199 دن …
حیات و ممات کی اس جنگ میں آپ کئی بار اپنے حریفوں کے مقابل ہوتے ہیں تو کبھی اپنے حلیفوں کے…
بارہ دسمبر کی سرد اور طویل رات نے اپنے پر پوری طرح پھیلائے ہی تھے کہ 199 دنوں پر محیط اپنی زندگی کی جنگ لڑتے ہوئے ایک وجود نے سی ایم ایچ راولپنڈی کے آئی ٹی سی وارڈ میں اپنی زندگی کی آخری چند سانسیں لیں۔ دل کا ایک دورہ پڑنے کے بعد اتنی طویل مدت کی جدوجہد اور اس کے اچانک پڑنے والادل کا جان لیوا وہ دورہ، جس کے بعد ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا۔
ایک خاندان کا سائبان ڈھے گیا، ایک داستان غم تمام ہوئی۔ اٹھائیس مئی سے لے کر بارہ دسمبر تک اس خاندان کا ایک ایک فرد ہر روز امید اور ناامیدی کے جھولے پر جھولتا رہا اور اس جنگ میں ہونے والی ہر چال کو اپنی نظروں سے دیکھ کر کئی بار جیا اور کئی بار مرا تھا۔ اس داستان غم کے چند کرداروں سے میں ذاتی طور پر واقف ہوں۔
بریگیڈیر عدنان قادر... پاکستانی فوج کا ایک ہونہار سپوت جو ایک اچھا انسان ہی نہیں بلکہ ایک ایسا مسیحا تھا کہ جس کی ایک دنیا معتقد تھی۔ کھاریاں سی ایم ایچ میں بطور ڈاکٹر اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی کے علاوہ وہ شبانہ روز آرمی میڈیکل کالج کھاریاں کی تعمیر کے ہر مرحلے کی نگرانی کرنے کی ذمے داری پر بھی مامور تھے۔
کھاریاں سی ایم ایچ ایک ایسا اسپتال ہے جو فوجی مریضوں کے علاوہ، گجرات سے لے کر جہلم تک کے سیکڑوں دیہات کے سول مریضوں کو علاج کی سہولت مہیا کرتا ہے۔ ان لوگوں کا اعتقاد فوج پر بھی زیادہ ہے اور فوجی ڈاکٹروں اور اسپتالوں پر بھی۔ ہماری ہر حکومت آج تک لوگوں کو علاج معالجے کی بہتر سہولیات دینے سے قاصر رہی ہے۔ لوگوں کے پاس پیسہ بھی ہو تو انھیں علاج کروانے کے لیے اچھے ڈاکٹر میسر نہیں۔ پرائیویٹ ڈاکٹروں سے فوج کے ڈاکٹرو ں اور اسپتالوں کے نرخ ابھی بھی کم ہیں۔
بریگیڈئیر عدنا ن قادر، ہمارے علاقے میں ایک مسیحا جیسے ڈاکٹر کے طور پر مانے جاتے تھے۔ اسی سال مئی کی اٹھائیس تاریخ کو انھیں دل کا دورہ پڑنے کی خبر نے نہ صرف پوری فوج کو جھنجوڑ دیا بلکہ ان کے لاتعداد سول مریضوں کے دلوں کی دھڑکنیں بھی بے اعتدال ہوئیں کیونکہ ان جیسا بااخلاق، حساس، اپنے پیشے سے دیانتدا ر، اسمارٹ اور چست ڈاکٹر شاید ہی کسی نے دیکھا ہو۔ ہر مریض کی بات تشفی سے سن کر اس کے مکمل اطمینان تک وہ سکون سے اور تحمل سے اس کے مرض کی بابت بتاتے۔ ہر موسم کی سختی سے بے نیاز، مصروفیت اور انتھک محنت کے باوجود سیر اور جاگنگ ان کی ایک ایسی مصروفیت تھی جسے کہ وہ کبھی ترک نہ کرتے تھے۔ ابتدائی طبی امداد کے بعد انھیں کھاریاں سے راولپنڈی منتقل کر دیا گیا کہ یہاں علاج کی بہتر سہولیات میسر تھیں۔
راولپنڈی سی ایم ایچ میں چشم فلک نے لوگوں کوان کی عیادت اور انھیں ایک نظر دیکھنے کے لیے امڈ امڈ کر آتے ہوئے دیکھا۔ اہل خاندان تو فریاد کناں تھے ہی، میںنے ان کے مریضوں کو، ان کے دوستو ں، ہم جماعتوں، ان کے سینئرز، ان کے ماتحتوں اور ان کے طالبعلموں کو ان کے لیے گڑگڑا کر دعائیں کرتے ہوئے سنا اور دیکھا۔ جس شخص سے ان کی ذرا سی بھی ملاقات رہی ہو گی، اس نے سنا تو اس سے رہا نہیں گیا۔
میں نے اس دوران ان کی مسیحائی کے اتنے قصے سنے اور لوگوں کے لیے ان کے منہ سے مسیحا اور فرشتہ جیسے الفاظ بھی سنے۔ ان کے مریضوں میں فوجیوں کے علاوہ بڑی تعداد سول مریضوں کی تھی جن میں سے بہت سے لوگ ان کی نوازشوں اور سخاوت کے زیر بار بھی تھے۔ چند دن کی کاوشوں کے بعد انھیں مصنوعی تنفس دینے والی مشین اتار دی گئی تھی کیونکہ اب وہ خود سانس لے سکتے تھے... ان کے سارے اعضاء آہستہ آہستہ کام کرنے لگے تھے مگر وہ ایک ایسی نیند میں تھے کہ جسے نہ تو کوما کہا جاسکتا تھا نہ بے ہوشی۔ان کی ہر سانس کے ساتھ کتنے ہی لوگوں کی سانس کی ڈور بندھی تھی جنھیں ان کی حالت کی ذرا سی مثبت تبدیلی نئی زندگی کی امید دلاتی تھی اور منفی تبدیلی ان کے دل سے سکون کھینچ لیتی تھی۔
اسی دوران ان کا پروموشن بورڈ بھی ہوا، ان کی ترقی نہ ہونے کا کسی کو شک بھی نہ تھامگر دست قدرت نے ان کے لیے کچھ اور لکھ رکھا تھا۔ صرف چند دن کے فرق سے وہ اس بورڈ میں شامل نہ ہو سکے اور ان کی ترقی جنرل کے عہدے پر نہ ہو سکی مگر جن کے لیے ان کی زندگی اہم تھی ان کے لیے عہدے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ اسی طرح جیسے پاکستانی فوج کا ہر جوان محاذ جنگ پر ہو تو وہ کسی صلے یا اجر کی نیت سے نہیں بلکہ اس نیت سے سر پر کفن باندھ کر لڑتا ہے کہ وہ ہم جیسے احسان فراموشوں کی جانوں کی حفاظت کرے جو ہمہ وقت اپنی زبانوں سے فوج کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں اور اسی فوج کو برا کہتے ہیں جو اپنا فرض نہ نبھائے تو ہم بھی نہ ہوں۔
فوج سے ہم میں سے کو ن ہے جس کی نسبت نہیں ہے؟ ہم سب کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار، دوست، محلے کا کوئی شخص یا گاؤں کا کوئی نوجوان فون میں ضرور ہوتا ہے۔ ہم سب ان کے لیے دعائیں کرتے ہیں اور ان پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ بد قسمتی سے اسی ملک میں وہ لوگ بھی ہیں جو اسی فوج ے خلاف پروپیگنڈا کرنے کو اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں۔ وہ کن ہاتھوں میں بکے ہوئے ہیں اور کس کی زبان بولتے ہیں، وہ میں اور آپ، سب جانتے ہیں۔
محاذوں پر تو جنگیں ہوتی ہی ہیں اور میں نے اسپتالوں میں کئی بار لوگوں کو موت اور زندگی کی جنگ لڑتے... اس میں ہارتے اور جیتتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔اٹھائیس مئی کی صبح سے لے کر، بارہ دسمبر کی رات گیارہ بجے کے درمیان 199 دن کا وہ فاصلہ ہے جس میں کئی مقام امید کے آئے، کئی مایوسی کے، کئی اضطراب کے، کئی مایوسی کے، کوئی کرب کے اور کوئی ایسے کہ جہاںوہ چہرے بے نقاب ہوتے ہیں جن کے اصل روپ انسان کو عام حالات میں نظر نہیں آتے۔
حیات و ممات کی اس جنگ میں آپ کئی بار اپنے حریفوں کے مقابل ہوتے ہیں تو کبھی اپنے حلیفوں کے... کبھی آپ شک کی کیفیت میں آجاتے ہیں، کبھی گمراہی اور کبھی بد گمانی کی۔ یہ تمام وقت ان لوگوں کے لیے زندگی کا وہ سبق ہے جسے وہ کبھی بھلا نہیں سکتے۔ سب سے اٹل حقیقت یہ ہے کہ موت کا ایک وقت معین ہے، وہ وقت جسے اللہ تعالی نے خود مقرر کیا ہے۔ نہ اپنے وقت سے پہلے موت آتی ہے نہ بعد میں۔ موت ہماری زندگی کے ہر پل ہماری حفاظت کرتی ہے کیونکہ اس نے انگلی تھام کر ہمیں اس پل تک لے کر جانا ہوتا ہے جس کے آگے وہ از خود ہمارے ہمراہ ہوتی ہے۔
99 دن لکھنا اور اسے پڑھ لینا ایک آسان سا کام ہے، مگر ان سے پوچھیں جنھوں نے ان دنوں کے 4776 گھنٹوں کے کئی منٹ اور سیکنڈ مر مر کر گزارے ہوں گے، اس امید پر کہ آج جاگیں گے یا کل۔ اتنا وقت یا اس سے بھی زیادہ وقت ہوجائے اور آپ کو بالآخر خوشی کی خبر ملے تو غم کی سیاہ رات چھٹ جاتی ہے مگر ان حالات میں تو اتنی طویل اور بے ثمر آزمائش ان کے خاندان کے لیے بڑے صدمے کا باعث ہے۔
دنیا سے چلے جانے والا تو ہر تکلیف سے نجات پا جاتا ہے مگر اس کے جانے سے پیدا ہونے والا خلا ہمارے وجود کا حصہ بن جاتا ہے۔ ایک انتہائی شفیق انسان، ایک ماہر ڈاکٹر، بہترین شوہر، بھائی، باپ... غرض ہر رشتے میں بہترین کہلانے والاان جیسا انسان کوئی کم کم ہی ہوتا ہے۔ ان کی اس طویل بیماری کے دوران جب بھی کبھی میرا اسپتال جانا ہوا، میں اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی غم کی داستان لے کر لوٹی اور میں ہمیشہ سوچتی تھی کہ ہم میں سے ہر شخص کو کبھی نہ کبھی اسپتال جانا چاہیے تا کہ ہمیں اپنی صحت کی قدر ہو، ہمیں علم ہو کہ جنھیں یہ نعمت میسر نہیں وہ کس طرح ترستے ہیں اور ہم کتنے ناشکر ے ہیں۔
میں نے اس خاندان کو آزمائش کی اس گھڑی میں بہت مضبوطی سے کھڑے ہوئے اور ان کی وفات کے ساتھ دیمک زدہ درخت کی طرح ڈھتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ میں نے جانا کہ امید انسان کو مضبوط رکھتی ہے اور وہ مسکرا بھی لیتا ہے مگر مایوسی انسان کو توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ کسی گھر کے سربراہ کا یوں طویل عرصے تک بستر علالت پر رہنا اور بالآخراس بازی کو ہار جانا ، اس خاندان کی زندگیوں کا رخ بدل دیتا ہے۔ میںنے جانا کہ انسان کے ارادے اور خواب کیا ہوتے ہیں اور اللہ تعالی نے ہمارے لیے کیا منصوبہ بندی کر رکھی ہے اس کا ہمیں اندازہ ہی نہیں ہو سکتا۔
میں اس بات پر بھی اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ ہم میں سے کسی کو بھی اپنے اور اپنے کسی پیارے کی موت کے وقت کا قبل از وقت علم نہیں ہوتا، اگر ایسا ہوتا تو ہم جیتے جی ہی مر جاتے۔ تیرہ دسمبر کے سرد دن میں، پورے فوجی اعزاز کے ساتھ جب سبز ہلالی پرچم میں لپٹا ہوا ان کا تابوت ان کے گھر میں لا کر رکھا گیا تو فضا انتہائی سوگوار تھی اور جنازہ اٹھاتے سمے ان کے بھائیوں اور بیٹوںکے ناتواں کندھے اس بوجھ سے جھکے جاتے تھے جو ا س کے بعد عمر بھر کے لیے انھیں اٹھانا ہے۔ سسکیاں اور ہچکیاں فضا میں ایک سوگواریت پیدا کیے ہوئے تھیں اور میں سوچ رہی تھی کہ ایسے فرشتہ صفت اورانسا ن اور مسیحا نما ڈاکٹر کی وفات میں بھی اللہ کی کوئی حکمت پوشیدہ ہو گی؟؟
اللہ تعالی ان کی آخرت کی منزلیں آسان کرے اور ان کے لواحقین کو صبر ایوب عطا فرمائے- آمین
ایک خاندان کا سائبان ڈھے گیا، ایک داستان غم تمام ہوئی۔ اٹھائیس مئی سے لے کر بارہ دسمبر تک اس خاندان کا ایک ایک فرد ہر روز امید اور ناامیدی کے جھولے پر جھولتا رہا اور اس جنگ میں ہونے والی ہر چال کو اپنی نظروں سے دیکھ کر کئی بار جیا اور کئی بار مرا تھا۔ اس داستان غم کے چند کرداروں سے میں ذاتی طور پر واقف ہوں۔
بریگیڈیر عدنان قادر... پاکستانی فوج کا ایک ہونہار سپوت جو ایک اچھا انسان ہی نہیں بلکہ ایک ایسا مسیحا تھا کہ جس کی ایک دنیا معتقد تھی۔ کھاریاں سی ایم ایچ میں بطور ڈاکٹر اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی کے علاوہ وہ شبانہ روز آرمی میڈیکل کالج کھاریاں کی تعمیر کے ہر مرحلے کی نگرانی کرنے کی ذمے داری پر بھی مامور تھے۔
کھاریاں سی ایم ایچ ایک ایسا اسپتال ہے جو فوجی مریضوں کے علاوہ، گجرات سے لے کر جہلم تک کے سیکڑوں دیہات کے سول مریضوں کو علاج کی سہولت مہیا کرتا ہے۔ ان لوگوں کا اعتقاد فوج پر بھی زیادہ ہے اور فوجی ڈاکٹروں اور اسپتالوں پر بھی۔ ہماری ہر حکومت آج تک لوگوں کو علاج معالجے کی بہتر سہولیات دینے سے قاصر رہی ہے۔ لوگوں کے پاس پیسہ بھی ہو تو انھیں علاج کروانے کے لیے اچھے ڈاکٹر میسر نہیں۔ پرائیویٹ ڈاکٹروں سے فوج کے ڈاکٹرو ں اور اسپتالوں کے نرخ ابھی بھی کم ہیں۔
بریگیڈئیر عدنا ن قادر، ہمارے علاقے میں ایک مسیحا جیسے ڈاکٹر کے طور پر مانے جاتے تھے۔ اسی سال مئی کی اٹھائیس تاریخ کو انھیں دل کا دورہ پڑنے کی خبر نے نہ صرف پوری فوج کو جھنجوڑ دیا بلکہ ان کے لاتعداد سول مریضوں کے دلوں کی دھڑکنیں بھی بے اعتدال ہوئیں کیونکہ ان جیسا بااخلاق، حساس، اپنے پیشے سے دیانتدا ر، اسمارٹ اور چست ڈاکٹر شاید ہی کسی نے دیکھا ہو۔ ہر مریض کی بات تشفی سے سن کر اس کے مکمل اطمینان تک وہ سکون سے اور تحمل سے اس کے مرض کی بابت بتاتے۔ ہر موسم کی سختی سے بے نیاز، مصروفیت اور انتھک محنت کے باوجود سیر اور جاگنگ ان کی ایک ایسی مصروفیت تھی جسے کہ وہ کبھی ترک نہ کرتے تھے۔ ابتدائی طبی امداد کے بعد انھیں کھاریاں سے راولپنڈی منتقل کر دیا گیا کہ یہاں علاج کی بہتر سہولیات میسر تھیں۔
راولپنڈی سی ایم ایچ میں چشم فلک نے لوگوں کوان کی عیادت اور انھیں ایک نظر دیکھنے کے لیے امڈ امڈ کر آتے ہوئے دیکھا۔ اہل خاندان تو فریاد کناں تھے ہی، میںنے ان کے مریضوں کو، ان کے دوستو ں، ہم جماعتوں، ان کے سینئرز، ان کے ماتحتوں اور ان کے طالبعلموں کو ان کے لیے گڑگڑا کر دعائیں کرتے ہوئے سنا اور دیکھا۔ جس شخص سے ان کی ذرا سی بھی ملاقات رہی ہو گی، اس نے سنا تو اس سے رہا نہیں گیا۔
میں نے اس دوران ان کی مسیحائی کے اتنے قصے سنے اور لوگوں کے لیے ان کے منہ سے مسیحا اور فرشتہ جیسے الفاظ بھی سنے۔ ان کے مریضوں میں فوجیوں کے علاوہ بڑی تعداد سول مریضوں کی تھی جن میں سے بہت سے لوگ ان کی نوازشوں اور سخاوت کے زیر بار بھی تھے۔ چند دن کی کاوشوں کے بعد انھیں مصنوعی تنفس دینے والی مشین اتار دی گئی تھی کیونکہ اب وہ خود سانس لے سکتے تھے... ان کے سارے اعضاء آہستہ آہستہ کام کرنے لگے تھے مگر وہ ایک ایسی نیند میں تھے کہ جسے نہ تو کوما کہا جاسکتا تھا نہ بے ہوشی۔ان کی ہر سانس کے ساتھ کتنے ہی لوگوں کی سانس کی ڈور بندھی تھی جنھیں ان کی حالت کی ذرا سی مثبت تبدیلی نئی زندگی کی امید دلاتی تھی اور منفی تبدیلی ان کے دل سے سکون کھینچ لیتی تھی۔
اسی دوران ان کا پروموشن بورڈ بھی ہوا، ان کی ترقی نہ ہونے کا کسی کو شک بھی نہ تھامگر دست قدرت نے ان کے لیے کچھ اور لکھ رکھا تھا۔ صرف چند دن کے فرق سے وہ اس بورڈ میں شامل نہ ہو سکے اور ان کی ترقی جنرل کے عہدے پر نہ ہو سکی مگر جن کے لیے ان کی زندگی اہم تھی ان کے لیے عہدے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ اسی طرح جیسے پاکستانی فوج کا ہر جوان محاذ جنگ پر ہو تو وہ کسی صلے یا اجر کی نیت سے نہیں بلکہ اس نیت سے سر پر کفن باندھ کر لڑتا ہے کہ وہ ہم جیسے احسان فراموشوں کی جانوں کی حفاظت کرے جو ہمہ وقت اپنی زبانوں سے فوج کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں اور اسی فوج کو برا کہتے ہیں جو اپنا فرض نہ نبھائے تو ہم بھی نہ ہوں۔
فوج سے ہم میں سے کو ن ہے جس کی نسبت نہیں ہے؟ ہم سب کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار، دوست، محلے کا کوئی شخص یا گاؤں کا کوئی نوجوان فون میں ضرور ہوتا ہے۔ ہم سب ان کے لیے دعائیں کرتے ہیں اور ان پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ بد قسمتی سے اسی ملک میں وہ لوگ بھی ہیں جو اسی فوج ے خلاف پروپیگنڈا کرنے کو اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں۔ وہ کن ہاتھوں میں بکے ہوئے ہیں اور کس کی زبان بولتے ہیں، وہ میں اور آپ، سب جانتے ہیں۔
محاذوں پر تو جنگیں ہوتی ہی ہیں اور میں نے اسپتالوں میں کئی بار لوگوں کو موت اور زندگی کی جنگ لڑتے... اس میں ہارتے اور جیتتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔اٹھائیس مئی کی صبح سے لے کر، بارہ دسمبر کی رات گیارہ بجے کے درمیان 199 دن کا وہ فاصلہ ہے جس میں کئی مقام امید کے آئے، کئی مایوسی کے، کئی اضطراب کے، کئی مایوسی کے، کوئی کرب کے اور کوئی ایسے کہ جہاںوہ چہرے بے نقاب ہوتے ہیں جن کے اصل روپ انسان کو عام حالات میں نظر نہیں آتے۔
حیات و ممات کی اس جنگ میں آپ کئی بار اپنے حریفوں کے مقابل ہوتے ہیں تو کبھی اپنے حلیفوں کے... کبھی آپ شک کی کیفیت میں آجاتے ہیں، کبھی گمراہی اور کبھی بد گمانی کی۔ یہ تمام وقت ان لوگوں کے لیے زندگی کا وہ سبق ہے جسے وہ کبھی بھلا نہیں سکتے۔ سب سے اٹل حقیقت یہ ہے کہ موت کا ایک وقت معین ہے، وہ وقت جسے اللہ تعالی نے خود مقرر کیا ہے۔ نہ اپنے وقت سے پہلے موت آتی ہے نہ بعد میں۔ موت ہماری زندگی کے ہر پل ہماری حفاظت کرتی ہے کیونکہ اس نے انگلی تھام کر ہمیں اس پل تک لے کر جانا ہوتا ہے جس کے آگے وہ از خود ہمارے ہمراہ ہوتی ہے۔
99 دن لکھنا اور اسے پڑھ لینا ایک آسان سا کام ہے، مگر ان سے پوچھیں جنھوں نے ان دنوں کے 4776 گھنٹوں کے کئی منٹ اور سیکنڈ مر مر کر گزارے ہوں گے، اس امید پر کہ آج جاگیں گے یا کل۔ اتنا وقت یا اس سے بھی زیادہ وقت ہوجائے اور آپ کو بالآخر خوشی کی خبر ملے تو غم کی سیاہ رات چھٹ جاتی ہے مگر ان حالات میں تو اتنی طویل اور بے ثمر آزمائش ان کے خاندان کے لیے بڑے صدمے کا باعث ہے۔
دنیا سے چلے جانے والا تو ہر تکلیف سے نجات پا جاتا ہے مگر اس کے جانے سے پیدا ہونے والا خلا ہمارے وجود کا حصہ بن جاتا ہے۔ ایک انتہائی شفیق انسان، ایک ماہر ڈاکٹر، بہترین شوہر، بھائی، باپ... غرض ہر رشتے میں بہترین کہلانے والاان جیسا انسان کوئی کم کم ہی ہوتا ہے۔ ان کی اس طویل بیماری کے دوران جب بھی کبھی میرا اسپتال جانا ہوا، میں اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی غم کی داستان لے کر لوٹی اور میں ہمیشہ سوچتی تھی کہ ہم میں سے ہر شخص کو کبھی نہ کبھی اسپتال جانا چاہیے تا کہ ہمیں اپنی صحت کی قدر ہو، ہمیں علم ہو کہ جنھیں یہ نعمت میسر نہیں وہ کس طرح ترستے ہیں اور ہم کتنے ناشکر ے ہیں۔
میں نے اس خاندان کو آزمائش کی اس گھڑی میں بہت مضبوطی سے کھڑے ہوئے اور ان کی وفات کے ساتھ دیمک زدہ درخت کی طرح ڈھتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ میں نے جانا کہ امید انسان کو مضبوط رکھتی ہے اور وہ مسکرا بھی لیتا ہے مگر مایوسی انسان کو توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ کسی گھر کے سربراہ کا یوں طویل عرصے تک بستر علالت پر رہنا اور بالآخراس بازی کو ہار جانا ، اس خاندان کی زندگیوں کا رخ بدل دیتا ہے۔ میںنے جانا کہ انسان کے ارادے اور خواب کیا ہوتے ہیں اور اللہ تعالی نے ہمارے لیے کیا منصوبہ بندی کر رکھی ہے اس کا ہمیں اندازہ ہی نہیں ہو سکتا۔
میں اس بات پر بھی اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ ہم میں سے کسی کو بھی اپنے اور اپنے کسی پیارے کی موت کے وقت کا قبل از وقت علم نہیں ہوتا، اگر ایسا ہوتا تو ہم جیتے جی ہی مر جاتے۔ تیرہ دسمبر کے سرد دن میں، پورے فوجی اعزاز کے ساتھ جب سبز ہلالی پرچم میں لپٹا ہوا ان کا تابوت ان کے گھر میں لا کر رکھا گیا تو فضا انتہائی سوگوار تھی اور جنازہ اٹھاتے سمے ان کے بھائیوں اور بیٹوںکے ناتواں کندھے اس بوجھ سے جھکے جاتے تھے جو ا س کے بعد عمر بھر کے لیے انھیں اٹھانا ہے۔ سسکیاں اور ہچکیاں فضا میں ایک سوگواریت پیدا کیے ہوئے تھیں اور میں سوچ رہی تھی کہ ایسے فرشتہ صفت اورانسا ن اور مسیحا نما ڈاکٹر کی وفات میں بھی اللہ کی کوئی حکمت پوشیدہ ہو گی؟؟
اللہ تعالی ان کی آخرت کی منزلیں آسان کرے اور ان کے لواحقین کو صبر ایوب عطا فرمائے- آمین