مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے سانحہ اے پی ایس کے غازی احمد نواز کا عزم

’اب میں پاکستان میں تعلیم پھیلانا چاہتا ہوں، پاکستان میں تعلیم کےلیے آواز اٹھانا چاہتا ہوں،‘ احمد نواز


وجیہہ تمثیل مرزا December 16, 2018
احمد نواز کا علاج پاکستان میں کرنا چونکہ مشکل تھا، اس لیے اسے علاج کی غرض سے برطانیہ روانہ کر دیا گیا۔ (فوٹو: برمنگھم پوسٹ)

اس ماہ سانحہ اے پی ایس کو پورے چار سال بیت چکے ہیں لیکن آج بھی لفظ ''سانحہ اے پی ایس'' سننے یا دیکھنے میں آتا ہے تو دل اسی طرح کانپ جاتا ہے اور روح اسی طرح لرز جاتی ہے جب 16 دسمبر 2014 کی کہر آلود صبح کو ہم سب نے ہر نیوز چینل پر گولیوں کی گھن گرج سے لرزتے ہوئے آرمی پبلک اسکول کا نظارہ دیکھا تھا۔ 144 ننھے پھولوں کی آہ و بکا، پاکستان کے روشن ستاروں کے خون سے سجا وہ فرش... کیا منظر پیش کررہا ہوگا؟ یہ وہی لوگ بیان کرسکتے ہیں جن پر یہ سب کچھ بیتی ہے۔ بہت سے بچے شہادت کے اعلی رتبے پر تو پہنچ گئے لیکن جو غازی بنے، میرے خیال سے ان کا حوصلہ اور جرأت ہی تمام شہداء کا حق ادا کرے گی۔

بہت سے غازی ایسے ہیں جنہوں نے اس سانحہ میں اپنے بھائیوں کو اپنے سامنے اس ظلم کا شکار ہوتے دیکھا۔ ان ہی بہادر غازیوں میں احمد نواز بھی شامل ہے جس نے اپنے بھائی حارث نواز کو اپنی آنکھوں کے سامنے ظلم اور بربریت کا نشانہ بنتے دیکھا تھا۔ 16 دسمبر کے سانحے میں احمد نواز اپنے بھائی حارث نواز کے ہمراہ علم کی شمع روشن کرنے گیا تھا لیکن انتہائی درد کے عالم میں احمد نواز نے اپنے بھائی کو گولیوں کا نشانہ بنتے دیکھا اور اس نے جام شہادت نوش کرلیا۔ احمد نواز بھی ان گولیوں کے وار سے دور نہ رہا اور زخمی ہوگیا۔

احمد نواز کا علاج پاکستان میں کرنا چونکہ مشکل تھا، اس لیے اسے علاج کی غرض سے برطانیہ روانہ کر دیا گیا۔ وہی احمد نواز جو برطانیہ علاج کی غرض سے گیا تھا، آج ایک غازی بن کر پاکستان کا نام روشن کرنے کی جدوجہد کررہا ہے۔ "اے پی ایس" کے اس باہمت غازی نے اپنی دن رات کی کاوش سے برطانیہ کے اسکول کنگ ایڈورڈز سے جی ایس سی ای امتحان بڑی کامیابی کے ساتھ پاس کیا۔



واضح رہے کہ احمد نواز نے 23 اگست 2018 کو یہ اعزاز اپنے نام کیا ہے۔ ہونہار طالب علم نے اپنے ٹویٹ میں نتائج کا علاج کرتے ہوئے کہا کہ اُس نے چھ A*s اور دو A's اپنے اٹھارویں جی سی ایس ای امتحان میں حاصل کرلیے ہیں، ''یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے اور یہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلے کےلیے کامیابی کی سیڑھی ہے۔'' اس پر میجر جنرل آصف غفور نے احمد کو ٹویٹ کے ذریعے مبارکباد دی اور لکھا:

"تم ہمارا فخر ہو اور تمام شیطانی طاقتوں کو مار گرانے کی صلاحیت رکھتے ہو۔ اپنے علم اور بہادری کے ذریعے ملک کو انچائی پر پہنچا سکتے ہو۔ اے پی ایس کا ہر غازی فخر پاکستان ہے۔ مستقبل کےلیے نیک خواہشات۔''



سال 2017 میں ایکسپریس ٹریبیون کو انٹرویو دیتے وقت احمد نواز نے بتایا کہ اس کی دنیا بدل گئی ہے اور مقصد زندگی تبدیل ہوگیا ہے، ''پہلے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھیل کود کو ترجیح دیتا تھا لیکن اب میں پاکستان میں تعلیم پھیلانا چاہتا ہوں۔ پاکستان میں تعلیم کےلیے آواز اٹھانا چاہتا ہوں۔''

اس دردناک واقعے کے بعد اب احمد نواز کا صرف ایک ہی عزم ہے کہ ان لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی لائے جو احمد اور اس کے شہید بھائی حارث کی طرح اس دہشت گردی کی تباہ کن آفت کا شکار ہو چکے ہیں۔ وہ ہر طرح کے چیلنج کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور دوبارہ پاکستان میں اپنی تعلیم جاری رکھنے کا خواہش مند ہے۔ ایک مہم کے تحت وہ ہر اُس بچے اور جوان کو جو دہشت گردوں کے ہاتھ چڑھ چکا ہے یا تعلیم ترک کرکے اس وبال کی بھینٹ چڑھنا چاہتا ہے، تعلیم کی راہ پر چلتا دیکھنا چاہتا ہے کیونکہ اے پی ایس حملے کے ہر غازی کا ایک ہی خواب ہے: ''مجھے ماں اُس سے بدلہ لینے جانا ہے، مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے۔''

اس سانحے نے پاکستان کی شکل ہی بدل کر رکھ دی تھی لیکن یہ سانحہ ہر ایک کو یکجا کر گیا۔ جہاں ہر آنکھ اشک بار ہوئی، وہیں ہر بچہ اور ہر بڑا اپنے اندر ایک عزم لیے بیٹھا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کرنا ہے اور علم کی شمع کو جلائے رکھنا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں