رسالتِ محمدیؐ اور عقلِ سلیم

کیونکہ عقل جب آپ کی تعلیمات پر غور کرتی ہے تو اس کے دو حصے نظر آتے ہیں۔


[email protected]

ISLAMABAD: عدالت... عقلِ سلیم

مدعی...حضرت محمدﷺ

مدعا علیہ... اقوامِ عالم

دعویٰ...رسالت

(الف) مدعی کے بیانات

اُس کا دعویٰ ہے:

(1) کہ وہ جوکچھ کہہ رہا ہے عالم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین کی بنیاد پرکہہ رہا ہے۔ قیاس وگمان، ظن تخمین، حواس، عقل یا وجدان کی بنیاد پر نہیں کہہ رہا۔

(2)کہ وہ اُمی ہے،کسی معلم، کسی مکتب اورکسی کتاب کا اس کی فکرونظر پر ذرا برابر احسان نہیں ہے۔ نہ ہی اس کی ذہنی، اخلاقی اور روحانی تربیت میں کسی کا حبہ برابر حصہ ہے، نہ ہی تاریخ انسانیت کے کسی مفکر، عالم یا فلسفی کے افکارونظریات کے اثرات، اس کی عقل وشعور پر شمہ برابر مرتب ہوئے ہیں۔

(3)کہ بعثت سے لے کر ہجرت تک اور ہجرت سے لے کر رخصت ہونے تک دعوتِ حق اور صداقت کی شہادت اس کی زندگی کا مقصد کل رہا ہے۔ تادم آخر اس نے امین کے خطاب کا دفاع کیا ہے۔ اس کے دشمن بھی اس بات کا اقرارکرتے ہیں کہ وہ باکردار، صادق اور امین ہے، اس کے قول اور فعل میں ان کو کوئی تضاد نظر نہیں آیا۔

(4)کہ اس کی دعوت کے پس منظر میں چپہ برابر ذاتی غرض، نمود ونمائش اور مادی فوائد بطور محرکات کار فرما نظر نہیں آتے۔ حکم اذان لا الٰہ الا اﷲ کی خاطر اس نے حکومت، دولت،عورت، عزت و شہرت کی پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ وہ بارہ لاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئی ریاست کا بلا شرکتِ غیر حکمران رہا لیکن اس کے باوجود اس کے ضبطِ نفسی اور نیک نفسی کا یہ عالم رہا کہ فقر پر فخر کرتا رہا۔

(5)کہ اس کو اپنی دعوت پر یقین محکم تھا۔ اس لیے وہ زمانے کے تقاضوں سے سمجھوتا اور مصالحت کرنے، اس کے آگے جھکنے اور لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اپنے دعوے سے یکسر موٹپنے کو تیار نہ ہوا بلکہ اس نے خرابی کے ہر محاذ پر صبر و استقامت کے ساتھ حق کی خاطر حزبِ مخالف سے موثر جنگ لڑی۔ گالیاں سنی، جسمانی اور ذہنی اذیتوں سے دوچار ہوا، جان کا خطرہ مول لیا۔ پتھروں کی بارش میں نہایا، سہ سالہ معاشرتی اور معاشی بائیکاٹ کا شکار ہوا۔ گھر سے بے گھر ہوا لیکن دعوت حق سے دستبردار نہ ہوا۔ حزبِ مخالف کو اپنے آہنی عزم و یقین سے اس طرح خبردار کیا''خدا کی قسم اگر یہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ کر کہیں کہ مہرو ماہ کے عوض میں اس دعوت کو ترک کردوں تو میں ہرگز اسے ترک نہ کروںگا یہاں تک کہ یا تو اﷲ اس دعوت کو کامیاب فرمادے یا میں اس راہ میں جان دے دوں۔

(6)کہ وہ جنونی، جذباتی، مخبوط الحواس اور فاتر العقل نہیں۔ کیونکہ اس نے معاشرتی زندگی کی ہدایت اور شرح کے لیے فطرت کے اصولوں کو بیان کیا ہے، اس کے پیش کردہ اخلاقی اقدار، معاشرتی قوانین، معاشی اصول، سیاسی نظریات، تہذیب جنگ اور امن اس کے سلیم العقل اور صحیح الدماغ ہونے کا بین ثبوت ہیں کیونکہ اس کے افکار و نظریات، عقل و خرد کے خلاف نہیں تو ہم اور تعصب کا نتیجہ نہیں، زمان و مکان کی قیود سے آزاد ہیں۔ عقل، علم اور تجربہ کی ترقی اس کے افکارکی قدر و قیمت کو کم نہیں کرسکتی۔

(7)کہ دنیا کے بڑے بڑے ہیرو تاریخ کی پیداوار ہیں لیکن وہ تاریخ کا خالق ہے کیونکہ اس نے تاریخ کے امراض، بگاڑ اور فساد کی خود تشخص کی، خود علاج کیا اور خود دوا کی، تاریخ کو حرکت دینے سے پہلے اس کی سمتِ حرکت، زادِ راہ اور منزل مقصود کا خود تعین کیا اور پھر تاریخ کو اس سمت کی طرف پوری کامیابی کے ساتھ حرکت دی جو اس کو اپنے مقصد اور منزل کی طرف لے جائے یہاں تک کہ تاریخ اس کے افکار و نظریات کا بوجھ اٹھاکر چلنے لگی۔ اس لیے پوری انسانی تاریخ میں صرف اور صرف اس کی ذات ہی تاریخ ساز کے لقب کی مستحق ہے۔ وہ اپنے ماحول کی پیداوار بھی نہیں کیونکہ اس زمانے کا چلن، تعلیم ،تربیت اور صحبت جس میں اس نے آنکھیں کھولیں۔ لڑکپن، بچپن، شباب اور جوانی کی منزلیں طے کیں، اس ماحول کا اس کی فکر ونظر پر دھندلے سے نقوش بھی نظر نہیں آتے ماحول اور اس میں دور کی مشابہت، مماثلت اور مناسبت تک قطعاً نہیں پائی جاتی۔

(8)کہ اس نے ایک ایسا بے مثل، بے نظیر اور لاجواب کلام پیش کیا ہے جو کبھی اس سے پہلے انسان کے کانوں نے سنا ہی نہیں۔ عقل و شعور نے سوچا ہی نہیں۔ اس نے ایک بار نہیں بار بار چیلنج دیا کہ اس کلام کی مثل سب مل جل کر ایک ہی سورۃ بناکر دکھادو لیکن کوئی ماں کا لال اس کے چیلنج کو قبول کرنے کی ذہنی ہمت و جرأت نہ کرسکا۔ سورۃ تو دور ایک آیت تک پیش نہ کرسکا۔

(9)کہ اتنی علم و روشنی، حکمت و بصیرت اور کمالات کے باوجود وہ اپنے آپ کو انسان سے بالاتر ہستی نہیں بتاتا۔ بلکہ یہی کہتا ہے کہ وہ اﷲ کا بندہ ہے ایک بشر ہے اس کا کچھ بھی اپنا کمال نہیں۔ سب کچھ خدا کی عنایت، نوازش، کرم اور مہربانی ہے، ساری تعریف خدا کے لیے ہے وہی بزرگ و برتر ہے وہی اس کا راہ نما، پاسبان، نگہبان اور کارساز ہے۔

(10)کہ کسی معیار ترازو میں تولو کسی کسوٹی پر پرکھو تاریخ اقوامِ عالم پر ایک بار نہیں بار بار نظر گھماکر دیکھو آنکھیں تھک جائیںگی لیکن اس کی مثل کوئی بشر نہ پائیںگی۔

(ب) عقل کی عدالت کا فیصلہ:

کیونکہ عقل جب آپ کی تعلیمات پر غور کرتی ہے تو اس کے دو حصے نظر آتے ہیں۔ حصہ اول مابعد الطبیعاتی امور سے تعلق رکھتا ہے اور دوسرا حصہ آب و گل کی دنیا سے۔ دوسرے حصے کی کوئی بات ایسی نہیں جو فطرت کے اصولوں کے خلاف ہو، عقل اس کی صداقت برتری اور حقانیت کو تسلیم کرتی ہے۔ حصہ اول امور غیب سے تعلق رکھتا ہے اس لیے عقل و حواس تجربہ اور مشاہدہ کی دسترس سے باہر ہے لیکن اس نے عقل کی عدالت میں اپنے آپ کو اپنی تعلیم کے دوسرے حصہ میں سچا صادق اور امین ثابت کر دکھایا ہے جہاں بہکنے، لڑکھڑانے، پھسلنے اور گرنے کے ایک بشر کے قومی مکانات ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ نہ بہکا، نہ لڑکھڑایا، نہ پھسلا اور نہ گرا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے تعلیم کے بعد الطبیعاتی امور میں بھی لازماً سچا، صادق اور امین ہے۔

ایں سعادت بزور بازو نیست

تانا بخشد خدائے بخشندا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں