مصر کا انقلاب اور پاکستان
بدھ کی رات سے ان ہی لوگوں میں سے کافی تعداد کسی گہری نیند سے بھرپور انگڑائی لے کر جاگتی محسوس ہو رہی ہے۔
NEW DELHI:
پاکستان کے سارے بڑے شہروں میں ملکی اور غیر ملکی یونیورسٹیوں سے پڑھے اور دُنیاوی حوالے سے ہر طرح کامیاب نظر آنے والے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد جنرل مشرف کے دنوں میں بہت خوش تھی۔ ان کا خیال تھا کہ خود کو Enlightened Moderate کہنے والا یہ فوجی آمر بڑا ایمان دار، روشن خیال اور ترقی پسند ہے۔ اس نے نکمے اور بدعنوان سیاستدانوں کو کُھڈے لائن لگا دیا اور پھر ''انتہاء پسند مولویوں'' پر قابو پانے کی کوششوں میں مصروف ہو گیا۔ بدقسمتی سے ''راتوں رات اسٹار بن جانے والے اینکروں'' نے اس کا ساتھ نہ دیا۔ بعدازاں جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک شروع ہو گئی جس کے نتیجے میں ''ہمیں آصف علی زرداری جیسے سیاستدان بھگتنا پڑے۔''
گزشتہ پانچ سالوں میں ایسے لوگ میرے جیسے جمہوری نظام کے دلدادہ لوگوں کو ''ہور چوپو'' کے طعنے دیتے رہے۔ پھر لاہور میں اکتوبر2011ء کی آخری اتوار عمران خان نے ایک شاندار جلسہ منعقد کر دیا۔ یہ لوگ بہت خوش ہوئے اور اس اُمید میں مبتلا کہ پاکستان سونامی کے ذریعے تبدیلی کے راستے پر چل پڑا ہے۔ 11مئی کے انتخابات نے انھیں مگر مایوس کر دیا۔ ناراض ہو کر اپنے دھندے اور دُنیاوی امور میں مصروف ہو گئے۔
بدھ کی رات سے ان ہی لوگوں میں سے کافی تعداد کسی گہری نیند سے بھرپور انگڑائی لے کر جاگتی محسوس ہو رہی ہے۔ میرے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ اکائونٹس پر پیغامات کا طوفان تھم کر نہیں دے رہا۔ بڑی خوشی اور انبساط سے مجھے خبردار کیا جا رہا ہے کہ ''فوج تو فوج ہوتی ہے۔'' جو کچھ مصر میں ہوا پاکستان میں بھی ہو سکتا ہے۔
مجھے پورا یقین ہے کہ ایک بھر پور عوامی تحریک کے نتیجے میں مرسی کی فراغت پر خوش ہونے والوں کو مصری تاریخ اور سیاست کے بارے میں کوئی خاص علم نہیں ہے۔ ان میں سے چند افراد نے شاید مصر کو دیکھا ضرور ہو گا۔ مگر اہرام مصر دیکھنے کے لیے اور پھر دریائے نیل پر چلنے والی کشتیوں میں سے کسی ایک پر ڈنر کرنے اور وہاں بیلے ڈانس کرنے والی رقاصہ کی تصویریں بنانے کے لیے۔ ان میں سے چند لوگوں کے ہاں اُم کلثوم کے کچھ پرانے ریکارڈ بھی محفوظ ہو سکتے ہیں اور کتابوں کی الماریوں میں نجیب محفوظ کے چند ناول۔
مصرایک بہت ہی تاریخی ملک ہے جس میں سیاسی اور سماجی حقیقتوں کی بڑی پرتیں ہیں۔ اس ملک کی سیاست کو صرف ٹویٹر یا فیس بک کے ذریعے ہرگز نہیں سمجھا جا سکتا۔ مرسی کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے بارے میں آپ کو ہرگز حیرانی نہ ہوتی اگر کسی نے صرف ایک کتاب جس کا ذکر میں کئی ماہ پہلے اس کالم میں کر چکا ہوں ذرا دھیان سے پڑھ لی ہوتی۔ غثان سلامے کی مرتب کردہ اس کتاب کا نام ہے"Democracy without Democrats" ہے۔ اس عنوان کا براہِ راست اُردو ترجمہ کرنا میرے بس سے باہر ہے۔ بس اتنا عرض کر سکتا ہوں کہ نام نہاد عرب بہار کے جوبن والے دنوں میں لکھی گئی اس کتاب کا اصل پیغام یہ تھا کہ جب تک کسی ملک کے رہنے والوں میں جمہوری نظام اور اس کی قدروں سے گہری وابستگی پیدا نہ ہو تو وہاں جمہوریت مستحکم نہیں ہو سکتی اور مصر وہ معاشرہ ہے جہاں جمہوری نظام کے لیے سڑکوں پر تڑپ تو نظر آتی ہے مگر لوگوں کے ذہنوںمیں اس کا تصور زیادہ واضح نہیں نہ ہی دلوں میں اس نظام کے لیے گہری وابستگی۔
مرسی صاحب اخوان المسلمین کی صفوں سے اُبھرے تھے۔ اس جماعت کے بانی مصر کو ''اسلامی ریاست'' بنانا چاہتے تھے خواہ اس کے لیے پرتشدد جدوجہد ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ عرب قوم پرستی کے سخت گیر داعی صدر ناصر نے اس جماعت کو وحشیانہ سخت گیری کے ساتھ ختم کرنے کی کوشش کی۔ مگر یہ جماعت برسوں زیر زمین کام کرتے ہوئے زندہ رہی۔ ناصر کے بعد انوارالسادات آئے تو اس جماعت کے لوگوں کی زندگی کچھ آسان ہو گئی۔ سادات بھی اپنی جوانی میں اس جماعت سے کچھ ہمدردیاں رکھتا تھا۔ اس نے اسرائیل کے ساتھ پہلے جنگ اور پھر کیمپ ڈیوڈ سمجھوتہ کیا تو عرب ممالک اس کے خلاف ہو گئے۔ اسے مسلم اُمہ کا غدار کہنے لگے۔ شاید اپنے بارے میں پھیلے اسی تاثر کی نفی کے لیے سادات نے بڑی مکاری کے ساتھ اخوان المسلمین کے لوگوں کو افغان جہاد میں شامل ہونے کی سہولتیں فراہم کیں۔
اسلامی تنظیموں کے انتہاء پسند اس کے جھانسے میں نہ آئے۔ اسے مار دیا۔ حسنی مبارک آیا تو اس نے بھی کچھ عرصہ سادات کی افغان جہاد والی پالیسی کو جاری رکھا۔ پھر روس اس ملک سے چلا گیا تو افغان جہاد کے چند نمایاں مصری افراد نے اپنے ہی ملک میں پرتشدد کارروائیوں کے ذریعے اسلامی نظام کے نفاذ کی کوششیں شروع کر دیں۔ مبارک نے انھیں سختی سے کچل ڈالا۔ مگر ساتھ ہی ساتھ اخوان المسلمین جیسی اسلامی تنظیموں کو ''رفاہِ عامہ اور خدمت خلق'' کے نام پر چندہ جمع کر کے تنظیم سازی کے مواقعے بھی فراہم کر دیے۔ اخوان المسلمین کے اندر بھی وہ گروہ زیادہ مضبوط ہو گیا جس نے ترکی کے اسلام پسند سیاستدانوں کو اپنا ماڈل بنا کر سیاست میں تشدد کی مذمت کرنا شروع کر دی۔
مصر کی''عرب بہار'' اخوان المسلمین نے نہیں شہری متوسط طبقے کے لوگوں نے شروع کی تھی۔ ان کی تحریک کا مقصد جمہوری حکومت کے قیام کے ساتھ ساتھ ایک ایسا معاشی نظام بنانا بھی تھا جہاں حکمرانوں کے چند قریبی دوست ہی کاروبار نہ کریں۔ مواقع سب کو یکساں میسر ہوں تا کہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کے ذریعے ملک میں خوش حالی اور روزگار کے راستے بنیں۔ یہ کوئی ''نظریاتی'' تحریک نہیں تھی۔ اپنی تاریخی اور تنظیمی طاقت کی بدولت اخوان المسلمین نے البتہ اس تحریک کو ہائی جیک کر لیا۔ جس کے نتیجے میں بالآخر 51 فیصد ووٹوں سے وہ مصر کے صدر بنے۔ 48 فیصد مصری آخر دم تک ان کے خلاف رہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مرسی صدر بننے کے بعد ان 48 فیصد کی خواہشات اور جذبات کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتے۔ مگر ان کا زور اس بات پر صرف ہو گیا کہ کٹرسلفیوں کی ''النور'' کہیں ان سے زیادہ ''مسلمان'' نہ ثابت ہو جائے۔ اس دوران مصر میں مہنگائی ناقابل برداشت حد تک بڑھتی رہی۔ روٹی اور پٹرول کی قیمتیں آسمان سے جا لگیں اور مرسی صاحب کے چند ''اسلام پسند'' اقدامات کے تحت سیاح جو مصر کی معیشت کو زندہ رکھنے کا اصل سبب ہیں ان کے ملک آناچھوڑگئے۔ لوگوں کے دلوں میں لاوا معاشی وجوہات کی بنا پر پکنا شروع ہوا جو بالآخر ''تمرد'' کی صورت سڑکوں اور بازاروں میں پھٹ پڑا۔ مصری فوج نے مرسی کو فارغ تو ضرور کر دیا ہے۔ مگر وہ اقتدار پر خود قابض نہ ہو گی۔ اسے بالآخر انتخابات کرانا پڑیں گے۔ جمہوری نظام کو جاری رکھنا پڑے گا اور اسی نظام کو اس قابل بنانا کہ وہ لوگوں کے بنیادی مسائل کا کوئی حل ڈھونڈے۔ پاکستان میں بھی اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں۔ جو کچھ کرنا ہے جمہوری نظام اور سیاست کے ذریعے ہی کرنا ہو گا۔