رائٹ ونگ پاپولزم

بہت بہتر ہو گا ہمارے لیے کہ ہم لوگوں کے مذہبی و ثقافتی جذبوں سے کھیلنا بند کریں ان کو اکسانا بند کریں۔


جاوید قاضی December 16, 2018
[email protected]

دنیا میں ایک لہر اٹھی تھی دوسری جنگ عظیم سے قبل، دنیا بھر کی جمہوریتوں کو یرغمال بنانے کی جسکے شکم سے دو بڑے فاشسٹ میسولینی اور ہٹلر اور بعد اس کے رونالڈ ریگن ، مارگریٹ تھیچر اور پھر جارج بش بڑے اور چھوٹے برآمد ہوئے تھے ۔اب موجودہ دور میں ٹرمپ اور مودی ان کی شکل میں موجود ہیں جن کی سیاست دائیں بازو کی پاپولسٹ سیاست ہے اور اس کی بنیاد نفرت، فرقہ واریت اور لوگوں کے مذہبی عقیدوں اور جذبوں کی جوڑ توڑ پر مبنی ہے۔

سوشل میڈیا کو ہتھیار بنا کر لوگوں کا برین واش کر کے جو ایک لہر ترکی سے اٹھی تھی اب بہت سے ممالک اس کی زد میں ہیں ۔ یہ لہر ترکی سے روس ، آسٹریا ، ایسٹ یورپ اور اب جرمنی بھی اس کی زد میں ہے تو معاشی بحران میں پھنسا اٹلی بھی ۔ مستقبل قریب میں امریکا کے مڈٹرم انتخابات اور ہندوستان کی تین ریاستوں میں ہونیوالے انتخابات نے یہ عندیہ دیا ہے کہ 2020 میں ہونیوالے امریکی صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کا جیتنا بہت مشکل ہے اور ہندوستان میں پانچ مہینے بعد ہونیوالے انتخابات میں مودی بھی اپنا اقتدار نہیں بچا پائیں گے۔

ہٹلر خود جرمن نہ تھا لیکن وہ جرمن کی نفسیات کو خوب جانتا تھا ۔ وہ بلا کا مقرر تھا مگر ایک ناکام آرٹسٹ جو شراب خانوں میں نفرت زدہ تقریریں کرتا رہتا تھا۔ وہ یہودیوں کے خلاف بولتا رہا اور جرمنوں کو یہ احساس دلاتا رہا کہ وہ دنیا کی بہترین قوم ہیں اور ان کا یہ حق ہے کہ وہ دنیا کو فتح کریں اور اس پر حکمرانی کریں۔ جرمنی یورپ کے مقابلے میں کالونیوں کے اعتبار سے ایک چھوٹا ملک تھا جس کی طاقت یورپ کے حوالے سے محدود تھی لیکن ہٹلر کی فاشسٹ پالیسیز نے ، جمہوریت کی کوکھ سے پاپولر ووٹ کے آڑ میں پارلیمنٹ کے نظام کو ختم کر کے ایک فاشسٹ جرمنی کی بنیاد ڈالی۔

یورپ میں ہٹلر کو میسولینی کے روپ میں اپنا ایک بڑا اتحادی ملا جس نے اٹلی میں آمریت کا راج قائم کیا۔ میسولینی نے ایتھوپیا پر حملہ کیا اور اس پر قبضہ جمادیا۔ پورے یورپ نے ایتھوپیا پر قبضہ کرنے کے حوالے سے بائیکاٹ کیا مگر اس گھڑی میں ہٹلر نے میسولینی کا ساتھ دیا ۔میسولینی نے جرمنی کو آسٹریا واپس کردیا جوکہ ہٹلر کی جنم بھومی تھی۔ اور اس طرح ان دونوں فاشسٹ حکومتوں نے دنیا کو اس نہج تک پہنچادیا جس کی آخری شکل دوسری جنگ عظیم کی صورت میں نظر آئی۔ دنیا کا نظام جو بھی ہو لیکن جمہوریت جمہوریت ہوتی ہے۔

چاہے آپ کے ووٹر ان پڑھ ہوں سیاسی شعور سے نابلد ہوں یا پھر وہ بہکاوے کا شکار ہوں ۔ان سے جھوٹے وعدے کیے گئے ہوں یا پھر مذہبی جذبوں کی بنیاد پر ان سے ووٹ لیے جائیں لیکن یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ وہ اپنے نظام اور اپنی طاقت سے اپنے آپکو بہتر سے بہتر بناتی ہے ۔امریکا کی جمہوریت دو سو سال سے قائم ہے لیکن امریکا کی سفید فام قوم کو فریڈم آف ایکسپریشن ، میڈیا (فاکس ٹیلیویژن) اور بہت سے ذرائع ابلاغ کے ذریعے ڈرایا گیا ، امریکا میں ہجرت کر کے آئی ہوئی اقوام چین سے آئی ہوئی سستی اشیاء، مسلمانوں اور اسلامک فوبیا سے ڈرایا گیا کہ چین سے آئی ہوئی اشیاء ان کا روزگار چھین لیں گی اور مسلمان ان سے ان کی حکومت ۔

مودی نے گئو ماتا کا نعرہ لگا کر اپنی سیاست کو چمکایا ، ہندو انتہا پسندی کے جذبات ابھار کر مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکائی۔ مسلمانوں کو سومنات کا مندر توڑنے والے انتہا پسند قرار دیا اور بابری مسجد کو شہید کروانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔لیکن ہندوستان کی سر زمین پر کبیر بانی والا، مھاتما گاندھی ، رابندر ناتھ ٹیگور اور کلدیپ نیئر جیسے لوگ بھی تھے جو ہندوستان کی ایکا کے لیے ڈھال تھے اور یوں لگتا ہے کہ جیسے ہندوستان کا طاقت ور ترین آدمی آج اسی ڈھال کے پیچھے اپنی ہی آگ میں خود جل رہا ہے اس کو آر ایس ایس کی تنظیم بھی بچا نہ سکی۔

برازیل میں بولسینارو نے اقتدار میں آتے ہی امریکا کے ٹرمپ کی طرح برازیل کا سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کا حکم دیا۔ اب پورا برازیل آہستہ آہستہ اس ابھرتی فاشسزم کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے تیار ہو رہا ہے۔ برطانیہ میں بھی معتبر قوم ہونے کے جذبات کو ابھار کر ان کی نفسیات سے کھیل کر بالآخر ان کو بریکزٹ کے بحران میں ڈال دیا گیا اور اس طرح وہاں پر بھی رائٹ ونگ پاپولزم کے خلاف تحریک ابھر رہی ہے۔ اب تو کیپٹیلزم پر سوالیہ نشان ہے؟ فرانس جاگ رہا ہے اور اس کو دیکھتے دیکھتے یورپ بھی ۔

امریکی کانگریس میں برنی سینڈرز ایک نیا قانون بنانے جارہے ہیں کہ امریکا ، ایران اور سعودی عرب کی جنگ میں مداخلت نہ کرے جس کے لیے انھوں نے اپنی زندگی کو وقف کردیا ہے۔ دوسری طرف ٹرمپ پر یہ الزام ہے کہ و ہ اپنے داماد کے ذریعے شہزادہ محمد بن سلمان سے اربوں ڈالر لیتا ہے اور اپنے ذاتی مفادات کی خاطر امریکا کے مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

دنیا کے نظام میں تبدیلی آرہی ہے ، جمہوریت کو جو نقصان رائٹ ونگ پاپولزم نے پہنچایا ہے اور جو دنیا کو بہت بڑے بحران کی طرف لے جارہی تھی وہ ابھی ٹلا تو نہیں مگر اس کی ابتدا ضرور ہوچکی ہے ۔ نیشنل سیکیورٹی میں جمہوریت کو بحیثیت ایک دفاعی آلے کی صورت میں ماننا پڑے گا۔ ہمیں پارلیمنٹ کے وجود اور اس کی طاقت پر یقین کرنا پڑے گا۔ عدالتوں کا متحرک ہونا وقتی طور پر تو ٹھیک ہے مگر دیرپا نہیں ۔ ہم

بحیثیت ریاست تب ہی عالمی برادری میں اپنا مقام حاصل کرسکتے ہیں جب ریاست اور مذہب الگ الگ ہوں ۔ اور یہی خواب تھا پاکستان کے وجود میں آنے کا جو جناح نے دیکھا تھا اور یہی جناح کی گیارہ اگست والی تقریر کا مرکزی خیال تھا ۔ہمارے ملک میں بھی رائٹ ونگ پاپولزم کا سکہ رائج ہے یہ ایک فاشسٹ رویہ ہے جو آہستہ آہستہ ابھر رہا ہے۔ اپنے دور میں ذوالفقار علی بھٹو بھی کچھ عرصے تک اسی رویے کے خریدار رہے لیکن بے نظیر نہ تھیں ۔ میاں نواز شریف بھی اسی خیال کے حامی تھے ، سترہ اگست کو ضیاء الحق کی برسی کے موقع پر اسی خیال کا اظہار کر رہے تھے ، اور آج ہمارے خان صاحب بھی رائٹ ونگ پاپولزم کے خیال کے حامی ہیں ۔

بہت بہتر ہو گا ہمارے لیے کہ ہم لوگوں کے مذہبی و ثقافتی جذبوں سے کھیلنا بند کریں ان کو اکسانا بند کریں۔ہماری جمہوریت کو کرپشن کے داغ لگ چکے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ ان جمہوریتوں کو یرغمال بنانے کے لیے آمریت کو بطور آلہ استعمال کیا گیا ۔جس طرح آج ایک ادارہ اپنی حدود کو بے دریغ استعمال کررہا ہے ، انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہورہے جسے تاریخ میں مؤرخ ضرور لکھے گا ۔ ہمارے شرفاء جو جمہوریت کے دعویدار ہیں اومنی گروپ ان ہی کے گھر کی ہانڈی ہے جس کو جتنا پکاؤ اتنا فائدہ ہے ۔اتنی جائیداد تو شاید بل کلنٹن اور اوباما کی بھی نہیں ہوگی جتنی ہمارے دو بڑے شاہی خاندانوں کی ہے اور ایسے بہت سے شاہی لوگ آج خان صاحب کے ساتھ حکومت میں حصہ دار ہیں وہ خود نہیں تو کیا ہوا !!!

ہماری داخلی سیاست ایک بہت بڑے بحران سے گذر رہی ہے ۔ ہم ایک گھسے پٹے بیانیہ کا شکار ہیں ۔ یہ ہماری ریاست ایک ایسے سماج کی طرح ہے جو تکثیری(پلورل) ہے جس میں ہر رنگ و نسل، ثقافت و تاریخ کے لوگ رہتے ہیں ، ان لوگوں کے سوچنے ، سمجھنے اور دیکھنے کی صلاحیتیں جدا جدا ہیں اور یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ ان کے مفادات کی امین ہو کیونکہ ریاست کو فلاح بہبود کے اصولوں پر چلنا ہوتا ہے ۔ ہماری نیشنل سیکیورٹی پالیسی بھی اسی اصول کی عکاس ہونی چاہیے یا پھر ہمیں بہت بڑے بحرانوں اور نقصانوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں