھ چھوٹے موٹے کام کرتارہا۔کمپنی کی طرف سے انکار کے بعد ایرانی نوجوان نے اصرارکیا کہ آپ مجھے لائف انشورنس کے بارے میں کتابیں دیں، میں ایک ہفتے بعد آؤں گا اور آپ کے تمام سوالات کے جوابات دوں گا کیونکہ سب کچھ ممکن ہے۔کمپنی کے ڈسٹرکٹ سیلز مینیجر نے اسے پانچ کتابیں تھمادیں۔ پھر وہ واپس آیا ، اسے ملازمت ملی، اس نے جلد ہی کمپنی کے تمام سیلزسٹاف سے زیادہ پالیسیاں فروخت کرنے کا اعزاز حاصل کرلیا، پھر اس سے آگے کوئی بھی نہ نکل سکا۔ یہ نوجوان مہدی فخرزادہ تھا، آج جس کے اثاثے لاکھوں نہیں، کروڑوں ڈالرز مالیت کے ہیں۔ اب وہ ایک دنیا کو سکھاتاہے کہ سیل کیسے کرتے ہیں۔

زیرنظرکتاب مہدی فخرزادہ کی انگریزی زبان کی کتاب'Everything is Possible' کا اردوترجمہ ہے، کتاب کے پہلے باب میں بتایاگیا ہے کہ لائف انشورنس سیلنگ کے لئے اپنا ذہن اور زندگی کیسے منظم کرتے ہیں؟ دوسرے باب میں پراسپیکٹ کیسے تلاش کرتے ہیں اور اچھے پراسپیکٹ سے ملتے کیسے ہیں؟ تیسرے باب کا عنوان ہے:'پالیسی خریداروں سے گفت وشنید اورسیل کلوزکرنا، چوتھے باب کا عنوان ہے:'لائف انشورنس سیلنگ لیبارٹری۔

کتاب کے ابتدائی صفحات سے اس ایرانی نوجوان کے بارے میں معلومات ملتی ہیں کہ جب کمپنی نے اسے انکار کیاتو پھر اس نے کیسے اپنے آپ کو تیار کیا۔ یہ بے حوصلہ اور بے ہمت لوگوں کو اٹھا کر کھڑا کردینے والی کتاب ہے۔ آپ بھی پڑھئے گا اور اپنے اردگرد مایوس لوگوں بالخصوص نوجوانوں کو تحفہ دیجئے گا۔

٭٭٭

نام... تذکارِ رفیع (ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: حیات وخدمات)
ترتیب و تہذیب: ظفر حسین ظفر، قیمت:500 روپے
ناشر۔ الفتح پبلی کیشنر392۔ اے ، گلی نمبر5 اے،لین نمبر5، ہاؤ سنگ سکیم نمبر2، راولپنڈی

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی استادالاساتذہ ہیں، درس و تدریس اور تحقیق وتنقید آپ کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ تحقیق کے میدان میں اقبالیات میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، اس شعبہ میں سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ آپ کی تصانیف اقبالیات کے میدان میں تحقیق و تدوین کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد بتاتے ہیں: ''ہا شمی صاحب کے فکرو فن پر کئی جامعات میں ایم اے اور ایم فل کی سطح کے کئی تحقیقی و تنقیدی مقالات لکھے جاچکے ہیں۔ اس کے باوجود ایک ایسی کتاب کی ضرورت تھی جس میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی زندگی کے بہت سے رنگ ، مختلف افراد کے ساتھ ان کے شخصی روابط اور عزیز و اقارب کے ساتھ ان کے مثالی برتاؤ کے متعدد نمونے موجود ہوں۔''

زیرنظر کتا ب میں 41 شخصیات نے ہاشمی صاحب سے اپنے تعلق کوبیان کیا ہے،جن میں پروفیسر خورشید احمد، پروفیسر عبدالحق،ڈاکٹر تحسین فراقی،ڈاکٹر معین الدین عقیل،ڈاکٹرعبدالعزیز ساحر،ڈاکٹر رؤف پاریکھ،ڈاکٹر اشفاق احمد ورک، ڈاکٹر طالب حسین سیال،ڈاکٹر محمد افتخار شفیع، ڈاکٹر زاہد مینر عامر بھی شامل ہیں۔ پروفیسر خورشید احمد لکھتے ہیں:

''برادرم رفیع الدین ہاشمی ایک اچھے انسان،ایک معیاری استاداور ایک مشفق مربی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے دائرہ اختصاص میں ایک معتبر شخصیت بھی ہیں۔ انھوں نے تدریس ہی میں نہیں،تحقیق کے میدان میں بھی بڑی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ اردو زبان و ادب پر ان کی نگاہ بڑی گہری ہے اور اقبالیات پر وہ سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہزاروں طلبہ نے ان سے استفادہ کیا ہے اور درجنوں نے ان کی نگرانی میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالوںکی تیاری میں رہنمائی حاصل کی ہے ، میں نے ان کے شاگردوں میں جو احترام اور احسان مندی ان کے بار ے میں دیکھی ہے، وہ ایک کامیاب اور معیاری استاد ہونے کی دلیل ہے''۔

پڑوسی ملک بھارت کے ڈاکٹر عبدالحق(سابق صدر شعبہ اردو دہلی یونی ورسٹی) لکھتے ہیں''پورے گھر پر کتابوں کا قبضہ ہے،مکان اور مکینوں ،دونوں پر ان کی حکمرانی ہے۔ بستر پر بھی کتابیں بکھری ہیں۔ انھیں تاریک شب میں رازِ گنبد مینا منکشف ہوتے ہیں۔ ان کا گھر اقبال سے متعلق کتابوں اور تحریروں کاایک عجائب گھر ہے۔ برصغیر کے ذاتی ذخیروں کا ایسا انمول خزانہ کسی کے پاس نہیں''۔

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے قدردانوں میں سے صرف دوشخصیات کے خیالات سے چند کلمات میں نے پیش کیے ہیں۔ پوری کتاب ایسے ہی الفاظ و خیالات سے بھرپور ہے۔ یہ کتاب ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ،اردو ادب اور اقبالیات سے لگاؤ رکھنے والوں کے لیے ایک من پسند تحفے سے کم نہیں۔(تبصرہ نگار۔ فیاض احمد ساجد)
Load Next Story