بھگوان شیو کے آنسو
ہندوئوں کے عقیدے کے مطابق اس آنسوکی وجہ سے ہی مند رمیں واقع تالاب وجود میں آیا۔
ہندو مذہب میں بھگوان شیوکو خاص اہمیت حاصل ہے، انھیں دیوتائوں کا دیوتا کہا جاتا ہے اور وہ بھولے ناتھ، شنکر، مہیش، نیل کنٹھ اور گنگا دھر کے نام سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ ہندو اساطیرسے جڑی تصاویر اور مورتیوں میں اگرکسی خوب صورت نوجوان کوگلے میں سانپ ڈالے، ہاتھ میں ترشول پکڑے کھڑا پایا جائے جس کے ساتھ ایک ڈمرو لٹک رہا ہو توہندو دھرم سے وابستہ افراد ''جے شیو شنکر'' کہتے ہوئے اس کے سامنے جھک جاتے ہیں، جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ تصویر یا مورتی بھگوان شیوکی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جب پاروتی ستی ہوئیں تو بھگوان شیوکی آنکھ سے دو آنسو ٹپکے جن میں سے ایک پنجاب کے قدیم علاقے کے قریب واقع ضلع چکوال کے اس مقام پرگرا جہاں کٹاس راج مندر واقع ہے۔ ہندوئوں کے عقیدے کے مطابق اس آنسوکی وجہ سے ہی مند رمیں واقع تالاب وجود میں آیا جس میں نہانے کے بعد گناہوں سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ شیو کا دوسرا آنسو اجمیر میں گرا جس سے ''پشکر'' جھیل وجود میں آئی۔ اس جھیل کے کنارے پشکرکے علاوہ کچھ دیگر مندر بھی آباد ہیں۔ راجستھان میں واقع اس علاقے میں ہر سال ایک میلہ منعقد ہوتا ہے جو اونٹوں کی منڈی کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس میلے میں نہ صرف مقامی بلکہ غیر ملکی سیاح بھی بڑی تعداد میںحصہ لیتے ہیںجس کے دوران یہ تجارتی مر کز بن جاتا ہے۔
کٹاس مندر کا ذکرمہا بھارت میں بھی ملتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ مہا بھارت کے مرکزی کردار پانڈو یعنی پانچ بھائی بھی کٹاس مندرکے قریب واقع پہاڑیوں میں آئے تھے جن کی پیاس اور کٹاس مندر کے تالاب سے پانی پینے کا واقعہ بھی ہندو اساطیر کا حصہ ہے۔ بھگوان شیوکی آنکھ سے جب دو آنسوگرے اُس وقت سائوتھ ایشیاء میں نہ تو چھ سات ممالک پائے جاتے تھے اور نہ ہی اس علاقے پر بیرونی طاقتوں کی اجارہ داری تھی، اگر بھگوان شیو کو ذرا برابر احساس ہوتا کہ ان کی آنکھ سے گرنے والے دو آنسوئوں کے درمیان مستقبل میں ایک لکیر کھینچ دی جائے گی جس کی ایک طرف بھارت اور دوسری طرف پاکستان نام کے دو ملک آباد ہو جائیں گے اور ان کے خراب تعلقات کی وجہ سے ہندویاتریوں کے لیے یہ ناممکن ہو گا کہ وہ کٹاس مندر کے تالاب میں نہا کر اپنے گناہوں سے نجات حاصل کر سکیں تو وہ کسی سے رومال مانگ کر اپنے آنسوئوں کو زمین پر گرنے سے پہلے ہی خشک کر لیتے۔
بھگوان شیو عرف بھولے ناتھ کو شاید اس بات کا بھی علم نہیں تھا کہ پشکر جھیل سے چند میل دور واقع اجمیر نامی شہر میں سلطان الہند حضرت خواجہ سیّد محمد معین الدین چشتی تشریف لانے والے ہیں جس کے بعد اجمیر کو اجمیر شریف کے نام سے یاد کیا جائے گا اور ان کے مزار پر پوری دنیا سے آنے والے معتقدین کا تانتا بندھا رہے گا،لیکن دونوں ممالک کے ہمیشہ سے کشیدہ تعلقات کی وجہ سے پاکستانی زائرین کے لیے بھی یہ ممکن نہ ہو سکے گا کہ وہ اجمیر شریف پر حاضری دے سکیں۔
بہت سارے دوستوں کی طرح ہمیں بھی پاکستان کی مختلف سرکردہ شخصیات سے اختلافات ہو سکتے ہیں، مگر جسٹس ثاقب نثار کے اس فیصلے سے اختلاف ممکن نہیں کہ پاکستان میں موجود ہندوئوں ، سکھوں اور دوسرے مذاہب کے مذہبی مقامات کی حفاظت و مرمت کی جائے تاکہ ان کی زیارت کے لیے آنے والے عقیدت مند آزادی کے ساتھ اپنی مذہبی رسومات ادا کر سکیں۔ اس سلسلے میں کٹاس راج مندرکی تزئین و آرائش کے ساتھ بھارت کے مختلف علاقوں سے آنے والے زائرین کی خبریں سامنے آئیں تو دونوں ممالک کے درمیان دوستی کے خواہاں افراد اور ثقافتی و مذہبی ہم آہنگی کے لیے سرگرم تنظیموں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
کرتار پور کی راہداری کھولنے کے بعد پاک بھارت تعلقات میں جو موڑ آیا ہے وہ اُس منزل کے انتہائی قریب دکھائی دینے لگا جو چند برسوں کے بعد نظر تو آتی ہے، مگر دیکھتے ہی دیکھتے دوبارہ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ اس منزل کے مزید قریب پہنچنے کے لیے پاکستان میں موجود کٹاس راج مندر، سادھو بیلہ اور ہنگلاج ماتا کے مندرکی طرح بھارت کو بھی خواجہ نظام الدین اولیاء، معین الدین چشتی اجمیری، قطب الدین بختیار کاکی، شمس الدین ترک پانی پتی اورعلائوالدین علی احمد صابر کلیری جیسے اہم مسلمان صوفیاء کی درگاہوں تک پہنچنے والوں کے راستوں سے پاسپورٹ اور ویزے جیسے کانٹے صاف کرنا ہوں گے۔
دنیا کے مختلف مذاہب سے جڑے افراد میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اپنے مذہب کو مثبت سوچ کے بجائے منفی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت دونوں ایسے ممالک ہیں جہاں کے کچھ مذہبی دھڑوں نے اپنے اپنے مذہب کو منفی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتے ہوئے عوام کے ساتھ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو بھی نا قابل تلافی نقصان پہنچایا، لیکن یہاں ایسے افراد کی بھی کمی نہیںجو اپنی مذہبی اقدار اور تعلیمات کو انسانی بھلائی اور امن و امان کی بہتری کا ذریعہ بنانے کے قائل ہیں۔ ماضی میں اگر سکیولر، لبرل اور اس سے ملتے جلتے کئی روایتی طعنے سننے اور کافی کوشش کے باوجود کچھ لوگ دونوں ممالک کے تعلقات کی بہتری کے لیے کچھ نہ کر سکے تو نہ سہی، اس سلسلے میں اگر اب دونوں اطراف کے مذہبی جتھوں کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ بہتر تعلقات، امن وامان اور تجارت و سیاحت کا آغاز ہوتا ہے تو اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔
ہماری موجودہ حکومت نے کرتار پور کی راہداری کھولنے کا جو فیصلہ کیا اس میں کسی ایک ملک یا قوم کا فائدہ نہیں بلکہ اس عمل سے خطے کے تمام ممالک ایک دوسرے کے نزدیک آسکتے ہیں اور یہیں سے باہمی تعلقات میں بھی بہتری آئے گی۔ اسی راستے پر چلتے ہوئے ہم باہمی تضادات سمیت ان تمام مسائل کو حل کرسکیں گے جو اس خطے کے اربوں انسانوں کے سر پرتلوار کی طرح لٹک رہے ہیں۔
سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے یاتریوں کا ننکانہ صاحب، حسن ابدال یا دوسرے شہروں میں واقع مقدس مذہبی مقامات پر آنا جانا اب اتنا مشکل نہیں رہا جتنا ہندو یاتریوں کے لیے سمجھا جاتا تھا، مگر چیف جسٹس ثاقب نثار نے از خود نوٹس لیتے ہوئے کٹاس راج کی بحالی کے لیے جو قدم اٹھایا اُس سے ان ہندوئو یاتریوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوئی ہے جو کئی برسوں سے اپنے مقدس مذہبی مقامات کی زیارت کرنے کے ساتھ اپنے آبا و اجداد کے چھوڑے ہوئے شہروں اور اُن میں موجود اپنے بزرگوں کی حویلیوں، دکانوں اور مکانوں کو دیکھنے کے خواہش مند تھے۔کاش پاکستان میں رہنے والے ایسے عمر رسیدہ مسلمان بھی بھارت میں چھوڑے اپنے پرکھوں کے گھروں اور صوفیائے کرام کے مزاروں پر حاضری دینے کی خواہش پوری کر سکیں جواب زندگی کو الوداع کہنے کے مقام پرکھڑے ہیں۔