طائرلاہوتی اور پرواز میں کوتاہی

ہم نے اپنے سر پر مسائل کی بارش میں ایک وقتی اور کمزور چھتری کھولی ہے جو پچھلی چھتریوں کی طرح جلد ہی چھلنی ہو جائے گی۔


Syed Talat Hussain July 05, 2013
www.facebook.com/syedtalathussain.official

وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ تمام دعوے اور نعرے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ معاشی بدحالی نے اسی آئی ایم ایف کے پاس جانے پر مجبور کر دیا جس سے جان چھڑانے کے نعرے ابھی تک ہمارے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ پانچ ارب تیس کروڑ ڈالر کا قرضہ صرف اس وجہ سے حاصل کرنا پڑ رہا ہے کہ پچھلے قرضوں کو ادا کرنے کی سکت ہماری معیشت میں نہیں ہے۔ دیکھنا چاہیے کہ دنیا میں اور کتنے ایسے ممالک ہیں جو جوہری طاقت ہیں مگر قرضوں کے بوجھ تلے ایسے دب گئے ہیں جیسے اونٹ پہاڑ کے نیچے۔ یقیناً ایسی مثال آپ کو کہیں اور نہیں ملے گی۔ مگر پھر ایسے حکمران بھی نہیں ملیں گے جیسے اس قوم کو نصیب ہوئے۔ حزب اختلاف کے قائد خورشید شاہ کا یہ بیان ان کی دانشمندی کا ایک عظیم مظاہرہ ہے جس میں انھوں نے اپنے کشکول کو ڈیڑھ فٹ اور ن لیگ کے کشکول کو ڈیڑھ میٹر کا بیان کر کے موازنے کے ذریعے اپنی گزشتہ حکومت کی عظمت کو بیان کیا۔

کشکول کے اس موازنے میں وہ یہ بھول گئے کہ جس ڈیڑھ فٹ کے کشکول کی وہ بات کر رہے ہیں وہ اس گڑھے کی بنیاد ہے جس میں ہم اس وقت موجود ہیں۔ مگر ان کو یاد دہانی کرانے کا کیا فائدہ۔ انھوں نے کون سا اس بات پر کان دھرنا ہے۔ زرداری، گیلانی اور راجا کی حکومت نے قرض لینے کی ہر حد پھلانگی، نوٹ چھاپے۔ یوں معیشت بدحال ہوگئی۔ ن لیگ نے کچھ ایسی ہی وجوہات آئی ایم ایف کے پاس جانے کے لیے بیان کی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان حالات کا اندازہ محترم اسحاق ڈار کی پارٹی کو پہلے سے تھا۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ پاکستان کی آمدنی اور خرچ میں عدم توازن کتنا ہے، قرضوں کا حجم کتنا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر اور الیکشن کے سال قرضوں کی ادائیگی کی صورت حال کیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ان کو تمام معاشی بیماریوں کا بخوبی علم تھا۔ مگر اس کے باوجود انتخابات سے پہلے ہر تقریر میں انھوں نے بیرونی اداروں سے قرضہ نہ لینے کا وعدہ کیا۔ درجنوں ایسے بیانات موجود ہیں جن میں میاں محمد نواز شریف اور شہباز شریف یہ کہتے سنائی دیتے تھے کہ ملک اپنے پائوں پر چلے گا، باقی کسر اسحاق ڈار نے پوری کی۔

انھوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا ارادہ بارہا ظاہر کیا۔ جب کبھی بھی قرضہ لینے کے لیے اس بین الاقوامی بینک سے معاہدے کا ذکر کیا جاتا تو وہ یہی کہتے کہ وہ اپنی شرائط پر مدد حاصل نہ کر سکے تو اس دستاویز کو آئی ایف کے نمایندگان کے منہ پر مار کر واپس آ جائیں گے۔ اب جو معاہدہ سامنے آیا ہے، اس سے مسلم لیگ کے اس طائر لاہوتی کی وہ پرواز نظر نہیں آتی جو پرواز میں کوتاہی کاباعث بننے والے رزق پر موت کو ترجیح دیتا ہے۔ سیدھا سادہ اور روایتی قسم کا معاہدہ ہے جو آئی ایم ایف پاکستان جیسی معیشت کے لیے تجویز کرتا ہے۔ مالیاتی خسارے میں کمی کا ہدف ہو، ٹیکسوں کی شرح اور بنیاد میں اضافہ، سبسڈی کا خاتمہ ہو یا اداروں کی نجکاری، غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی ہو یا پھر پاکستان کی کارکردگی کی مسلسل نگرانی ہم نے سب کچھ مان لیا ہے۔

حیرانی یا پریشانی کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے دروازے پر دوبارہ سے کھڑے ہیں۔ یہ بینک دوسرے بینکوں کی طرح ہے۔ اگر آپ اور میں اپنا شاہانہ اندازِ زندگی کو تبدیل نہ کر کے اپنی آنے والی نسلوں کا ہر بال قرضے میں جکڑ دیں تو پھر ہمیں قرضہ دینے والا کوئی بھی بینک اپنی شرائط ہی منوائے گا اور اگر حالت اتنی مخدوش ہو جتنی پاکستان کی معیشت کی ہے تو پھر ہم بات چیت میں بھی وقت ضایع نہیں کریں گے اور جھٹ سے تیار شدہ کاغذات پر انگوٹھا لگا کر، دیے گئے قرضے سے اپنی جیب وقتی طور پرگرم کر لیں گے۔ اصل پریشانی یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کے حوالے سے جھوٹی توقعات کے سلسلے کو خوامخواہ دراز کیا۔ یہ جانتے ہوئے کہ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں خواہ مخواہ دبنگ بننے کی کوشش کی۔ اگر انھوں نے ایسا نہ کیا ہوتا تو آج خفت نہ اٹھا رہے ہوتے، بلکہ یہ بتا رہے ہوتے کہ ہم نے پہلے سے ان حالات کی نشاندہی کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے در پر حاضری دینے کی مجبوری کی نشاندہی کر دی تھی۔ مگر طاقت میں آ کر سچ کون بولتا ہے۔ ہر کوئی اپنے امیج کو بڑھانے اور کھوکھلے رعب کو قائم رکھنے کے لیے عجیب و غریب دائو پیچ جس وقت ضایع کرتا ہے۔ ہمارے ہاں قیادت کا معیار یہ نہیں ہے کہ کون کتنا کھرا ہے۔ بلکہ یہ کہ کون کتنی دیر تک کتنے لوگوں کو طفل تسلیاں دے سکتا ہے۔

آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بعد بھی یہ واضح نہیں ہے کہ معیشت میں کوئی بڑی تبدیلی فوری طور پر رونما ہو جائے گی۔ ہم نے اپنے سر پر مسائل کی بارش میں ایک وقتی اور کمزور چھتری کھولی ہے۔ جو پچھلی چھتریوں کی طرح جلد ہی چھلنی ہو جائے گی۔ اس دوران اگر ہم نے بنیادی اصلاحات پر کام نہ شروع کیا تو کوئی بینک ، مالیاتی ادارہ یا دوست ملک ہمیں نہیں بچا پائے گا۔ اگرچہ حکومت کو آئے ہوئے چند دن ہی ہوئے ہیں مگر میں ابھی سے اس فکر میں مبتلا ہو گیا ہوں کہ شاید بنیادی اصلاحات اتنی سبک رفتار نہ ہو پائیں جس کی ضرورت ہے۔ اس فکر اور خدشے کا ایک ذریعہ نظام میں موجود کرپشن کے دیوتائوں کا مسلسل اثرو رسوخ ہے۔ ایک ایسا ملک جس کی معیشت کا شیرازہ بکھیرنے میں لوٹ مار مافیا کا بنیادی کردار ہے، ابھی بھی کرپشن کے خاتمے کے لیے کوئی نظام یا ادارہ کھڑا نہیں کر پایا۔ اربوں روپے ہر سال کرپشن کے اندھے کنویں میں گر جاتے ہیں۔ حکومتی اداروں نجی شعبے اور ٹھیکے داروں کی لگامیں جن مافیاز کے ہاتھ میں ہیں، وہ ابھی تک اپنی جگہ قائم ہیں۔ معیشت میں لائی جانے والی اصلاحات بدعنوانی کے خاتمے کی تدبیر کیے بغیر بے معنی ہیں۔ جس برتن کے پیندے میں سوراخ ہو اس میں کوئی سکہ نہیں ٹھہر سکتا۔ یہ ملک کبھی بھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ اگر مسلم لیگ ان جونکوں سے جان نہیں چھڑائے گی جو آئی ایم ایف سے قرضے کی بات چیت سنتے ہی دوبارہ سے خون چوسنے کے لیے متحرک ہو جاتی ہیں۔ امیر مزید امیر ہو گا اور غریب مزید فاقے کاٹے گا اور اس نظام کی وجہ سے ہماری حالت فیض احمد فیض کی زبان میں کچھ ایسے ہی رہے گی۔

ناتوانوں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عقاب

بازو تولے ہو ئے منڈلاتے ہوئے آتے ہیں

جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت

شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے

یا کوئی توند کا بڑھتا ہو ا سیلاب لیے

فاقہ مستوں کو ڈبونے کے لیے کہتا ہے

آگ سی سینہ میں رہ رہ کر ابھرتی ہے نہ پوچھ

اپنے دل پہ مجھے قابو ہی نہیں آتا ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں