سندھ کی سسکیاں سننے کی ضرورت ہے

سندھ کے عوام کیا چاہتے ہیں؟ کیا وہ کسی دوسرے صوبے کے حصے میں سے کچھ مانگ رہے ہیں؟



سندھ پاکستان کی اکانومی اور جغرافیائی اہمیت کا محرک اور بنیادی جُز ہے۔ جو بانی ِ پاکستان کی جائے پیدائش اور تعلیم و تربیت کا اعزاز بھی رکھتا ہے ۔جو ملک کے دنیا سے سمندری رابطے اور تجارت کا ذریعہ ہے۔ جو پاکستان کے پہلے دارالحکومت کا درجہ بھی رکھتا ہے۔ جہاں کے لوگوں نے پاکستان کے قیام کو قانونی طریقے سے ممکن کر دکھایا۔ وہ سندھ آج ملک میں خوش اور مایوس ہے۔ جس کی تفصیل میں جانے سے قبل لازمی ہے کہ اس ملک کے قیام، اس کی تاریخ اور اس کے نظام سے متعلق کچھ حقائق پر نظر ڈالیں۔

پاکستان کہنے کو تو ایک وفاقی مملکت ہے لیکن پاکستان کا وہ مخصوص مفاد پرست گروہ جو مختلف بہانوں سے وفاقیت کی روح کو پامال کرتا رہا ہے اور آج بھی کر رہا ہے۔ وفاق کی روح ہے کیا؟ اس سوال کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ وفاق کے تحت حاکمیت مرکز اور وفاقی وحدتوں کے درمیان تقسیم ہے۔ وفاقیت کے مطابق وحدتیں، باہمی طور پر ہم وزن اور یکساں حیثیت کی مالک ہوتی ہیں اور دوسری جانب وحدت مرکز کے مقابل بھی برابر کی حیثیت رکھتی ہے۔ وفاق میں نہ مرکز اور نہ ہی وحدتیں، ایک دوسرے کے دائرہ کار میں مداخلت کی مجاز ہوتی ہیں۔

یہاں تک کہ ان کے درمیان ایک دوسرے سے تعاون کا تعلق تو ہوتا ہے مگر اُن میں سے کوئی بھی دوسرے کو زیر کرنے کے حق سے محروم ہوتا ہے۔ یہی وفاقیت کی خوبی اور اصل روح ہے۔ اس نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان میں سارے اختیارات مرکز کو ہی حاصل ہیں اور وحدت یعنی صوبے صرف ظاہری طور سے خودمختار ہیں یعنی پاکستان میں وفاقیت کی روح پر کبھی عمل ہی نہیں کیا گیا لیکن پھر بھی گزشتہ 23 سال میں پاکستان میں اصولوں کو ہوس ِ اقتدار کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اور مضبوط مرکز کے نام پر صوبوں کے اختیارات کو اس حد تک کم کر دیا گیا کہ وہ نہ ہونے کے برابر رہ گئے۔''

واضح رہے کہ قیام ِ پاکستان کے بعد پاکستان کے تمام صوبوں نے ایک مرکزی حکومت کے تحت اقتدار میں حصے دار کی حیثیت سے رہنا منظور کرلیا تھا۔

اب آتے ہیں سندھ کے ادا کیے گئے کردار کی جانب ۔ پاکستان کو جب بھی حقیقی تعمیر و ترقی اورآئینی قانون سازی کی ضرورت ہوئی ہے تو سندھ نے صف اول کے دستے کا کام دیا ہے۔ پاکستان کے قیام کے لیے مطلوبہ لازمی قانونی پلیٹ فارم بھی سندھ اسمبلی کی قرار داد نے فراہم کیا تو 1973ء کے ملکی آئین کی فراہمی کا سہرا بھی سندھ کے نمائندوں کے سر پر ہے۔ اس وقت بھی ملک کو پیٹرولیم و گیس اور کوئلہ سمیت دیگر معدنیات و ٹیکس کی مد میں ملک کے مجموعی پول میں 70 فیصد آمدن دینے والا صوبہ ہے۔ پھر کیوں ملکی اُمور و فیصلوں میں اسے مساوی حیثیت حاصل نہیں اور اس کی حالت بد سے بد تر ہوتی جارہی ہے۔

ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے۔ پھر کیوں اس ماں کی نظر میں چاروں بیٹے (4صوبے) برابر نہیں ہیں؟ سندھ کو وفاقی ملازمتوں میں آئینی طور پر طے شدہ حصہ نہیں ملتا، صوبہ سے نکلنے والے معدنی وسائل پر اختیار نہ ہونے کے نقصان کا اندازہ موجودہ وفاقی گیس کی متعصبانہ منقسم پالیسی کے تحت سندھ میں گیس کے بحران سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ جو صوبہ ملک کی گیس کی ضروریات کا 70 فیصد پیداوار کا حامل ہے، اُسے بدلے میں موجودہ گیس کا بحران ملتا ہے۔

صوبہ میں سی این جی اسٹیشنز، ٹرانسپورٹ اور صنعتیںبند پڑی ہیں اور گھریلو گیس فراہمی میں بھی لوڈ شیڈنگ کر کے شہریوں کوعذاب میں مبتلا کیا گیا ہے۔ حالانکہ موجودہ بحران کی وجہ فنی خرابی یعنی گمبٹ گیس فیڈر اور کنر گیسفیڈر میں خرابی اور موسم ِ سرما آ جانا بتائی جا رہی ہیں، لیکن حقیقت یہ نہیں، اصل وجہ سندھ کے حصے سے چوری چھپے 400 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی پنجاب کو فراہمی سے یہ معاملہ سنگین ہو گیا ہے اور اس صورتحال سے نہ صرف سندھ کو بھاری نقصان ہوا ہے بلکہ ملک کی مجموعی معیشت کو بھی کاری ضرب لگی ہے۔جب کہ صوبہ میں رائے عامہ یہ بنتی جارہی ہے کہ ریاست اور ریاست کے باقی حصے سندھ کے باشندوں کو تو انسان ہی نہیں سمجھتے۔

اس رائے کے بننے کے پیچھے بھی ستر سال سے جاری ملکی پالیسیاں ہیں جن میں کبھی بھی سندھ کے عوام اور سندھ کے مفاد کو اولیت اور برابری نہیں دی گئی اور نہ ہی اُن کی آواز کو سننے اور سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے۔ یہاں کا آئین احتجاج و اختلاف رائے کے اظہار کی آزادی کا حق بھی دیتا ہے۔ لیکن اس معاملے میں بھی سندھ کے عوام کے ساتھ عناد برتا جاتا ہے۔

ملک میں عدالت، سیکیورٹی اداروں اور ملک کے خلاف زہر اگلنے والے مذہبی انتہا پسندوں، پی ٹی ایم کے پشتین اور بیرونی ایجنٹ قرار پانیوالی تنظیم کو تو احتجاج کرنے دیا جاتا ہے،ملک میں دہشت کی علامت طالبان کو بھی اپنا کہا جاتا ہے لیکن اگر نہیں ہیں تو سندھ کے پُرامن عوام اُن کے اپنے نہیں ہیں۔ شاید اسی لیے پورٹ قاسم (جو کہ خود وفاقی ادارہ ہے، لیکن بدقسمتی سے سندھ کے دارالحکومت میں ہے) کے ملازمین کو مطالبات کے لیے نکالی گئی ریلی پر صرف اس لیے لاٹھی چارج اور واٹر کینن کا استعمال کیا گیاکہ وہ اُس گورنر ہاؤس کی طرف جانا چاہتے تھے جس کو عوام کے کے لیے کھولنے کے دعویدار جو اُس وقت اُسی گورنر ہاؤس میں موجود تھے۔

جب کہ اُسی روز مزار ِ قائد پر سندھ ترقی پسند پارٹی کی ریلی پر بھی لاٹھی چارج صرف اِس لیے کیا گیا کہ وہ ملک میں جاری پانی پالیسی اور غیر ملکیوں کی سندھ میں موجودگی پر اختلاف ِ رائے رکھنے کے لیے جمہوری طریقے سے پُرامن احتجاج کررہے تھے۔ پھر سندھ سے بڑے پیمانے پر ہونے والے مسنگ پرسنز کے ورثاء کو بھی انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پرانسانی حقوق کے عالمی وملکی قوانین پر عمل کی یقین دہانی ا ور تسلی دینے کے بجائے اُن کی پُرامن ریلی کو اسٹیل موڑ پر روکا گیا۔احتجاج و ریلیوں پر پولیس و قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی یہ چڑھائیاں سندھ کے لوگوں کو مزید بد ظن کر رہی ہیں۔

آئین کی انحرافی کی بھی ایک طویل داستان ہے۔ صوبائی خودمختاری سے انحرافی سے لے کر سندھی زبان کی سرکاری حیثیت کو محدود کرنے تک، ساحلی کنٹرول سے سپر ہائی وے پر اجارہ داری و دیگر اُمور میں وفاق اور وفاق پرستوں کی جانب سے ملک میں ستر سال سے آنیوالی متواتر حکومتیں مسلسل اس بات پر عمل پیرا نظر آئی ہیں کہ آئین پر نہیں، قانون پر عمل ہو۔ جب کہ آئین ہی ایسی چھتری ہے جو ملکی معاملات کوقومی مساواتی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ لیکن موجودہ حکومت بھی آمریتی ادوار کی طرح آرڈیننس کے ذریعے حکومتی اُمور چلانے کا طر ز ِ عمل اختیار کیے ہوئے ہے۔

ان مسائل کا واحد حل مکمل طور پر انتظامی و مالیاتی صوبائی خودمختاری میں ہے۔ جس کے لیے قانونسازی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ لیکن جب تک یہ ہو تب تک 18ویں ترمیم پر مکمل طور پر عمل اور اس کے تحت باقی رہ جانے والے محکموں کی صوبوں کو منتقلی بھی ملک کے حقیقی وفاقی استحکام میں مؤثر کردار ادا کرسکتی ہے۔ پھر 18ویں ترمیم کے روح رواں میاں رضا ربانی کا ''صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو سینیٹ میں رکنیت دینے'' کاحالیہ مشورہ بھی صوبوںکے انتظامی اُمور کی بہتری کا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔

سندھ کے عوام کیا چاہتے ہیں؟ کیا وہ کسی دوسرے صوبے کے حصے میں سے کچھ مانگ رہے ہیں؟ کیا وہ کوئی غیر آئینی مطالبہ کررہے ہیں؟ یقینا نہیں تو پھر اُسے آئینی طور پر حاصل حقوق کیوں نہیں دیے جاتے؟ گیس و تیل، کوئلہ و سمندر اور دیگر وسائل اُسے قدرت نے عطا کیے ہیں اور آئین ِ پاکستان بھی اُن پر سندھ کے حق کو تسلیم کرتا ہے تو پھر کیوں یہ حق و اختیار اُن سے چھینا جارہا ہے؟ یہ مایوس کن صورتحال اور عوام میں موجود غم و غصہ شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ جو بات کبھی سندھ کے قوم پرست کیا کرتے تھے وہ آج سندھ کے عام آدمی کی زبان سے ادا ہوتی ہے، جو کہ ملک کے لیے لمحہ فکر ہے۔وقت کی اہم ضرورت فوری طور پر سندھ کے بپھرے ہوئے عوام کی گونجتی، کسکتی آواز کو سننے کی اشد ضرور ت ہے اورملک کے کرتا دھرتا اداروں کواپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور ملک کے سنجیدہ اور محب وطن لوگوں کو اس پر آواز اُٹھاتے ہوئے سندھ کے لوگوں کی صداؤں کو توجہ اور ہمدردی سے سننا چاہیے، ورنہ کہیں دیر نہ ہو جائے ۔۔!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں