پیپلزپارٹی اور بلدیاتی نظام
برصغیر میں انگریزوں کے دور میں بلدیاتی نظام کا تصور آیا تھا۔ اس تصور کا بنیادی مقصد شہری مسائل کو حل کرنا تھا۔
سندھ کی حکومت نے ایک دفعہ پھر جنرل ضیاء الحق کے دور کا بلدیاتی نظام نافذ کردیا۔ پیپلز پارٹی کے صدر آصف علی زرداری کے صلح کل کے نظریے کے باوجود پی پی بلدیاتی نظام پر اتفاق رائے پیدا نہیں کرسکی۔ اس طرح صوبے میں پھر ایک نیا تضاد پیدا ہوگیا۔ صوبے کے بلدیاتی اداروں کی کارکردگی پہلے ہی مایوس کن تھی۔ لاکھوں ملازمین تنخواہوں کے لیے احتجاج کررہے تھے۔ سندھ ہائی کورٹ کو ملازمین اور پنشنرز کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے حکم جاری کرنا پڑا تھا۔ اب پھر حکومتِ سندھ کے اس فیصلے سے بلدیاتی اداروں کو کروڑوں روپے نقصان اٹھانا پڑے گا جس کی قیمت سندھ کے غریب عوام ادا کریں گے، مگر پیپلزپارٹی کی قیادت نے بلدیاتی نظام پر ایم کیو ایم کو مذاکرات کی دعوت دے کر حقیقت کا ادراک کیا۔ دنیا بھر میں بلدیاتی اداروں کو جمہوری نظام کا بنیادی ادارہ قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں منتخب حکومتیں بلدیاتی اداروں کو ختم کرکے جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔
برصغیر میں انگریزوں کے دور میں بلدیاتی نظام کا تصور آیا تھا۔ اس تصور کا بنیادی مقصد شہری مسائل کو حل کرنا تھا، پھر پاکستان میں فوجی حکومتوں نے بلدیاتی نظام کو منتخب پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے متبادل کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔ جنرل ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کے نظام کو صدر، قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابی کالج کے علاوہ بلدیاتی اداروں کے لیے بھی استعمال کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے 1979 میں بلدیاتی نظام نافذ کرکے مقامی سطح پر انتخابات کرائے۔ ان انتخابات میں سیاسی جماعتوں کی شرکت پر پابندی لگادی گئی۔ بلدیاتی آرڈیننس 1979 کو اس طرح تیار کیا گیا کہ مجاز حکام کو منتخب کونسلروں کو معزول قرار دینے اور منتخب جمہوری اداروں کو ختم کرنے کا اختیار حاصل ہوا۔ اس نظام کے تحت کراچی اور لاہور سمیت بڑے شہروں میں میونسپل کارپوریشنیں قائم ہوئیں جن کا سربراہ میئر قرار پایا جب کہ چھوٹے شہروں میں ڈسٹرکٹ کونسل کا قیام عمل میں آیا، مگر منتخب میئر کو مکمل مالیاتی اور انتظامی اختیارات حاصل نہیں ہوئے۔
میئر کو گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے افسروں کے تبادلوں اور تادیبی کارروائی کے لیے محض سیکریٹری بلدیات سے سفارش کرنے کا اختیار حاصل ہوا۔ بڑے شہروں میں تو میونسپل کارپوریشنوں کی کونسلوں کو بجٹ بنانے کا اختیار حاصل ہوا مگر سیکریٹری بلدیات کی منظوری کے بغیر یہ بجٹ نافذ نہیں ہوسکتا تھا۔ بلدیاتی ادارے بیوروکریسی کے ماتحت اداروں میں تبدیل ہوگئے، اس بنا پر منتخب میئر شہر کی منصوبہ بندی اور ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد کا حق حاصل نہیں کرسکے۔ کے ایم سی کے ساتھ کے ڈی اے بورڈ اور واٹر بورڈ موجود رہے۔ میئر صرف کے ڈی اے بورڈ کے علامتی سربراہ رہے مگر پلوں، سڑکوں اور نئی بستیوں کی آبادکاری جیسے معاملات پر فیصلے کے ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل کے سپرد ہی رہے۔ اسی طرح کراچی میں پانی کی تقسیم کے ادارے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی بظاہر نگرانی میئر کے سپرد تھی مگر عملی طور پر ادارہ کے ایم ڈی تمام اختیارات کے مالک تھے۔ اس طرح ان کارپوریشنوں کو موٹر وہیکل ٹیکس تک وصول کرنے کا اختیار حاصل نہ ہوا۔ جماعت اسلامی کے رہنما منتخب میئر عبدالستار افغانی نے موٹروہیکل ٹیکس بلدیہ کو منتقل کرنے کی مہم چلائی تو اس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ غوث علی شاہ نے کے ایم سی کو توڑ دیا۔
90 کی دہائی میں سوویت یونین کے خاتمے اور عالمگیریت کے پھیلائو کے ساتھ دنیا میں اس تصور کو تقویت ملی کہ شہری مسائل کے حل کرنے کا بنیادی طریقہ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی ہی ہے۔ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے اس صورتحال میں بلدیاتی اداروں کی اہمیت کو محسوس کیا، ان کی ہدایت پر پیپلز پارٹی کے منشور میں New Social Contract کا تصور پیش کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کا اعادہ کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو شہید برطانیہ اور یورپی ممالک کی طرح نچلی سطح تک اختیارات کے حامل بلدیاتی نظام کے حق میں تھیں مگر اپنے اقتدار میں اس منشور پر عمل نہیں کرسکیں۔ جب جنرل پرویز مشرف نے 2002 میں نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کے تناظر میں نئے بلدیاتی نظام کو رائج کیا تو پیپلز پارٹی نے نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کے نظام کی حمایت کی اور اس نظام کے تحت ہونے والے انتخابات میں حصہ لیا۔ صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور نواب شاہ کی ناظمہ منتخب ہوئیں جب کہ قائم علی شاہ کی صاحبزادی نفیسہ شاہ خیرپور کی ناظمہ رہیں۔
اس نظام کے تحت خواتین کے لیے 33 فیصد نشستیں مختص کی گئیں۔ اقلیتوں، مزدوروں اور کسانوں کو بھی خاطرخواہ نمایندگی دی گئی۔ یوں بڑے شہروں میں ترقیاتی عمل تیز ہوا۔ کراچی، حیدرآباد اور لاہور وغیرہ میں سڑکوں اور پلوں کا جال بچھایا گیا، پانی و سیوریج کی نئی اسکیمیں مکمل ہوئیں مگر چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں ترقی کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ پہلی دفعہ منتخب ناظم کی نگرانی میں پولیس کے نظام کے قیام کے امکانات پیدا ہوئے۔ لندن، نیویارک، واشنگٹن، ٹوکیو، سنگاپور اور پیرس جیسے شہروں کے نظام کی جھلک محسوس ہوئی مگر اس نظام کی بنا پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے لیے کرپشن کے دروازے بند ہوگئے۔ وہ گلیوں اور محلوں کی سڑکوں کی تعمیر، سیوریج اور پانی کی اسکیموں، تعلیمی اداروں اور اسپتالوں میں اپنی من مانیاں کرنے سے محروم ہوگئے مگر بعض شہروں میں ایک ہی خاندان کے افراد ناظم، وفاقی اور صوبائی وزیر اور منتخب اداروں کے رکن بن گئے جو خاندانی اجارہ داری قائم ہوئی جس سے ترقی کا عمل متاثر ہوا۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے منشور میں بلدیاتی انتخابات کے وعدے کے باوجود انتخابات کرانے سے اجتناب کیا گیا۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں کمشنری نظام کی بحالی کے باوجود 2001 کے بلدیاتی نظام برقرار رہا۔ سندھ میں قوم پرستوں نے بلدیاتی نظام کو دیہی اور شہری تضاد میں تبدیل کردیا۔ ان کا خیال تھا کہ کراچی اور حیدرآباد میں سٹی گورنمنٹ کے نظام سے ایم کیو ایم کی متوازی حکومت قائم ہوگئی ہے۔ پیپلز پارٹی اس پروپیگنڈے کا شکار ہوگئی۔ جب صدر زرداری کی ذاتی دلچسپی سے نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام نافذ ہوا تو پیپلز پارٹی کی قیادت اور ممتاز اراکین نے اس نظام کو قبول نہیں کیا۔ انتخابات سے قبل ایم کیو ایم حکومت سے علیحدہ ہوئی تو اس نظام کو منسوخ کردیا گیا۔ پھر یہ نظام بحال ہوا۔ اس دوران سندھ میں بلدیاتی ڈھانچہ سخت متاثر ہوا۔ شہروں میں صفائی کا معیار گرگیا، بلدیاتی ادارے مالیاتی بحران میں مبتلا ہوگئے۔ پیپلزپارٹی کے وزیر قانون ڈاکٹر سکندر کی یہ بات انتہائی اہم ہے کہ اب بلدیاتی نظام کے بارے میں فیصلہ سڑکوں کے بجائے سندھ اسمبلی کے ایوان میں ہوگا۔ اس ضمن میں جماعت اسلامی کے رہنما ڈاکٹر معراج الہدیٰ کی اس تجویز پر عمل کرنے کے لیے لائحہ عمل بنانا چاہیے کہ سندھ کی تمام جماعتیں ایک کانفرنس میں بلدیاتی نظام پر اتفاق رائے کرلیں تو پھر اسمبلی اس اتفاق رائے کی توثیق کرسکتی ہے۔ ادھر سپریم کورٹ میں وزارت دفاع نے کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات ستمبر تک کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے چھ ماہ میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا وعدہ کیا ہے۔ میاں شہباز شریف نے گزشتہ 5 سال میں بلدیاتی انتخابات کو اپنے ایجنڈے میں شامل نہیں کیا مگر شاید اب وہ بھی ان انتخابات کا اعلان کردیں۔ اس صورتحال میں سندھ میں بلدیاتی نظام پر اتفاق اور اگلے چھ ماہ میں انتخابات ضرور ہونے چاہئیں۔ یہ عجیب المیہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت بلدیاتی نظام کو ایم کیو ایم کے حوالے سے دیکھنے لگی ہے۔ اس نے اس حقیقت کو فراموش کردیا ہے کہ پیپلز پارٹی کو بطور سیاسی جماعت چلایا جائے اور شفاف انتخابات کرائے جائیں تو پیپلز پارٹی خود ایک بڑی طاقت بن کر ابھر سکتی ہے۔ 11 مئی 2013 کے انتخابات میں تحریک انصاف ایک نئی طاقت کے طور پر ابھر کر منظرِ عام پر آئی۔ اگرچہ تحریک انصاف کو سندھ سے قومی اسمبلی کی ایک نشست ہی مل سکی مگر سیاسی ماہرین یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اگر شفاف بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے تو تحریک انصاف ایک موثر قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے گی۔ 11 مئی کے بعد سے ایم کیو ایم زبردست سیاسی اور تنظیمی بحران کا شکار ہے۔ قوم پرستوں اور پیپلزپارٹی کے رہنمائوں کو خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے اور نچلی سطح کے اختیارات کے نظام کو نافذ کرکے فوری انتخابات کرانے چاہئیں۔
برصغیر میں انگریزوں کے دور میں بلدیاتی نظام کا تصور آیا تھا۔ اس تصور کا بنیادی مقصد شہری مسائل کو حل کرنا تھا، پھر پاکستان میں فوجی حکومتوں نے بلدیاتی نظام کو منتخب پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے متبادل کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔ جنرل ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کے نظام کو صدر، قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابی کالج کے علاوہ بلدیاتی اداروں کے لیے بھی استعمال کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے 1979 میں بلدیاتی نظام نافذ کرکے مقامی سطح پر انتخابات کرائے۔ ان انتخابات میں سیاسی جماعتوں کی شرکت پر پابندی لگادی گئی۔ بلدیاتی آرڈیننس 1979 کو اس طرح تیار کیا گیا کہ مجاز حکام کو منتخب کونسلروں کو معزول قرار دینے اور منتخب جمہوری اداروں کو ختم کرنے کا اختیار حاصل ہوا۔ اس نظام کے تحت کراچی اور لاہور سمیت بڑے شہروں میں میونسپل کارپوریشنیں قائم ہوئیں جن کا سربراہ میئر قرار پایا جب کہ چھوٹے شہروں میں ڈسٹرکٹ کونسل کا قیام عمل میں آیا، مگر منتخب میئر کو مکمل مالیاتی اور انتظامی اختیارات حاصل نہیں ہوئے۔
میئر کو گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے افسروں کے تبادلوں اور تادیبی کارروائی کے لیے محض سیکریٹری بلدیات سے سفارش کرنے کا اختیار حاصل ہوا۔ بڑے شہروں میں تو میونسپل کارپوریشنوں کی کونسلوں کو بجٹ بنانے کا اختیار حاصل ہوا مگر سیکریٹری بلدیات کی منظوری کے بغیر یہ بجٹ نافذ نہیں ہوسکتا تھا۔ بلدیاتی ادارے بیوروکریسی کے ماتحت اداروں میں تبدیل ہوگئے، اس بنا پر منتخب میئر شہر کی منصوبہ بندی اور ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد کا حق حاصل نہیں کرسکے۔ کے ایم سی کے ساتھ کے ڈی اے بورڈ اور واٹر بورڈ موجود رہے۔ میئر صرف کے ڈی اے بورڈ کے علامتی سربراہ رہے مگر پلوں، سڑکوں اور نئی بستیوں کی آبادکاری جیسے معاملات پر فیصلے کے ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل کے سپرد ہی رہے۔ اسی طرح کراچی میں پانی کی تقسیم کے ادارے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی بظاہر نگرانی میئر کے سپرد تھی مگر عملی طور پر ادارہ کے ایم ڈی تمام اختیارات کے مالک تھے۔ اس طرح ان کارپوریشنوں کو موٹر وہیکل ٹیکس تک وصول کرنے کا اختیار حاصل نہ ہوا۔ جماعت اسلامی کے رہنما منتخب میئر عبدالستار افغانی نے موٹروہیکل ٹیکس بلدیہ کو منتقل کرنے کی مہم چلائی تو اس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ غوث علی شاہ نے کے ایم سی کو توڑ دیا۔
90 کی دہائی میں سوویت یونین کے خاتمے اور عالمگیریت کے پھیلائو کے ساتھ دنیا میں اس تصور کو تقویت ملی کہ شہری مسائل کے حل کرنے کا بنیادی طریقہ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی ہی ہے۔ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے اس صورتحال میں بلدیاتی اداروں کی اہمیت کو محسوس کیا، ان کی ہدایت پر پیپلز پارٹی کے منشور میں New Social Contract کا تصور پیش کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کا اعادہ کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو شہید برطانیہ اور یورپی ممالک کی طرح نچلی سطح تک اختیارات کے حامل بلدیاتی نظام کے حق میں تھیں مگر اپنے اقتدار میں اس منشور پر عمل نہیں کرسکیں۔ جب جنرل پرویز مشرف نے 2002 میں نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کے تناظر میں نئے بلدیاتی نظام کو رائج کیا تو پیپلز پارٹی نے نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کے نظام کی حمایت کی اور اس نظام کے تحت ہونے والے انتخابات میں حصہ لیا۔ صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور نواب شاہ کی ناظمہ منتخب ہوئیں جب کہ قائم علی شاہ کی صاحبزادی نفیسہ شاہ خیرپور کی ناظمہ رہیں۔
اس نظام کے تحت خواتین کے لیے 33 فیصد نشستیں مختص کی گئیں۔ اقلیتوں، مزدوروں اور کسانوں کو بھی خاطرخواہ نمایندگی دی گئی۔ یوں بڑے شہروں میں ترقیاتی عمل تیز ہوا۔ کراچی، حیدرآباد اور لاہور وغیرہ میں سڑکوں اور پلوں کا جال بچھایا گیا، پانی و سیوریج کی نئی اسکیمیں مکمل ہوئیں مگر چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں ترقی کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ پہلی دفعہ منتخب ناظم کی نگرانی میں پولیس کے نظام کے قیام کے امکانات پیدا ہوئے۔ لندن، نیویارک، واشنگٹن، ٹوکیو، سنگاپور اور پیرس جیسے شہروں کے نظام کی جھلک محسوس ہوئی مگر اس نظام کی بنا پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے لیے کرپشن کے دروازے بند ہوگئے۔ وہ گلیوں اور محلوں کی سڑکوں کی تعمیر، سیوریج اور پانی کی اسکیموں، تعلیمی اداروں اور اسپتالوں میں اپنی من مانیاں کرنے سے محروم ہوگئے مگر بعض شہروں میں ایک ہی خاندان کے افراد ناظم، وفاقی اور صوبائی وزیر اور منتخب اداروں کے رکن بن گئے جو خاندانی اجارہ داری قائم ہوئی جس سے ترقی کا عمل متاثر ہوا۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے منشور میں بلدیاتی انتخابات کے وعدے کے باوجود انتخابات کرانے سے اجتناب کیا گیا۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں کمشنری نظام کی بحالی کے باوجود 2001 کے بلدیاتی نظام برقرار رہا۔ سندھ میں قوم پرستوں نے بلدیاتی نظام کو دیہی اور شہری تضاد میں تبدیل کردیا۔ ان کا خیال تھا کہ کراچی اور حیدرآباد میں سٹی گورنمنٹ کے نظام سے ایم کیو ایم کی متوازی حکومت قائم ہوگئی ہے۔ پیپلز پارٹی اس پروپیگنڈے کا شکار ہوگئی۔ جب صدر زرداری کی ذاتی دلچسپی سے نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام نافذ ہوا تو پیپلز پارٹی کی قیادت اور ممتاز اراکین نے اس نظام کو قبول نہیں کیا۔ انتخابات سے قبل ایم کیو ایم حکومت سے علیحدہ ہوئی تو اس نظام کو منسوخ کردیا گیا۔ پھر یہ نظام بحال ہوا۔ اس دوران سندھ میں بلدیاتی ڈھانچہ سخت متاثر ہوا۔ شہروں میں صفائی کا معیار گرگیا، بلدیاتی ادارے مالیاتی بحران میں مبتلا ہوگئے۔ پیپلزپارٹی کے وزیر قانون ڈاکٹر سکندر کی یہ بات انتہائی اہم ہے کہ اب بلدیاتی نظام کے بارے میں فیصلہ سڑکوں کے بجائے سندھ اسمبلی کے ایوان میں ہوگا۔ اس ضمن میں جماعت اسلامی کے رہنما ڈاکٹر معراج الہدیٰ کی اس تجویز پر عمل کرنے کے لیے لائحہ عمل بنانا چاہیے کہ سندھ کی تمام جماعتیں ایک کانفرنس میں بلدیاتی نظام پر اتفاق رائے کرلیں تو پھر اسمبلی اس اتفاق رائے کی توثیق کرسکتی ہے۔ ادھر سپریم کورٹ میں وزارت دفاع نے کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات ستمبر تک کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے چھ ماہ میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا وعدہ کیا ہے۔ میاں شہباز شریف نے گزشتہ 5 سال میں بلدیاتی انتخابات کو اپنے ایجنڈے میں شامل نہیں کیا مگر شاید اب وہ بھی ان انتخابات کا اعلان کردیں۔ اس صورتحال میں سندھ میں بلدیاتی نظام پر اتفاق اور اگلے چھ ماہ میں انتخابات ضرور ہونے چاہئیں۔ یہ عجیب المیہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت بلدیاتی نظام کو ایم کیو ایم کے حوالے سے دیکھنے لگی ہے۔ اس نے اس حقیقت کو فراموش کردیا ہے کہ پیپلز پارٹی کو بطور سیاسی جماعت چلایا جائے اور شفاف انتخابات کرائے جائیں تو پیپلز پارٹی خود ایک بڑی طاقت بن کر ابھر سکتی ہے۔ 11 مئی 2013 کے انتخابات میں تحریک انصاف ایک نئی طاقت کے طور پر ابھر کر منظرِ عام پر آئی۔ اگرچہ تحریک انصاف کو سندھ سے قومی اسمبلی کی ایک نشست ہی مل سکی مگر سیاسی ماہرین یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اگر شفاف بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے تو تحریک انصاف ایک موثر قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے گی۔ 11 مئی کے بعد سے ایم کیو ایم زبردست سیاسی اور تنظیمی بحران کا شکار ہے۔ قوم پرستوں اور پیپلزپارٹی کے رہنمائوں کو خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے اور نچلی سطح کے اختیارات کے نظام کو نافذ کرکے فوری انتخابات کرانے چاہئیں۔